انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** گھر سے جبل ثور تک حضور اکرم ﷺ ۷ ۲ صفر ۱۴ نبوت مطابق ۱۲ ستمبر ۶۲۲ ء حضرت ابو بکرؓ کے ہمراہ مکہ سے نکلتے ہوئے حَز دَرہ کے مقام پر کعبۃ اللہ کی طرف منہ کیا اور بڑے دکھ سے فرمایا: " اے مکہ ! اللہ کی قسم ! تومجھے روئے زمین پر سب سے زیادہ محبوب ہے اور خدا کو بھی اپنی زمین میں تو ہی سب سے بڑھ کر محبوب ہے، اگر تیر باشندوں نے مجھے نہ نکالا ہوتا تو میں کبھی تجھے نہ چھوڑتا" یہ کہہ کر آپﷺ مکہ کے جنوب میں یمن کے راستہ پر روانہ ہوئے اور تین چار میل کے فاصلہ پر واقع جبل ثور پہنچے جس میں غارِ ثور ہے، جو سطح سمندر سے (3200) فٹ کی بلندی پر پہاڑ کی چوٹی کے قریب واقع ہے، پہاڑ ناہمواراور سیدھا ہونے سے اس پر چڑھنا بہت دشوار تھا، اس پہاڑ کا نام " جبل ثور" رکھنے سے متعلق ایک روایت ہے کہ حضرت اسمعٰیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک شخص ثور بن عبد مناف نے اپنے ایک سفر کے دوران اس پہاڑ پر قیام کیا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابو بکرؓ صدیق نے رات کے وقت اس پہاڑپر چڑھائی شروع کی ، پھر حضرت ابو بکرؓ نے حضور ﷺ کو اپنے کاندھوںپر بٹھا لیا اور غار کے دہانے تک لے آئے اور عرض کیا :یا رسول اللہ ! آپ باہر ٹھہریئے میں اندر سے غار کو صاف کر لوں (محمد ادریس کاندھلوی ، سیرت المصطفیٰ بحوالہ سیرت احمد مجتبیٰ ) اس کے بعد حضرت ابو بکر ؓ نے غار میں داخل ہوکر صاف کیا اور سوراخوں کو کپڑا پھاڑ کر بند کیا، پھر حضور ﷺ اندر تشریف لائے اور حضرت ابو بکر ؓ کے زانو پر سر رکھ کر سو گئے، اتفاق سے سامنے کا ایک سوراخ بند نہیں ہوا تھا جسے حضرت ابو بکرؓ نے اپنے پاؤں کی ایڑھی رکھ کر بند کیا، اس سوراخ میں ایک سانپ رہتا تھا جس نے آپ کو ڈس لیا، لیکن انھوں نے جنبش تک نہ کی، جب زہر کے اثر سے تکلیف زیادہ ہوئی تو آپ کی آنکھوں سے آنسو نکل کر حضور ﷺ کے چہرہ ٔ مبارک پر گرے جس سے آپﷺبیدار ہوئے اور پوچھا کہ کیا ماجرا ہے ؟ حضرت ابو بکر ؓ نے کہا کہ سانپ نے کاٹاہے جس پر حضور ﷺ نے اپنا لعاب ِدہن لگایاجس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے زہر کے اثر کو زائل کر دیا۔