انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** تیسری مثال "جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ جَاءَتْ مَلَائِكَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ نَائِمٌ فَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّهُ نَائِمٌ وَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَةٌ وَالْقَلْبَ يَقْظَانُ فَقَالُوا إِنَّ لِصَاحِبِكُمْ هَذَا مَثَلًا فَاضْرِبُوا لَهُ مَثَلًا.... فَقَالُوا مَثَلُهُ كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى دَارًا وَجَعَلَ فِيهَا مَأْدُبَةً وَبَعَثَ دَاعِيًا فَمَنْ أَجَابَ الدَّاعِيَ دَخَلَ الدَّارَ وَأَكَلَ مِنْ الْمَأْدُبَةِ وَمَنْ لَمْ يُجِبْ الدَّاعِيَ لَمْ يَدْخُلْ الدَّارَ وَلَمْ يَأْكُلْ مِنْ الْمَأْدُبَةِ فَقَالُوا أَوِّلُوهَا لَهُ يَفْقَهْهَا فَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّهُ نَائِمٌ وَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَةٌ وَالْقَلْبَ يَقْظَانُ فَقَالُوا فَالدَّارُ الْجَنَّةُ وَالدَّاعِي مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَنْ أَطَاعَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ وَمَنْ عَصَى مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ عَصَى اللَّهَ وَمُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرْقٌ بَيْنَ النَّاسِ"۔ (بخاری،باب الاقتداء بسنن رسولﷺ ،حدیث نمبر:۶۷۳۸) ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہؓ سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺ ایک دفعہ سورہے تھے کہ آپ کے پاس فرشتے آئے، ایک کہنے لگا آپ سوئے ہیں، دوسرے نے کہا: آپ کی آنکھ تو سورہی ہے ؛لیکن دل جاگتا ہے پھر انہوں نے کہا،آپ کے اس صاحب کے لیے ایک مثل ہے سو آپ کے مثال لاؤ ....... پھر کہا آپ کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے گھر بنایا اس میں ایک دسترخوان بچھایا اورایک بلانے والے کو بھیجا (جولوگوں کو یہاں آنے کی دعوت دے) جس نے اس داعی (بلانے والے) کی آواز کو لبیک کہا وہ گھر میں داخل ہوگیا اوراس نے دعوت میں خوب کھایا اورجس نے داعی کی بات نہ مانی وہ نہ گھر آیا نہ اس نے کچھ کھایا پھر انہوں نے کہا: مراد کلام واضح کرو؛ تاکہ آپ اسے سمجھ جائیں؛ پھر ایک نے کہا: آپ توسوئے ہوئے ہیں، دوسرے نے کہا آنکھ تو سوتی ہے؛ مگر آپ کا دل جاگتا ہے؛ پھر انہوں نے کہا: گھر سے مراد تو جنت ہے، اس کی طرف بلانے والے محمدؐ ہیں، جس نے آپ کی بات مانی اس نے اللہ کی بات مانی اور جن نے آپ کی نہ مانی اس نے خدا کی، نافرمانی کی آپ لوگوں کے درمیان نقطہ امتیاز ہیں۔ اس سے ملتی جلتی ایک روایت قاضی ابو محمد الحسن نے بھی روایت کی ہے،حضورﷺ استراحت فرمارہے تھے کہ آپ کے پاس دو فرشتے آئے،ایک سرمبارک کی طرف کھڑا تھا اور دوسراپاؤں مبارک کی طرف، جو سرکی طرف کھڑا تھا وہ میری طرف جھکا اورکہاآپ کی آنکھ سوتی ہے، کان سنتے ہیں اور دل یادررکھتا ہے، حضورﷺ اسے نقل کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ بات اسی طرح ہے؛ جیسا کہ اس نے کہا؛ پھر اس نے ایک اورمثال دی۔ "بركة فيها شجرة نابتة وفي الشجرة غصن خارج فجاء ضارب فضرب الشجرة فوقع الغصن ووقع معه ورق كثير كل ذلك في البركة لم يعدها ثم ضرب الثانية فوقع كثير وكل ذلك في البركة لم يعدها ثم ضرب الثالثة فوقع ورق كثير لا أدري ما وقع فيها أكثر أو ما خرج منها"۔ (امثال الحدیث،باب اول الکتاب:۱/۱۹) ترجمہ: ایک تالاب ہے اس میں ایک درخت اگا ہوا ہے اور درخت سے ایک ٹہنی باہر نکلی ہوئی ہے،ایک شخص آیا اس نے درخت پر ایک ضرب لگائی ٹہنی گرپڑی اوراس کے ساتھ بہت سے پتے گرے اور وہ تمام پتے تالاب میں ہی گرے، کوئی باہر نہیں پڑا، پھر اس نے ایک اور ضرب لگائی اور اس کے ساتھ بھی بہت سے پتے گرے، کوئی باہر نہیں گرا پھر اس نے تیسری بار ضرب لگائی اوربہت سے پتے گرے، میں نہیں جانتا کہ جو پتے اندر گرے وہ زیادہ تھے یا جو باہر گرے وہ زیادہ تھے۔ پھر اس مثال کی اس فرشتے نے جوآپ کے پاؤں کی طرف تھا یوں شرح بیان کی: "أماالبركة فهي الجنة وأماالشجرة فهي الأمة وأماالغصن فهو النبيﷺ وأماالضارب فملك الموت ضرب الضربة الأولى في القرن الأول فوقع النبيﷺ وأهل طبقته وضرب الثانية في القرن الثاني فوقع كل ذلك في الجنة ثم ضرب الثالثة في القرن الثالث فلا أدري ماوقع فيها أكثر او ما خرج منها (امثال الحدیث،باب اول الکتاب:۱/۱۹) ترجمہ: تالاب سے مراد جنت ہے اور درخت سے مراد امت ہے ٹہنی سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اس شخص سے جس نے ضرب لگائی مراد ملک الموت ہے، اس نے قرن اول میں پہلی ضرب لگائی تو حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے عہد کے لوگ اس سے جھڑے (اورجنت میں گرے)پھر اس نے دوسرے قرن میں دوسری ضرب لگائی تو بھی سب پتے جنت میں گرے، پھر اس نے تیسری ضرب لگائی، اس پر نہیں کہا جاسکتا کہ باہر گرنے والے پتے زیادہ تھے یا اندر گرنے والے۔ صحابہؓ کے پاس یہ مثال کس نے بیان کی؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے، فرشتوں کو یہ باتیں کرتے کس نے سنا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی باتوں میں سے کسی کی تردید کی؟ نہیں! سو یہ ساری مثل ہمارے لیے ایک حدیث کے درجہ میں ہے، اس حدیث سے یہ دو باتیں مزید واضح ہوئیں۔ ۱۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب سوتے تو آنکھ سوتی تھی دل نہ سوتا تھا، دل پوری طرح بیدا رہتا اور اسے اپنے جملہ احوال بدنیہ کی خبر رہتی وضو ہے یا نہیں، اس کا پورا دھیان رہتا، آپ کے پاس کوئی بات کرے تو آپ اسے سنتے اور سمجھتے، گو اس وقت ظاہرا سوئے ہوتے تھے، عام انسان نیند کی حالت میں دوسروں کی باتیں نہیں سن پاتے؛ مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سن لیتے تھے، اس سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سماع مبارک دوسرے لوگوں کی طرح نہیں، اس میں آپ کا دل پوری طرح بیدار رہتا تھا، نیند موت کی بہن ہے ۔سو اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بعد وفات بھی یہ شان سماع حاصل ہو تو تعجب نہیں روضہ مبارک کے پاس آپ پر درود بھیجا جائے تو آپ اسے سن لیتے ہیں اور دور سے پڑھا جائے تو پھر فرشتے اسے حضورﷺ کے پاس پہنچاتے ہیں۔ ۲۔اس مثال سے یہ واضح ہوا کہ حضورﷺ کا زمانہ بہترین زمانہ تھا پھر تابعین کا دور، پھر تیسرے دور میں لوگ اس سج دھج پر نہ رہے (جھوٹ پھیلنے لگا اوراللہ کا خوف دلوں سے جاتا رہا) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ کرامؓ سب کے سب جنت میں گئے ان میں ایک بھی نہیں جس کا پتہ اس تالاب (جنت) کی حدود سے باہر گرا ہو، یہ سب لوگ اپنے وقت میں خیر امت تھے اور دوسروں کے لیے یہ دین حق کا کھلا نشان تھے۔