انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت معیقیبؓ بن ابی فاطمہ دوسی نام ونسب معیقیبؓ نام، نسبی تعلق قبیلہ ازد سے تھا اوربنی عبدشمس کے حلیف تھے۔ (ابن سعد،جزء۴،ق۱:۸۶) اسلام وہجرت دعوت اسلام کے ابتدائی زمانہ میں مشرف باسلام ہوئے اورہجرت ثانیہ میں ہجرت کرکے حبشہ گئے،وہاں سے خیبر کے زمانہ میں مدینہ آئے۔ (استیعاب:۱/۲۹۰) غزوات مدینہ آنے کے بعد تمام لڑائیوں میں شریک ہوتے رہے، بعض روایتوں سے بدر اوربیعت رضوان کی شرکت کا شرف بھی ثابت ہوتا ہے،اس اعتبار سے وہ خیبر سے بھی پہلے مدینہ آچکے تھے؛لیکن صحیح روایت یہی ہے کہ خیبر کے بعد مدینہ آئے اور بدر وخیبر میں شریک نہیں ہوئے تھے،ابن سعد نے بھی ان کو صحابہؓ کرام کے اسی زمرہ میں لکھا ہے،جو قدیم الاسلام تو تھے؛لیکن بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے۔ (استیعاب:۱/۲۹۰) عہدِ شیخین آنحضرت ﷺ کی زندگی میں خاتم رسالت ان ہی کے پاس رہتی تھی، آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ خاتم بردار کی حیثیت سے ان کا خاص لحاظ کرتے تھے؛ چنانچہ دونوں بزرگوں کے عہد میں مالیات کا صیغہ ان کے متعلق رہا، اوربیت المال میں خازن کے عہدہ پر ممتاز تھے۔ (استیعاب:۱/۲۹۰) حضرت عمرؓ کو ان سے بہت محبت تھی،ان کو جذام کی شکایت ہوگئی تھی ،حضرت عمرؓ نے علاج میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھارکھا،جہاں جہاں مشہور اطبا کا پتہ چلتا تھا بلا کر علاج کراتے تھے؛لیکن کوئی فائدہ نہ ہوتا تھا،آخر میں دو یمنی طبیبوں سے علاج کرایا،جس سے مرض توزائل نہیں ہوا، البتہ آئندہ بڑہنے کا خطرہ باقی نہ رہا، عموماً لوگ جذامی آدمی کے ساتھ کھانے پینے سے پرہیز کرتے ہیں؛لیکن حضرت عمرؓ ان کو اپنے ساتھ دسترخوان پر بٹھاتے اورفرماتے کہ یہ طرز عمل تمہارے ساتھ مخصوص ہے۔ (ابن سعد،جزو۴،ق۱:۸۷) عہدِ عثمانی اوروفات حضرت عمرؓ کے بعد حضرت عثمانؓ کا بھی وہی طرز عمل رہا اورغالباً خاتم برداری کا قدیم منصب بھی ان ہی کے سپرد تھا؛کیونکہ آنحضرتﷺ کی انگوٹھی ان ہی کے ہاتھ سے بیر معونہ میں گری تھی،(مسلم:۲/۲۱۴،مطبوعہ مصر) اسی عہد کے آخر میں وفات پائی۔ (اسد الغابہ:۴/۴۰۳) اولاد آپ کی اولادوں میں صرف محمد بن معیقیبؓ کا پتہ چلتا ہے،انہوں نے آپ سے روایت بھی کی ہے۔ (تہذیب التہذیب :۱/۲۵۴) علمی حالت علمی حیثیت سے کوئی ممتاز شخصیت نہ تھی؛ تاہم نوشت وخواند میں پوری مہارت رکھتے تھے؛چنانچہ حضرت عمرؓ نے جب اپنی املاک وقف کی تو اس وقف نامہ کی کتابت ان ہی نے کی تھی،(ابوداؤد:۲/۹) احادیث نبوی کے خوشہ چین بھی تھے؛چنانچہ ان کی متعدد مرویات احادیث کی کتابوں میں موجود ہیں، ان میں دو متفق علیہ ہیں اورایک میں امام مسلم منفرد ہیں۔ (تہذیب الکمال:۳۹۷)