انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ۲۔ابراہیم بن یزید النخعیؒ نام ونسب ابراہیم نام،ابو عمران کنیت ،نسب نامہ یہ ہے،ابراہیم بن یزید بن اسود بن عمروبن حارثہ ابن سعد بن مالک بن نخع نخعی ،نخع قبیلہ مذحج کی ایک شاخ تھا اورکوفہ میں آباد تھا۔ فضل وکمال فضل وکمال کے لحاظ سے ابراہیم نخعی کوفہ کے ممتاز ترین تابعین میں تھے ان کا گھرانا علم و عمل کا گہوارہ تھا،ان کے چچا علقمہ اورماموں اسودونوں کوفہ کے ممتاز محدثین میں تھے،ابراہیم نے انہی کے دامن میں پرورش پائی،علقمہ کا حلقہ درس اتنا وسیع تھا کہ محمد بن سیرین جیسے اکابر اس میں شریک ہوتے تھے،ابراہیم بھی اسی حلقہ کے فیض یافتہ تھے (ابن سعد:۶/۱۹) اس کے علاوہ علقمہ اوراسود کے سلسلہ سے ابراہیم کو اس عہد کی بڑی بڑی ممتاز ہستیوں سے ملنے کا اتفاق ہوتا تھا؛چنانچہ بچپن میں وہ حضرت عائشہؓ کی خدمت میں آتے جاتے تھے،ابو معشر کا بیان ہے کہ ابراہیم رسول اللہ ﷺ کی بعض ازواج (حضرت عائشہؓ)کے پاس آتے جاتے تھے،ایوب نے اعتراض کیا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے،انہوں نے جواب دیا کہ بچپن میں بلوغ کے پہلے اپنے چچا اورماموں علقمہ اوراسود کے ساتھ حج کو جاتے تھےاور ان لوگوں کو ام المومنین حضرت عائشہؓ سے عقیدت ورادت اور اُن کی مجلسوں میں ان صاحبوں کی آمد ورفت تھی (تہذیب التہذیب الاسمارق اول:۱/۱۰۴)گوحضرت عائشہؓ سے ابراہیم کا سماع ثابت نہیں ہے،لیکن ان کی جیسی برگزیدہ ہستیوں کی مجلس میں شریک ہوجانا ہی حصولِ برکت وسعادت کے لیے کافی تھا۔ ان بزرگوں کے فیضِ صحبت نے ابراہیم کا دامن دولتِ علم سے مالا مال کردیا تھا اوروہ اپنے عہد کے ممتاز ترین علماء میں شمار ہوتے تھے،امام نووی لکھتے ہیں کہ ان کی توثیق جلالت اورفقہی کمال پر سب کا اتفاق ہے،ابوزرعہ نخعی کہتے ہیں کہ وہ اعلام اہل اسلام میں ایک علم تھے (تہذیب الاسماء ،ق۱:۱/۱۰۴) ان کو حدیث وفقہ دونوں علوم میں بڑی دست گاہ حاصل تھی۔ حدیث حدیث کے وہ ممتاز حفاظ میں تھے،حافظ ذہبی ان کو دوسرےطبقہ کے حفاظ میں شمار کرتے ہیں،حدیث میں انہوں نے اپنے دونوں ماموں اسود اور عبدالرحمن بن یزید اورمسروق علقمہ،ابو معمر،ہمام،ابن حارث ،قاضی شریح اورسہم بن منجاب وغیرہ سے استفادہ کیاتھااور اعمش ،منصور،ابن عون،زبیدالیمامی،حماد بن سلیمان اورمغیرہ بن مقسم صبی وغیرہ ان کے زمرہ تلامذہ میں تھے۔ (تہذیب التہذیب:۱/۱۷۷) حدیث میں ان کے معلومات اس قدر وسیع تھے کہ اعمش کا بیان ہے کہ میں نے جب کبھی ابراہیم کے سامنے کوئی حدیث بیان کی تو انہوں نے اس حدیث کے بارہ میں میری معلومات میں اوراضافہ کردیا (ابن سعد:۶/۱۸۹) ابن معین ان کی مرسل حدیثوں کو امام شعبی کی مرسل روایات سے زیادہ پسند کرتے تھے۔ (تہذیب التہذیب:۱/۱۷۷) روایت بالمعنی روایت حدیث میں الفاظ کی پابندی ضروری نہیں سمجھتے اور بالمعنی روایت کافی سمجھتے تھے۔ (ابن سعد:۶/۱۹) انتساب رسول میں احتیاط لیکن اسی کے ساتھ وہ روایت کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ منسوب کرنے میں بڑے محتاط تھے اورمرفوع روایات کے حفظ کے باوجود انہیں روایت نہ کرتے تھے،ابوہاشم کا بیان ہے کہ میں نے ابراہیم سے پوچھا،آپ کو رسول اللہ ﷺ سے کوئی حدیث نہیں پہنچی ہے،جس کو آپ ہم سے بیان کریں،جواب دیا کیوں نہیں،لیکن عمرؓ، عبداللہؓ ،علقمہ اوراسود سے روایت کرنا اپنے لیے زیادہ آسان معلوم ہوتا ہے۔ (ایضاً) فقہ ابراہیم کا خاص فن فقہ تھا،اس فن کے وہ امام تھے،اُن کے فقہی کمال پر سب کا اتفاق ہے (تہذیب الاسماء،ق۱:۱/۱۰۴) حافظ ذہبی انہیں فقیہ عراق اورامام نوی فقیہ کوفہ لکھتے ہیں،امام شعبی نے ان کی وفات کے وقت کہا کہ ابراہیم نے اپنے بعد اپنے سے بڑا عالم اوراپنے سے بڑا فقیہ نہیں چھوڑا،لوگوں نے کہا حسن بصری اورابن سیرین بھی نہیں،شعبی نے جواب دیا نہ صرف حسن بصری اورابن سیرین ؛بلکہ اہل بصرہ کوفہ، حجاز اورشام میں کوئی بھی نہیں (تہذیب الاسماء،ق۱:۱/۱۰۲)بڑے بڑے علماء فقہی مسائل کے سائلین کو ان کے پاس بھیج دیتے تھے،سعید بن جبیر کے پاس جب کوئی فتویٰ پوچھنےکےلیے آتا تو اس سےکہتے ابراہیم کی موجودگی میں مجھ سےپوچھتےہو (ابن سعد:۶/۱۸۹) ابووائل کے پاس جب کوئی مستفتی جاتا تو اس کو ابراہیم کے پاس بھیج دیتے اوراس سے کہہ دیتے کہ وہ جو جواب دیں مجھے بتانا۔ (ایضاً:۱۹) اظہار علم سے احتراز ان کمالات کے باوجود وہ علم کا اظہار کرنا اچھا نہ سمجھتے تھے ؛چنانچہ بغیر سوال کیے ہوئے کبھی خود سے کوئی علمی تذکرہ نہ کرتے تھے (تذکرہ الحفاظ:۱/۶۴)اور سوالات سے بھی گھبراتے تھے زبید کا بیان ہے کہ جب کبھی میں نے ابراہیم سے کسی چیز کے متعلق کچھ پوچھا تو ان میں ناگواری کے آثار نظر آئے۔ (طبقات ابن سعد:۶/۱۸۹) ذمہ داری کا احساس اوراحتیاط اس کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ وہ علم کی بڑای ذمہ داری محسوس کرتے تھے ؛چنانچہ فرماتے تھے کہ ایک زمانہ وہ تھا جب لوگ قرآن کی تفسیر کرتے ہوئے ڈرتے تھے اوراب یہ زمانہ ہے کہ جس کا دل چاہتا ہے مفسربن بیٹھا ہے،مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ میں علم کے متعلق ایک کلمہ بھی منہ سے نہ نکالوں،جس زمانہ میں فقیہ ہوا وہ بہت ہی بُرا زمانہ ہے (طبقات کبریٰ امام شعرانی:۱/۷۳۶) میں نے ایسے لوگوں کو بھی دیکھا ہے کہ جب وہ مجمعوں میں ہوتے تھےتو اپنی بہترین احادیث بھی نہ بیان کرتے تھے۔ اس ذ مہ داری اوراحتیاط کی وجہ سے مسائل کے جوابات میں بڑے محتاط تھے،اعمش کا بیان ہے کہ میں نے ایک مرتبہ ابراہیم سے کہا کہ میں چند مسائل آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں،فرمایا میں یہ ناپسند کرتا ہوں کہ میں کسی شے کے متعلق کہوں کہ وہ اس طرح ہے اوروہ اس کے خلاف ہو۔ دوسراسبب یہ تھا کہ وہ شہرت اورریاء کو سخت ناپسند کرتے تھے؛چنانچہ فرماتے تھےکہ جو شخص علم کا ایک کلمہ بھی اس نیت سے منہ سے نکالتا ہے کہ اس سے لوگوں کواپنی طرف مائل کرے تو وہ اس کے وسیلہ سے سیدھا جہنم میں گرتا ہے ،نہ کہ جس کی شروع سے آخر تک یہی نیت ہو۔ (طبقات کبری امام شعرانی:۱/۳۶) استفادہ کے مخصوص اوقات لیکن اس احتیاط کے باوجود انہوں نے اپنی ذات سے استفادہ کا دروازہ بند نہیں کردیا تھا،وہ مسائل بتاتے تھے اور اس کے لیے خاص اوقات مقرر تھے جن میں ہر شخص مسائل پوچھ سکتا تھا اورآپ اس کے جواب دیتے تھے،حسن بن عبید اللہ کا بیان ہے کہ میں نے ابراہیم سے کہا کہ آپ ہم لوگوں سے حدیث نہ بیان کریں گے،جواب دیا کیا تم چاہتے ہو کہ میں فلاں شخص کی طرح ہوجاؤں ،اگر تم کو اس کی خواہش ہے تو قبیلہ کی مسجد میں آیا کرو وہاں جب کوئی شخص کچھ پوچھے گا تو تم بھی جواب سن لوگے۔ (ابن سعد:۶/۱۹۰) تحریر پر حفاظ کو ترجیح بعض قدما اوراسلاف کی طرح ابراہیم کو علم سفینہ سے زیادہ علم سینہ پر اعتماد تھا؛چنانچہ وہ لکھتے نہ تھے،فضیل کا بیان ہے کہ میں نے ابراہیم سے کہا کہ میں نے مسائل کو کتاب میں جمع کیا تھا،لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدانے اوس کو مجھ سے چھین لیا انہوں نے کہا کہ جب انسان لکھ لیتا ہے تو اس پر اس کو اعتماد ہوجاتا ہےاور جب انسان علم کی جستجو کرتا ہے تو خدا اس کو بقدر کفایت علم عطا فرماتا ہے۔ (ایضاً:۱۸۹) فضائل اخلاق اس علم کے ساتھ وہ عمل اور فضائل اخلاق کی دولت سے بھی مالا مال تھے۔ عبادت وریاضت نہایت عابد وزاہد اورمتورع تھے،راتوں کی تنہائی میں لوگوں کی آنکھوں سے چھپ کر عبادت کرتے تھے،طلحہ کا بیان ہے کہ جب لوگ سوجاتے تھے،اس وقت ابراہیم ایک عمدہ حلہ پہن کر خوشبو لگا کر مسجد چلے جاتے تھے،صبح تک وہیں رہتے،صبح کو حلہ اتار کر پھر معمولی لباس پہن لیتے تھے (ابن سعد:۶/۱۹۳) عبادت کے اثر سے بالکل چوٗر اورخستہ ہوجاتے تھے، اعمش کا بیان ہے کہ ابراہیم اکثر نماز پڑھ کر ہمارے یہاں آتے تھے،دن چڑھے تک یہ حال رہتا تھا کہ بیمار معلوم ہوتے تھے۔ (ایضاً:۱۹۵) ایک دن ناغہ دے کر پابندی کے ساتھ روزہ رکھتے تھے۔ (ایضاً:۱۹۲) صحت عقیدہ عقیدہ میں سلف کے عقائد سے سرموتجاوز کرنا پسند نہ کرتے تھے؛چنانچہ ارجاء کا عقیدہ رکھنے والوں کے جو کوئی اہم شے نہیں ہے بعض تابعین بھی اس عقیدہ کے تھے،سخت خلاف تھے،فرماتے تھے ارجاء بدعت ہے،تم لوگ ہمیشہ اس سے بچتے رہو،مرجئہ کے پاس نہ بیٹھو ان کے پاس آنے والوں میں جس کے خیالات میں ارجاء کا اونیٰ ساشائبہ بھی نظر آتا ان کو آنے سے منع کردیتے۔ (ایضاً:۱۹۰،۱۹۱) انتہائی احتیاط صلحاء اورخیارامت سے طلب دعا کی ممانعت نہیں ہے اوراس پر صحابہ اورتابعین کا عمل بھی رہا ہے،لیکن چونکہ اس سے بعض بدعات کا دروازہ کھلتا ہے اور عوام کے عقیدوں میں اس سے ضعف پیدا ہوتا ہے،اس لیے اسے بھی پسند نہ کرتے تھے،ایک مرتبہ ایک شخص نے آپ سے درخواست کی کہ ابو عمران دعا کیجئے کہ خدا مجھے شفا عطا فرمائے ،ان کو یہ درخواست گراں گزری اوراس شخص سے کہا کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے حذیفہ سے مغفرت کی دعا کی درخواست کی انہوں نے دعا کے بجائے کہا کہ خدا تمہاری مغفرت نہ فرمائے،یہ سن کر وہ شخص الگ ہٹ گیا تھوڑی دیر کے بعد حذیفہ نے اس کو بلا کر دعا کی کہ خدا تم کو حذیفہؓ کی جگہ داخل کرے اس دعا کے بعد اس شخص کو بلاکر پوچھا کہ اب تم راضی ہو،تم میں سے بعض اشخاص ایک شخص کے پاس اس عقیدہ کے ساتھ جاتے ہیں کہ اس نے تمام مراتب حاصل کرلیے ہیں اوروہ کوئی بلند ہستی بن گیا ہے یہ واقعہ سنا کر ابراہیم نے سنت کا تذکرہ کرکے اس کی پابندی کی تلقین کی اوربدعتوں کا ذکر کرکے ان سےنا پسندیدگی کا اظہار کیا۔ (ابن سعد:۶/۱۹۳) مسامحت لیکن چھوٹی چھوٹی باتوں میں سخت گیر نہ تھے اوران میں سختی ناپسند کرتے تھے؛بلکہ ایک دن آپ کے یہاں دو آدمی آئے،ان میں سے ایک کا بند کھلا ہوا تھا اور دوسرے کے بال گندھے ہوئے تھے، قرقد سنجی نے ابراہیم سے کہا کہ ابو عمران اس شخص کو بند کھولنے اوراس شخص کوبال گوندھنے سے منع نہیں کرتے،ابراہیم نے کہا میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم میں بنی اسد کی سنگدلی پیدا ہوگئی ہے یا بنی تمیم کی سختی،ان میں سے ایک شخص کو گرمی معلوم ہورہی تھی،اس نے بند کھول دیا اور دوسرا شخص نماز کے وقت بال کھول دیتا ہے۔ (ایضاً:۱۹۳) اختلافِ صحابہ میں سکوت صحابہ کرام کے اختلافات پر تنقید اظہار رائے اور فریقین میں سے کسی ایک کی جانب داری ناپسند کرتے تھے اور ان مسائل میں سکوت سے کام لیتے تھے،ان کے ایک شاگرد نے حضرت عثمانؓ اورحضرت علیؓ کے اختلاف کے بارہ میں سوال کیا،انہوں نے کہا نہ میں سبائی ہوں نہ مرجی،اسی طرح ایک مرتبہ ایک اورشخص نے ان سے کہا مجھے ابوبکرؓوعمرؓ کے مقابلہ میں علیؓ سے زیادہ محبت ہے،انہوں نے کہا اگر علیؓ تمہارا یہ خیال سنتے تو تم کو سزادیتے،اگر تم کو اس قسم کی باتیں کرنی ہیں تو میرے پاس نہ بیٹھا کرو، فرماتے تھے مجھ کو عثمانؓ کے مقابلہ میں علیؓ سے زیادہ محبت ہے،لیکن میں آسمان سے منہ کے بل گرنا پسند کرتا ہوں اوریہ گوارا نہیں ہے کہ عثمانؓ کے ساتھ کسی قسم کا سوئے ظن رکھوں۔ (ابن سعد:۶/۱۹۲) تواضع وخاکساری ابراہیم بایں جلالتِ شان نہایت خاموش،عزلت نشین،بے تکلف اورسادہ مزاج تھے،تواضع اورخاکساری کا یہ حال تھا کہ ٹیک لگا کر بیٹھنے تک کا امتیاز بھی گوارا نہ تھا (تہذیب التہذیب :۱/۱۷۷ تذکرہ الحفاظ :۱/۶۴) کبھی کبھی حصول اجر کے لیے دوسروں کا بوجھ تک اٹھالیتے تھے،اعمش کا بیان ہے کہ میں نے بسا اوقات ابراہیم کو بوجھ اٹھائے ہوئے دیکھا ہے،وہ کہتے تھے کہ میں حصولِ اجر کے لیے ایسا کرتا ہوں۔ (ایضاً:۱۹۴) ہیبت لیکن اس خاکساری کے باوجود لوگوں کے دلوں پر ان کی ہیبت چھائی رہتی تھی مغیرہ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ حکام اورامراء کی طرح ابراہیم سے ڈرتے تھے۔ (تذکرہ الحفاظ :۱/۶۴) سلاطین اورامراء سے تعلقات سلاطین اورامراء کے ساتھ ابراہیم کے دوستانہ تعلقات تھے اوردونوں میں باہم ہدایاوتحائف کا تبادلہ ہواکرتا تھا،اکثر ممتاز امراء ان کی خدمت کیا کرتے تھے (ابن سعد:۶/۱۵۳) یہ اس کو قبول کرنے میں مضائقہ نہ سمجھتے تھے اوراسے برا سمجھتے تھے کہ خدا کسی کی کوئی شے عطا فرمائے اور وہ اس سے انکار کرے (ایضاً:۱۹۴) لیکن وہ ہدایا لینے کے ساتھ ان کا بدلہ بھی کرتے تھے۔ (ایضا:۱۹۴) ظالم امراء کی مخالفت البتہ ظالم اورجفاکارامراء کے سخت خلاف رہتے تھے،اسی لیے ان میں اورحجاج میں کبھی نہ بنتی تھی وہ آپ کا سخت دشمن تھا،ابراہیم اسے بہت برا بھلا کہا کرتے تھے اس پر لعنت بھیجنے میں بھی مضائقہ نہ سمجھتے تھے،ایک مرتبہ ایک شخص نے حجاج اوراس کے جیسے دوسرے ظالموں پر لعنت بھیجنے کےبارہ میں سوال کیا، آپ نے جواب دیا، خداخود قرآن میں فرماتا ہے: ألا لعنة اللہ على الظالمين حجاج کی موت پر اس قدر مسرور ہوئے کہ سجدہ میں گرپڑے اور آنکھوں سے اشک مسرت رواں ہوگئے۔ (ایضاً) وفات حجاج کی موت کے چند مہینے بعد بیمار پڑے،دم آخر نہایت مضطرب وبے قرار تھے،لوگوں نے اس کا سبب پوچھا،فرمایا اس سے زیادہ خطرہ کا وقت کون ہوگا کہ خدا کا قاصد جنت یا دوزخ کا پیام لے کر آئے گا، میں اس پیام کے مقابلہ میں قیامت تک موجودہ صورت کا قائم رہنا پسند کرتا ہوں، (ابن خلقان:۱/۳) اسی علالت میں آغاز ۹۶ھ میں انتقال کیا، باختلاف رائے انتقال کے وقت انچاس یا پچاس یا اس سے کچھ اوپر عمر تھی۔ (ابن سعد:۴/۱۹۹) حلیہ ولباس ابراہیم نہایت خوش لباس تھے،رنگین اوربیش قیمت پوشاک پہنتے تھے،زعفرانی اورسرخ رنگ کا لباس استعمال کرنے میں بھی مضائقہ نہ سمجھتے تھے،جاڑوں کے لباس میں سمور کی سنجاف لگی ہوتی تھی،سمور کی ٹوپی دیتے تھے،عمامہ بھی باندھتے تھے، لوہے کی انگوٹھی پہنتے تھے، اس کا نقش ‘ذباب اللہ ونحن لہ ’ تھا (ابن سعد:۶/۱۹۶،۱۹۷) امام شعرانی کا بیان ہے کہ اپنے کو چھپانے کے لیے رنگین کپڑے پہنتے تھے تاکہ یہ نہ معلوم ہوکہ قراء کی جماعت سے ہیں یادنیا داروں کی۔ (طبقات امام شعرانی :۱/۳۶) حکیمانہ اقوال آپ کے بعض اقوال نہایت حکیمانہ اورپُرموعظت ہیں،فرماتے تھے کہ (۱) انسان چالیس سال تک جس سیرت پر قائم رہے،پھر وہ نہیں بدل سکتی (۲)ایمان کے بعد آدمی کو سب سے بڑی دولت تکلیفوں پر صبر کی عطا کی گئی ہے،اسی لیے بیماری کا حال بیان کرنا بھی پسند نہ کرتے تھے،فرماتے تھے کہ جب مریض سے اس کی حالت پوچھی جائے تو اس کو چاہئے کہ پہلے اچھا کہے اس کے بعد اصل حالت بیان کرے کہ شکوہ غم بھی شانِ صبر کے خلاف ہے ۔(۳)انسان کے لیے یہ معصیت کافی ہے کہ لوگ دنیا یا دین کے معاملہ میں اس پر انگشت نمائی کریں۔ (طبقات امام شعرانی:۱/۳۶)