انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** سیاسی خدمات، خلافت الہی وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا۔ (النور:۵۵) خلافت الہی ایک مقدس مذہبی امانت ہے اس لئے اس کا استحقاق صرف ایمان و عمل ہی کی بنا پر پیدا ہوسکتا ہے،یہی وجہ ہے کہ اول اول جب آسمان پر اس کا اعلان ہوا تو مقربان بارگاہ الہی نے اپنے استحقاق کا اظہار ان الفاظ میں کیا۔ وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ۔ (بقرہ:۳۰) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں اپنا ایک خلیفہ بنانے والاہوں تووہ کہنے لگے:کیا زمین میں ایسی مخلوق کو پیدا کریں گےجو اس میں فسادمچائے اور خون خرابہ کرے؟ حالانکہ ہم آپ کی تسبیح اور حمد و تقدیس میں لگے ہوئے ہیں۔ صحابہ کرام کے عقائد واعمال کی جو تفصیل پہلے حصے میں گذرچکی ہے ان کو پڑھ کر اگرچہ ہرشخص تسلیم کرے گا کہ انہوں نے مذہبی اوراخلاقی حیثیت سے اپنے آپ کو خلافت الہی کا حقیقی مستحق بنالیاتھا، لیکن اس حصے میں ہم ان اخلاقی خصوصیات کو دکھانا چاہتے ہیں جن سے نہایت وضاحت کے ساتھ ثابت ہوگا کہ صحابہ کرام میں حاکم اورمحکوم اورراعی و مرعی دونوں کے مشترکہ اخلاقی اوصاف نے خلافت کو کس صحیح اصول پر قائم کیا اورکس صحیح طریقے پر اس کو قائم رکھا۔ صحابہ کو خلافت کی خواہش نہ تھی امارت وحکومت اگر امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا ذریعہ ہے تو وہ ایک مقدس فریضہ ٔمذہبی بھی ہے، لیکن اگر اس کو ذاتی اغراض کا شکار گاہ بنالیا جائے تو اس سے بدتر کوئی چیز نہیں ،اس بنا پر نظامِ حکومت کے متعلق سب سے پہلے یہ پتہ لگانا چاہئے کہ اس کی بنیاد کس سطح پر رکھی گئی ہے؟صحابہ کرام کے دور کی اصلی خصوصیت یہ ہے کہ وہ لوگ ذاتی حیثیت سے امارت و حکومت کی خواہش نہیں رکھتے تھے، البتہ جن مواقع پر وہ مذہبی خدمات اورمذہبی اعزاز کا ذریعہ ہوسکتی تھی، وہاں تمام صحابہ اس کو محبوب سمجھنے لگتے تھے ،جب رسول اللہ ﷺ نے غزوہ ٔخیبر میں اعلان فرمایا کہ میں آج یہ جھنڈا اس شخص کو دوں گا جو اللہ اوراللہ کے رسول کو دوست رکھتا ہے اورخدا اسی کے ہاتھ پر فتح نصیب کرےگا، تو اس مذہبی شرف کے شوق سے تمام صحابہ کے دل لبریز ہوگئے؛ لیکن ان مواقع کے علاوہ ان کے پاک دل کو کبھی اس ہوس نے آلودہ نہیں کیا خود حضرت عمرؓ فرماتے ہیں: مااجیت الا مارۃ الایومئذ (مسلم کتاب الفضائل باب من فضائل علی بن ابی طالب) غزوۂ خیبر کے سوا میں نے کبھی امارت کی خواہش نہیں کی۔ سقیفۂ بنو ساعدہ میں خلافت کا مسئلہ پیش ہوا تو مہاجرین و انصار میں اگرچہ ایک طرح کشمکش پیدا ہوگئی؛ تاہم اس وقت بھی دورصحابہ کی خصوصیت نمایاں رہی اس وقت انصار مہاجرین کے حریف مقابل تھے؛لیکن ان ہی انصار میں حضرت زیدبنؓ ثابت بھی تھے، جنہوں نے نہایت ایثار کے ساتھ کہا کہ رسول اللہ ﷺ مہاجر تھے اس لئے خلیفہ بھی مہاجر ہی ہوگا،ہم جس طرح آپ کے انصار تھے آپ کے خلیفہ کے بھی انصار رہیں گے۔ (مسند ابن حنبل ،جلد۵،صفحہ۱۸۶) یہی وجہ ہے کہ خلافت راشدہ کے زمانہ تک ذاتی تفوق و امتیاز کی بناپر صحابہ کرام میں باہم کوئی نزاع نہیں قائم ہوئی۔ خلافت کی ذمہ داریوں کا احساس حکومت یا امارت اگرذاتی اغراض کا ذریعہ ہیں تو ان کی ذمہ داری اس سے زیادہ نہیں جتنا ایک جانوراپنی بھوک پیاس کا ذمہ دار ہے؛ لیکن اگر ان کے ذریعہ سے دنیا میں نیکیوں کاپھیلانااوربرائیوں کااستیصال کرنامقصودہے تووہ ایک ایسابارامانت ہے جس کے بوجھ سے آسمان و زمین تک کانپ اٹھتے ہیں، صحابہ کرام کے سرپر یہی بار امانت ڈالا گیا تھا، اس لئے اس بوجھ سے ان کے اعصاب ہمیشہ متزلزل رہتے تھے ،حضرت ابوبکرؓ خلیفہ مقرر ہوئے تو انہوں نے پہلا خطبہ جو دیا وہ صرف خلافت کی ذمہ داریوں پر مشتمل تھا،چنانچہ ان کے الفاظ یہ ہیں۔ یا ایھاالناس لوودت ان ھذاکفانیہ غیری ولئن اخذ تمونی سنۃ نبییکم مااطیفھا ان کان لمعصومامن الشیطان وان کان لینزل علیہ الوحی من المساء (مسند ابن حنبل ،جلد۱صفحہ۲۰) لوگو!میری خواہش یہ تھی کہ اس بوجھ کو کوئی دوسرا شخص اٹھا تا اوراگر تم مجھ سے اپنے پیغمبر کی سنت کا اتباع چاہوگے تو میں اس کا متحمل نہ ہوسکوں گا، کیونکہ وہ شیطان سے محفوظ ومامون تھے اوراوپر آسمان سے وحی نازل ہوتی تھی۔ (مسند ابن حنبل،جلد۱،صفحہ۲۰) حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی دوسرا شخص اس بار کے اٹھانے کی قوت رکھتا تو مجھ پر یہ بہت آسان تھا کہ میں آگے بڑھ جاؤں اورمیری گردن اڑادی جائے۔ (موطا امام محمد باب النوادر) ایک بار حج سے واپس آرہے تھے راہ میں ایک مقام پر ٹھہرگئے اوربہت سی کنکریاں جمع کرکے چادر بچھائی اوراس پر چت لیٹ کر آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی۔ اللھم کبرت سنی وضعفت قوتی وانتشرت رعیتی فاقبضنی الیک غیر مضیع ولا مفرط (موطا امام محمد ،باب الرجم) خداوندا !اب میرا سن زیادہ ہوا ،میرے قویٰ ضعیف ہوگئے ،میری رعایا ہر جگہ پھیل گئی، پس مجھ کو اس حالت میں اٹھالے کہ میرے اعمال برباد نہ ہوں اور میں حد اعتدال سے آگے نہ بڑھوں ۔ ان کے مرض الموت میں جب لوگوں نے درخواست کی آپ"اپنا جانشین مقرر کرتے جایےتو بولے کیا میں یہ بوجھ موت و زندگی دونوں حالتوں میں اٹھاؤں، میری صرف یہ آرزو ہے کہ میں اس سے اس طرح الگ ہو جاؤں کہ عذاب و ثواب برابر سرابر ہوجائیں۔ خلافت کی ذمہ داریوں کا یہی احساس تھا جس کی بنا پر انہوں نے حالت نزع میں ہر گروہ کی حفاظت حقوق کے لئے وصیت کی،مہاجرین وانصار سے لے کر بدو اورذمی تک کے حقوق کی طرف اپنے جانشین کو توجہ دلائی؛ چنانچہ بخاری ،باب قصتہ البیعۃ والا تفاق علی عثمان میں یہ وصیت بہ تفصیل مذکور ہے۔ فرائضِ خلافت اللہ تعالی نے صحابہ کرام کو اپنے فضل واحسان سے اپنا سب سے بڑا عطیہ عطا فرمایا تو ساتھ ساتھ اس کے فرائض بھی بتادیئے۔ الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ ۔ (حج:۴۱) یہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نمازقائم کریں اورزکوٰۃ ادا کریں اورلوگوں کو نیکی کی تاکید کریں اوربرائی سے روکیں اورتمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے قبضےمیں ہے۔ یہ فرائضِ جلیلہ اصولاً تین قسموں میں منقسم کئے جاسکتے ہیں،مذہب ،اخلاق،سیاست،صحابہ کرام نے اپنے عہد میں جس طرح یہ فرائض انجام دیئے ان کی تفصیل اس حصہ کے مختلف ابواب و فصول میں آئے گی اس موقع پر صرف ان موثر مثالوں کا جمع کرنا مقصود ہے جن سے اس جوش ،اس خلوص اس مستعدی اوراس سرگرمی کا اظہار ہوگا جوان فرائض کے انجام دینے میں صحابہ کرام نے ظاہر فرمائی ۔ ہمارے زمانہ میں بادشاہ کا رات کو تنہا نکلنا ایک غیر معمولی واقعہ سمجھا جاتا ہے؛ لیکن حضرت ابوبکرؓ صدیق جب خلیفہ ہوئے تو سات مہینہ تک مقام سخ میں قیام فرمایا جو مدینہ کی اصل آبادی سے دور تھا لیکن روز انہ وہاں سے کبھی پاپیادہ اور کبھی سواری پر مسجد نبوی میں آتے تھے اور عشاء کی نماز پڑھا کر واپس جاتے تھے۔ (اسد الغابہ تذکرہ حضرت ابوبکرصدیقؓ) حضرت عمرؓ صبح تڑکے اٹھتے تو پہلا کام یہ انجام دیتے کہ جو لوگ تہجد پڑھ کر سوجاتے تھے ان کو نماز صبح کے لئے جگاتے،(فتوح البلدان،صفحہ ۴۶۸) عشا کے بعد ان کا سب سے آخری فرض یہ تھا کہ مسجد کی دیکھ بھال فرماتے جولوگ عبادت الہی میں مصروف ہوتے ان کے سوا دوسرے بیکار آدمیوں کو نہ رہنے دیتے۔ (خلاصۃ الوفاء باخبار المصطفیٰ،صفحہ۱۷۵) لیکن ابھی ان کے فرائض خلافت ختم نہ ہوجاتے؛ بلکہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر مدینہ کا پہرا دیتے،ایک دن حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کے ساتھ رات کو نکلے دفعۃ ایک گھرمیں چراغ کی روشنی نظر آئی قریب آئے تو دیکھا کہ دروازہ بند ہے اور کچھ لوگ شوروشغب کررہے ہیں، حضرت عبدالرحمن ابن عوفؓ سے فرمایا تمہیں معلوم ہے یہ کس کا گھر ہے؟ یہ ربیعہ بن امیہ کا گھر ہے اور وہ لوگ اس وقت شراب پی رہے ہیں تمہاری کیا رائے ہے؟ بولے کہ خدا نے ہم کو تجسس کی ممانعت فرمائی ہے،اس لئے واپس آئے۔ (اصابہ تذکرہ ربیعہ بن امیہ اس قسم کی متعدد مثالیں تاریخوں میں مذکور ہیں) مدینہ میں ایک عام لنگر خانہ قائم کیا تھا، وہاں جاتے تھے اور مسلمانوں کو خود اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتے تھے، ایک قاصد دربار خلافت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ امیر المومنین ہاتھ میں عصا لیکر مسلمانوں کو خود کھانا کھلا رہے ہیں،(طبری،صفحہ ۲۷۰۲) عشاء کے بعد پھر پھر کے مسجد میں ہر شخص کا چہرہ دیکھتے اوراس سے پوچھتے کہ کھانا کھایا ہے یا نہیں؟ اگر کوئی شخص بھوکا ہوتا تو اس کو لے جاکر کھانا کھلاتے۔ (طبقات ابن سعد تذکرہ ام حبیبہ خولہ) فوجوں کو روانہ فرماتے تو ہر وقت اس کے خیال میں مصروف رہتے فرمایا کرتے تھے کہ میں نماز پڑھتا ہوں اورفوج کے بھیجنے کا سامان کرتا رہتا ہوں ،نہاوند کے معرکہ کا دن آیا تو رات کروٹیں بدل بدل کرکاٹی،(طبری صفحہ ۲۶۲۸) قادسیہ میں ایرانیوں سے جنگ ہوئی تو صبح سے لیکر دوپہر تک کا صرف یہ مشغلہ تھا کہ جو شتر سوار ادھر سے آتے ان سے حالات دریافت فرماتے۔ (طبری صفحہ۲۳۶۷) رعایا کی خبر گیری کا نہایت خیال رکھتے تھے،عمال کے یہاں سے جو قاصد آتے ان سے رعایا کا حال پوچھتے، ایک دن حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کے یہاں سے ایک آدمی آیا تو اس سے رعایا کے حالات پوچھے،(موطا امام مالک کتاب الاقضیۃ القضاء فیمن ارتد من الاسلام) اخیر میں تمام ملک کے دورے کا بھی ارادہ کیا تھا اورفرماتے تھے کہ ایک سال متصل دورہ کرونگا ،رعایا خود مجھ تک پہنچ نہیں سکتی اورعمال ان کی ضروریات کو مجھ تک نہیں پہنچا تے ،دو مہینہ شام میں ،دومہینہ جزیرہ میں،دومہینہ مصر میں، دو مہینہ بحرین میں، دو مہینہ کوفہ میں اور دومہینہ بصرہ میں قیام کرونگا،(طبری صفحہ ۲۷۳۸) لیکن ان میں صرف شام کے دورہ کی نوبت آئی۔ صدقہ میں جو جانور آتے تھے، ان کی نگرانی اورحفاظت خود فرماتے تھے،ایک دن سخت لو چل رہی تھی اورزمین پر انگارے بچھے ہوئے تھے اسی حالت میں حضرت عثمان نے دیکھا کہ وہ دو اونٹوں کو ہانکے ہوئے لے جارہے ہیں، پوچھا کہ آپ اس وقت گھر سے کیوں نکلے؟ بولے صدقے کے دو اونٹ چھوٹ گئے تھے، میں نے خیال کیا کہ ان کو چراگاہ میں پہنچا آؤں، ایک روزصدقے کے اونٹ آئے تو سر پر چادر ڈال لی اور تپتی ہوئی زمین پر کھڑے ہوکر حضر ت علی کرم اللہ وجہہ سے ان کا حلیہ قلمبندکروایا، حضرت عثمانؓ بھی موجود تھی، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ان کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا کہ حضرت شعیب علیہ السلام کی لڑکی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت کہا تھا۔ ان خیر من استاجرت القوی الامین جس کو تم نے ملازم رکھا ہے وہ قوی اورامین ہے۔ لیکن وہ امین یہ ہیں۔ (اسد الغابہ تذکرہ حضرت عمرؓ) ایک دن صدقہ کے اونٹوں کے بدن پر تیل لگارہے تھے، ایک شخص نے کہا اے امیر المومنین کسی غلام کے متعلق یہ کام کردیا ہوتا بولے مجھ سے بڑھ کر کون غلام ہوسکتا ہے؟ جو شخص مسلمانوں کا والی ہے وہ مسلمانوں کا غلام ہے۔ (کنزل العمال ،جلد۳،صفحۃ ۱۶۲) بازار کی نگرانی کا خاص اہتمام رکھتے تھے،اگرچہ اس کام کے لئے حضرت عبداللہ اورحضرت سائب ابن زیدؓ کو خاص طورپر مقرر کردیا تھا،(موطا امام مالک کتاب البیوع) لیکن خود بھی بازار کا گشت لگایا کرتے تھے ایک دن بازار سے گذرے تو دیکھا کہ ایک نئی دوکان کھلی ہے اس کو توڑڈالااگر تاجر ایک جگہ جمعہ ہوجاتے تو ان کو کوڑا مارتے اور کہتے کہ راستہ نہ بند کرو۔ (کنز العمال،صفحہ۱۷۶) ایک دن بازار سے گذرے ،حضرت عاطب بن بلتعہؓ کو دیکھا کہ منقے بیچ رہے ہیں بولے یابھاؤ بڑھاؤ یا اس کو اٹھاکر بازار سے لیجاؤ۔ (مسند ،جلد۱،صفحہ۲۱) بیت المال سے مسلمانوں کے جو وظائف مقرر تھے ان کے گھروں پر جا جا کر تقسیم کرآتے تھے ہشام کعبی کا بیان ہے کہ وہ ہاتھ میں قبیلہ خزاعہ کا رجسٹر لے لیتے تھے ،پھر وہاں سے مقام قدید میں جاکر ہر باکرہ ووثیبہ عورت کو اس کا وظیفہ خود اس کے ہاتھ میں دیدیتے تھے، پھر وہاں سے مقام عفان میں آکر وظائف تقسیم فرماتے تھے۔ (فتوح البلدان،صفحہ۴۵۷) حضرت عثمانؓ نے بھی اس سنت کو قائم رکھا تھا، مسند امام احمد بن حنبل میں ہے کہ وہ منبر پر تھے اور موذن اقامت کہہ رہا تھا، لیکن وہ اس حالت میں بھی لوگوں کے حالات اوربازار کا نرخ پوچھ رہے تھے۔ (مسند،جلد۱،صفحہ۳۷۳) حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی اسی جوش وخروش کے ساتھ فرائض خلافت ادا فرماتے تھے استیعاب میں ہے کہ ہاتھ میں درہ لئے ہوئے بازاروں میں گھومتے رہتے تھے اورلوگوں کو پرہیز گارہی سچائی حسن معاملت اورپورے پورے ناپ جوکھ کی ترغیب دیتے تھے،(استیعاب تذکرہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ) ایک دن بازار میں گئے دیکھا کہ ایک لونڈی ایک خرمہ فروش کی دوکان پر رورہی ہے، بولے کیا حال ہے؟ بولی اس نے ایک درہم پر میرے ہاتھ کھجور فروخت کی ؛لیکن میرے آقانے اس کو واپس کردیا اب وہ پھرلینے پر راضی نہیں ہوتا ،انہوں نے سفارش کی کہ کھجور لے لو اوراس کے دام واپس دے دو اس نے ان کو دھکیل دیا، لوگوں نے کہا کچھ خیر ہے؟ یہ امیر المومنین ہے، اب اس نے اس کی کھجور واپس کردی اورکہا کہ مجھ سے راضی ہوجائیے بولے اگر لوگوں کا حق پورا پورا دوگے تو مجھ سے زیادہ تم سے کون راضی ہوگا۔ (الریاض النضرۃ فی مناقب العشرہ ،صفحہ۲۳۱) ایک دن بازار سے گذرے،دیکھا کہ لوگ اپنی اپنی جگہ چھوڑ کر آگے بڑھ گئے ہیں بولے، کسی کو یہ اختیار نہیں ہے، مسلمانوں کے بازار نمازیوں کے مصلے کی طرح ہیں جو لوگ آج آگے بڑھ گئے ہیں وہ کل اس کو چھوڑدیں۔ (کنز العمال،جلد۳۱،صفحہ۱۷۶) دیانت خلفاء کی حفاظت میں سب سے زیادہ گراں قیمت چیز بیت المال تھا، دنیوی بادشاہ سلطنت کا مال اپنے اوپر بےدریغ صرف کرتے ہیں؛لیکن صحابہ کرام نے اس خزانہ الہی کی اس دیانت کے ساتھ حفاظت کی کہ اپنے مصارف سے زیادہ اس میں سے ایک دانابھی نہیں لیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرائض خلافت کی مصروفیت کی بناپر بیت المال سے وظیفہ لیا تو اس کے ساتھ یہ تصریح کردی کہ اس کے بعد ان کی تجارت کی آمدنی بیت المال میں منتقل ہوجائے گی۔ فَسَيَأْكُلُ آلُ أَبِي بَكْرٍ مِنْ هَذَا الْمَالِ وَيَحْتَرِفُ لِلْمُسْلِمِينَ فِيه (بخاری کتاب البیوع) اب آل ابوبکر اس مال سے وجہ معاش لے گی اورمسلمانوں کے لئےپیشہ کرے گی۔ لیکن انتقال کے وقت وظیفہ کی رقم بھی واپس کردی۔ (طبری صفحہ:۱۲۴۳) حضرت عمرؓ بیت المال سے صرف اسی قدر لیتے تھے، جتنا ایک مزدور کو لینا چاہئے،اسد الغابہ میں ہے۔ ونزل نفسہ بمنزلۃ الا جیروکاحاد المسلمین فی بیت المال (اسد الغابہ،جلد۴،صفحہ۷۱) انہوں نے اپنے حق بیت المال سے صرف اس قدر لیا جس قدر ایک مزدور اورمسلمانوں کے عام افراد کا حق تھا۔ انہوں نے اپنے طرز عمل سے ہر موقع پر ثابت کیا کہ بیت المال مسلمانوں کا مشترکہ خزانہ ہے، خود ان کا اس میں کچھ حق نہیں ہے ؛چنانچہ انہوں نے ایک بار حضرت حذیفہؓ کو لکھا کہ مسلمانوں کے وظیفے تقسیم کردو، انہوں نے جواب دیا کہ وظیفے تقسیم ہوچکے؛لیکن بہت سامال بچ گیا ہے، حضرت عمرؓ نے ان کو دوبارہ لکھا کہ یہ بھی مسلمانوں میں تقسیم کردو، یہ عمر اور آل عمر کا مال نہیں ہے۔ (فتوح البدان،صفحۃ ۴۵۸) ایک بار حج کو گئے تو آمد وفت میں ۸۰ درہم صرف ہوگئے ان کو اس قدر افسوس ہوا کہ ہاتھ پر ہاتھ مارتے تھے اور کہتے تھے۔ مااخلقنا ان تکون قداسرفنا فی مال اللہ تعالی (اسدالغابہ،جلد۴صفحہ۷۲) یہ کس قدر نامناسب بات ہے کہ ہم نے اللہ تعالی کے مال میں فضول خرچی کی ہے۔ ایک بار بیمار ہوئے اور دوا کے لئے شہد کی ضرورت پیش آئی بیت المال میں شہد کا پیپا تھا مسجد میں تشریف لائے اور منبر پر چڑھ کر تمام مسلمانوں کی طرف خطاب کرکے کہا کہ اگر آپ لوگ اجازت دیں تو یہ شہد لے لوں ورنہ وہ مجھ پر حرام ہے۔ (نزہت الابرانی الاسامی ومناقب الاخیارتذکرہ حضرت عمرؓ) ایک بار تمام مصارف کے بعد کچھ مال بچ گیا تو لوگوں سے مشورہ کیا کہ اب یہ کہاں خرچ کیا جائے ،لوگوں نے کہا یا امیر المومنین ہم نے آپ کو زراعت و تجارت کے کاروبار سے روکدیا ہے، اب وہ آپ کا مال ہے، انہوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا کہ تم کیا کہتے ہو، انہوں نے کہا لوگوں نے آپ کا نام لیا ہے ،بولے تمہیں کہو انہوں نے کہا،ایک دن آپ میرے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گئے تو ہم نے آپﷺ کو افسردہ پایا، دوسرے روز گئے تو آپﷺ خوش تھے، ہم نے وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ پہلے دن میرے پاس صدقے کے دو دینار رہ گئے تھے اس لئے میں رنجیدہ تھا اور آج میں نے ان کو تقسیم کردیا اس لئے خوش ہوں،حضرت عمرؓ نے فرمایا تم نے سچ کہا میں دنیا وآخرت دونوں میں تمہارا شکر گذار ہوں۔ (مسند،جلد۱،صفحہ۹۴) خلافت کے بعد وہ خود مسلمانوں کے ہوگئے تھے اور اپنی ذاتی حیثیت فنا کردی تھی اس لئے ان کو جو کچھ ملتا تھا اس کو یا تو بیت المال میں داخل کردیتے تھے یا اس کے قبول کرنے سے انکار کردیتے تھے ۔ ایک بار شاہ روم کا قاصد آیا تو ان کی بی بی نے ایک اشرفی کا عطر خریدا اور اس کو شیشی میں بھر کر شاہ روم کی بی بی کے پاس ہدیۃ بھیجا، اس نے ان شیشیوں کو جواہرات سے بھر کر واپس کردیا ،حضرت عمرؓ نے یہ جواہرات دیکھے تو ان کو فروخت کرکے ایک دینار اپنی بی بی کو واپس کردیا ،بقیہ رقم بیت المال میں داخل کردی۔ ایک بار حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے چراگاہ میں اونٹوں کو چراکر خوب فربہ کیا اوربازار میں بیچنے کے لئے لائے،حضرت عمرؓ نے دیکھا تو کہا کہ "امیر المومنین کے بیٹے یہاں آو"وہ آئے تو کہا کہ "امیر المومنین کا بیٹا سمجھ کر لوگوں نے تمہارے اونٹوں کو خوب کھلایا پلایا ہے، راس المال لے لو بقیہ اونٹوں کو بیت المال میں داخل کردو۔ ایک بار حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے ان کی بی بی عاتکہؓ کے پاس ہدیۃً ایک چادر بھیجی انہوں نے ان کو بلاکرڈانٹا اورچادر کو ان کے اوپر پھینک دیا کہ ہم کو اس کی ضرورت نہیں۔ (نزہتہ الابرارتذکرہ حضرت عمرؓ) حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی دیانت کا یہ حال تھا کہ ایک بار ان ان کے پاس اصبہان سے کچھ مال آیا جس میں ایک روٹی بھی تھی، انہوں نے مال کے ساتھ روٹی کے بھی سات ٹکڑے کئے ہر حصہ پر ایک ایک ٹکڑا روٹی کا رکھا پھر قرعہ ڈالا کہ پہلے کس کو دیا جائے۔ ایک دن بیت المال کا کل مال تقسیم کرکے اس میں جھاڑودلوائی پھر اس میں نماز پڑھی تاکہ قیامت کے دن لوگ ان کی دیانت کی شہادت دیں۔ ان کو جو چیزیں ہدیۃ ملتی تھیں وہ ان کو بھی بیت المال میں داخل کردیتے تھے، ایک دن انہوں نے ایک عطر کی شیشی دکھا کر کہا کہ"مجھے ایک دہقان نے ہدیۃ دی ہے" پھر بیت المال میں آئے اورا سمیں جو کچھ عطر تھا انڈیل دیا اورفرمایا کامیاب ہے وہ شخص جس کے پاس ایک قوصرہ ہوا اوروہ روز اس کو کھائے۔ (استیعاب تذکرہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ) ایک بار کسی رئیس نے حضرت حسنؓ وحضرت حسین ؓ کو دوچادریں ہدیۃ دیں، حضرت علی کرم اللہ وجہہ جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے، چادروں پر نظر پڑگئی تو پوچھا کہ یہ کہاں سے ملیں؟ انہوں نے واقعہ بتایا تو ان کو بیت المال میں داخل کردیا،ایک بار اصبہان سے ان کے پاس بہت سا مال اورسامان آیا انہوں نے اس کو چند دیانت دار لوگوں کی حفاظت میں رکھوادیا، اس میں سے حضرت ام کلثوم ؓ نے ایک مشکیزہ شہد اورایک مشکیزہ گھی منگوالیا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے آکر گنا تو دو مشکیزوں کی کمی معلوم ہوئی، انہوں نے پوچھا تو حفاظت کرنے والوں نے کہا ان کا حال نہ پوچھئے ہم ان کو لادیتے ہیں، بولے تم کو اصل واقعہ بیان کرنا پڑے گا، انہوں نے کہا ہم نے ام کلثوم کو دے دیا، چنانچہ فرمایا، میں نے تو یہ حکم دیا تھا کہ مسلمانوں کو تقسیم کردو اورتم نے ام کلثوم کو دیدیا، چنانچہ اس وقت وہ مشکیزے منگوائے اوران میں سے جو کچھ صرف ہوچکا تھا، اس کی قیمت لگوائی تو معلوم ہوا کہ ۳ درہم کی کمی آئی ہے، حضرت ام کلثومؓ کے یہاں سے ۳ درہم منگوائے اورمشکیزوں کو تمام مسلمانوں پر تقسیم کردیا۔ (نزہتہ الابرار تذکرہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ) یہی دیانت تھی جس نے صحابہ کے دورِ خلافت میں جمہوری روح پھونکدی تھی ،شخصیت درحقیقت بدیانتی،خود غرضی اورعیش پرستی کا نتیجہ ہے، خود غرض لوگ صرف اس بنا پر شخصیت کی حمایت کرتے ہیں کہ سلطنت کے تمام اختیارات سلطنت کی تمام دولت اور سلطنت کے تمام مداخل ومخارج ان کے ہاتھ میں آجائیں اور وہ مطلق العنانی کے ساتھ مزے اڑائیں؛ لیکن جو لوگ دیانت کے ساتھ حکومت کرنا چاہتے ہیں وہ تمام دنیا کو خود امور سلطنت میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں، تاکہ ان کے سرکا بوجھ ہلکا ہوجائے اوران کی ذمہ داریاں بہت سے لوگوں پر تقسیم ہوجائیں،صحابہ کرام اسی اصول پر حکومت کرنا چاہتے تھے، اس لئے وہ خود تمام مسلمانوں کو امور خلافت میں شرکت کی دعوت دیتے تھے، حضرت عمرؓ نے خراج کے تعین کے متعلق تمام صحابہ کو مشورے کے لئے بلایا تو یہ الفاظ فرمائے۔ انی لم ازعجکم الا لان تشترکوا فی امانتی (کتاب الخراج،صفحہ ۱۴) میں نے آپ لوگوں کو صرف اس لئے تکلیف دی ہے کہ آپ میری امانت میں شریک ہوں۔ مساوات جبکہ تمام عرب و عجم نے سیادت وحکومت کے ذریعہ سے دنیا کو اپنا غلام بنالیا تھا، اسلام نے صرف تقویٰ وطہارت کو انسان کا اصلی شرف قراردیا اورقرآن مجید نے تمام دنیا کے خلاف یہ صدا بلند کی۔ ان اکرمکم عنداللہ اتقکم تم میں سے زیادہ شریف وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔ صحابہ کرام کو اگرچہ خلافت الہی نے اس شرف سے بھی ممتاز کیا جو روم وایران کا سب سے بڑا ذریعہ تفوق وامتیاز تھا،تاہم انہوں نے صرف مذہب و اخلاق ہی کو اپنا اصلی شرف خیال کیا،حضرت عمربن الخطابؓ کا قول ہے۔ کرم المومن تقواہ ودینہ وحسبہ ومروتہ وخلقہ (اسدالغابہ تذکرہ حضرت عمرؓ) مسلمان کا اصل مایہ شرف اس کا تقویٰ ہے اس کا دین ہے اس کا حسب ہے اس کی مروت ہے اوراس کا خلق ہے۔ اس خیال کا یہ نتیجہ تھا کہ سیاسی حیثیت سے خلیفہ وقت خود اپنے آپ کو تمام لوگوں کے برابر سمجھتا تھا اورہرشخص کے ساتھ مساویانہ برتاؤ کرتا تھا۔ ایک دن حضرت عمرؓ امورخلافت میں مشغول تھے کہ اسی حالت میں ایک آدمی آیا اور کہا کہ"اے امیر المومنین مجھ پر فلاں شخص نے ظلم کیا ہے، انہوں نے اس پر کوڑا اٹھایا اورکہا کہ "جب میں فصل مقدمات کے لئے بیٹھتا ہوں تو تم لوگ نہیں آتے اور جب خلافت کے دوسرے کاموں میں مشغول ہوتا ہوں تو داد رسی کے لئے آتے ہو، وہ ناراض ہوکر چلا تو خود اسے بلایا اوراس کے سامنے اپنا کوڑا ڈال دیا اورکہا کہ مجھے سے قصاص لو، اس نے کہا نہیں میں خدا کے لئے معاف کرتا ہوں، بولے اگر خدا کے لئے معاف کرتے ہو تو خیر ورنہ اگر میرے لئے درگذر کرتے ہو تو مجھے بتادو، اس نے کہا نہیں خدا کے لئے۔ (موطا امام مالک کتاب الجہاد باب الشہداء فی سبیل اللہ) اگر کبھی امراء وعمال ان کے ساتھ اس قسم کا برتاؤ کرتے جو ان میں اورعام مسلمانوں میں تفریق و امتیاز پیدا کرتا تو سخت برہم ہوتے اوراس کو تہدید فرماتے ،ایک بار حضرت عتبہ بن فرقدؓ نے ان کی خدمت میں نہایت تکلف کے ساتھ ایک لذیذ غذا بھیجی، فرمایا کل مسلمان یہی کھاتے ہیں ؟جواب ملا نہیں بولے تو پھر مجھےبھی نہیں چاہئے، اس کے بعد ان کو لکھا کہ یہ تمہاری اورتمہارے باپ کی کمائی نہیں ہے تمام مسلمانوں کو وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو اورعیش پرستی سے بچو۔ (مسلم کتاب اللباس والزینۃ باب تحریم استعمال انا الذہب والفضۃ) ایک بار حضرت عبداللہ ؓ اورحضرت عبیداللہ بن عمرؓ عراق کی کسی مہم میں شریک ہوئے پلٹ کر بصرہ آئے تو حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے جو وہاں کے گورنر تھے، نہایت جوش کے ساتھ ان کا خیر مقدم کیا اورکہا کہ اگر میں آپ دونوں صاحبوں کو کوئی فائدہ پہونچا سکتا تو ضرور پہنچاتا، یہاں میرے پاس تھوڑا سا صدقہ کا مال ہے جس کو امیر المومنین کی خدمت میں بھیجنا چاہتا ہوں، آپ لوگ یہاں اس روپیہ سے اسباب تجارت خرید لیں اور مدینہ جاکر اس کو فروخت کریں جو نفع حاصل ہو، اس کو خود لیں اوراصل مال امیر المومنین کے حوالے کردیں، یہ کہہ کر روپیہ ان کے حوالہ کردیا اور حضرت عمرؓ کو اس کی اطلاع دیدی ان دونوں صاحبوں نے اس پر عمل کیا؛لیکن جب روپیہ لے کر حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے پوچھا کیا ابو موسیٰ نے کل فوج کے ساتھ یہی معاملہ کیا ہے؟ بولے نہیں فرمایا میرا لڑکا سمجھ کر تمہارے ساتھ یہ رعایت کی ہے اصل اورنفع دونوں دیدو۔ (موطا امام مالک کتاب البیوع باب ماجاء فی القراض) انہوں نے اپنےایک غلام کو مکاتب بنایا اس نے کہا کہ اگر اجازت ہو تو میں عراق کو جاؤں،بولے مکاتب ہونے کے بعد جہاں چاہو جاسکتے ہو، وہ روانہ ہوا تو اورچند غلاموں نے اس کی رفاقت کرناچاہی اورکہا کہ امیر المومنین سے ایک خط لے لو کہ تمام مسلمان ہمارے ساتھ عزت سے پیش آئیں، اس کو اگرچہ معلوم تھا کہ یہ درخواست ان کو ناگوار ہوگی تاہم اس نے یہ گذارش کی، ڈانٹ کر فرمایا تم لوگوں پر ظلم کرنا چاہتے ہو تم تمام مسلمانوں کے برابر ہو۔ (طہادی کتاب المکاتب فی الوضع عن المکاتب وبیعہ) اس طرز عمل نے تمام قوم میں مساوات کی روح پھونک دی تھی، اس لئے اگر کوئی شخص خلفاء کے ساتھ کسی قسم کا غیر مساویانہ برتاؤ کرتا تھا، تو تمام لوگ برہم ہوجاتے تھے، حضرت امیر معاویہ پہلی بارشام سے حج کو آئے تو ایک شخص نے کہا کہ السلام علیک ایھا الامیر ورحمۃ اللہ تمام اہل شام بگڑ گئے اور کہا کہ یہ منافق کون ہے جو صرف امیر المومنین کو سلام کرتا ہے۔ (ادب المفرد باب التسیلم علی الامیر) زہد وتواضع سلاطین وامراء کے جاہ و جلال سے اگرچہ انسان دفعۃ مرعوب ہوجاتا ہے ؛لیکن حقیقی اطاعت اوراصلی محبت صرف زہد وتواضع سے پیدا ہوسکتی ہے ،صحابہ کرام کے دورخلافت میں اگرچہ دنیا نے ان کے سامنے اپنے خزانے اگل دیئے تاہم انہوں نے اپنی قدیم سادگی اورخاکساری کو ہمیشہ قائم رکھا اس لئے عرب کی غیورطبیعتوں کو ان کی اطاعت اورفرمانبرداری سے کبھی عار نہیں ہوا۔ حضرت ابوبکرؓ خلافت سے پہلے بکریاں دوہا کرتے تھے، منصب خلافت سے ممتاز ہوئے تو ایک چھوکری نے کہا اب وہ ہماری بکریاں نہ دوہیں گے،انہوں نے سناتو بولے،خدا کی قسم ضروردوہوں گا خدانے چاہا تو خلافت میری قدیم حالت میں کوئی تغیر نہ پیدا کرے گی، چنانچہ امور خلافت کو بھی انجام دیتے تھے اوران کی بکریاں بھی دوہتے تھے؛ بلکہ اگر ضرورت ہوتی تھی تو ان کو چرا بھی لاتے تھے۔ ایک دن انہوں نے پینے کا پانی مانگا تو لوگ شہد کا شربت لائے، پیالے کو منہ سے لگا کرہٹا لیا اوررونے لگے،جو لوگ پاس بیٹھے ہوئے تھے وہ بھی روپڑے،تھوڑی دیر کے لئے چپ ہوگئے پھر دوبارہ رونا شروع کیا،لوگوں نے پوچھا آخر آپ کیوں روئے؟ فرمایا میں ایک دن رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا میں نے دیکھا کہ آپ کسی آدمی کو دکھیل رہےہیں ؛حالانکہ کوئی شخص آپ ﷺکے پاس نہ تھا میں نےپوچھا یہ آپ کس کو دھکیل رہے ہیں، فرمایا دنیا میرے سامنے مجسم ہو کر آئی تھی میں نے اس سے کہا کہ میرے پاس سے ہٹ جا ،و ہ ہٹ گئی پھر دوبارہ آئی اور کہا کہ آپ مجھے سے بچ کے نکل جائیں تو نکل جائیں ؛لیکن آپ کے بعد کے لوگ مجھ سے نہیں بچ سکتے، مجھے یہی واقعہ یاد آگیا اورمیرے دل میں خوف پیدا ہوا کہ وہ کہیں مجھ سے چمٹ نہ جائے۔ (اسد الغابہ تذکرہ حضرت ابوبکرصدیقؓ) حضرت عمرؓ کسریٰ وقیصر کے خزانے کے لید بردار تھے لیکن زہد وتواضع کا یہ حال تھا کہ ایک دن انہوں نے پینے کا پانی مانگا لوگ شہد کا شربت لائے،پیالے کو ہاتھ پر رکھ کر تین بار فرمایا کہ اگر پی لوں تو اس کی مٹھاس چلی جائے گی اور تلخی (عذاب)باقی رہ جائے گی یہ کہہ کر ایک آدمی کو دیدیا اوروہ اس کو پی گیا ۔ ایک بار ان کے پاس حضرت عتبہ بن فرقدؓ آئے دیکھا کہ زیتون کے تیل کے ساتھ روٹی کھارہے ہیں حضرت عمرؓ نے ان کو بھی شریک طعام کرلیا، لیکن یہ لقمہ ہائے خشک ان کے گلے سے نہ اترے وہ عیش وطرب کے ساز وبرگ دیکھ چکے تھے ،بولے یا امیر المومنین آپ کو میدے سے رغبت ہے؟ فرمایا کل مسلمانوں کو مل سکتا ہے، انہون نے کہا نہیں کہا تم چاہتے ہو کہ میں دنیا ہی میں کھانے پینے کا مزا اڑالوں؟ ایک دن حضرت حفصہؓ کے یہاں آئے، انہوں نے سالن میں زیتون کا تیل ڈال کر سامنے رکھ دیا بولے، ایک برتن میں دو دو سالن تا دم مرگ نہ کھاؤں گا۔ (اسدالغابہ تذکرہ حضرت عمرؓ) عین زمانہ خلافت میں ان کے سامنے کھجوریں رکھ دی جاتی تھیں، اور وہ سڑی گلی کھجوریں تک اٹھا کر کھاجاتےتھے۔ (موطا امام مالک کتاب الجماع،باب جامع، جاء فی الطعام والشراب) لباس اس سے بھی زیادہ سادہ تھا، حضرت انس بن مالکؓ کا بیان ہے کہ مین نے زمانہ خلافت میں دیکھا کہ ان کے کرتے کے مونڈھے پر تہ بتہ پیوند لگے ہوئے ہیں۔ (موطا امام مالک کتاب الجامع باب ماجاء فی لیس الثیاب) جاہ وجلال کے موقعوں پر بھی یہی سادگی قائم رہتی تھی،شام کے دورے کو گئے تو شہر کے قریب پہونچ کر اپنے اونٹ پر غلام کو سوار کرادیا اورخود گلام کے اونٹ پر سوار ہولئے، لوگ استقبال کے لئے چشم براہ تھے، قریب پہونچے تو حضرت سالمؓ نے لوگوں کو اشارے سے بتایا کہ امیر المومنین یہ ہیں لوگ تعجب سے باہم کانا پھوسی کرنے لگے، فرمایا ان کی نگاہیں، اہل عجم کے جاہ و حشم کو ڈھونڈرہی ہیں۔ (موطا امام محمد باب الزہد والتواضع) ایلہ کو گئے تو اونٹ پر بیٹھے بیٹھے گاڑھے کی قمیص پھٹ گئی، اس لئے وہاں کے پادری کو دیدیا کہ اس کو دھوکر پیوند لگادے،وہ قمیص میں پیوند لگا کر لایا تو اس کے ساتھ خود اپنی طرف سے ایک نئی قمیص بھی دی ؛لیکن انہوں نے یہ کہہ کر واپس کردی کہ "میری قمیص پسینہ خوب جذب کرتی ہے"۔ (طبری ،صفحہ ۲۵۲۳) ایک دن منبر پر چڑھ کر فرمایا کہ ایک دن وہ تھا کہ میں اپنی خالہ کی بکریاں چرایا کرتا تھا اوروہ اس کے عوض میں مٹھی بھر کھجور دیدیا کرتی تھیں، آج میرا یہ زمانہ ہے یہ کہہ کر منبر سے اترآئے ،حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے کہا یہ تو آپ نے اپنی تنقیص کی، بولے تنہائی میں میرے دل نے کہا کہ تم امیر المومنین ہو تم سے افضل کون ہوسکتا ہے؟ اس لئے میں نے چاہا کہ اس کو اپنی حقیقت بتادوں۔ (نزہتہ الابرار تذکرہ حضرت عمرؓ) ان کے دروازے پر دربان اورپہرے دار نہ تھے، (طبری،صفحہ،۲۵۵۸) وہ خود اپنے چپراسی تھے ،جہاں ضرورت ہوتی تھی خود چلے جاتے تھے اور کام انجام دے کر چلے آتے تھے،ایک دن حضرت زید بن ثابتؓ کے پاس آئے ،لونڈی ان کے بالوں سے جوئیں نکال رہیں تھی، انہوں نے اس کو ہٹانا چاہا بولے، رہنے بھی دو، انہوں نے کہا یا امیر المومنین اگر آپ بلوا بھیجتے تو میں خود حاضر ہوتا، بولے ضرورت تو مجھ کو تھی۔ (ادب المفرد باب من کانت لہ حاجۃ فہواحق ان یذہب الیہ) حضرت عثمانؓ اگرچہ بذاتِ خود دولت مند تھے؛لیکن زمانہ خلافت میں نہایت سادہ زندگی بسر فرماتے تھے،مسجد میں سرہانے چادررکھ کر لیٹ جاتے تھے،اٹھتے تھے تو بدن میں کنکریوں کے چبھنے کے نشان نظر آتے تھے،لوگ دیکھتے تھے تو کہتے تھے کہ امیر المومنین ہیں۔ (الریاض النضرۃ ،صفحہ۱۱۱) حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو رسول اللہ ﷺ نے ابو تراب کا خطاب عطا فرمایا تھا اورخاکساری نے ان کو اس لقب کا صحیح مصداق بنادیا تھا، تمام لوگ ان کی خدمت واطاعت کو اپنا فخر سمجھتے تھے؛لیکن وہ خود بازار سے اپنا سودا سلف خرید کر لاتے تھے ایک دن بازار میں کھجوریں خریدیں اورخود اٹھاکر لے چلے ایک آدمی نے کہا یا امیر المومنین میں پہونچادوں بولے بچوں کا باپ ہی اس کا زیادہ مستحق ہے۔ (ادب المفردات الکبر) زہد وتورع کا یہ حال تھا کہ اپنے لئے کبھی اینٹ پر اینٹ اورشہتیر پر شہتیر نہیں رکھی ،یعنی گھر نہیں بنایا(اسد الغابہ ،تذکرہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ) بیت المال میں جو کچھ آتا اسی وقت تقسیم کردیتے اورکہتے کہ اے دنیا مجھے فریفتہ نہ کر۔ (استیعاب، تذکرہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ) لباس نہایت سادہ پہنتے تھے،ایک شخص نے دیکھا کہ ان کے بدن پر ایک پھٹی پرانی قمیص ہے ،جب آستین کھینیچی جاتی ہے تو ناخن تک پہونچ جاتی ہے اور چھوڑدی جاتی ہے تو سکڑ کر نصف کلائی تک جاتی ہے، اسی سادہ لباس میں فرائض خلافت ادا کرنے کے لئے بازاروں میں پھرا کرتے تھے، ایک شخص کا بیان ہے کہ میں نے دیکھا کہ گاڑھے کا تہ بند باندھے ہوئے اورگاڑھے کی چادر اوڑھے ہوئے بازار میں پھر رہے ہیں، ہاتھ میں درہ ہے اورلوگوں کو سچائی اورحسن معاملہ کا حکم دے رہے ہیں، لیکن بعض اوقات یہ سادہ لباس بھی بہ مشکل میسر ہوتا تھا، ایک دن منبر پر چڑھ کر فرمایا کہ میری تلوار کون خرید تا ہے؟ اگر میرے پاس تہ بند کے دام ہوتے تو میں اس کو نہ فروخت کرتا، ایک شخص نے اٹھ کے کہا ہم آپ کو تہ بند کی قیمت قرض دیتے ہیں۔ دربان اورپہریدار کا جھگڑا نہیں رکھا تھا،تنہا اٹھتے اورمسجد کو چلے جاتے۔ (ایضاً) ایثار خلافت الہی ایک خوان نعمت ہے جس کو اللہ تعالی خود اپنے ہاتھ سے دنیا کے سامنے چن دیتا ہے، لیکن بدبخت لوگ تمام دنیا کو بھوکا رکھتے ہیں اورخود اپنا پیٹ بھرتے ہیں مگر خدا کے برگزیدہ بندے پہلے تمام دنیا کو کھلاتے ہیں،پھر جو کچھ بچ رہتا ہے خود کھاتے ہیں،صحابہ کرام اللہ تعالی کے برگزیدہ بندے تھے، اس لئے انہوں نے اس خوان نعمت کو تمام دنیا کے لئے وسیع اوراپنے لئے تنگ کردیا تھا۔ ایک بار حضرت عمرؓ نے مدینہ کی عورتوں میں چادر تقسیم فرمائی، ایک عمدہ چادر رہ گئی تو کسی نے کہا "اپنی بی بی ام کلثوم کو دیدیجئے" بولے ام سلیط اس کی زیادہ مستحق ہیں کیونکہ وہ غزوۂ احد میں مشک بھر بھر کر پانی لاتی تھیں اورہم کو پلاتی تھیں۔ (بخاری کتاب الجہاد باب حمل النساء القرب الی الناس فی الغزد) ایک دن مسلمانوں کو حلے تقسیم فرمارہے تھے ایک نہایت عمدہ حلہ نکلا تو لوگوں نے کہا حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو دیدیجئے،بولے نہیں مہاجربن سعید ابن عتاب یا سلیط بن سلیط کو دونگا۔ (اصابہ، تذکرہ عتاب) انہوں نے اپنے عہد خلاف میں ازواج مطہرات کی تعداد کے لحاظ سے نوپیالے تیار کرائے تھے اورجب میوہ یا کھانے کی کوئی عمدہ چیز آتی تو ان میں بھر کے ازواج مطہرات کی خدمت میں بھیجتے ؛لیکن سب سے آخری پیالہ حضرت حفصہؓ کے پاس بھجواتے تھے ؛تاکہ جو کمی ہو وہ ان کے حصہ میں آئے۔ (موطا امام مالک کتاب الزکوٰۃ باب جزیۃ اہل الکتاب والمجوس) لوگوں کے وظیفے مقرر فرمائے تو لوگوں نے کہا کہ رجسٹر میں پہلے اپنا نام درج فرمائیے، بولے نہیں ،اپنے آپ کو وہیں رکھونگا جہاں مجھ کو خدانے رکھا ہے، چنانچہ قرابت داران رسولؓ کے نام پہلے لکھوائے، اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا وظیفہ حضرت اسامہ بن زیدؓ سے کم مقرر فرمایا، تو انہوں نے کہا، وہ مجھ سے کسی چیز میں آگے نہیں رہے، بولے، ان کے باپ تمہارے باپ سے اوروہ تم سے رسول اللہ ﷺ کو محبوب تھے۔ (فتوح البلدان ،صفحہ ۴۶۲) امراء وعمال مقرر فرمائے تو اپنے خاندان کے کسی شخص کو کوئی عہدہ نہیں دیا، ان کے خاندان میں صرف نعمان بن عدی ایک ایسے بزرگ ہیں، جن کو میسان کا عامل مقرر فرمایا تھا؛لیکن تھوڑے ہی دنوں کے بعد ان کو ایک جرم پر موقوف بھی کردیا۔(اسد الغابہ جلد۵،صفحہ ۲۷،تذکرہ نعمان بن عدی) اس سے بڑھ کر کیا ایثار نفسی ہوسکتی ہے کہ اپنے بعد جن لوگوں کو خلافت کے لئے منتخب فرمایا ان میں اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی نسبت صاف تصریح کردی کہ خلافت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ،چنانچہ بخاری میں یہ واقعہ بہ تصریح مذکور ہے۔ حق پسندی اگر خود امراء وسلاطین میں حق پسندی کا مادہ موجود نہ ہوتو رعایا کی آزادی نکتہ چینی اورحقوق طلبی بالکل بیکار ہے؛لیکن صحابہ کرام کے دور میں خود خلفاء میں حق پسندی کا اس قدر مادہ موجود تھا، کہ ہرجائز نکتہ چینی کے سامنے سر تسلیم خم کردیتے تھے، اس لئے ایک طرف تو ان نکتہ چینیوں کے عملی نتائج نکلتے تھے، دوسری طرف قوم میں جائز آزادی کا مادہ پیدا ہوتا تھا، جو خلافت کے استحکام کا سب سے قوی سبب تھا۔ ایک بار حضرت عمرؓ نے خزائن کعبہ کو تقسیم کرنا چاہا، لیکن حضرت شیبہؓ نے اس کی مخالفت کی اورکہا کہ آپ ایسا نہیں کرسکتے رسول اللہ ﷺ اورحضرت ابوبکرؓ آپ سے زیادہ محتاج تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا حضرت عمرؓ نے تقسیم سے فورا ہاتھ کھینچ لیا۔ (ابوداؤد کتاب المناسک باب فی مال الکعبۃ) ایک بار حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ بی بی کو شوہر کی دیت میں وراثت نہیں ملتی، حضرت ضحاکؓ ابن سفیان نے کہا نہیں اشیم انصبابی کی بی بی کو رسول اللہ ﷺ نے تحریری فرمان کے ذریعہ سے اس کے شوہر کی دیت دلوائی تھی، حضرت عمرؓ نے فورا ًاپنی رائے بدل دی۔ (ابوداؤد فی المراۃ ترث من دیت زوجہا) ایک پاگل عورت مرتکب زنا ہوئی، لوگوں نے اس کو حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کیا، انہوں نے صحابہ کرام کے مشورے سے رجم کا حکم دیا، لوگ اس کو سنگسار کرنے کے لئے لے جارہے تھے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ آگئے اورواقعہ معلوم ہونے پر کہا کہ، اس کو واپس لے چلو، حضرت عمرؓ کی خدمت میں آئے اورکہا کیا آپ کو معلوم نہیں کہ پاگل مرفوع القلم ہے ،پھر اس کو کیوں سنگسار کرتے ہیں؟ انہوں نے اس کو رہا کردیا اورغلغلہ تکبیر بلند کیا۔ (ابوداؤد کتاب المددوباب فی الجنون یسرق اویصیب) ایک بار حضرت ابو مریمؓ ازوی حضرت امیر معاویہؓ کے دربار میں آئے ان کو ان کا آنا ناگوار ہوا اوربولے کہ ہم تمہارے آنے سے خوش نہیں ہوئے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ خدا جس شخص کو مسلمانوں کا والی بنائے اگر وہ ان کی حاجتوں سے آنکھ بند کرکے پردہ میں بیٹھ جائے تو خدا بھی قیامت کے دن اس کی حاجتوں کے سامنے پردہ ڈال دے گا، حضرت امیر معاویہؓ پر اس کا یہ اثر ہوا کہ لوگوں کی حاجت براری کے لئے ایک مستقل شخص مقررکردیا۔ (ابوداؤد کتاب الخراج والامارۃ) رحم و شفقت اخلاقی کتابوں میں بادشاہ کو رعایا کا باپ کہا گیا ہے؛لیکن دنیائے قدیم میں کتنے مسند آرائے سریر سلطنت گذرے ہیں اور دنیائے جدید میں کتنے مدعیان تخت و تاج ہیں،جنہوں نے اپنے بچوں کے سرپر شفقت کا ہاتھ پھیرا ہے؟ لیکن صحابہ کرام نہ صرف مجازا ًبلکہ حقیقتاً ان بچوں کے سرپر شفقت کا ہاتھ پھیرتے تھے اوران سے دائمی اطاعت کا خاموش معاہدہ لیتے تھے، حضرت ابوبکرؓ کو بچے دیکھتے تو دوڑ کر کہتے "اے باپ" وہ محبت سے ان کے سرپر ہاتھ رکھتے، (الریاض النفرد فی مناقب العشرہ، جلد۲،صفحہ۳) چھوکریاں کہتیں کہ آپ ہماری بکریوں کا دودھ کیوں نہیں دوہتے؟ وہ دودھ دوھ دیتے اورکہتے کہ اگر ضرورت ہو تو چرا بھی لاؤں، مدینہ کے کسی گوشہ میں ایک بڑھیارہتی تھی، وہ رات کو جاتے اس کی ضروریات انجام دے آتے،(اسد الغابہ تذکرہ حضرت ابوبکرؓ ) جاڑوں کے دن میں چادریں خرید کر مدینہ کی بیواؤں میں تقسیم فرماتے۔ (کنز العمال ،جلد۳،صفحہ۱۳۱) حضرت عمرؓ کا دورخلافت آیا تو ان کی قدیم شدت کے تصور سے تمام صحابہ متحیر تھے، اورکہنے لگے کہ دیکھیں اب کیا ہوتا ہے؟ حضرت عمرؓ کو خبر ہوئی، تو ایک عام مجمع کیا اور منبر پر چڑھ کر فرمایا: مجھے معلوم ہوا ہے کہ لوگ میری سختیوں سے گھبراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خود رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں عمر ہم پر سختی کرتے تھے، پھر حضرت ابوبکرؓ خلیفہ ہوئے تو اس وقت بھی عمر ہمارے ساتھ سختی سے پیش آئے، اب جبکہ وہ خود خلیفہ ہوئے ہیں تو خدا جانے کیا غضب ہوگا؟ لوگوں نے یہ بالکل سچ کہا ہے میں رسول اللہ ﷺکا ایک خادم تھا اورآپ کی رحمت وشفقت کا درجہ کون حاصل کرسکتا ہے؟ خدانے خود آپ کو روف و رحیم کہا ہے، جو خود خدا کا نام ہے، پھر ابوبکرؓ خلیفہ ہوئے اوران کے رفق و ملاطفت کا بھی آپ لوگوں کو انکار نہیں میں ان کا بھی ایک خادم اورمدد گار تھا، اس لئے ان کی نرمی کے ساتھ اپنی سختی کو ملادیتا تھا، اورتیغ بے نیام ہوجاتا تھا وہ چاہتےتھے تو اس سے وار کرتے تھے ورنہ میان میں ڈال دیتے تھے ؛لیکن اب جبکہ میں خود خلیفہ ہوگیا ہوں تو یقین کرو کہ وہ سختی دوگناہوگئی ہے؛ لیکن صرف ان لوگوں کے لئے جو مسلمانوں پر ظلم کرتے ہیں، رہے نیک اور دیندار لوگ تو میں ان کے لئے اس سے زیادہ نرم ہوں جس قدر وہ باہم نرم خو ہیں۔ (الریاض النضرہ فی مناقب العشرہ،جلد۲،صفحہ۴) حدیث رجال اور تاریخ کی کتابوں میں حضرت عمرؓ کی زندگی کا ایک ایک واقعہ محفوظ ہے ان سب پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوسکتا ہے کہ اس خطبہ کا ایک ایک لفظ کس قدر سچائی کس قدر صداقت اورکس قدر راست بازی سے لبریز تھا، انہوں نے کہا تھا کہ وہ دین دار لوگوں کے لئے سب سے زیادہ نرم ہونگے واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ درحقیقت ایسے ہی تھے، حضرت سعید بن یربوعؓ ایک صحابی تھے جو ان کے عہد خلافت میں اندھے ہوگئے تھے، حضرت عمرؓ ان کے پاس تعزیت کو آئے اورکہا کہ کوئی جمعہ ناغہ نہ کرنا اورمسجد نبوی میں برابر شریک جماعت ہونا، بولے مجھے کون لے جائے گا؟ پلٹے تو اس کام کے لئے ان کے پاس ایک غلام بھیج دیا۔ (اسدالغابہ تذکرہ حضرت سعید بن یربوعؓ) ایک بار حضرت احنف بن قیس بصرہ کے وفد کے ساتھ آئے اورکہا کہ ہم ایک بنجر زمین میں آباد ہیں اس کے مشرقی جانب کھاری سمندر ہے اورمغرب جانب چٹیل میدان ،نہ ہمارے پاس کھیت ہیں نہ مویشی ،دوکوس سے ضعیف لوگ پانی لاتے ہیں ،عورتیں پانی بھرنے جاتی ہیں تو بچوں کو بکری کی طرح باندھ دیتی ہیں کہ کہیں درندے نہ اٹھالے جائیں ،تو کیا آپ ہماری ضرورت پوری نہ کریں گے؟حضرت عمرؓ نے فورا بصرہ کے بچوں کے وظیفے مقرر کردیئے اورحضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کو لکھ بھیجا کہ ان کے لئے ایک نہر کھدوادیں۔ (فتوح البلدان،صفحہ۳۰۶۴) جن عورتوں کے شوہر سفر میں ہوتے ان کے گھر خود تشریف لے جاتے دروازے پر کھڑے ہوکر سلام کرتے اورکہتے تمہیں کوئی ضرورت ہے؟ تمہیں کسی نے ستایا تو نہیں؟ اگر تمہیں سود ے سلف کی ضرورت ہو تو میں خریدوں ،مجھے خوف ہے کہ بیع وشراء میں تم لوگ دھوکہ نہ کھاجاؤ، وہ اپنی لونڈیاں ساتھ کردیتیں، بازار میں جاتے تو ان لونڈیوں اور غلاموں کا جھرمٹ ساتھ ہوتا، ان کا سودا سلف خریدیتے جن کے پاس دام نہ ہوتے خود اپنی گرہ سے دیدیتے ،مجاہدین کے خطوط آتے تو خود ان کی بی بیوں کے پاس لے کر جاتے اور کہتے کہ اگر کوئی پڑھنے والا نہ ہو تو دروازہ کے قریب آجاؤئیں پڑھ دوں، قاصد فلاں دن جائے گا، جواب لکھوا رکھو کہ بھیجدوں ،پھر خود ہی کاغذ دوات لیکر جاتے ،جن عورتوں کے خطوط تیار ہوتے ان کے لے لیتے ورنہ کہتے کہ دروازے کے پاس آجاؤ میں خود لکھ دوں، سفر میں ہوتے تو اپنے اونٹ پرستو کھجور مشک اورپیالے ساتھ رکھتے ،جو لوگ کسی ضرورت سے پاس آتے ان سے کہتے کہ لوکھاؤ ،جب لوگ کوچ کرچکے تو منزل کی دیکھ بھال فرماتے ،اگر کوئی چیز گری ہوتی تو اٹھا لیتے اگر کوئی شخص لنگڑا لولا ہوتا یا اس کا اونٹ بیمار ہوتا تو اس کے لئے کرایہ کا اونٹ کردیتے ،قافلہ روانہ ہوتا تو پیچھے پیچھے چلتے کوئی چیز گر پڑتی تو اٹھا لیتے، لوگ منزل پر اترتے تو گم شدہ چیزوں کی تلاش میں خود امیر المومنین کے پاس آتے۔ (الریاض النضرہ فی مناقب العشرہ ،جلد۲،صفحہ ۴،۵، بروایت ابوحذیفہ) ایک بار بازار سے گذررہے تھے کہ ایک نوجوان عورت آئی اورکہا کہ: یا امیر المومنین میرا شوہر مرگیا ہے اورچھوٹے چھوٹے بچے چھوڑے ہیں، نہ وہ کوئی کام کرسکتے ہیں نہ ان کے پاس کھیتی ہے نہ مویشی، مجھے خوف ہے کہ ان کو درندے نہ کھاجائیں میں خفاف بن ایماء الغفاری کی لڑکی ہوں، جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حدیبیہ میں شریک ہوئے تھے، حضرت عمرؓ فورا ٹھہر گئے،وہاں سے پلٹے تو ایک اونٹ پر غلہ لائے اورہاتھ میں اونٹ کی مہار دیکر کہا کہ اس کو ہانک لیجاؤ، جب یہ ختم ہو جائے گا تو خدا پھر دے گا، ایک شخص نے کہا، اے امیر المومنین آپ نے اس کو بہت دیا، بولے ،ارے کم بخت اس کے باپ اوربھائی دونوں نے میرے سامنے ایک قلعہ کا مدتوں محاصرہ کیا اوراس کو فتح کیا۔ (بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الحدیبیہ) ایک بار سفر حج کو جارہے تھے راہ میں ایک بڈھا ملا اوراس نے قافلہ کو روک کر پوچھا کہ تم میں رسول اللہ ﷺ ہیں؟ جب معلوم ہوا کہ آپ کا وصال ہوچکا تو اس نے شدت سے گریہ وبکا کیا پھر پوچھا کہ آپ کے بعد خلیفہ کون ہوا؟ حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ کا نام بتایا بولا وہ تم میں ہیں؟ جب اس کو ان کی وفات کی خبر ہوئی تو پھر اسی طرح گریہ وزاری کی ،پھر پوچھا کہ ان کے بعد کس نے زمام خلافت ہاتھ میں لی؟ بولے عمربن الخطاب، اس نے پوچھا وہ تم میں ہیں ؟ جواب دیا تم سے وہی گفتگوکررہے ہیں، اس نے کہا تو میری فریادرسی کیجئے، مجھے کوئی فریاد رس نہیں ملتا، حضرت عمرؓ نے کہا کہ تم کون ہو؟ تمہاری فریاد سن لی گئی ، بولا میرا نام ابو عقیل ہے رسول اللہ ﷺ نےمجھے دعوت اسلام دی میں آپ پر ایمان لایا آپ نے مجھے ستو پلایا اورمیں اب تک اس کی سیری وسیرابی کو محسوس کرتا ہوں، پھر میں نے بکری کا ایک گلہ خریدا اور اب تک ان کو چراتا ہوں، نماز پڑھتا ہوں اور روزہ رکھتا ہوں ؛لیکن اس سال بدبختی نے ایک بکری کے سوا کچھ نہیں چھوڑا تھا مگر اس کو بھی بھیڑیا اٹھا لے گیا اب آپ میری دستگیری فرمائیے، حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ، ہم سے چشمہ پر ملو، منزل پر پہنچے تو اونٹنی کی لگام پکڑے بھوکے پیاسے بڈھے کا انتظار کرتے رہے، لوگ آچکے تو صاحب حوض کو بلا کر کہا کہ فلاں بڈھا آئے تو اس کو اوراس کے اہل و عیال کو کھلاتے پلاتے رہو یہاں تک کہ میں حج سے واپس آجاؤں حج سے پلٹے تو صاحب حوض سے اس کے متعلق دریافت فرمایا اس نے کہا کہ وہ مبتلائے بخار آیا تھ اور تین دن کے بعد مرگیا میں نے اس کو دفن کردیا اوریہ اس کی قبر ہے حضرت عمرؓ نے فورا اس کی قبر پر نماز پڑھی اوراس سے لپٹ کر روئے اس کے اہل و عیال کو ساتھ لے گئے اور تادم مرگ ان کی وجہ معاش کے متکفل رہے۔ (اسد الغابہ، تذکرہ ابو عقیل) حضرت علی کرم اللہ وجہہ بازاروں میں جاتے تو بھولے بھٹکے لوگوں کو راستہ دکھاتے ،حمالوں کے سرپر بوجھ اٹھادیتے،اگر کسی کے جوتے کا تسمہ گرجاتا تو اسے اٹھا کر دیدیتے اوریہ آیت پڑھتے۔ تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ (الریاض النصرہ ،جلد۲،صفحۃ۲۳۴) ہم نے دارآخرت کوان لوگوں کے لئے بنایا ہے جو زمین میں فساد اورغلبہ حاصل کرنا نہیں چاہتے اورعاقبت صرف پرہیز گاروں کے لئے ہے۔ حلم وعفو حلم وعفو سیادت کا ایک ایسا ضروری عنصر ہے کہ عرب کے ان پڑھ بدو بھی اس سے واقف تھے ،چنانچہ ایک جاہلی شاعر کہتا ہے۔ اذاشئت یوما ان تسودعشیرۃ فبالحلم سدلابالتسرع والشتم اگر تم کسی قبیلہ کے سردار بننا چاہتے ہو تو حلم و برد باری کے ساتھ سرداری کرو نہ اشتعال وشتم کے ساتھ بالخصوص عرب کی مشتعل طبیعتوں پر تو صرف یہی ایک ایسی چیز تھی جو چھینٹا ڈال سکتی تھی، اگر ان کے ساتھ سخت برتاؤ کیا جاتا تو روز بغاوت کے شعلے بلند ہوتے ،اس لئے صحابہ کرام نے نہایت معتدل اصول سیاست اختیار فرمایا تھا۔ کان عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ یقول لایصلح ھذا الا مرالا بشدۃ فی غیر تجبر ولین فی غیردھن۔ (کتاب الخراج للقاضی ابی یوسف) حضرت عمرؓ فرماتے تھے کہ خلافت اس وقت تک صحیح اصول پر قائم نہیں رہ سکتی جب تک ایسی سختی نہ کی جائے جو ظلم کی حد تک نہ پہونچے اورایسی نرمی نہ اختیار کی جائے جو کمزوری پر مبنی ہو۔ لیکن یہ سختی بھی حقوق العباد اورحقوق اللہ تک محدود تھی ورنہ ذاتی معاملات میں وہ روئی کے گالے کی طرح نرم ہوجاتے تھے ،حضرت عمرؓ نے حضرت خالدبن ولیدؓ کے معزولی کا اعلان کیا تو ایک شخص نے کہا۔ ماعدلت با عمر لقد نزعت عاملا استعملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وغمدت سیقاسلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوصنعت لواء نصیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولقد قطعت الرحم وحدت ابن العم۔ عمر تم نے انصاف نہیں کیا اورایک ایسے عامل کو معزول کیا جس کو رسول اللہ ﷺ نے مقرر فرمایا تھا اوراپنی تلوار کو میان میں کردیا جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کھینچا تھا، ایک ایسے جھنڈے کو پست کردیا جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کیا تھا تم نے قطع رحم کیا اوراپنے چچازاد بھائی پر حد کیا۔ یہ الفاظ مجمع عام میں کہے گئے؛ تاہم حضرت عمرؓ نے ان کو سن کر صرف اس قدر کہا کہ تم کو کم سنی اور قرابت مندی کی بنا پر اپنے چچازاد بھائی کی حمایت میں غصہ آگیا (اسد الغابہ تذکرہ احمد بن حفص مخزومی) ایک دفعہ وہ مسجد سے آرہے تھے راہ میں ایک صحابیہ سے ملاقات ہوگئی اورانہوں نے ان کو سلام کیابولیں، اے عمر میں نے تمہارا وہ زمانہ دیکھا ہے جب تم کو لوگ عکاظ میں عمرؓ کہتے تھے اوراب تو تمہارا لقب امیر المومنین ہے، پس رعیت کے معاملہ میں خدا سے ڈرواوریقین کرو کہ جو شخص عذاب خدواندی سے ڈرے گا اس پر بعید قریب ہوجائے گا اورجو موت سے ڈرے گا اس کو فوت ہوجانے کا خوف لگا رہے گا، ایک شخص جو ساتھ میں تھے بولے بی بی تم نے تو امیر المومنین کو بہت کچھ کہہ ڈالا؛ لیکن حضرت عمرؓ نے کہا جانے دو یہ خولہ بنت حکیم ہیں اور عبادہ ابن صامت کی بی بی ہیں، اللہ تعالی نے ساتھ آسمان کے اوپر سے ان کی بات سن لی تھی، پھر عمر کو تو اورسننا چاہئے۔ (اصابہ تذکرہ خولہ بنت مالکؓ قرآن مجید کی یہ آیت قد سمع اللہ قول التی تجاذلک الخ انہی کے بارے میں نازل ہوئی تھی اورحضرت عمرؓ کا اشارہ اسی آیت کی طرف ہے) مساوات فی الحقوق رعایا اگر چہ بادشاہ کے تفوق وامتیاز کو گوارا کرلیتی ہے؛ لیکن وہ باہمی تفریق وامتیاز کو کبھی گوارا نہیں کرسکتی، اس لئے اگر کوئی بادشاہ تمام رعایا کو اپنا گرویدہ بنانا چاہتا ہے تو اس کا سب سے بڑا فرض یہ ہے کہ ان کے حقوق میں ہمواری اورمساطت پیدا کرے صحابہ کرام کے دورخلافت کے ابتدائی زمانہ میں جو اتفاق واتحاد قائم رہا اس کا سنگ بنیاد خلفاء کا یہی مساویانہ طرز عمل تھا، اول اول حضرت ابوبکرؓ کے سامنے جب خراج و زکوٰۃ کا مال آیاتو انہوں نے سب پر برابر برابر تقسیم کردیا اورچھوٹے بڑے آزاد غلام مرد اورعورت سب نے ساتھ ساتھ درہم سے کچھ زیادہ پایا، دوسرے سال اس سے زیادہ مال آیا اورہر شخص کو بیس بیس درہم ملے، اللہ تعالی کے اس فضل و برکت کو دیکھ کر بعض لوگوں نے کہا آپ نے تمام لوگوں کو برابر کردیا حالانکہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے فضائل ان کی ترجیح کی سفارش کرتے ہیں؛لیکن انہوں نے صاف صاف کہدیا کہ فضائل کا ثواب خدا دیگا یہ معاش کا معاملہ ہے اس میں مساوات ہی بہتر ہے۔ (کتاب الخراج للقاضی ابی یوسف،صفحہ۲۴) حضرت عمرؓ نے اگرچہ فضائل کے لحاظ سے وظائف کے مختلف مدارج قائم کئے تاہم ان کے دل میں بھی ہ ناہمواری ہمیشہ کھٹکتی رہتی تھی، چنانچہ اپنی خلافت کے اخیر زمانہ میں خود بہ الفاظ فرمائے: انی کنت تالفت الناس بما صنعت فی تفضیل بعض علی بعض وان عشت ھذہ السنۃ سادیت بین الناس فلم افضل احمر علی اسود ولا عربیا علی عجمی وصنعت کما صنع رسول اللہ وابوبکر۔ (یعقوبی مطبوعہ یورپ ،جلد۲،صفحہ۱۶۶) میں نے بعض لوگوں کو بعض لوگوں پر جو ترجیح دی تھی اس کا مقصد صرف تالیف قلوب تھا؛لیکن اگر اس سال زندہ رہا تو سب کے حقوق برابر کردونگا اور سرخ کو سیاہ پر عربی کو عجمی پر کوئی ترجیح نہ دونگا اوروہی طرز عمل اختیار کرونگا جو رسول اللہ ﷺ اورابوبکرؓ نے کیا تھا۔ رعایا کے حقوق کا اعلان رعایا اوربادشاہ کے تعلقات اس قدر نازک،مشتبہ اورپیچیدہ ہوتے ہیں کہ اگر وضاحت کے ساتھ ان کا اعلان نہ کردیاجائے تو رعایا کے تمام حقوق ومطالبات پامال ہو جائیں، یہی وجہ ہے کہ ظالم سلطنتیں ان حقوق سے رعایا کو عموما ًناواقف رکھنا چاہتی ہیں اوران کا تفصیلی اعلان تو عادل سے عادل سلطنت بھی نہیں کرتی، لیکن صحابہ کرام دنیا میں معیار عدل کے قائم کرنے کے لئے آئے تھے، اس لئے انہوں نے اپنے دور خلافت میں نہایت بلند آہنگی کے ساتھ ان حقوق کا اعلان کیا ؛چنانچہ حضرت عمرؓ نے خاص اس موضوع پر ایک خطبہ دیا جس میں نہایت تفصیل کے ساتھ خلیفہ رعایا کے حقوق واختیارات بتائے،انہوں نے فرمایا: صاحبو!کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ معصیت الہی میں اس کی اطاعت کی جائے، صرف تین طریقے ہیں جن کے اختیار کرنے سے یہ مال مالِ صالح ہوسکتا ہے، یہ کہ حق کے ساتھ وصول کیا جائے (یعقوبی مطبوعہ یورپ ،جلد۲،صفحہ۱۷۶)حق میں صرف کیا جائے اورناجائز طریقے سے اس کو نہ خرچ کیا جائے، میری اورتمہارے مال کی مثال یتیم کے ولی کی مثال ہے، اگر میں متمول ہونگا تو اس کے لینے سے احتراز کرونگا اوراگر محتاج ہونگا تو نیکی کے ساتھ اس کو بقدر ضرورت اپنے اوپر صرف کرونگا،میں کسی کو یہ موقع نہ دونگا کہ وہ کسی پر ظلم کرےاگر کسی نے ایسا کیا تو میں اس کے چہرے کو اپنے پاؤں سے مسل دونگا کہ راہ حق پر آجائے۔ مجھ پر تمہارے چند حقوق ہیں جن کو میں اس لئے بیان کرتا ہوں کہ تم مجھ سے ان کا مطالبہ کرسکو،میرا فرض ہے کہ میں خراج اور خمس کا مال جائز طریقہ سے وصول کروں ،میرا فرض ہے کہ جب وہ مال میرے ہاتھ میں آجائے تو اسی کے مصارف صحیحہ میں صرف کروں ،میرا فرض ہے کہ تمہارے وظائف کو بڑھاؤں اورسرحد کی حفاظت کروں اورمیرا فرض ہے کہ تم کو خطرے میں نہ ڈالوں۔ لیکن ان حقوق کی عملی تشکیل زیادہ تر امراء وعمال کے ہاتھ میں تھی اس لئے ان کو مخاطب کرکے فرمایا۔ اچھی طرح سن لو میں نے تم کو ظالم وجبار بنا کر نہیں بھیجا میں نے تم کو ائمہ ہدی بنا کر بھیجا ہے کہ لوگ تمہارے ذریعہ سے سیدھی راہ پائیں پس فیاضی کے ساتھ مسلمانوں کے حقوق دو، نہ ان کو مارو کہ وہ ذلیل ہوجائیں ،نہ ان کی مدح وستایش کرو کہ ان کو تمہارے ساتھ گرویدگی پیدا ہو، نہ ان کے سامنے اپنے دروازے بند رکھو کہ قوی ضعیف کو نگل جائے، اپنے آپ کو ان پر ترجیح دے کر ان پر ظلم نہ کرو، ان کے ساتھ جہالت سے نہ پیش آؤ، ان کے ذریعہ سے کفار کے ساتھ جہاد کرو؛ لیکن اس معاملہ میں ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو، اگر وہ تھک جائیں تو رک جاؤ، لوگو تم گواہ رہو کہ میں نے ان امراء کو صرف اس لئے بھیجا ہے کہ لوگوں کو دین کی تعلیم دیں، ان پر مال غنیمت تقسیم کریں ان کے مقدمات کے فیصلے کریں اوراگر کوئی مشکل مسئلہ پیش آجائے تو اس کو میرے سامنے پیش کریں۔ (کتاب الخراج للقاضی ابی یوسف ،صفحہ،۶۷) مشورہ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کی یہ خصوصیت بتائی ہے۔ امرھم شوری بینھم ان کے تمام کام مشورے سے چلتے ہیں اورصحابہ کرام کا دورخلافت اس آیت کی عملی تفسیر تھا، حضرت ابوبکرؓ سیاست کی مہمات مسائل کے علاوہ مقدمات کا فیصلہ بھی مشورہ کے بغیر نہیں کرتے تھے، مسند دارمی میں ہے۔ کان ابوبکر اذا ورد علیہ الخصم نظر فی کتاب اللہ ثم فی السنۃ ثم استشار المومنین (کتاب الخراج للقاضی ابی یوسف،صفھہ۳۲،۳۳) حضرت ابوبکرؓ کے پاس جب کوئی فریق مقدمہ لے کر آتا تو پہلے کتاب و سنت پر نظر ڈالتے ،پھر تمام مسلمانوں سے مشورہ لیتے۔ انہوں نے مہاجرین وانصار کی ایک مجلس شوریٰ قائم کی تھی، جس میں حضرت عمرؓ حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ، حضرت معاذ بن جبلؓ، حضرت ابی بن کعبؓ ،حضرت زید بن ثابتؓ، لازمی طورپر شریک کئے جاتے تھے، (کنز العمال ،جلد۳،صفحہ ۱۳۴،بحوالہ طبقات ابن سعد) یہی مجلس شوری تھی جس کو حضرت عمرؓ نے دورخلافت میں نہایت وسیع نہایت باضابطہ اورنہایت مکمل کردیا، لیکن حضرت عمرؓ کے زمانے میں فتوحات کی کثرت اورملک کی وسعت کی بنا پر اس قدر کثرت سے بحث طلب مسائل پیدا ہوئے کہ ان کے لئے ایک دوسری مجلس کی ضرورت پیش آئی، اس لئے انہوں نے مسجد نبویﷺ میں ایک دوسری مجلس شوریٰ قائم کی جس میں صرف مہاجرین شریک ہوتے تھے۔ چنانچہ علامہ بلاذری فتوح البلدان میں لکھتے ہیں: کان للمھاجرین مجلس فی المسجد فکان عمر یجلس معھم فیہ ویحدثھم عمانیتھی الیہ من امرالافاق (فتوح البلدان،صفحہ ۲۷۶) مسجد نبوی میں مہاجرین کی ایک مجلس قائم تھی جس میں حضرت عمرؓ ان معاملات کے متعلق گفتگو کرتے تھے، جو ان کی خدمت میں اطراف ملک سے پیش ہوتے تھے۔ ان مجالس کے ذریعہ سے جو امور طئے ہوئے وہ بہ تفصیل حدیث وتاریخ کی کتابوں میں مذکور ہیں۔ نبوت وخلافت میں تفریق وامتیاز جس طرح عدم تفریق وامتیاز نے نبوت والوہیت کو ملادیا تھا اوردنیا نے انبیاء کو صفات الہی کا مظہر قراردے لیا تھا، اسی طرح اگر نبوت وخلافت میں تفریق وامتیاز قائم نہ کی جائے تو دونوں کے حدود باہم مل جائیں ،خلیفہ پیغمبر کا قائم مقام ہوتا ہے پیغمبر ہی کی طرح اس کی اطاعت فرض ہوتی ہے،خدا خود فرماتا ہے: اطیعوااللہ واطیعواالرسول واولی الامرمنکم خدا کی خدا کے رسول کی اورامراء کی اطاعت کرو۔ اس بنا پر اگر خلیفہ اورپیغمبر کی حیثیتیں الگ الگ نہ قائم کی جائیں تو کچھ دنوں میں دونوں ایک ہوجائیں اورشرک فی النبوۃ کی ایک جدید قسم پیدا ہوجائے ،صحابہ کرام نے خلافت الہی کو قائم کیا تو سب سے پہلے نبوت وخلافت میں تفریق وامتیاز قائم کرکے دنیا کو ایک عام غلط فہمی سے محفوظ رکھا،اگر کوئی شخص رسول اللہ ﷺ کو مورد سب وشتم بنائے تو اس کی سزا موت ہے اورخود آپ کے عہد مبارک میں اس کی نظیر قائم ہوچکی ہے خلیفہ کے ادب واحترام کا قائم رکھنا بھی اگرچہ امت کا فرض ہے ؛تاہم اس کو اس معاملہ میں وہ درجہ نہیں حاصل ہوسکتا جو رسول اللہ ﷺ کو حاصل تھا حضرت ابوبکرؓ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اس نکتہ کو سمجھا اورنبوت وخلافت میں فرق وامتیاز قائم کیا، ایک بار وہ کسی شخص کو سخت برہم ہوئے سامنے ایک دوسرے صحابی بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے تیور دیکھ کر کہا ارشاد ہو تو اس کی گردن اڑادوں غصہ فرو ہواتو ان کو بلا کر پوچھا کہ اگر میں حکم دیتا تو تم واقعی اس کو قتل کرڈالتے؟ بولے ہاں فرمایا خدا کی قسم محمد ﷺ کے بعد کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔ (ابوداؤد، کتاب الحدود ،باب الحکم، فیمن سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ) ایک بار کسی نے ان کو خلیفۃ اللہ کہا بولے میں خلیفۃ اللہ نہیں ہوں خلیفۃ الرسول ﷺہوں۔ (استیعاب تذکرہ حضرت ابوبکرؓ) خانہ جنگی سے اجتناب اخیرزمانے میں اگرچہ مسلمانوں کی تلواریں خود مسلمانوں کے خون سے سیراب ہونے لگیں؛ لیکن متعدد تربیت یافتگان عہد نبوت نے اپنے دامن کو اس کی چھینٹوں سے محفوظ رکھا ،سب سے پہلے حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں خانہ جنگی کی آگ بھڑک ، لیکن جب بعض لوگوں نے ان کوجنگ کرنے کا مشورہ دیا تو انہوں نے صاف کہہ دیا کہ مجھ سے یہ نہ ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ بنوں اورخود آپﷺ ہی کی امت کا خون بہاؤں ۔ (مسند ابن حنبل،جلد۱،صفحہ۶۷) حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے زمانہ میں یہ شعلے بلند ہوئے تو حضرت احنف بن قیسؓ ان کی حمایت کے لئے اٹھے ،اتفاق سے حضرت ابوبکرہؓ سے ملاقات ہوگئی انہوں نے ان کو روکا اورکہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر دو مسلمان باہم جنگ کریں تو دونوں جہنمی ہیں۔ (بخاری کتاب الایمان باب المعاصی من امرالجاہلیۃ) جنگ صفین میں حامیان علیؓ نے جب حضرت سہل بن حنیفؓ پر الزام لگایا کہ وہ جنگ کرنے میں لیت ولعل کرتے ہیں تو بولے ہم نے جب کسی مہم کے لئے کندھے پر تلوار رکھی تو خدانے اس مشکل کو آسان کردیا، البتہ یہ جنگ ایسی ہے کہ ہم مشک کا ایک منہ بند کرتے ہیں، تودوسرا کھل جاتا ہے (یعنی ایک کے طرفدار ہوکر لڑتے ہیں تو فریق مخالف بھی مسلمان ہوتا ہے جس سے جنگ کرنا ناجائز ہے) کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس میں کیونکر شریک ہوں۔ (بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الحدبیۃ) حجاج وابن زبیرؓ کے زمانہ میں خانہ جنگی ہوئی توحضرت عبداللہ بن عمرؓ کے پاس دوشخص آئے اورکہا کہ لوگ تباہ ہوگئے،آپ عمرؓ کے بیٹے اوررسول اللہ ﷺ کے صحابی ہیں، آپ کیوں نہیں اٹھتے بولے اس لئے کہ خدانے میرے بھائی کا خون حرام کردیا ہے دونوں نے کہا کہ خدا تو خود کہتا ہے۔ فقاتلوھم حتی لاتکون فتنۃ جہاد کروتاکہ فتنہ وفساد نہ ہونے پائے۔ بولے اتنا تو ہم لڑچکے کہ فتنہ دب گیا اوردین خدا کے سوا دوسرے کا ہوجائے۔ (بخاری کتاب التفسیر باب قولہ قاتلو ہم حتی لا تکون فتنۃ) متعدد صحابہ ایسے تھے جو نہ صرف خود الگ رہتے تھے بلکہ دوسروں کو بھی اس خانہ جنگی سے الگ رکھنا چاہتے تھے،چنانچہ حجاج اورحضرت ابن زبیر ؓ میں جنگ ہوئی تو حضرت جندب بن عبداللہ بجلیؓ نے عسعس بن سلامہ کے پاس قاصد بھیجا کہ تم لوگوں کو جمع کرو میں ان کے سامنے ایک حدیث بیان کرونگا ،لوگ جمع ہوئے تو فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک سریہ بھیجا ،مقابلہ ہوا تو حضرت اسامہ بن زیدؓ نے ایک کافر پر تلوار ماری، اس نے فورا ًکلمہ پڑھ لیا؛ لیکن انہوں نے اس کا کام تمام کردیا، آپ ﷺکو معلوم ہوا تو وہ ہزار عذر کرتے رہے؛لیکن آپ یہی کہتے رہے کہ قیامت کے دن اس کے لاالہ الا اللہ کا کیا جواب دوگے۔ (مسلم کتاب الایمان باب الدلیل علی ان من بات لایشرک بااللہ شیئا دخل الجنۃ وان مات مشرکا دخل النار) عمروبن سعید یزید کی جانب سے مدینہ کا گورنر تھا حجاج اورعبداللہ بن زبیرؓ کے درمیان جنگ ہوئی تو اس نے مکہ کو فوج بھیجنا چاہی؛لیکن حضرت ابوشریح انصاریؓ نے کہا کہ اگر اجازت ہو تو وہ حدیث بیان کروں جس کا آپ نے فتح مکہ کے دن اعلان کیا تھا، آپ نے فرمایا تھا کہ مکہ کو خدا نے حرم بنایا ہے، نہ کہ آدمیوں نے اس لئے کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ اس میں خون بہائے اگر عمروبن سعید نے اس حدیث پر عمل کیا ہوتا تو اس آگ کے ایندھن میں کم از کم بہت کچھ کمی آجاتی ؛لیکن اس نے کہا، مجھے تم سے زیادہ اس کا علم ہے ،مکہ نافرمانوں اورخونیوں کو اپنے دامن میں پناہ نہیں دے سکتا۔ (بخاری کتاب العلم یبلغ العلم الشاہد الغائب) جب ابن زیاد اورمروان نے شام میں اورحضرت ابن زبیرؓ نے مکہ میں اور قراء نے بصرہ میں یہ طوفان اٹھایا تو بعض لوگ حضرت ابوبرزہ اسلمیؓ کے پاس آئے اوراس پر افسوس ظاہر کیا، بولے مجھے قریش پر سخت غصہ آتا ہے، اےگر وہ عرب تم جس ذلت جس گمراہی اورجس افلاس میں مبتلا تھے وہ تم کو معلوم ہے،پھر خدانے تم کو اسلام اورمحمد ﷺ کے ذریعہ سے نجات دلائی، یہاں تک کہ اس درجہ کو پہونچے اب دنیا نے پھر تم کو برباد کردیا یہ جو کچھ شام میں ہورہا ہے،خدا کی قسم وہ صرف دنیا کے لئے ہے۔ (بخاری کتاب الفتن) اگر رعایا میں کسی قسم کی بے چینی اور اضطراب کے اثار نمایاں ہوتے تو قبل اس کے کہ چنگاریاں بھڑکیں صحابہ کرام پندونصیحت کے چھینٹوں سے ان کے بجھانے کی کوشش کرتے ،حضرت مغیرہ بن شعبہؓ حضرت امیر معاویہؓ کی جانب سے کوفہ کے گورنرتھے، ان کا انتقال ہوا تو رعایا میں بے چینی کے آثار نمودار ہوئے، حضرت جریر بن عبداللہ نے اسی وقت ایک خطبہ دیا، جس کے الفاظ یہ ہیں۔ علیکم باتقاء للہ وحدہ لاشریک لہ والوقاروالسکینۃ حی یا تیکم امیر فانما یا تیکم الآن استعفعوا لا میر فانہ کان لیحب العفو (بخاری کتاب الایمان با قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم الدین نصیحۃ) تمہارے لئے اس حالت میں تقویٰ وقار اورسکون لازم ہے،یہاں تک کہ دوسرا امیر آئے، اوروہ آنے والا ہے، اپنے امیر کو معاف کرو،کیونکہ وہ معافی کو دوست رکھتا ہے۔ متعدد صحابہ نے اس کشمکش سے الگ ہوکر عزلت گزینی اختیار کرلی تھی، حضرت ابن الخنطلیہؓ دنیا سے قطع تعلق کرکے دمشق میں گوشہ نشین ہوگئے تھے اورشب وروز نماز اورتسبیح و تہلیل میں مصروف رہتے تھے۔ (ابوداؤد کتاب اللباس باب ماجاء فی اسبال الزار) حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد حضرت سلمہؓ بن اکوعؓ ربذہ میں چلے گئے اور عمر بھر وہیں مقیم رہے، صرف وفات سے دوچار روز پیشتر مدینہ میں آگئے تھے، وہاں انہوں نے شادی بھی کرلی تھی اوراولاد بھی ہوئی تھی ،ایک بار حجاج نے ان سے کہا کہ اس گوشہ گیری نے تم کو دائرہ اسلام سے خارج کردیا، بولے نہیں مجھ کو رسول اللہ ﷺ نے اس کی اجازت دی تھی۔ (بخاری کتاب الفتن باب التعرب فی الفتنہ) حضرت سعد بن وقاصؓ نے اگرچہ عمر بھر فوجی زندگی بسر کی تھی، تاہم حضرت عثمان کی شہادت کے بعد جب خانہ جنگی ہوئی تو اس میں بالکل حصہ نہیں لیا اورخانہ نشین ہوگئے ،ان کے لڑکے اوربھائی نے ترغیب دی کہ خود دعویٰ خلافت کریں، حضرت امیر معاویہ ؓ نے اعانت کی خواہش کی لیکن وہ اپنے گوشہ عزلت سے نہیں نکلے۔ (اسد الغانہ تذکرہ حضرت سعد بن وقاصؓ ) حضرت سعید بن عاصؓ نے بھی فتنہ کے خوف سے بالکل عزلت گزینی اختیار کرلی اورجنگ صفین و جمل کسی میں شریک نہیں ہوئے۔ (اسد الغابہ تذکرہ حضرت سعید بن عاصؓ) چنانچہ حضرت ہبیبؓ اس زمانہ میں مصر کے ایک وادی میں گوشہ نشین ہوگئے اوروہیں وفات پائی،چنانچہ ان کے انتساب سے اس کا نام وادی ہبیب پڑگیا۔ (حسن المحاضرہ،جلداول ،صفحہ۱۰۰) یزید بن معاویہؓ نے حضرت ابواشعث صنعانیؓ کو حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے مقابلہ کے لئے بھیجا تو وہ مدینہ میں ایک صحابی کے یہاں اترے اوران سے کہا کہ اس فتنہ کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟بولے میرے دوست ابوالقاسم ﷺ نے مجھے وصیت کی ہے کہ اگر اس قسم کے واقعات پیش آئیں تو احد پر جاکر اپنی تلوار توڑ ڈالو اورخانہ نشین ہوجاؤ اگر کوئی جنگجو تمہارے گھر میں گھس آئے تو بستر پر چلے جاؤ اگر بستر کی طرف بھی بڑے تو گھٹنوں کے بل بیٹھ جاؤ اورکہو کہ اپنے اورمیرے دونوں کے گناہوں کا وبال اپنے سر پر لو اوردوزخ میں چلے جاؤ اس لئے میں نے تلوار توڑڈالی ہے اورخانہ نشین ہوگیا ہوں۔ (مسند ابن حنبل ،جلد۴صفحہ۲۲۶) اطاعت خلفاء معصیت الہی کے سواہر موقع پر صحابہ کرام کی گردنیں خلفاء کے سامنے جھک جاتی تھیں،صحابہ کرام کے لئے روایت حدیث سے زیادہ محبوب اورواجب العمل کوئی کام نہ تھا،تاہم جب حضرت عمارؓ نے حضرت عمرؓ کے سامنے ایک حدیث بیان کی اورانہوں نے اس پر ٹوکدیا، تو کمال اطاعت گذاری کے لہجے میں بولے کہ "اے امیر المومنین اگر آپ فرمائیں تو میں کبھی اس حدیث کی روایت نہ کروں۔ (ابوداؤد کتاب الطہارۃ، باب التیمم) ایک بار حضرت ابوبکرؓ ایک شخص پر سخت برہم ہوئے،سامنے ایک صحابی بیٹھے ہوئے تھے، بولے ارشاد ہو تو اس کی گردن اڑادوں غصہ فرو ہوا تو پوچھا کہ اگر میں حکم دیتا تو تم واقعہ اس کو قتل کرڈالتے؟ بولے ہاں۔ (ابوداؤد کتاب الحدود باب الحکم فیمن سب النبی ﷺ) ایک بار حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے حج کے متعلق لوگوں کو فتویٰ دیا؛لیکن ایک آدمی نے کہا ابھی آپ ٹھہرجائیے،کیونکہ امیر المومنین(حضرت عمرؓ) نے دوسرا تغیر کیا ہے، انہوں نے فوراً لوگوں سے کہا کہ میں نے جو فتویٰ دیا ہے اس پر عمل نہ کرو، امیر المومنین آرہے ہیں ،ان کی اقتداء کرو۔ (نسائی کتاب الحج باب ترک التسمیۃ عند الاہلال) حضرت ابوذرؓ اورامیر معاویہؓ میں ایک آیت کے متعلق اختلاف ہوا اوریہ اختلاف اس قدر بڑھا کہ امیر معاویہؓ نے حضرت عثمان کی خدمت میں ان کی شکایت کی، انہوں نے ان کو بلوا بھیجا اورکہا کہ اگر آپ دمشق سے منتقل ہوکر ربذہ میں آجاتے تو ہم سے قریب تر ہوجاتے، انہوں نے بخوشی ان کی اطاعت کی اورربذہ میں آکر مقیم ہوگئے، وہ خود فرماتے ہیں۔ ولوامرواعلی جشیا سعت واطعت (بخاری کتاب الزکوٰۃ باب مادی زکوتہ) اگرلوگ مجھ پر حبشی کو بھی امیر بناتے تو میں اس کی اطاعت کرتا۔ حضرت عمرؓ نے ایک انصاریہ سے نکاح کیا ،اس سے بچہ پیدا ہوا، اس کے بعد طلاق دیدی، ایک دن قبا میں آئے دیکھا کہ بچہ کھیل رہا ہے اٹھا کر اپنے سامنے اونٹ پر بٹھا لیا، لڑکے کی نانی آئی اوربچے کو چھیننا چاہا، معمہ حضرت ابوبکرؓ صدیقؓ کی خدمت میں پیش ہوا تو حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا بچے کو عورت کے حوالے کردو حضرت عمرؓ چپ چاپ چلے گئے اورکچھ جواب نہ دیا۔ (موطا امام مالک تکاب الاقضیہ باب ماجاء فی المونث من الرجال ومن احق بالولد) بنوامیہ نے اسلام کے نظام سلطنت کو بہت کچھ بدل دیا تھا، تاہم حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے عبدالملک بن مروان کو ایک خط میں لکھا کہ جہاں تک ممکن ہوگا میں تمہاری اطاعت سے دریغ نہ کرونگا۔ (موطا امام مالک کتاب الجامع باب ماجاء فی البیعۃ) یہ اطاعت صرف خلفاء کی زندگی ہی تک محدود نہ تھی بلکہ ان کی وفات کے بعد بھی اس کا اثر ظاہر ہوتا تھا۔ ایک جذامی عورت (غالبا صحابیہ ہوگی) خانہ کعبہ کا طواف کررہی تھی، حضرت عمربن الخطابؓ کا گذر ہوا تو فرمایا لوگوں کو اذیت نہ دو، گھر میں جاکے بیٹھو،وہ جاکر خانہ نشین ہوگئی ،حضرت عمرؓ کا انتقال ہوا تو ایک شخص نے جاکر کہا ،تمہارا روکنے والا تو مرگیا، اب گھر سے باہرنکلو، بولی میں ایسی نہیں ہوں کہ زندگی میں ان کی اطاعت اورمرنے کے بعد نافرمانی کروں۔ (موطا امام مالک کتاب الحج باب جامع الحج) جب تمام اہل مدینہ نے یزید بن معاویہ کی بیعت کو فسخ کردیا تو حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اپنے اہل وعیال اورنوکر چاکر سب کو جمع کیا اورکہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ غدر کرنے والوں کے لئے قیامت کے دن جھنڈا قائم کیا جائے گا، ہم نے اس شخص کے ہاتھ پر اللہ اور رسول اللہ کے لئے بیعت کی ہے اور میرے خیال میں اس سے بڑھ کر غدر نہیں ہوسکتا کہ ایک شخص کے ہاتھ پر اللہ اور رسول اللہ کے لئے بیعت کی جائے اورپھر اس سے جنگ کی جائے جس شخص نے اس کی بیعت کو فسخ کیا ہے میرے اوراس کے درمیان کوئی تعلق نہیں۔ (بخاری کتاب الفتن باب اذا قال عند قوم شیئا ثم خرج فقال بخلافہ) لاطاعۃ فی معصیۃ اللہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی کا مقصد چونکہ خلافت الہی کو دنیا کے لئے منبع خیر و برکات بنانا تھا، اس لئے آپ نے اطاعت امرا ءکی ایک خاص حد مقرر فرمادی تھی اورمعاصی ومنکرات کو اطاعت کے دائرہ سے الگ رکھا تھا اورایک موقع پر صاف صاف فرمادیا تھا کہ اطاعت کا تعلق صرف نیک کاموں سے ہے۔ (بخاری کتاب المغازی) صحابہ کرام نے اطاعت خلفاء کے متعلق ہمیشہ اسی اصول پر عمل کیا یہی وجہ ہے کہ ان کے عہد میں خلفاء جادۂ اعتدال سے سرموتجاوز نہ کرسکے، ایک بار حضرت عمرؓ نے منبر پر چڑھ کے کہا، صاحبو! اگر میں دنیا کی طرف جھک جاؤں تو تم لوگ کیا کروگے؟ ایک شخص وہیں کھڑا ہوگیا اور تلوار میان سے کھینچ کر بولا تمہارا سراڑادیں گے، حضرت عمرؓ نے اس کے آزمانے کوڈانٹ کر کہا تو میری شان میں یہ لفظ کہتا ہے اس نے کہا ہاں تمہاری شان میں بولے الحمد اللہ قوم میں ایسے لوگ موجود ہیں کہ میں کج ہونگا تو مجھے سیدھا کردیں گے۔ خلفائے راشدینؓ کے بعد جب خلافت نے سلطنت کا قالب اختیار کرلیا، تو اس وقت بھی صحابہ کرام نے اس اصول کو محفوظ رکھا اورامراء کے ناجائزاحکام کے سامنے اپنی گردن خم نہ کی۔ ایک بار مدینہ کے ایک مروانی گورنر نے حضرت سہل بن سعدؓ کی زبان سے حضرت علیؓ کو برا بھلا کہلوانا چاہا؛ لیکن انہوں نے صاف انکار کردیا۔ (مسلم کتاب الفضائل باب من فضائل علی ابن ابی طالبؓ) ایک بار حضرت عبادہ بن الصامتؓ نے حضرت امیر معاویہؓ کی علانیہ مخالفت شروع کی انہوں نے حضرت عثمانؓ کو لکھ بھیجا کہ عبادہ نے شام میں سخت فتنہ و فساد پھیلا رکھا ہے ،آپ ان کو بلا لیجئے، ورنہ میں ان کو جِلا وطن کردونگا، انہوں نے ان کو مدینہ میں بلالیا اورپوچھا کہ کیا معاملہ ہے ،بولے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ میرے بعد کچھ امرا ءہونگے، جو بدی کو نیکی اورنیکی کو بدی بنائیں گے، اس لئے جو لوگ خدا اورخدا کے رسول ﷺ کی نافرمانی کرتے ہیں ان کی اطاعت نہیں کرنی چاہئے۔ (مسند احمد بن حنبل،جلد۵،صفحہ۳۲۵) ایک بار حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص مسجد میں حدیث بیان کررہے تھے، حضرت عبدالرحمن ؓ ابن عبدرب الکعبہ آئے اورحلقہ میں شامل ہوگئے، جب وہ روایت کرچکے تو بولے کہ آپ کا بھتیجا معاویہ ہم کو حکم دیتا ہے کہ باہم ناجائز طورپر اپنا مال کھائیں اوراپنے بھائیوں کو قتل کریں، حالانکہ خدا وند تعالی فرماتا ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا۔ (النساء:۲۹) مسلمانو اپنے مال باہم ناجائز طورپر نہ کھاؤ بجز اس صورت کے جب تم میں باہم رضا مندی کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم ہوں اوراپنے آپ کو قتل نہ کرو خدا تم پر مہربان ہے۔ بولے خدا کی اطاعت میں ان کی اطاعت اورخدا کی نافرمانی میں ان کی نافرمانی کرو۔ (مسلم کتاب الامارۃ باب الامربالوفاء بیقہ الخلفاء الاول فالاول) حضرت معاویہؓ نے یزید کے ہاتھ پر بیعت لینا چاہی تو حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر نے سخت مخالفت کی اورکہا کی ہر قل کی سنت جاری کی جائے گی کہ جب ایک قیصر مرے گا تو دوسرا قیصر اس کا جانشین ہوگا، خدا کی قسم ہم ایسا نہیں کریں گے، امیر معاویہؓ نے ان کو دولت و مال دیکر ہموار کرنا چاہا اوراس غرض سے ان کی خدمت میں لاکھ روپے بھیجے ؛لیکن انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ میں دین کو دنیا کے بدلے میں نہیں بیچ سکتا۔ (اصابہ تذکرہ عبدالرحمان بن عبداللہ) سلاطین وامراء کی عملی مخالفت صحابہ کرام کے دل میں خدا اوررسول ﷺ کے سوا کسی کا خوف نہ تھا اس لئے وہ امرا وسلاطین کی دلیرانہ مخالفت کرتے تھے اورجو چیز اصول اسلام اورسنت نبوی کے خلاف ہوتی تھی اس سے ان کو روکتے رہتے تھے، حضرت عثمانؓ نے مسجد نبویﷺ کا قدیم نقشہ بدلنا چاہا تو تمام صحابہ نے عام مخالفت کی یہاں تک کہ ان کو ایک عام مجمع میں تمام صحابہ کو ہموار کرنا پڑا۔ (مسلم کتاب الصلوٰۃ باب فضل بناء المسجد) اخیر زمانہ میں جب خلافت نے حکومت کی شکل اختیار کرلی اس وقت بھی صحابہ کرام نے اس جوہر کو محفوظ رکھا۔ ایک بار حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے عرفات میں کہا کہ لوگ تلبیہ کیوں نہیں کہتے؟ حضرت سعید بن جبیرؓ ساتھ تھے بولے کہ معاویہ کا خوف مانع ہے، یہ سننے کے ساتھ ہی خیمے سے نکلے اور تین بار لبیک کہا اورفرمایا کہ علی کے بغض سے انہوں نے سنت کو چھوڑدیا ہے۔ (نسائی کتاب الحج باب التلبیہ بعرفۃ) مروان مدینہ کا گورنرتھا، ایک بار حضرت ابوسعید خدریؓ نماز پڑھ رہے تھے،مروان کا لڑکا سامنے سے گذرا اورانہوں نے پہلے اس کو ہٹایا وہ نہ ہٹا تو مارا، وہ روتا ہوا مروان کے پاس آیا مروان نے ان سے کہا اپنے بھتیجے کو کیوں مارا؟ بولے میں نے اس کو نہیں بلکہ شیطان کو مارا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے اگر کوئی شخص حالت نماز میں کسی کے سامنے سے گذرجائے تو پہلے اس کو ہٹائے اگر نہ ہٹےتو اس سے مقاتلہ کرے ؛کیونکہ وہ شیطان ہے۔ (نسائی کتاب الدیات والقصاص باب من اقتص حقہ دون السلطان وبخاری کتاب الصلوۃ بخاری میں ہے شبا ب من بنی ابی معیط) ایک دن جمعہ کے روز مروان خطبہ دے رہا تھا، حضرت ابوسعید خدریؓ آئے اورکھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگے، پولیس نے بٹھا نا چاہا؛ لیکن وہ نہ بیٹھے ،لوگوں نے کہا خدا نے رحم کیا ورنہ وہ آپ کے ساتھ سختی سے پیش آنے والے تھے، انہوں نے کہا جب میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایسا کرتے دیکھ چکا ہوں تو ان دورکعتوں کو نہیں چھوڑ سکتا، آپ خطبہ دے رہے تھے کہ ایک آدمی آیا، آپ ﷺنے اسی حالت میں دورکعت پڑھنے کا حکم دیا۔ (ترمذی ابواب المعہ باب فی الرکعتین اذا جاء الرجل والامام یخطب) تشتت واختلاف سے اجتناب صحابہ کرام اگرچہ آزادی کی بنا پر خلفاء سے مناظرہ کرتے تھے مباحثہ کرتے تھے ،ردوقدح کرتے تھے، اختلاف کرتے تھے، لیکن اختلاف کو قائم نہیں رکھتے تھے، ایک بار حضرت عثمانؓ نے منٰی میں چاررکعت نماز پڑھی، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اختلاف کیا اورکہا میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ یہاں دورکعت نماز پڑھی،حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ دورکعت نماز پڑھی، حضرت عمرؓ کے ساتھ دورکعت نماز پڑھی، اس کے بعد تم نے اورراستے اختیار کرلئے ہیں، میں تو چاررکعت پر دوہی رکعت کو ترجیح دیتا ہوں؛ لیکن اس کے بعد خود چاررکعت ادا کی ،لوگوں نے کہا یہ کیا؟ ابھی تو آپ نے حضرت عثمانؓ پر ردوقدح کی اورپھر چارکعت نماز پڑھتے ہیں بولے اختلاف بری چیز ہے۔ (ابوداؤد کتاب المناسک باب الصلوۃ بمنیٰ) حضرت عبداللہ بن عمرؓ اگرچہ بے حد متبع سنت تھے اوراس وجہ سے جب منٰی میں تنہا نماز پڑھتے تھے تو قصر کرتے تھے، لیکن جب امام کے ساتھ نماز کا اتفاق ہوتا تو اختلاف کے خوف سے چار ہی رکعت ادا فرماتے تھے۔ (مسلم کتاب الصلوٰۃ باب قصر الصلوٰۃ بمنی) صحابہ کرام اختلاف وتشتت سے اس قدر ڈرتے تھے کہ جن احادیث سے مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہوسکتا تھا اس کی روایت سے بھی احتراز فرماتے تھے، رسول اللہ ﷺ نے جن صحابہ کی نسبت ناراضی کے کلمات فرمائے تھے ان کو حضرت حذیفہؓ مدائن میں بعض لوگوں سے بیان کرتے تھے تو وہ لوگ حضرت سلمانؓ کے پاس آکر ان کی تصدیق کرنا چاہتےتھے ؛لیکن وہ یہ کہہ کر ٹال دیتے تھے کہ حذیفہ ہی کو ان کا علم ہے، حضرت حذیفہؓ کو معلوم ہوا تو وہ ان کے پاس آئے اورکہا کہ آپ میری روایتوں کی تصدیق کیوں نہیں کرتے؟ بولے کہ رسول اللہ ﷺ کبھی کبھی خفا ہوجاتے تھے اورناراضی کی حالت میں اپنے اصحاب کو کچھ کہہ دیا کرتے تھے تو آپ ان کے ذریعہ سے دلوں میں بعض اصحاب کو بغض اوربعض اصحاب کی محبت پیدا کرتے ہیں اوراختلاف وتفریق کا سبب بنتے ہیں، اگر آپ ان کی روایت سے باز نہ آئیں گے تو میں حضرت عمرؓ کو لکھوں گا۔ (ابوداؤد کتاب السنۃ باب فی انہی من سب اصحاب رسول اللہ ﷺ) حقوق طلبی جس طرح سلطنت کا فرض حقوق کا دینا ہے اسی طرح رعایا کا فرض حقوق کا لینا ہے ،جب کسی نظام حکومت میں یہ دونوں عنصر شامل ہوجاتے ہیں تو میزان عدل کے پلے برابر ہو جاتے ہیں ،صحابہ کرام کے عہد میں خلافت جن عادلانہ اصول پر قائم رہی، اس کا سبب انہی دونوں عناصر کا اجتماع تھا، صحابہ کرام اگرچہ نہایت بے نیاز تھے ؛تاہم سلطنت سے اپنے پورے حقوق کے لینے میں دریغ نہیں کرتے تھے، ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے مال خمس میں سے اہل بیت کا حق دیا؛ لیکن ان کو کمی معلوم ہوئی تو سب نے لینے سے انکار کردیا۔ (ابوداؤد کتاب الخراج وارلامارۃ باب فی بیان مواضع قسم الخمس وسہم ذی القربی) صحابہ کرام نہ صرف اپنے حقوق لیتے تھے؛ بلکہ جو گروہ ضعیف ہوتا تھا اس کے حقوق بھی طلب کرتے تھے، عہد نبوت میں آزاد شدہ غلاموں کا ایک لاوارث اوربیکس گروہ تھا، اس لئے جب کہیں سے مال آتا تو آپ سب سے پہلے اسی کس مپرس گروہ کو حصہ دیتے تھے، آپ کے بعد جب دفتر قائم ہوا اورتمام وظیفہ خواروں کے نام لکھے گئے تو یہ گروہ بالکل نظر انداز کردیا گیا،حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے ان کے حقوق کا مطالبہ کیا، اورخود حضرت امیر معاویہؓ کے دربار میں جاکر ان کے وظیفے طلب کئے۔ (ابوداؤد کتاب الخراج والامارۃ باب فی قسم الفی)