انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مسلمانوں کا شدید حملہ مقدمتہ الجیش جو حضرت خالدؓ بن ولید کی افسری میں تھا اس میں زیادہ تر فتح مکّہ کے جدید الاسلام مسلمان تھے، وہ جوانی کے غرور میں اسلحہ جنگ پہن کر بھی نہیں آئے تھے ، فوج میں دوہزار طلقاء یعنی وہ لوگ تھے جو ابھی اسلام نہیں لائے تھے ، ہوازن تیر اندازی میں تمام عرب میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے ، میدانِ جنگ میں ان کا ایک تیر بھی خالی نہیں جاتاتھا، تیروں کا مینہ برس رہاتھا، کفار نے معرکہ گاہ میں پہنچ کر مناسب مقامات پر قبضہ کر لیا تھااور تیر اندازوں کے دستے پہاڑوں کی گھاٹیوں کھوہوں اور درّوں میں جا بجا جما دئے تھے، فوج اسلام نے صبح کے وقت جب خوب اجالا بھی نہیں ہوا تھا ، حملہ کیا ، میدان جنگ اس قدر نشیب میں تھا کہ پاؤں جم نہیں سکتے تھے ، حملہ آوروں کا بڑھنا تھا کہ سامنے سے ہزار وں فوجیں ٹوٹ پڑیں، ادھر کمیں گاہوں سے تیر اندازوں کے دستے نکل آئے اور تیروں کا مینہ بر سادیا ، مقدمۃ الجیش ابتری کے ساتھ بے قابو ہو کر پیچھے ہٹا اور پھر تمام فوج کے پاؤں اکھڑ گئے، صحیح بخاری میں ہے کہ سب لوگ ٹل گئے اور آنحضرت ﷺ اکیلے رہ گئے ، رسول اللہ ﷺ نے داہنی جانب دیکھا اور پکارا ! یامعاشر الانصار … صدا آئی ہم حاضر ہیں، پھر آپﷺ نے بائیں جانب مڑ کر پکارا… اب بھی یہی آواز آئی، حضرت عباسؓ کافی بلند آوازتھے، حضور اکرم ﷺ نے ان کو حکم دیا کہ مہاجرین و انصار کو آواز دیں، انھوں نے ندا دی ! اے گروہ انصار … اے اصحاب السمرہ … اے اصحاب سورۃ البقرہ… اے اصحاب الشجرہ (بیعت رضوان والے) ، اس پراثر آواز کا کانوں میں پڑناتھاکہ تمام فوج دفعۃ پلٹ گئی، جن لوگوں کے گھوڑے کشمکش اور گھمسان کی وجہ سے مڑ نہ سکے انھوں نے زرہیں پھینک دیں اور اونٹوں اور گھوڑوں سے کود پڑے، دفعۃً لڑائی کا رنگ بدل گیا، اب مسلمان دشمنوں کو رگید رہے تھے، گھمسان کا رن پڑا، حضور ﷺ نے بہ آواز بلند پکار کر فرمایا " مسلمانو … ہمت نہ ہارنا، لڑائی نے زور پکڑ لیا ہے ، اﷲ نے اپنے رسول سے نصرت کا جو وعدہ فرمایا ہے وہ پورا ہوکر رہے گا، پھر آپﷺ نے حضرت عباسؓ سے فرمایا : کنکریوں کی ایک مٹھی مجھے دو اور دست مبارک میں لے کر " شاہت الوجوہ" (چہرے بگڑ جائیں) کہہ کر دشمنوں کی طرف پھینکی، یہ مٹھی بھر مٹی اس طرح پھیلی کہ دشمن کا کوئی آدمی ایسا نہ تھا جس کی آنکھ اس سے بھر نہ گئی ہو ، یعلی بن عطا نے بیان کیا کہ مجھ سے ان (مشرکین) کے بیٹوں نے اپنے اپنے والد سے بیان کیا کہ ہم میں کوئی شخص ایسا نہ تھا جس کی دونوں آنکھوں اور منہ میں مٹی نہ بھر گئی ہو، پھر ہم نے آسمان اور زمین کے درمیان ایک آواز مثل اس آواز کے سنی جو لوہے کے (صیقل کے لئے) نئے طشت گزرنے سے پیدا ہوتی ہے، سمرہ سے مروی ہے کہ یوم حنین بارش کا دن تھا، آنحضرت ﷺ نے منادی کو حکم دیا تو اس نے ندا دی کہ نماز کجاوؤں میں ہوگی( ابن سعد) اس کے ساتھ ہی دشمن پر پسپائی کے آثار پیداہونا شروع ہوگئے،