انوار اسلام |
س کتاب ک |
فرض نمازوں کے بعد دعاء سنت ہے یا بدعت ہے؟ پہلے یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ "بدعت" کسے کہتے ہیں؟ "بدعت" اس عمل کا نام ہے جس کی صاحبِ شریعت ﷺ نے نہ تو قولاً تعلیم دی ہو، نہ عملاً کرکے دِکھایا ہو، نہ وہ عمل سلف صالحین کے درمیان معمول و مروّج رہا ہو، لیکن جس عمل کی صاحبِ شریعت ﷺ نے ترغیب دی ہو یا خود کبھی اس پر عمل کرکے دِکھایا ہو، وہ "بدعت" نہیں، بلکہ سنت ہے۔ اس کے بعد مندرجہ ذیل اُمور پیشِ نظر رکھئے: (۱) آنحضرت ﷺ نے متعدّد احادیث میں نمازِ فرض کے بعد دُعاء کی ترغیب دی ہے اور اس کو قبولیتِ دُعاء کے مواقع میں شمار فرمایا ہے۔ (۲) صحیح احادیث میں دُعاء کے لئے ہاتھ اُٹھانے اور دُعاء کے بعد ان کو چہرے پر پھیرنے کو آدابِ دُعاء میں ذکر فرمایا ہے۔ (۳) متعدّد احادیث میں فرض نماز کے بعد آنحضرت ﷺ کا دُعاء کرنا ثابت ہے، یہ تمام اُمور ایسے ہیں کہ کوئی صاحبِ علم جس کی احادیثِ طیبہ پر نظر ہو، ان سے ناواقف نہیں، اس لئے فقہائے اُمت نے فرض نمازوں کے بعد دُعاء کو آداب و مستحبات میں شمار کیا ہے۔ امام نووی شرح مہذب (ج:۳ ص:۴۴۸) میں لکھتے ہیں: "الدعاء للامام والمأموم والمنفرد مستحب عقب کل الصلوات بلا خلاف"۔ یعنی نمازوں کے بعد دُعاء کرنا بغیر کسی اختلاف کے مستحب ہے، امام کے لئے بھی، مقتدی کے لئے بھی اور منفرد کے لئے بھی۔ علومِ حدیث میں امام نووی کا بلند مرتبہ جس کو معلوم ہے وہ کبھی اس متفق علیہ مستحب کو بدعت کہنے کی جسارت نہیں کرسکتا اور فرض نماز جب باجماعت ادا کی گئی ہو تو ظاہر ہے کہ اس کے بعد دُعاء صورةً اجتماعی ہوگی، لیکن امام اور مقتدی ایک دُوسرے کے پابند نہیں بلکہ اپنی اپنی دُعاء کررہے ہیں، اس لئے امام کا پکار پکار کر دُعاء کرنا اور مقتدیوں کا آمین، آمین کہنا صحیح نہیں، ہر شخص کو اپنی اپنی دُعاء کرنی چاہئے اور سنن ونوافل کے بعد امام کا مقتدیوں کے انتظار میں بیٹھے رہنا اور پھر سب کا مل کر دُعاء کرنا یہ بھی صحیح نہیں۔ (آپ کے مسائل اور اُن کا حل:۲/۲۷۲ ، کتب خانہ نعیمیہ۔ فتاویٰ محمودیہ:۵/۶۷۶،مکتبہ شیخ الاسلام، دیوبند)