انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** فن حدیث پر اہم مضامین فن اسماء الرجال ایک تعارف ضرورت ایجا دکی ماں ہے، حدیث کے راوی جب تک صحابہ کرامؓ تھے اس فن کی کوئی ضرورت نہ تھی، وہ سب کے سب عادل، انصاف پسند اور محتاط تھے "لأن الصحابۃ عدول ونقلھم صحیح فلاوجہ للخلاف" (مرقات:۵/۱۷) کبارِتابعین بھی اپنے علم وتقویٰ کی روشنی میں ہرجگہ لائق قبول سمجھے جاتے تھے، جب فتنے پھیلے اور بدعات شروع ہوئیں تو ضرورت محسوس ہوئی کہ راویوں کی جانچ پڑتال کی جائے، فتنے سب سے پہلے کوفہ اور بصرہ سے اُٹھے، اس لیے علم کی تدوین وتنقیح پہلے یہیں ہونی ضروری تھی، کوفہ میں دوعلمی مرکز تھے (۱)حضرت عبداللہ بن مسعودؓ(۳۲ھ) (۲)حضرت علی کرم اللہ وجہہ(۴۰ھ) حضرت علیؓ کے خلیفہ بنتے ہی مسلمانوں کا سیاسی اختلاف عراق میں امڈآیا اور اس سیاسی تشیع سے حضرت علیؓ کے حلقے میں بہت سے غلط لوگ آشامل ہوئے، حضرت علیؓ کے نام سے بہت سی غلط باتیں کہنی شروع کردیں، اس ورطۂ شبہات میں انہوں نے دین کا بنیادی تصور تک بدل ڈالا، یہ اسلام میں فرقہ بندی کی طرف پہلا قدم تھا، اہل حق کے لیے اب صرف ایک ہی سلامتی کی راہ تھی کہ حضرت علیؓ کی وہی روایات قابل اعتماد سمجھی جائیں جو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے شاگردوں کے واسطہ سے آئیں؛ کیونکہ کوفہ میں یہی ایک علمی حلقہ تھا جو بیرونی حکمت سے محفوظ اور بچا رہا تھا اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے یہ شاگرد حضرت علیؓ کے حلقۂ درس میں گاہے بگاہے حاضر ہوتے رہے تھے، حضرت مغیرہ بن شعبہؓ (۵۰ھ) جو کوفہ میں رہے ہیں فرماتے ہیں: "لَمْ يَكُنْ يَصْدُقُ عَلَى عَلِيٍّؓ فِي الْحَدِيثِ عَنْهُ إِلَّامِنْ أَصْحَابِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ"۔ (صحیح مسلم، باب حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ يَعْنِي ابْنَ عَيَّاشٍ:۱/۱۳) حضرت علیؓ کی وہی روایات لائق قبول سمجھی جاتی تھیں جو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے شاگردوں سے منقول ہوں۔ حضرت ابواسحٰق السبیعی (۱۲۹ھ) کہتے ہیں کہ بدعات کے ان شیوع پر خود حضرت علیؓ کے شاگردوں میں سے ایک نے کہا کہ ان لوگوں (بدنیتوں) کو خداغارت کرے انہوں نے کتنا علم (حضرت علیؓ کا) ضائع کردیا۔ امام ابن سیرینؒ (۱۱۰ھ) کہتے ہیں کہ جب یہ فتنے اُٹھے تو علماء نے یہ طئے کیا: "سَمُّوا لَنَا رِجَالَكُمْ فَيُنْظَرُ إِلَى أَهْلِ السُّنَّةِ فَيُؤْخَذُ حَدِيثُهُمْ وَيُنْظَرُ إِلَى أَهْلِ الْبِدَعِ فَلَايُؤْخَذُ حَدِيثُهُمْ"۔ (صحیح مسلم، باب حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ:۱/۳۴) اپنے رواتِ حدیث کے نام بتاؤ، دیکھا جائے گا کہ اہل سنت کون ہیں، انہی کی روایات لی جائیں گی، اہل بدعت کا بھی پتہ لگایا جائے گا اور ان کی احادیث نہ لی جائیں گی۔ یہ صحیح ہے کہ عراق کی سرزمین پہلے فتنوں کی آماجگاہ بنی، کوفہ کے بعد بصرہ عراق کا دوسرا بڑا شہر تھا، کوفہ سے تشیع اُٹھا تو بصرہ سے انکار قدر کی صدا اٹھی۔ "عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ قَالَ كَانَ أَوَّلَ مَنْ قَالَ فِي الْقَدَرِ بِالْبَصْرَةِ مَعْبَدٌ الْجُهَنِيُّ"۔ (مسلم، بَاب بَيَانِ الْإِيمَانِ وَالْإِسْلَامِ وَالْإِحْسَانِ، حدیث نمبر:۹) سب سے پہلے بصرہ میں جس نے عقیدۂ قدر میں بات چیت کی وہ معبد جہنی تھا۔ یحییٰ بن یعمر اور حمید بن عبدالرحمن حمیری حج کے موقع پر حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے ملے اور ان لوگوں کے متعلق پوچھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "فَإِذَا لَقِيتَ أُولَئِكَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنِّي بَرِيءٌ مِنْهُمْ وَأَنَّهُمْ بُرَآءُ مِنِّي وَالَّذِي يَحْلِفُ بِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ لَوْأَنَّ لِأَحَدِهِمْ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا فَأَنْفَقَهُ مَاقَبِلَ اللَّهُ مِنْهُ حَتَّى يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ"۔ (مسلم، بَاب بَيَانِ الْإِيمَانِ وَالْإِسْلَامِ وَالْإِحْسَانِ، حدیث نمبر:۹) جب تم ان لوگوں سے ملو تو انہیں کہہ دو کہ میں ان سے لاتعلق ہوں اور وہ مجھ سے لاتعلق ہیں، میں بقسم کہتا ہوں کہ اگر یہ احد کے برابر سونا خیرات کریں اُسے اللہ ان سے قبول نہیں کریگا جب تک کہ وہ تقدیر پر ایمان نہ لائیں۔ اس سے پتہ چلا کہ ان دونوں صحابہ کی بات اہل حق کے ہاں حجت سمجھی جاتی تھی، تبھی تو یحییٰ بن یعمر اور حمید بن عبدالرحمٰن نے صحابیٔ رسول سے اس بارے میں پوچھنے کا فیصلہ کیا اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا جواب بھی اسی طرف رہنمائی کررہا ہے کہ صحابہ جس سے لاتعلق ہوں وہ اس کے اہل باطل ہونے کا ایک کھلا نشان ہے اور یہ کہ صرف اہل باطل ہی صحابہ سے بے تعلق رہتے ہیں، اہل حق ہمیشہ ان کی پیروی کرتے آئے ہیں۔ علم اسماء الرجال کا احساس یہیں سے پیدا ہوا، حضرت عبداللہ بن عباسؓ (۶۸ھ) حضرت علیؓ کی بہت سی مرویات کے بارے میں کہہ چکے تھے کہ یہ بات حضرت علیؓ نے کبھی نہ کہی ہوگی، امام مسلم لکھتے ہیں: "وَقَدْ وَجَدْنَا غَيْرَ وَاحِدٍ مِنْ الْأَئِمَّةِ مِنْ التَّابِعِينَ قَدْ تَكَلَّمُوا فِي الرِّجَالِ مِنْهُمْ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ وَطَاوُسٌ تَكَلَّمَا فِي مَعْبَدٍ الْجُهَنِيِّ وَتَكَلَّمَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ فِي طَلْقِ بْنِ حَبِيبٍ وَتَكَلَّمَ إِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ وَعَامِرٌ الشَّعْبِيُّ فِي الْحَارِثِ الْأَعْوَرِ وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْنٍ وَسُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ وَشُعْبَةَ بْنِ الْحَجَّاجِ وَسُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَالْأَوْزَاعِيِّ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ وَيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ وَوَكِيعِ بْنِ الْجَرَّاحِ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ وَغَيْرِهِمْ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُمْ تَكَلَّمُوا فِي الرِّجَالِ وَضَعَّفُوا وَإِنَّمَا حَمَلَهُمْ عَلَى ذَلِكَ عِنْدَنَا وَاللَّهُ أَعْلَمُ النَّصِيحَةُ لِلْمُسْلِمِينَ لَا يُظَنُّ بِهِمْ أَنَّهُمْ أَرَادُوا الْطَعْنَ عَلَى النَّاسِ أَوْالْغِيبَةَ إِنَّمَا أَرَادُوا عِنْدَنَا أَنْ يُبَيِّنُوا ضَعْفَ هَؤُلَاءِ لِكَيْ يُعْرَفُوا لِأَنَّ بَعْضَ الَّذِينَ ضُعِّفُوا كَانَ صَاحِبَ بِدْعَةٍ وَبَعْضَهُمْ كَانَ مُتَّهَمًا فِي الْحَدِيثِ وَبَعْضَهُمْ كَانُوا أَصْحَابَ غَفْلَةٍ وَكَثْرَةِ خَطَإٍ فَأَرَادَ هَؤُلَاءِ الْأَئِمَّةُ أَنْ يُبَيِّنُوا أَحْوَالَهُمْ شَفَقَةً عَلَى الدِّينِ وَتَثْبِيتًا لِأَنَّ الشَّهَادَةَ فِي الدِّينِ أَحَقُّ أَنْ يُتَثَبَّتَ فِيهَا مِنْ الشَّهَادَةِ فِي الْحُقُوقِ وَالْأَمْوَالِ"۔ (ترمذی، کتاب العلل،باب وَمَا كَانَ فِيهِ مِنْ ذِكْرِ الْعِلَلِ فِي الْأَحَادِيثِ وَالرِّجَالِ وَالتَّارِيخِ:۱۲/۴۸۲)۔ تابعین میں کئی ائمہ گزرے، جنھوں نے اسماء الرجال (راویانِ حدیث) میں کلام کیا، ان میں حسن بصری (۱۱۰ھ) اور طاؤس (۱۰۵ھ) نے معبد جہنی میں کلام کیا، سعید بن جبیر (۹۵ھ) نے طلق بن حبیب میں کلام کیا، ابراہیم نخعی (۹۵ھ) اور عامر الشعبی (۱۰۳ھ) نے حارث الاعور میں کلام کیا؛ اسی طرح ایوب سختیانی، عبداللہ بن عون، سلیمان تیمی، شعبہ بن حجاج، سفیان الثوری، مالک بن انس، اوزاعی، عبداللہ بن مبارک، یحیی بن سعید القطان، وکیع بن الجراح اور عبدالرحمن بن المہدی جیسے اہل علم نے رجال میں کلام کیا ہے اور کمزور راویوں کی تضعیف کی ہے، انہیں اس بات پر اللہ بہتر جانتا ہے، مسلمانوں کے خیرخواہی کے جذبہ نے آمادہ کیا، یہ نہ سمجھا جائے کہ ان کی غرض ان راویوں کا ضعف بیان کرنا تھا؛ تاکہ وہ پہچانے جائیں، بعض وہ راوی جن کی تضعیف کی گئی بدعتی تھے، بعض ان میں سے متہم فی الحدیث تھے، بعض بھولنے والے تھے اور کثرت سے غلطی کرنے والے تھے، سو ان ائمہ نے چاہا کہ ان کے احوال بیان کردیئے جائیں اور اس سے دین کی خیرخواہی ملحوظ نظر تھی اور دین میں ثابت قدمی پیش نظر تھی، حقوق واموال کے بارے میں شہادت دینے سے دین کے بارے میں شہادت دینے کی زیادہ ضرورت ہے۔ طلق بن حبیب کے بارے میں امام ابوحنیفہؒ نے بھی کلام کیا ہے کہ وہ تقدیر کا قائل نہ تھا (الجواہرالمضیہ:۱/۳۰) زید بن عیاش کے بارے میں کہا کہ وہ مجہول ہے (تہذیب التہذیب:۲/۳۲۴) جابر جعفی کے بارے میں کہا کہ میں نے اس سے زیادہ جھوٹا کسی کو نہیں پایا (تہذیب التہذیب،حرف الجیم،جز۲/۴۲) سو یہ صحیح ہے کہ ائمہ کرام نے راویوں کی جانچ پڑتال کو تحفظ دین کی خاطر جائز کہا ہے، نہ اسے غیبت سمجھا گیا نہ اکرام مؤمن کے خلاف، یہ صرف تحفظِ دین کا جذبہ تھا جو ان سے راویوں کی جانچ پڑتال کراتا رہا اور اس سے دین کی پوری حفاظت ہوتی رہی۔ علم اسماء الرجال کی مشکل اس علم میں یادداشت اور ضبط ہی ضبط ہے، جن علوم میں قیاس اور روایت کو کچھ بھی دخل ہو یااس میں کچھ ترتیب خود کار فرما ہوکہ اس کے ماقبل یامابعد سے کچھ اندازہ ہوجائے، وہ علوم اپنے علماء کے لیے اس جہت سے کچھ سہل ہوجاتے ہیں؛ لیکن یہاں تو حفظ ہی حفظ ہے اور معرفت طبقات ہے، سو ناموں پر ضبط بہت اہتمام سے ہونا چاہیے، اس میں ذرابھی اندازے سے کام نہیں لیاجاسکتا، نہ انہیں اپنے اول اور آخر کی ترتیب سے کہیں معین کیا جاسکتا ہے، ابواسحٰق ابراہیم بن عبداللہ النجیرمی فرماتے ہیں: "أَوْلَى الأَشياءِ بالضبطِ أسماءُ الناسِ؛ لأَنَّهُ شیٔ لايَدْخُلُهُ القياسُ، ولَاقَبْلَهُ شیٔ ولابَعْدَهُ شيءٌ ويدلُّ عليهِ"۔ (ترتیب المدارک وتقریب المسالک،مقدمۃ،۱/۴) سب سے زیادہ جس چیز پر ضبط ہونا چاہیے وہ (حدیث روایت کرنے والے) لوگوں کے نام ہیں؛ کیونکہ یہ کوئی ایسی چیز نہیں جس میں قیاس کام کرسکے اور نہ ان سے پہلے اور نہ اُن کے بعد کوئی ایسی چیز ہوتی ہے جو اس کا پتہ دے سکے۔ حافظ ذہبی ایک جگہ لکھتےہیں کہ طبقۂ تابعین میں انتہائی چھان بین کے باوجود مجھے ایک راوی بھی کاذب نہیں مل سکا،.... غلطی لگ جانا اور بات ہے، حافظے کا ضعف امردیگر ہے؛ لیکن جان بوجھ کر جھوٹ بولنا اس حد تک اس طبقے میں کوئی مجروح نہ تھا، کذب اپنی نمایاں صورت میں بعد میں نمودار ہوا ہے، تابعین اسی لیے تابعین تھے کہ صحابہ ان کے متبوعین تھے، جو صحابہ کے نقشِ پا سے راہ تلاش نہ کرے وہ تابعین میں سے کیسے ہوسکتا ہے، حضرت علی مرتضیٰؓ کے اردگرد رہنے والے لوگ اگر ان پر جھوٹ باندھتے رہے تو وہ سبائی منافقین تھے، تابعین ہرگز نہ تھے، وہ تابعین بغیر اتباع ہرگز نہ ہوسکتے تھے۔ اسماء الرجال میں پہلے لکھنے والے حضرت علی بن المدینی (۲۳۴ھ) نے کتاب العلل میں، امام احمد بن حنبل (۲۴۱ھ) نے کتاب العلل ومعرفۃ الرجال میں، امام بخاری (۲۵۶ھ) نے تاریخ میں، امام مسلم (۲۶۱ھ) نے مقدمہ صحیح مسلم میں، امام ترمذی (۲۷۹ھ) نے کتاب العلل میں، امام نسائی (۳۰۳ھ) نے کتاب الضعفاء والمتروکین میں، ابوعبدالرحمٰن بن ابی حاتم الرازی (۳۲۷ھ) نے کتاب الجرح والتعدیل میں، دارِقطنی (۳۸۵ھ) نے اپنی کتاب العلل میں اور امام طحاوی (۳۲۱ھ) نے رجال پر بہت مفید بحثیں کی ہیں۔ ائمہ حدیث نے ایک ایک صحابی کے اصحاب کا جائزہ لیا، سب سے زیادہ کون کن کے قریب رہے، ان کو پہچانا، اسی نسبتِ علم سے وہ حضرات فقیہ سمجھے گئے اور اسی نسبت سے ان کے فیصلے حجت سمجھے گئے، یہ حضرات اپنے ضبطِ تثبیت اور فقہ وروایات میں اگلے لوگوں کے لیے امام ٹہرے، حضرت امام طحاوی (۳۲۱ھ) باب نکاح المحرم میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے شاگردوں کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں: "وَأَثْبَتَ أَصْحَابُ عَبْد اللہ بن عَبَّاسٍ، سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، وَعَطَاءٌ، وَطَاوُسٌ، وَمُجَاهِدٌ، وَعِكْرِمَةُ، وَجَابِرُ بْنُ زَيْدٍ، وَهَؤُلاَءِ كُلُّهُمْ أَئِمَّةٌ فُقَهَاءُ يَحْتَجُّ بِرِوَايَاتِهِمْ وَآرَائِهِمْ"۔ (شرح معانی الآثار، باب نکاح المحرم:۱/۵۱۳) حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے شاگردوں میں سعید بن جبیر، عطاء، طاؤس، مجاہد، عکرمہ اور جابر بن یزید سب سے زیادہ تثبت والے ہیں اور یہ سب امام اور فقہاء ہیں کہ ان کی روایت بھی مستند سمجھی جاتی ہے اور ان کے فقہی فیصلے بھی حجت مانے جاتے ہیں۔ پھرجن لوگوں نے آگے ان سے دین نقل کیا وہ بھی اسی طرح معروف ہوئے، ان میں عمروبن دینار، ایوب السختیانی اور عبداللہ بن ابی بخیح وغیرہم ہیں اور یہ سب ایسے امام تھے کہ روایت میں مقتدا ٹھرے۔ محدثین کی سلسلہ رواۃ پر کس درجے کی کڑی نظر رہی ہے اور وہ ہردوراویوں کے درمیان کس کس درجے کے تعلق ورابطے کے جو یار ہے، امام طحاوی کا یہ بیان اس پر شاہد ناطق ہے، کون صاحب علم ہے جومحدثین کی ان خدمات کا انکار کرسکے، امام احمدکی کتاب، کتاب العلل ومعرفۃ الرجال انقرہ سے چھپ چکی ہے، دوجلدوں میں ہے، ابن ابی حاتم الرازی کی کتاب الجرح والتعدیل نوجلدوں میں ہے، حیدرآباد دکن سے شائع ہوچکی ہے، یہ اساسی طور پر امام احمد کی کتاب کو بھی ساتھ لئے ہوئے ہے، دارِقطنی اپنی کتاب کو مکمل نہ کر پائے تھے کہ وفات پائی، اسے ان کے شاگرد ابوبکر الخوارزمی البرقانی (۴۲۵ھ) نے مکمل کیا، شمس الدین سخاوی (۹۰۲ھ) نے اس کی ایک تلخیص مرتب کی ہے، جس کا نام "بلوغ الامل بتلخیص کتاب دارِقطنی فی العلل" ہے ان کتابوں میں رجال کے علاوہ علل حدیث پر بھی بہت مفید مباحث موجود ہیں، اس سے اگلے دور میں وہ کتابیں لکھی گئیں جن میں اسماء الرجال ہی مستقل موضوع بناہے، ان میں راویوں کے حالات اور ان کے طبقات کا ذکر ہے اور ساتھ راویوں کی جرح وتعدید ل سے بھی بحث کی گئی ہے۔ (شرح معانی الآثار، باب نکاح المحرم:۱/۵۱۳) علم حدیث اور علم رجال کا ساتھ ساتھ رہنا ضروری ہے۔ احادیث جمع کرنے والے ائمہ حدیث اپنی پوری احتیاط وعدالت کے باوجود آخر تھے تو انسان ہی، انہوں نے نہ چاہا کہ دینِ پیغمبر کی پوری ذمہ داری اپنے سرلیں؛ انہوں نے جو روایتیں لکھیں انہیں، انہوں نے اپنے اساتذہ کا نام لے کر روایت کیا ہے، جن سے انہو ں نے وہ روایات سنی تھیں اور پھر ان کی سند بھی جاری کردی، جس سے وہ اس بات کو حضورﷺ یاصحابہ کرام تک پہونچاتے رہے۔ جب حدیث کے ذکر میں سند ساتھ آنے لگی تو ضروری تھا کہ پڑھنے والوں پر ان راویوں کا حال بھی کھلا ہو جو اس حدیث کو آگے لانے کی ذمہ داری لیے ہوئے ہیں، سو حدیث کے لیے جس طرح متن کو جاننا ضروری ہے، سند کو پہچاننا بھی ضروری ہے کہ اسماء الرجال کے علم کے بغیر علم حدیث میں کوئی شخص کامیاب نہیں ہوسکتا، امام علی بن المدینی (۲۳۴ھ) کہتے ہیں: "اَلتَّفَقُّهُ فِيْ مَعَانِيِ الْحَدِيْثِ نِصْفُ الْعِلْمِ، وَمَعْرِفَةُ الرِّجَالِ نِصْفُ الْعِلْمِ"۔ (مقدمہ خلاصہ تہذیب الکمال، فصل وھذہ نبذۃ من أقوال الائمۃ فی ہذا:۱/۱۶۵) معانی حدیث میں غور کرنا نصف علم ہے تو معرفت رجال بھی نصف علم ہے۔ راویوں کی جرح وتعدیل سے کیا مراد ہے؟ راویوں کے حالات قابلِ اعتراض ہوں تو وہ روایت مجروح ہوجاتی ہے، جن الفاظ سے اعتراضات سامنے آئیں وہ الفاظ جرح سمجھے جاتے ہیں اور جو الفاظ ان کی اچھی اور لائق اعتمادپوزیشن بتلائیں انہیں تعدیل کہاجاتا ہے، جرح کے معنی زخم کرنے کے ہیں، جرّاح آپریشن کرنے والے کو کہا جاتا ہے، تعدیل کا لفظ عدل سے ہے، جو روایت کے معیار پر پورا اترنے کی خبردیتا ہے، جرح وتعدیل سے راویوں کے حالات پہچانے جاتے ہیں، راویوں کو پہچاننے میں سستی برتی جائے اور ان کی جانچ پڑتال پر محنت نہ کی جائے تو پورے دین کے بگڑنے کا اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے، دین کی عظمت تقاضا کرتی ہے کہ اس کا کوئی مسئلہ پوری تحقیق وتنقیح اور پوری احتیاط کے بعد ہی طئے ہونا چاہیے۔ جرح وتعدیل کے عام الفاظ یوں تو الفاظ جرح وتعدیل بہت ہیں، انہیں اصطلاحات سے دوررہ کر عام الفاظ میں بھی ذکر کیا جاسکتا ہے؛ تاہم اس باب میں جوالفاظ اب تک زیادہ مشہور ہوئے وہ یہ ہیں؛ پھران الفاظ کے بارے میں بھی بعض ائمہ کے استعمالات مختلف ہیں؛ لیکن موضوع کے عمومی تعارف کے لیے ہم انہی الفاظ پر اکتفا کریں گے: الفاظِ تعدیل ثبتِ حجت : اونچے درجہ کا ہے، یہاں تک کہ دوسروں کے لیے سند ہے۔ ثبتِ حافظ : اونچے درجہ کاہے، خوب یاد رکھنے والا ہے۔ ثبتِ متقن : اونچے درجہ اور بہت مضبوط ہے۔ ثقہ ثقہ : اونچے درجہ کا ہے، بہت ہی قابل اعتماد ہے۔ ثقہ : قابل وثوق اور قابل اعتماد ہے۔ ثبت : اکھڑنے والا نہیں، قائم رہنے والا ہے۔ صدوق : بہت سچا ہے۔ لابأس بہ : اس میں کوئی جرح کی بات نہیں محلّہ الصدق : سچائی والا ہے۔ جیدالحدیث : حدیث روایت کرنے میں بہت اچھا ہے۔ صالح الحدیث : روایت میں اچھا ہے۔ الفاظِ جرح دجال : سخت دھوکے باز ہے، حق اور باطل کے ملانے کو کہتے ہیں۔ کذاب : بہت جھوٹا ہے (یاغلط بات کہنے والا ہے)۔ وضاع : حدیثیں گھڑنے والا ہے۔ یضع الحدیث : حدیث گھڑتا ہے۔ متہم بالکذب : غلط بیانی سےمتہم ہے۔ متروک : لائق ترک سمجھا گیا ہے۔ لیس بثقۃ : قابل بھروسہ نہیں۔ سکتواعنہ : اس کے بارے میں خاموش ہیں۔ ذاہب الحدیث : حدیث ضائع کرنے والا ہے۔ فیہ نظر : اس میں غور کی ضرورت ہے۔ ضعیف جداً : بہت ہی کمزور ہے۔ ضعفوا : اس کو کمزور ٹھہرایا ہے۔ واہ : فضول ہے، کمزور ہے۔ لیس بالقوی : روایت میں پختہ نہیں۔ ضعیف : روایت میں کمزور ہے۔ لیس بحجۃ : حجت کے درجہ میں نہیں۔ لیس بذاک : ٹھیک نہیں ہے۔ لین : یادداشت میں نرم ہے۔ سئی الحفظ : یاد داشت اچھی نہیں ہے۔ لایحتج بہ : لائق حجت نہیں۔ جرح وتعدیل کے بڑے بڑے امام یوں تو بڑے بڑے محدثین نے مختلف راویوں پر بحث کی ہے، امام ابوحنیفہؒ نے بھی جابر جعفی پرجرح کی ہے؛ لیکن جو حضرات اس موضوع میں زیادہ معروف ہوئے انہیں جرح وتعدیل کے امام کہیں تو بہت مناسب ہوگا، یہ حضرات اس باب میں بہت معروف رہے ہیں: (۱)امیرالمؤمنین فی الحدیث شعبہ (۱۶۰ھ) (۲)یحییٰ بن سعید القطان (۱۹۸ھ) (۳)عبدالرحمن بن مہدی (۱۹۸ھ) (۴)یحییٰ بن معین (۲۲۳ھ) (۵)علی بن المدینی (۲۳۴ھ) (۶)امام احمد بن حنبلؒ (۲۴۱ھ) (۷)امام نسائی (۳۰۳ھ) (۸)دارِقطنی (۳۸۵ھ) ان حضرات نے جرح وتعدیل کے قوانین وضع کئے، رواۃِ حدیث کے درجات معلوم کئے اور ایک لاکھ کے قریب اشخاص کے حالاتِ زندگی چھان مارے؛ یہی وہ حضرات ہیں جو علم نبی کو نکھار لائے، علماء اسلام کا ایسا عظیم علمی کارنامہ ہے کہ اقوامِ عالم میں اس کی نظیر نہیں ملتی، مولانا حالی نے اسی لیے کہا تھا ؎ گروہ ایک جو یا تھا علم نبی کا لگایا پتہ جس نے ہرمفتری کا نہ چھوڑا کوئی رخنہ کذب خفی کا کیا قافیہ تنگ ہرمدعی کا کئے جرح وتعدیل کے وضع قانوں نہ چلنے دیا کوئی باطل کا افسوں اسی دھن میں آساں کیا ہرسفر کو اسی شوق میں طئے کیا بحروبر کو سنا خازن علمِ دیں جس بشر کو لیا اس سے جاکر خبر اور اثر کو پھر آپ اس کو پرکھا کسوٹی پہ رکھ کر دیا اور کو خود مزہ اس کا چکھ کر ان حضرات کی محنتیں اب ہمارے سامنے فن رجال کی مستقل کتابوں کی صورت میں بڑی وسعت سے موجود ہیں، ان میں سب سے زیادہ مرکزی حیثیت امام یحییٰ بن معین کی ہے۔ (۱) "قَالَ اَحْمَدُكَانَ اِبْنُ مُعِيْنٍ أَعْلَمْنَا بِالرِّجَالِ"۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۴۳۰) ترجمہ:یحی بن معین اسماءالرجال کے بڑے عالم تھے۔ (۲)"صَارَ عِلْمًا يُقْتَدَىٰ بِهٖ فِي الْأَخْبَارِ وَإِمَامًا يُرْجَعُ إِلَيْهِ فِي الْآثَارِ"۔ (تہذیب التہذیب:۱/۲۸۹) ترجمہ:احادیث کے باب میں وہ مقتدی ہیں اور اٰثار میں لوگوں کے مرجع ہیں (۳)"حَدَّثَنِيْ مَنْ لَمْ تَطَلُعِ الشَّمْسَ عَلٰى أَكْبَرِ مِنْهُ"۔ (تاریخ بغداد:۱۴/۱۸۰) ترجمہ:مجھ سے اس ذات نے حدیث بیان کی جس سے بڑے پر سورج طلوع نہیں ہوا۔ اور ان میں سب سے کمزور امام دارِقطنی ہیں، جومخصوص فکر اور تعصب کے باعث بہت سے صحیح راویوں کو بھی ضعیف کہہ جاتے ہیں، علامہ بدرالدین العینی نے اس کی تصریح کی ہے: "وَقَدْ رُوِىَ فِيْ (سُنَنِهٖ) أَحَادِيْثُ سَقِيْمَةٍ وَمَعْلُوْلَةٍ وَمُنْكِرَةٍ وَغَرِيْبَةٍ وَمَوْضُوْعَةٍ"۔ (عمدۃ القاری بشریح صحیح البخاری:۳/۱۶۷) ترجمہ:دارقطنی نے اپنی سنن میں بہت سی کمزور،معلول،منکر،غریب اور موضوع روایات ذکر کی ہیں۔ کتبِ اسماء الرجال پہلے دور کی اسماء الرجال کی کتابیں راویوں کے نہایت مختصر حالات کو لیے ہوئے تھیں، ابنِ عدی (۳۶۵ھ) اور ابونعیم اصفہانی (۴۳۰ھ) نے سب سے پہلے معلومات زیادہ حاصل کرنے کی طرف توجہ کی، خطیب بغدادی (۴۶۳ھ) ابن عبدالبر (۴۶۲ھ) اور ابن عساکر دمشقی (۵۷۱ھ) نے ضخیم جلدوں میں بغداد اور دمشق کی تاریخیں لکھیں تو ان میں تقریباً سب اعیان ورجال کے تذکرے آگئے ہیں۔ جہاں تک فنی حیثیت کا تعلق ہے سب سے پہلے حافظ عبدالغنی المقدسی (۶۰۰ھ) نے اس پر قلم اٹھایا اور اکمال فی اسماء الرجال لکھی، یہ اس باب میں سنگِ میل کادرجہ رکھتی ہے، بعد کے آنے والے مصنفین نے اسی پر آگے محنتیں کیں، اضافے کئے، تلخیصات کیں، ترتیبیں بدلیں؛ لیکن حق یہ ہے کہ اس کتاب کی مرکزی حیثیت سے کوئی نیا لکھنے والا مستغنی نہیں رہ سکا، فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔ اب ہم علم رجال پر لکھی گئی چند اہم کتابوں کا یہاں ذکر کرتے ہیں، زیادہ تروہی کتابیں ہیں جن سے ہمارے طلبہ کسی نہ کسی درجے میں پہلے مانوس ہیں: (۱)رجال یحییٰ بن سعید القطان (۱۹۰ھ) (۲)طبقات ابن سعد ابن سعد (۲۳۰ھ) (۳)معرفۃ الرجال امام احمد بن حنبل (۲۴۱ھ) (۴)تاریخ امام بخاری (۲۵۶ھ) نقدرجال کے یہ ابتدائی نقوش تھے، آگے ان میں کچھ وسعت پیدا ہوئی، اس دوسرے دور میں پانچ کتابیں زیادہ معروف ہوئیں۔ (۱)کامل ابن عدی (۳۶۵ھ) دارِقطنی کی رائے ہے کہ اسماء الرجال میں یہی ایک کتاب کافی ہے، ذہبی نے بھی اسے بے مثل کہا ہے۔ (۲)تاریخ نیشاپور ابونعیم اصفہانی (۴۳۰ھ) (۳)تاریخ بغداد خطیب بغدادی (۴۶۳ھ) ۱۴/جلدوں میں ہے۔ (۴)الاستیعاب ابن عبدالبرمالکی (۴۵۳ھ) (۵)تاریخ دمشق ابن عساکر (۵۷۱ھ) ۸/جلدوں میں ہے۔ ان کتابوں کی زیادہ حیثیت تاریخ کی ہے، گوان میں بہت سے رجالِ حدیث کا ذکر مل جاتا ہے، اس کے بعد علم اسماءالرجال ایک مستقل فن کی حیثیت سے مرتب ہوا، اس باب میں حافظ عبدالغنی المقدسی (۶۰۰ھ) سرفہرست ہیں۔ (۱)حافظ عبدالغنی المقدسی دمشق کے رہنے والے تھے اور حنبلی المسلک تھے، آپ نے "الکمال فی اسماءالرجال" لکھی اور انہی کے نقوش وخطوط پر آگے کام ہوتا رہا؛ انہوں نے ابتدائی اینٹیں چنیں اور آگے آنے والوں نے ان پر دیواریں کھڑی کیں۔ (۲)آپ کے بعد حافظ جمال الدین ابوالحجاج یوسف بن عبدالرحمٰن المزی (۷۴۲ھ) آئے اور انہوں نے "الکمال" کو پھر سے بارہ جلدوں میں مرتب کیا اور اس کا نام "تہذیب الکمال" رکھا، آپ بھی دمشق کے رہنے والے تھے؛ لیکن مسلکاً شافعی تھے، آپ نے اس میں اور اہل فن سے بھی معلومات جمع فرمائیں۔ (۳)پھرحافظ المزی کے شاگرد جناب حافظ شمس الدین ذہبی (۸۴۸ھ) اٹھے اور انہوں نے "تہذیب الکمال" کو مختصر کرکے "تذھیب التہذیب" لکھی، اس کے علاوہ "میزان الاعتدال" اور "سیرالنبلاء" اور "تذکرۃ الحفاظ" جیسی بلند پایہ کتابیں بھی لکھیں، جو اپنے فن پر وقت کی لاجواب کتابیں سمجھی جاتی ہیں۔ (۴)پھرشیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی نے "تذہیب التہذیب" کو اپنے انداز میں مختصر کیا اور "تہذیب التہذیب" لکھی جو بارہ جلدوں میں ہے؛ پھرخود ہی اس کا خلاصہ "تقریب التہذیب" کے نام سے لکھا ہے، اس کے علاوہ آپ نے "لسان المیزان" بھی لکھی، جو چھ ضخیم جلدوں میں ہے اور حیدرآباد دکن سے شائع ہوئی ہے۔ (۵)پھرشیخ الاسلام حضرت علامہ بدرالدین عینی (۸۵۵ھ) نے "معانی الاخبار من رجال شرح معانی الآثار" لکھی اور طحاوی کے رجال جمع کئے، تلخیص "کشف الاستار" کے نام سے علامہ ہاشم سندھی نے لکھی ہے، جو دیوبند سے شائع ہوچکی ہے۔ (۶)ان کے بعد حافظ صفی الدین الخزرجی (۹۱۳ھ) نے "خلاصۂ تذہیب تہذیب الکمال" لکھی، یہ کتاب مطبع کبریٰ، بولاق سے (۱۳۰۱ھ) میں شائع ہوئی۔