انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
عملِ کثیر کسے کہتے ہیں؟ کیا اس سے نماز ٹوٹ جاتی ہے؟ عملِ کثیر کی تعریف میں پانچ قول ہیں: (۱) ایسا عمل کہ اس کے کرنےوالے کو دور سے دیکھ کر ظنِ غالب ہو کہ یہ شخص نماز میں نہیں ہے، جس عمل سے نماز میں نہ ہونے کا ظنِ غالب نہ ہو بلکہ شبہ ہو وہ قلیل ہے۔ (۲) جو کام عادتاً دو ہاتھوں سے کیا جاتا ہو جیسے ازاربند باندھنا اور عمامہ باندھنا وہ عمل کثیر ہے، خواہ ایک ہی ہاتھ سے کرے اور جو عمل عادتاً ایک ہاتھ سے کیا جاتا ہو وہ دونوں ہاتھوں سے بھی کرے تو قلیل ہے، جیسے ازار بند کھولنا اور ٹوپی سر سے اتارنا۔ (۳) تین حرکاتِ متوالیہ ہوں، یعنی ان کے درمیان بقدرِ رکن وقفہ نہ ہو تو عمل کثیر ہے ورنہ قلیل۔ (۴) ایسا عمل کثیر ہے جو فاعل کو ایسا مقصود ہو کہ اس کو عادتاً مستقل مجلس میں کرتا ہو، جیسے حالتِ نماز میں بچہ نے عورت کا دودھ پی لیا۔ (۵) نمازی کی رائے پر موقوف ہے، وہ جس عمل کو کثیر سمجھے وہ کثیر ہے۔ پہلے تین اقوال زیادہ مشہور ہیں اور در حقیقت تینوں کا حاصل ایک ہی ہے، اس لئے کہ قول ثانی و ثالث میں مذکور عمل کے فاعل کو دیکھنے سے غیر نماز میں ہونے کا ظنِ غالب ہوتا ہے۔ فائدہ:۔ بعض عبارات میں تین پئے درپئے حرکات کے بجائے ایک رکن میں تین حرکات ہے، اس میں رکن سے مقدارِ رکن مراد ہے، یعنی جتنے وقت میں تین بار سبحان ربی الاعلیٰ کہا جاسکے ، ظاہر ہے کہ اتنے وقت میں تین حرکات واقع ہوئیں تو وہ متوالیہ (پئے درپئے) ہی ہوں گی، یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ایک رکن کے ساتھ پئے درپئے ہونا بھی شرط ہے، پس کسی طویل رکن میں تین حرکات کا اس طرح وقوع ہوا کہ ان کے درمیان بقدر رکن وقفہ ہو مفسد نہیں، قول اول جو اصل الاقوال واصحہا ہے ، اس کے مطابق بھی ثلاث حرکات متوالیہ مفسد ہوں گی، اس لئے کہ تین حرکات غیر متوالیہ دیکھنے والے کو غیر نماز میں ہونے کا ظنِ غالب نہیں ہوتا، اگرچہ تینوں حرکات ایک ہی رکن میں ہوں، بالخصوص جبکہ رکن طویل ہو اور حرکات کے درمیان وقفہ بھی زیادہ ہو۔ (احسن الفتاویٰ:۳/۴۱۹، زکریا بکڈپو، دیوبند)