انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
اہل کتاب ،شیعہ،کمیونسٹ اورقادیانی وغیرہ سے نکاح۔ اہلِ کتاب سے نکاح شریعت میں غیرمسلموں اور عام کافروں کے مقابلے میں اہلِ کتاب کومسلمانوں سے تعلقات اور روابط کے لحاظ سے ایک گونہ فوقیت دی گئی ہے؛ چنانچہ ان کا ذبیحہ حلال قرار دیا گیا اور ان کی عورتوں سے مسلمان مردوں کے لیے نکاح کی اجازت دی گئی ہے، خود قرآن مجید (مائدہ:۵) میں اس کا ذکر موجود ہے؛ مگراس سلسلسہ میں یہ باتیں پیشِ نظر رہیں: (۱)کسی مسلمان عورت سے کوئی عیسائی یایہودی مرد نکاح نہیں کرسکتا۔ (۲)ایسی کتابی عورتوں سے نکاح کیا جائے گا جوپاک دامن اور عصمت مآب ہوں؛ اس کے اظہار کے لیے قرآن مجید نے مُحَصَّنَتِ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ (۳)وہ واقعۃ عیسائی یایہودی ہوں یعنی وحی، رسالت وآخرت وغیرہ پرایمان رکھتی ہوں، دہریئے اور خدا کے منکرین جوصرف نام کے عیسائی اور یہودی کہلاتے ہوں ان کا یہ حکم نہ ہوگا۔ (۴)غیرمسلم ملک میں بسنے والے یہودی یاعیسائی عورت سے نکاح کرنا بعض فقہاء کے نزدیک حرام اور احناف کے یہاں مکروہِ تحریمی ہے۔ موجودہ زمانہ میں جوعیسائی اور یہودی عورتیں ہیں اور اہلِ کتاب کہلاتی ہیں ان کے اندر زنا، فحاشی اور ناجائز تعلقات کی اتنی کثرت ہے جس کوسن کرانسانیت کی پیشانی پرپسینہ آجاتا ہے اور جس نے گویا حیوانوں کوبھی پیچھے چھوڑ دیا ہے، دوسرے ان کی اکثریت الحاد، مذہب بیزاری، انکارِ آخرت وغیرہ کی شکار ہے، ظاہر ہے ایسے لوگوں سے نکاح قطعاً حلال نہ ہوگا اور وہ قرآن کی اصطلاح میں اہلِ کتاب شمار نہ ہوں گے؛ اس کے علاوہ جوغیرمسلم ممالک کی کتابیہ عورتیں ہیں اُن کے بارے میں ذکر کیا ہی جاچکا ہےکہ نکاح مکروہ ہے اور اس عاجز کی رائے میں اگریہ سب باتیں نہ بھی پائی جائیں توبھی ہمارے عہد میں اہلِ کتاب عورتوں سے نکاح کراہت سے خالی نہ ہوگا، اس لیے کہ مسلم حکمرانوں کے تحت اہلِ کتاب عورتوں کے ہونے کی وجہ سے اسلامی حکومتوں کوشدید نقصانات پہنچے ہیں اور اس کی وجہ سے ایسے ممالک میں جہاں اس کا رواج ہے مسلمانوں کے اخلاقی حالات کوبھی بے پناہ نقصان پہنچا ہے، یہ توہمارا دور ہے، سیدنا حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے خود اپنے زمانہ میں اس نقصان کومحسوس کیا اور مسلم گورنروں کواس سے باز رہنے کی خصوصی ہدایات فرمائیں؛ چنانچہ حضرت شقیق بن سلمہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ جب مدائن پہنچے تووہاں ایک یہودی عورت سے نکاح کرلیا، حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کواس کی اطلاع ملی توان کوخط لکھا کہ اس کوطلاق دے دو، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا کہ کیا وہ میرے لیے حرام ہے؟ امیرالمؤمنین فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے جواب میں تحریر فرمایا کہ میں حرام نہیں کہتا؛ لیکن ان لوگوں کی عورتوں میں عام طور پرعفت وپاک دامنی نہیں ہے، اس لیے مجھے خطرہ ہے کہ آپ لوگوں کے گھرانے میں اس راہ سے فحاشی وبدکاری داخل نہ ہوجائے؛ چنانچہ امام محمد رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں سیدنا عمررضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ فقہاءِ احناف رحمہ اللہ، اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کومکروہ سمجھتے ہیں اور علامہ ابنِ ہمام رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اور کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کوبھی سیدنا عمر رضی اللہ نے اہلِ کتاب عورتوں سے نکاح پرسخت تنبیہ فرمائی اور حکم دیا کہ انھیں طلاق دے دیں۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۲۸۳،۲۸۴۔ فتاویٰ عثمانی:۲/۲۵۷) شیعہ سے نکاح اہلِ تشیع کے بعض فرقے وہ ہیں جن کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ہے، مثلاً جولوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کوخدا مانتے ہوں، ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ پرتہمت لگاتے ہوں یا قرآن کی صحت اور اس کے غیرمحرف اور ترمیم وحذف سے پاک ہونے میں شک کرتے ہوں وہ کافر ہیں اور ظاہر ہے ان سے نکاح جائز نہیں ہوگا؛ لیکن وہ روافض جوان چیزوں کے قائل نہ ہوں چاہے وہ حضراتِ شیخین رضی اللہ عنہ کو برا بھلا ہی کیوں نہ کہتے ہوں علماء محققین رحمہم اللہ کے نزدیک زیادہ صحیح یہ ہے کہ وہ کافر نہیں ہیں بلکہ فاسق ہیں؛ لیکن چونکہ ایک تواس صورت میں بھی کراہت ہے اور دوسرے بعض لوگوں نے اس کوکفر بھی قرار دیا ہے اس لیے اہلِ تشیع سے نکاح سے احتراز ہی کرنا چاہیے۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۲۸۵۔ فتاویٰ عثمانی:۲/۲۶۱۔ آپ کے مسائل اور اُن کا حل:۵/۶۷) کمیونسٹوں سے نکاح کمیونزم، فکرواعتقاد سے لے کر معیشت تک ہرباب میں ایک مستقل نظام اور تصور رکھتا ہے، اس کی فکری بنیاد الحاد اور مذہب وآخرت سے انکار ہے، اس طرح جو آدمی ان تمام نظریات کے ساتھ کمیونسٹ ہو وہ نہ مسلمان ہی باقی رہتا ہے اور نہ اس کا شمار اہلِ کتاب ہی میں کیا جاسکتا ہے، وہ کافروں کے زمرہ میں ہے اور ان سے نکاح مطلقاً جائز نہیں ہے، ہاں! اگروہ محض معاشی سطح پرانفرادی ملکیت کے قائل نہ ہوں اور اُن قرآنی آیات کا جن سے ذاتی ملکیت کا ثبوت ملتا ہے تاویل کریں تواب ان کا شمار کافروں میں نہ ہوگا بلکہ وہ محض بدعتی سمجھے جائیں گے اور اُن سے نکاح دُرست ہوگا۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۲۸۵) قادیانی سے نکاح جولوگ اسلام سے قادیانیت کی طرف گئے ہیں وہ تومرتد ہیں اور اُن سے نکاح کے جواز کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا؛ لیکن جولوگ نسلی طور پرقادیانی ہیں وہ بھی زندیق اور بددین ہیں اور اُن سے بھی نکاح جائز نہیں؛ اسی بناء پرفقہاء رحمہ اللہ نے اہلِ قبلہ میں سے ہونے کے باوجود معتزلہ سے نکاح کی اجازت نہیں دی ہے الْمُنَاكَحَةُ بَيْنَ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالِاعْتِزَالِ وَقَالَ الْفَضْلُ لَايَجُوزُ (خلاصۃ الفتاویٰ:۲/۶) اس لیے قادیانی اہلِ کتاب کے حکم میں نہیں ہیں؛ بلکہ زندیق ہیں اور اُن سے کسی قسم کا شادی بیاہ کا تعلق جائز نہیں۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۲۸۶۔ آٖ کے مسائل اور اُن کا حل:۵/۶۸)