انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ریحانہ سے نکاح بنو قریظہ کے قیدیو ں میں سے ایک یہودی خاتون ریحانہ بنت عمرو بن حنافہ بھی تھیں جنھیں حضور اکرم ﷺ نے پسند فرمایا اور ان سے نکاح کا ارادہ ظاہر کیا، ان کا تعلق قبیلہ بنو نضیر سے تھا، ان کا پہلا نکاح بنوقریظہ کے ایک شخص حکم سے ہوا تھا، ابن سعد اور دیگر ارباب سیر نے لکھا ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ قریظہ کے قیدیو ں میں سے ریحانہ کو الگ کر لیا جائے اور پھر چند روز بعد آپﷺ نے انہیں آزاد فرما کر بہ عوض بارہ اوقیہ مہر نکاح فرمایاحضور ﷺنے انھیں حجاب میں رکھا، آپ کا حضورﷺ سے نکاح میں اختلاف رائے ہے ، چنانچہ جن مورخین نے لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ لونڈیوں سے بھی متمتع ہوتے تھے تو انھوں نے دو مثالیں پیش کی ہیں، ایک یہی ریحانہؓ ہیں او ردوسری ماریہؓ قبطیہ جنھیں مقوقس شاہ مصر نے حضور ﷺکی خدمت میں روانہ فرمایا تھا، عیسائی مورخوں نے اس واقعہ کو صحیح قرار دے کر نہایت ناگوار صورت میں دکھایا ہے؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سرے سے یہ واقعہ ہی غلط ہے، ریحانہؓ کے حرم میں داخل ہونے کی جس قدر روایتیں ہیں سب واقدی یا ابن اسحق سے ماخوذ ہیں؛ لیکن واقدی نے بہ تصریح بیان کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ان سے نکاح کیا تھا، ابن سعدنے واقدی کی جو روایت بیان کی ہے اس میں خود ریحانہؓ کے یہ الفاظ نقل کئے ہیں" پھر آنحضرت ﷺنے مجھ کو آزاد کیا اورمجھ سے نکاح کیا" حافظ ابن حجر نے اصابہ محمد بن الحسن کی تاریخ مدینہ سے جو روایت نقل کی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں " اور ریحانہؓ قرظیہ جو آنحضرت ﷺ کی زوجہ (محترم)تھیں اس مکان میں رہتی تھیں" اس روایت سے یہ صاف ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ان کو آزاد کر کے نکاح فرمایا تھا اور وہ بیویوں کی طرح پردہ نشین ہو کر رہیں،علامہ شبلی نعمانی نے سیرۃ النبی جلد اول میں لکھا ہے کہ " ہمارے نزدیک محقق واقعہ یہی ے کہ اگر یہی مان لیا جائے کہ وہ حرم ِ نبوی میں آئیں تب بھی قطعاً وہ منکوحات میں تھیں، کنیز نہ تھیں" (شبلی نعمانی سیرت النبی جلد اول) اکثر سیرت نگاروں نے اُنہیں اُمہات المومنین میں شامل نہ کرتے ہوئے ازواج مطہرات کی تعداد صرف (۱۱) بتلائی ہے؛ لیکن کتاب ہذا میں اُن کو اُمہات المومنین میں شامل کر کے بشمول حضرت ماریہؓ قبطیہ ازواج مطہرات کی تعداد (۱۳) بتلائی گئی ہے،حضرت ریحانہ ؓ حضور اکرم ﷺ کی زندگی ہی میں۱۰ھ م ۶۳۱ ء میں وفات پائیں۔