انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ضمنی اصول سابقہ شریعت کا مقام اللہ تعالیٰ نے ابتداء آفرینش سے ہی انبیاء ورسل کا سلسلہ قائم فرمایا؛ تاکہ انسان کو خدا کی مرضیات کا علم ہوتا رہے اور وہ ان کے مطابق اپنی زندگی گذارے، یہ مبارک سلسلہ حضرت آدمؑ سے لے کر نبی کریمﷺ تک رہا، ہرنبی نے اپنی قوم کو خدائی احکام وہدایات پہونچائیں اور پوری جتن کے ساتھ پہونچائیں، کسی نے بھی ذرہ برابر سستی نہیں برتی، سارے انبیاء کے ادیان اپنے اپنے زمانہ میں حق اورواجب الاتباع تھے اور انہی پر آخرت کی کامیابی ملتی تھی؛ لیکن نبی کریمﷺ کی بعثت کے بعد تمام انبیاء کی شریعتیں منسوخ ہوگئیں اور آخرت کی کامیابی صرف دین اسلام میں منحصر ہوگئی، اب اگرکوئی سابقہ شریعت پر عمل کرتا ہے تووہ عنداللہ مردود ہے؛ یہاں ہمیں شریعت سابقہ پر کوئی تفصیلی گفتگو نہیں کرنی ہے اور نہ ہی اس پر بحث کرنا ہے کہ بعثت سے پہلے آیا آپﷺ کسی شریعت کے متبع بھی تھے یانہیں ،تھے توکس شریعت کے تھے؟ کسی خاص شریعت کے یالاعلی التعیین کسی ایک یاتمام شریعتوں کے؟ کیوں کہ بظاہر یہ بحث نہ ہی فی نفسہ مفید معلوم ہوتی ہے اور نہ ہی یہ ہمارا موضوع ہے، ہم ذیل میں سابقہ شریعت کے جس پہلو سے بحث کرنا چاہتے ہیں ، تجزیہ وتحقیق کے بعد اس کی جملہ چار شقیں نکلتی ہیں، تین ان میں متفق علیہ ہیں اور ایک مختلف فیہ ونزاعی، ان کی تفصیلات میں جانے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اولاً شریعت سابقہ کا مفہوم متعین کرلیا جائے؛ تاکہ آگے کے مباحث کو سمجھنے میں مدد مل سکے۔ شریعتِ سابقہ کسے کہتے ہیں؟ شریعتِ سابقہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل کی ان شریعتوں کو کہا جاتا ہے جوہرنبی کو خدا کی طرف سے اپنی اپنی امت کی ہدایت کے لیے دی گئی تھیں۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ:۲۶/۱۷) شریعتِ سابقہ اور امت کی آراء ساری امت کا اس پر اتفاق ہے کہ اصلِ توحید میں تمام شریعتیں متحد ہیں (البحرالمحیط:۶/۴۰) مثلا اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات سے متعلق اعتقادات، عقیدہ بعث بعدالموت، حشرونشر کا تصور، ان سب میں تمام شریعتیں متفق ہیں؛ اسی طرح ابواب البر مثلاً نماز، روزے، زکوٰۃ وحج اور جہاد وغیرہ جوتکلیفات الہٰیہ کے قبیل سے ہیں؛ نیزابواب الاثم جیسے زنا کی حرمت، ظلم وجور کا انسداد کائنات کی بقاء اور أشخاص کی عصمت وعفت کی خاطر حدود وکفارات کا نظام، یہ سب بھی وہ امور ہیں جن پر تمام شریعتوں کا اتفاق اور ان میں باہم یگانگت رہی ہے، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اس آیت: "شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَاوَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَاوَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَاتَتَفَرَّقُوا فِيهِ"۔ (الشوریٰ:۱۳) ترجمہ:اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کے واسطے وہی دین مقرر کیا، جس کا اُس نے نوحؑ کوحکم دیا تھا اور جس کوہم نے آپ کے پاس وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے اور جس کا ہم نے ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو (مع ان سب کے اتباع کے) حکم دیا تھا (اور ان کی امم کو یہ کہا تھا) کہ اس دین کو قائم رکھنا ہے اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا۔ (ترجمہ حضرت تھانویؒ) کا محمل اسی شکل کو قرار دیا ہے (حجۃ اللہ البالغۃ:۱/۸۶) اگرچہ ان سب کی تفصیلات میں زمانہ اور امت کے مزاج کے لحاظ سے اختلاف ہوتا رہا؛ تاہم اصول میں کسی قسم کا فرق نہیں تھا۔ (۲)اس پر بھی امت کے تمام مکاتبِ فکر متفق ہیں کہ گذشتہ شریعتوں کےاحکام منسوخ ہیں، امت محمدیہ کو اس سے کوئی سروکار نہیں، جیسے حضرت سلیمانؑ کی شریعت کا تعذیب طیور کا مسئلہ ہے کہ پرندوں کی جانب سے گوہمیں کوئی نقصان پہنچے ؛لیکن ان کوعذاب وسزا دینا ہمارے لیے مشروع نہیں (الاحکام لابن حزم:۵/۱۶۶) اسی طرح شریعت موسویہ کا یہ حکم کے گائے، اونٹ کی چربی حرام ہے، ہم پر لاگو نہیں کیونکہ یہ امور انہی کے ساتھ خاص تھے (نورالانوار:۲۲۰) ایسے ہی ہفتہ کے دن کو قابلِ تعظیم سمجھنا شریعت موسوی کے ساتھ خاص تھا، شریعتِ زکریاؑ ومریمؑ میں صومِ صمت عبادت وقربت تھی؛ مگریہ سب ہماری شریعت میں نہیں ہے (الاحکام لابن حزم:۵/۱۷۶) غرض یہ وہ احکام ہیں جن کے شریعت محمدی میں ناقابل عمل ہونے پر امت کا اتفاق ہے۔ (۳) اسی طرح یہ امر بھی متفق علیہ ہے کہ شرائع سابقہ کے وہ اعمال، جن پر عمل آوری کا ہم سے مطالبہ کیا گیا ہے، اس کے ہم مکلف ومامور ہیں، جیسے روزوں کی فرضیت کے متعلق ارشادِ باری ہے: "يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَاكُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ"۔ (البقرۃ:۱۸۳۔ اصول الفقہ لابی زھرۃ:۲۴۲) ترجمہ:اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا، جس طرح تم سے پہلے (امتوں کے) لوگوں پر فرض کیا گیا تھا۔ (ترجمہ تھانویؒ) محلِ نزاع کی نشاندہی محلِ نزاع صرف وہ احکام ہیں جونکیر کے بغیر کتاب وسنت میں وارد ہوئے ہیں اور ان کے کرنے نہ کرنے کی کوئی تصریح قرآن وحدیث میں نہیں کی گئی ہے، جیسے توراۃ کا یہ حکم ہے کہ: "وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنْفَ بِالْأَنْفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ"۔ (المائدۃ:۴۵) ترجمہ:اور ہم نے اُن پر اُس میں یہ بات فرض کی تھی کہ جان بدلے جان کے اور آنکھ بدلے آنکھ کے اور ناک بدلے ناک کے اور کان بدلے کان کے اور دانت بدلے دانت کے اور خاص زخموں کا بھی بدلہ ہے۔ (ترجمہ تھانویؒ) اس سلسلہ میں محققین کی ماٰلاً دوہی رائے ہوسکتی ہیں (اصول مذہب الامام احمد بن حنبلؒ:۴۸۳) ایک رائے یہ کہ ہرشریعت اپنے نبی کے ساتھ مخصوص ہوتی ہے، اس کی تبلیغ وتشریح اس کے زمانے تک محدود رہتی ہے اور اس کی وفات کے ساتھ وہ شریعت بھی ختم ہوجاتی ہے؛ اکثر متکلمین اور حنفیہ وشافعیہ کی ایک جماعت اسی کی قائل ہے (کشف الاسرار:۳/۳۹۸) اور یہی ابن حزم کی بھی رائے ہے۔ (الاحکام لابن حزم:۵/۱۶۱) دوسری رائے یہ ہے کہ شرائع سابقہ کے وہ احکام لائق عمل واتباع ہیں جو خدا اور رسول کی زبانی بلانکیر ہم تک پہنچے ہیں؛ گوکہنے کو یہ پچھلی شریعتوں کے احکام ہیں؛ مگرحقیقت یہ ہے کہ کتاب وسنت کے راستے یہ ہماری شریعت بن گئے ہیں اور رہے وہ احکام ومسائل جواہل کتاب خواہ مسلمانانِ اہل کتاب کے توسط سے ہم تک پہنچے ہوں یاخود مسلمانوں نے انہیں براہِ راست کتبِ سابقہ سے سمجھا ہو تووہ قابلِ حجت وقابلِ عمل نہیں؛ کیونکہ سوائے قرآن کے تمام کتبِ سماویہ کا محرَّف اور اصلی حالت پر برقرار نہ رہنا، ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے، اس لیے یہ عین ممکن ہے کہ ان سے اخذ کیا ہوا حکم دستِ تحریف کا شکار ہو؛ اکثرمشائخ احناف بشمول ابومنصور ماتریدیؒ، قاضی ابوزید دبوسیؒ کا یہی مسلک ہے؛ اسی پر متاخرین احناف کا بھی عمل ہے۔ (کشف الاسرار:۳/۳۹۸،۳۹۹) مانعین کے دلائل مانعین نے اپنے موقف پر درجِ ذیل دلائل سے استدلال کیا ہے: ۱۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا"۔ (المائدۃ:۴۸) ترجمہ:تم میں سے ہرایک کے لیے ہم نے (خاص) شریعت اور خاص طریقت تجویز کی تھی۔ (ترجمہ تھانویؒ) نیزارشادِ باری تعالیٰ ہے: "لِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوهُ"۔ (الحج:۶۷) ترجمہ:ہم نے (ان میں) ہرامت کے واسطہ ذبح کرنے کا طریقہ مقرر کیا ہے کہ وہ اسی طرح پر ذبح کیا کرتے تھے۔ (ترجمہ تھانویؒ) یہ آیات اس جانب مشیر ہیں کہ ہرنبی بس اپنی ہی شریعت کا داعی اور ہرامت صرف اپنی ہی شریعت کی مکلف رہتی ہے، اب اگر شریعتِ سابقہ کو بھی حجت مان لیا جائے تویہ لازم آئے گا کہ بعد والا نبی شریعت سابقہ کا بھی داعی ہو اور امت بھی شریعتِ سابقہ کی مکلف ہو؛ حالانکہ یہ بات بداہۃً غلط ہے۔ (اصول مذہب الامام احمدبن حنبلؒ:۴۹۳) ۲۔یمن کی جانب روانگی کے موقع سے آپﷺ اور حضرت معاذؓ کے درمیان جوگفتگو ہوئی تھی اس میں شرائع من قبلنا کا کوئی تذکرہ نہیں؛ اگرحجج شرعیہ میں اس کا شمار ہوتا توضرور حضرتِ معاذؓ اس کا ذکر کرتے۔ (المستصفی:۱/۲۵۱۔ اصول مذہب الامام احمد بن حنبلؒ:۴۹۳) ۳۔شرائع من قبلنا معتبر ولائق احتجاج ہوتیں توشریعت ان کے سیکھنے اور ان کی طرف مراجعت کی تاکید کرتی؛ حالانکہ شریعت نے کہیں ایسا حکم نہیں دیا ہے؛ بلکہ توراۃ کے پڑھنے پر توایک مرتبہ آپﷺ نے حضرت عمرؓ پر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا تھا۔ (المستصفی:۱/۲۵۲) ۴۔نبی کی بعثت کا مقصد امت کی تعلیم اور انہیں ان کے نفع ونقصان سے آگاہ کرنا ہے، اب اگرآنے والا نبی پچھلی ہی شریعت کا داعی وحامی ہو، جب کہ اس سے قبل شریعت مذکورہ ان تک پہنچ چکی ہے، تواس کے بعد والے نبی کی بعثت کا بے فائدہ اور بے ضرورت ہونا لازم آئے گا جو صحیح نہیں ہے۔ (کشف الاسرار:۳/۴۰۱) ۵۔ایک ہی زمانہ میں دونبیوں کی بعثت الگ الگ شریعتوں کے ساتھ واقع ہے، دیکھئے موسیٰؑ کی شریعت نبی اسرائیل کے لیے تھی اور اسی زمانہ میں شعیبؑ کی بعثت خاص اہلِ مدین کے لیے ہوئی تھی، جب جگہ ومکان کے فرق سے شریعتیں الگ الگ نازل کی جاسکتی ہیں تووقت وزمان کے اعتبار سے شریعتوں میں باہم اختلاف واختصاص کیوں نہیں رہ سکتا؟ (کشف الاسرار:۳/۴۰۱) ۶۔اگرشریعت محمدیہ کو سابقہ شریعتوں کے احکام پر بھی مشتمل مانا جائے تواس کے تفوق وامتیاز پر سخت حرف آئے گا اور اُسے شرائع سابقہ کا متبع گردانا جائے گا جو اس کی شان متبوعیت کے عین منافی ہے۔ (الاحکام لابن حزم:۵/۱۸۱) مانعین کے دلائل کا جائزہ مانعین کی دلیل اور اس کا حاصل صرف یہ ہے کہ اگرشریعت سابقہ کو حجت مانا جائے توشریعت سابقہ کی دعوت اور اس کی اتباع نبی اور امت پر ضرور ہوگی؛ لیکن آیت کے سیاق وسباق کو دیکھنے کے بعد ہرصاحبِ نظرپر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آیت سے یہ بات کسی درجہ میں بھی ثابت نہیں ہوتی، اس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ اصولی اور عمومی طور پر ہرشریعت کے فروعی احکام اشکال وصور کے اعتبار سے مستقل ہوا کرتے ہیں (حجۃ اللہ البالغۃ:۱/۸۶) اب اس کے ساتھ ساتھ کسی شریعت کے بعض احکام کا دوسری شریعت میں آجانے سے وہ بات کہاں لازم آتی ہے جسے ہمارے معترضین نے ثابت کرنا چاہا ہے۔ (الاحکام فی اصول الاحکام للآمدیؒ:۴/۲۰۰) ۲۔جہاں تک "حدیثِ معاذؓ" سے ان کا استدلال ہے کہ شرائع من قبلنا کوئی حجت ہوتی توحضرت معاذؓ اس کو ضرور ذکر کرتے، تواس کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ عدم ذکر نفی کو مستلزم نہیں ہوتا یعنی کسی چیز کے بارے میں ہرگز اس بناء پر منفی رائے قائم نہیں کی جاسکتی کہ وہ چیز غیرمذکور اور بادی النظر میں غیرموجود ہے؛ کیونکہ عدم ذکر کی اس کے سوا اور بھی تومعقول توجیہات ہوسکتی ہیں؛ چنانچہ یہاں بھی یہ توجیہ عین ممکن ہے کہ حضرت معاذؓ نے شرائع من قبلنا کا تذکرہ اس بناء پر نہیں فرمایا کہ خود ہماری شریعت کے اصول وکلیات اس قدر ہیں کہ "شرائع من قبلنا" کی طرف مراجعت کی بہت کم ضرورت پڑتی ہے اور قاعدہ ہے کہ ایسی قلیل الحاجۃ چیزیں اثنائے گفتگومیں ترک کردی جاتی ہیں؛ پھرچونکہ اس کا تذکرہ حضرت معاذؓ کے اس جملہ "أقضیٰ بِکِتَابِ اللہِ" کے تحت ضمناً اور اجمالاً آچکا تھا، اس لیے بھی اس کے اظہار کی ضرورت نہ سمجھی گئی۔ (فواتح الرحموت:۲/۱۸۵) ۳۔اوریہ بات کہ "شرائع من قبلنا" اگرمعتبر ولائقِ احتجاج ہوتیں تو شریعت ان کے سیکھنے سکھانے کی تلقین کرتی، یہ دلیل اس لائق نہیں ہے کہ اس کا جواب دینے کی کوشش کی جائے کیونکہ ہمارا دعویٰ کچھ ہے اور مانعین کی اس دلیل کا رُخ اور طرف ہے، سابق میں ہم یہ واضح کرچکے ہیں کہ ہماری گفتگو اور بحث کا تمام ترمحور وہی احکامِ سابقہ ہیں جوکتاب وسنت کی سند سے ہم کو ملے ہیں، توریت وغیرہ سیکھنے اور اس جانب مراجعت کا نہ ہی ہمارا دعویٰ ہے اور نہ ہم اس کے قائل ہیں۔ (اصول مذہب الامام احمد بن حنبلؒ:۴۹۴) ۴۔گروہ منکرین کی چوتھی دلیل کا حاصل یہ ہے کہ ہراگلا نبی اگر پچھلے نبی کی شریعت ہی کا داعی ہوتو خود اس کی بعثت کا کیا فائدہ، پچھلے نبی کی شریعت توپہلے ہی دنیا میں آچکی ہے؛ مگراس کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ بعد والا نبی، نبی سابق کی شریعت کا حامی اس اعتبار سے ہو کہ اس کی شریعت مندرس اور بھلادی گئی تھی اور یہ نبی اس کی تجدید وتبلیغ کررہا ہے، اس لیے اس کی بعثت کو بے معنی اور بے فائدہ کہنا بجائے خود بے معنی ہے؛ نیز دلیلِ مذکور سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے افعال معلل بالاغراض ہیں ؛حالانکہ یہ بات جمہور امت کے مسلمہ عقائد کے خلاف ہے۔ (المستصفی:۱/۲۴۹،۲۵۰) ۵۔مانعین کی پانچویں دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ جب ایک ہی زمانہ میں ہرنبی کو الگ الگ شریعتیں دی جاتی ہیں توالگ الگ زمانوں میں ہرنبی کی شریعت بدرجہ اولیٰ مختلف اور جدا ہونی چاہیے، جس کا تقاضا یہ ہے کہ شریعتِ سابقہ حجت نہ ہو؛ مگراس استدلال کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک ہی زمانہ میں اگر کئی نبی آئے توان کی شریعت میں اختلاف ضروری نہیں تھا، حضرت لوطؑ اور حضرت ابراہیمؑ اسی طرح ہارونؑ وموسیٰؑ کا زمانہ ایک تھا؛ لیکن ان کی شریعتیں متحد تھیں، علاوہ اس کے پچھلی شریعتوں کے احکام جب اللہ ورسول نے علی الاطلاق بیان کردیئے ہیں تویہ شریعت محمدیہ کا بھی جز بن گئے اور سابقہ امتوں سے اختصاص کا قرینہ موجود نہیں رہا۔ ۶۔شریعتِ محمدی کے تفوق وامتیاز کو بنیاد بناکر شرائع سابقہ کے غیرمعتبر ہونے پر استدلال کرنا بھی درست نہیں ہے؛ کیونکہ سابقہ شریعتیں خود انبیاء کی وضع کردہ نہیں تھیں؛ بلکہ ان کا واضع بذاتِ خود اللہ تعالیٰ تھا؛ یہی وجہ ہے کہ "شرع لکم من الدین" میں دین وقانون کی تشریعی نسبت خود اللہ نے اپنی طرف کی ہے، اس طرح پچھلی شریعتوں کے کچھ احکام کا وحی کے واسطے سے امتِ محمدیہ میں معمول بہا ہوجانا، اس کے نقص وعیب کی دلیل نہیں اور نہ اس کی شان متبوعیت پر اثرانداز ہے۔ (کشف الاسرار:۳/۴۰۰) نیزشریعتِ محمدیہ کا امتیاز ووتفوق خود اس بات کا متقاضی ہے کہ شرائع سابقہ کی حیثیت اس کے لیے توطئہ وتمہید کی سی ہو اور ظاہر ہے کہ اس حیثیت سے اگر ان کے بعض احکام شریعت محمدیہ میں بھی ہوں تو یہ اس کے تفوق کے منافی نہیں ہے۔ (کشف الاسرار:۳/۴۰۲) قائلین کے دلائل چنداولوالعزم انبیاء کوگنانے کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: "أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ"۔ (الانعام:۹۰) ترجمہ:یہ حضرات ایسے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی تھی؛ سوآپ بھی انہی کے طریقہ پر چلئے۔ (ترجمہ تھانویؒ) واضح رہےکہ ہدایت ایمان اور جمیع اعمال کو عام ہے؛ چنانچہ سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیتوں میں ایمان واعمالِ صالحہ کے تذکرہ کے بعد کہا گیا ہے: أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ (البقرۃ:۵۔ کشف الاسرار:۳۴۰۰) ترجمہ:وہی لوگ ہیں ہدایت پر اپنے پروردگار کی طرف سے۔ (ترجمہ شیخ الہندؒ) ۲۔ایک موقع سے ارشاد فرمایا گیا: "ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا" (فاطر:۳۲) ترجمہ:پھریہ کتاب ہم نے ان لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچائی جن کو ہم نے اپنے (تمام دنیا کے) بندوں سے پسند فرمایا۔ (ترجمہ تھانویؒ) علامہ ابن نجیم اس آیت سے یوں استدلال کرتے ہیں کہ یہاں وراثت کی تعبیر اختیار کی گئی ہے، جس سے وارث کی ملکیتِ خاص کی جانب اشارہ ہے کہ شرائع سابقہ کے وہ احکام جونکیر کے بغیر آپﷺ پر نازل ہوئے ہیں گوکہنے کو وہ شرائع سابقہ ہیں ،مگربتقاضائے لفظ ارث وہ آپﷺ ہی کی شریعت بن چکے ہیں۔ (اصول مذہب امام احمد بن حنبل:۴۹۱) ۳۔زمانہ رسالت میں ایک واقعہ پیش آیا تھا، جس میں ایک فریق نے دوسرے کے دانت توڑے تھے، آپﷺ نے اس موقع سے فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا تھا "کِتَابُ اللہِ یَقْضِی بِالْقِصَاصِ" کہ کتاب اللہ دانت کے قصاص کا حکم دیتی ہے، جب کہ باجماعِ امت پورے قرآن میں دانت کے قصاص کے بارے میں شریعتِ موسویہ کی وضاحت پر مشتمل صرف یہی آیت ہے: "وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ..... وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ..."۔ (المائدۃ:۴۵) ترجمہ:اور ہم نے ان پر اس میں یہ بات فرض کی تھی کہ جان بدلے جان کے..... اور دانت بدلے دانت کے۔ (ترجمہ تھانویؒ) اور سبھوں نے اس آیت کے ذریعہ "قصاص فی السن" کو واجب قرار دیا، جوشرائع سابقہ کی حجیت کی صریح دیل ہے (اصول مذہب الامام احمد بن حنبل:۴۹۱) ہرچند کہ بعض منکرین نے اس آیت سے معارضہ کرنا چاہا اور قصاص فی السن کو: "وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ" (البقرۃ:۱۷۹) ترجمہ: (اس قانون) قصاص میں تمہاری جانوں کا بڑا بچاؤ ہے۔ (ترجمہ تھانویؒ) "فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَااعْتَدَى عَلَيْكُمْ"۔ (البقرۃ:۱۹۴) ترجمہ:سوجوتم پر زیادتی کرے توتم بھی اس پر زیادتی کرو جیسی اُس نے تم پر زیادتی کی ہے۔ (ترجمہ تھانویؒ) کے عموم سے ثابت کرنا چاہا؛ مگرجیسا کہ ظاہر ہے یہ نصوص قضیہ مذکورہ پرصراحۃ اور بالراست دال نہیں ہیں، اس لیے ان کے ذریعہ استدلال ہرگز تام نہیں کہلاسکتا، مزید عمومی نصوص پر تخصیص کانقص توبہرِصورت موجود رہتا ہے؛ اس لیے یہ ممکن ہے کہ آیاتِ ذیل سے قصاص فی السن کی صورت مستثنیٰ اور خارج ہو اور ایسی صورت میں مذکورہ حکم پر صرف اسی ابتدائی آیت سے استدلال کیا جاسکتا ہے۔ (اصول مذہب الامام احمد بن حنبل:۴۹۲) مذاہبِ اربعہ میں شرائع من قبلنا کی فقہی حیثیت مذاہب اربعہ کے تمام ہی ائمہ متبوعین اس سے استدلال کرتے ہیں ،پھرچونکہ اس دلیل شرعی کی معرفت کا طریق صرف کتاب وسنت ہے ،اس لیے اسے اصولِ فقہ کی مستقل اصل خامس کا مقام نہیں دیا گیا؛ بلکہ اسے کتاب وسنت ہی کا تابع مانا گیا۔ (فواتح الرحموت:۲/۱۸۴) علماء احناف میں حضرت امام محمد بن الحسن الشیبانی نے مہایاۃ کی صحت پر حضرت صالح علیہ السلام کی شریعت کے ان احکام سے استدلال کیا ہے: "وَنَبِّئْهُمْ أَنَّ الْمَاءَ قِسْمَةٌ بَيْنَهُمْ"۔ (القمر:۲۸) ترجمہ:اور ان لوگوں کو یہ بتلادینا کہ پانی (کنویں کا) ان میں بانٹ دیا گیا ہے۔ (ترجمہ تھانویؒ) اور ارشاد ہے: "قَالَ هَذِهِ نَاقَةٌ لَهَا شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ"۔ (الشعراء:۱۵۵) ترجمہ:صالحؑ نے فرمایا کہ یہ اونٹنی ہے، پانی پینے کے لیے ایک باری اس کی ہے اور ایک مقررہ دن میں ایک باری تمہاری (یعنی تمہارے مواشی کی)۔ (ترجمہ تھانویؒ) شمس الائمہ السرخسیؒ رقمطراز ہیں کہ امام محمدؒ نے کتاب الشرب میں قسمۃ الشرب بطریق المہایاۃ، پر درج بالا آیات ہی کے ذریعہ استدلال کیا ہے (کشف الاسرار:۳/۴۰۵) مہایاۃ تقسیم منافع کو کہتے ہیں، منافع چونکہ معنوی اور ناقابلِ قسمت ہوا کرتے ہیں، اس لیے ان کی تقسیم ایک باعث اشکال امر تھا، امام محمدؒ نے مذکورہ آیات کے ذریعہ استدلال کرتے ہوئے اس کوحل فرمادیا کہ ایام ووقت کے لحاظ سے منافع کی تقسیم ہوسکتی ہے؛ لہٰذا ایک باؤلی اگرچند کاشتکاروں کے درمیان مشترک ہو تووہ یومیہ یاوقتیہ باری لگاکر اپنے کھیت کی ضروریات پوری کرسکتے ہیں۔ (کشف الاسرار:۳/۴۰۵۔ نورالانوار:۲۲۰) ایسے ہی مسلمان کو ذمی کے بدلے میں قصاصاً قتل کرنے پر حنفیہ نے: "وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ" (المائدۃ:۴۵) ترجمہ:اور ہم نے ان پر اس میں یہ بات فرض کی تھی کہ جان بدلے جان کے۔ (ترجمہ تھانویؒ) کے ذریعہ استدلال کیا ہے۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ:۲۶/۱۸) علماء مالکیہ رحمہ اللہ مالکیہ نے محض قرائن کی شہادت پر قاضی کو فیصلہ کی اجازت دی ہے، اس قاعدہ پر ان کا مستدل حضرت یعقوب علیہ السلام کا یہ عمل ہے کہ انہوں نے آثار وقرائن ہی کی بناء پر برادرانِ یوسف کے اس بیان کو رد کردیا تھا کہ یوسف کوبھیڑیئے نے کھالیا ہے، بردرانِ یوسف کے بیان مذکور کو غلط قرار دینے کے لیے حضرت یعقوبؑ کے پاس کوئی عینی شہادت نہ تھی؛ بس کچھ علامات وقرائن تھے؛ اسی قاعدہ پر مالکیہ نے یہ تفریع کی کہ اگرکوئی شخص دارالاسلام میں بحالت مردہ پایا جائے اور وہ غیرمختون اور زنار باندھے ہوئے ہو، تواس کو علامت کفر ٹھہراتے ہوئے اُسے مقابر مسلمین سے دور رکھا جائے گا، مسلمانوں کے قبرستان میں اُسے دفن نہیں کیا جائے گا۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ:۱۹/۲۶) حنابلہ رحمہ اللہ ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی نے علماء حنابلہ کی تصریحات کی روشنی میں باحوالہ ثابت کیا ہے کہ امام احمد بن حنبل کا رائج مذہب بھی وہی ہے جواحناف ومالکیہ کا ہے؛ چنانچہ حضرت امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ اگرکوئی شخص اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کی نذر مانے توشرعاً اس کی یہ نذر منعقد ہوجائے گی اور اُسے اپنے بیٹے کے بجائے ایک دنبہ ذبح کرنا ہوگا؛ کیونکہ شریعت ابراہیمی ہمارے مدنظر ہے، حضرت ابراہیمؑ نے ایسا ہی کیا تھا، قرعہ اندازی کے جواز وثبوت پر حنابلہ نے شریعتِ یونسؑ اور واقعۂ مریمؑ کے ذریعہ استدلال کیا کہ جس طرح قرعہ اندازی کے ذریعہ حضرت یونسؑ کے کشتی میں بیٹھے رہنے کے حق کوسوخت کردیا گیا تھااور حضرت مریمؑ کے حق حصانت کوقرعہ اندازی ہی کے ذریعہ طے کیا گیا تھا؛ ایسے ہی ہماری شریعت میں قرعہ اندازی کے ذریعہ بعض امور طے اور بعض سوخت کئے جاسکتے ہیں۔ (اصول مذہب الامام احمد بن حنبل:۴۹۰) شوافع رحمہ اللہ ہرچند کے الموسوعۃ الفقہیہ (اصول مذہب الامام احمد بن حنبل:۲۶/۱۹) میں امام شافعی کا اصح مذہب "شرائع من قبلنا" کے عدم اعتبار کا بتلایا گیا ہے؛ مگرفقہ شافعی کی بعض فروعات اور خوداصولین شوافع کی تصریحات سے اندازہ ہوتا ہے کہ "شرائع من قبلنا" ان کے یہاں بھی فی الجملہ حجت ہے؛ چنانچہ البحرالمحیط میں امام الحرمین کے حوالے سے ہے کہ امام شافعیؒ نے ضمانت وذمہ لینے کی صحت پرشریعت یوسفؑ کے اس حکم کے ذریعہ استدلال کیا: "وَلِمَنْ جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِيرٍ وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ"۔ (یوسف:۷۲) ترجمہ: (کہ) جوشخص اس کو (بادشاہی پیمانے کو) لاکر حاضر کرے اس کو (ترجمہ تھانویؒ) یہاں بارِ شترغلہ کی مقدار اس شخص کی اجرت ٹھہرائی گئی جو مسروقہ بادشاہی پیمانہ کولاکر حاضر کردے، شاید ان کے ہاں اجرت مذکور کی مقدار معلوم ومتعین تھی، اس لیے منادی نے بارِ شتر کی ذمہ داری لی تھی، اسی طرح شافعیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ کوئی شحص اپنے غلام کو سوکوڑے مارنے کی قسم کھالے؛ پھراُسے کھجور وغیرہ کے ایسے گچھے سے مارے جوسواجزاء پر مشتمل ہو تو وہ اپنی قسم کو پوری کرنے والا شمار ہوگا؛ کیونکہ حضرت ایوبؑ کا قصہ ہمارے سامنے ہے۔ (البحرالمحیط:۶/۴۳)