انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مکہ سے کاروان اہل بیت کی روانگی غرض ترویہ کے دن ذی الحجہ( ۶۰ ھ )کو کاروان اہل بیت مکہ سے روانہ ہوا، عمرو بن سعید بن عاص اموی حاکم مکہ کے سواروں نے روکنے کی کوشش کی؛ لیکن حضرت حسینؓ زبردستی آگے بڑھتے چلے گئے اور تنعیم پہنچ کر مزید اونٹ کرایہ پر لئے اور بڑھتے ہوئے صفاح پہنچے، یہاں فرزدق شاعر ملا، آپ نے اس سے عراق کے حالات پوچھے،اس نے کہا آپ نے ایک باخبر شخص سے حال پوچھا، لوگوں کے دل آپ کے ساتھ ہیں،لیکن تلواریں بنی امیہ کے ساتھ ہیں، قضائے الہی آسمان سے اترتی ہے خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے آپ نے سنکر فرمایا تم نے سچ کہا :اللہ الا مریفعل مایشاء وکل یوم ربنا فی شان ،اگر خدا کا حکم ہمارے موافق ہو تو اس کی نعمتوں پر اس کے شکر گزار ہوں گے ،شکر گزاری میں وہی مدد گار ہے اوراگر خدا کا فیصلہ ہمارے خلاف ہوا تو بھی ہماری نیت حق اور تقویٰ ہے،فرزدق سے گفتگو کے بعد قافلہ آگے بڑھا۔(ابن اثیر:۲/۳۳) راستہ میں عبداللہ بن جعفر کا خط ملا کہ میں خدا کا واسطہ دلاتا ہوں، میرا خط ملتے ہی فوراً لوٹ آئیے، مجھے ڈر ہے کہ جہاں آپ جارہے ہیں وہاں آپ کی ہلاکت اورآپ کے اہلبیت کی بربادی ہے،اگر خدانخواستہ آپ ہلاک ہوگئے تو دنیا تاریک ہوجائے گی، آپ ہدایت یابوں کا علم اورمومنوں کا آسرا ہیں، آپ سفر میں جلدی نہ کیجئے، خط کے بعد ہی میں بھی پہنچتا ہوں، اس خط کے بعد عبداللہ نے عمرو بن سعید حاکم مکہ سے کہا کہ وہ اپنی جانب سے بھی ایک خط لکھ کر حسینؓ کو واپس بلالے، عمرو بن سعید نے کہا تم مضمون لکھ دو میں اس پر مہر لگادوں گا؛چنانچہ عبداللہ نے عمرو کی جانب سے حسب ذیل خط لکھا: "میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تم کو اس راستہ سے پھیردے ،جدھر تم جارہے ہو میں نے سنا ہے کہ تم عراق جاتے ہو، میں تم کو خدا کا واسطہ دلاتا ہوں کہ افتراق اورانشقاق سے باز آؤ،اس میں تمہاری ہلاکت ہے میں تمہارے پاس عبداللہ بن جعفر اوراپنے بھائی کو بھیجتا ہوں، تم ان کے ساتھ لوٹ آؤ میں تم کو امان دیتا ہوں اورتمہارے ساتھ صلہ رحمی اوربھلائی سے پیش آؤں گاتمہاری مدد کروں گا تم میرے جوار میں نہایت اطمینان اورراحت کے ساتھ رہو گے اس تحریر پر خدا وکیل اورشاہد ہے"۔ عمرونے اس تحریر پر اپنی مہر کردی اورعبداللہ بن جعفر اوریحییٰ بن عمرو دونوں اس کو لے کر حضرت حسینؓ کے پاس گئے، حضرت حسینؓ نے اسے پڑھا، اورپڑھ کر فرمایا کہ میں نے خواب میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی ہے، اس میں آپ نے مجھے ایک حکم دیا ہے میں اس حکم کو پورا کروں گا ،خواہ اس کا نتیجہ میرے موافق نکلے یا مخالف ،عبداللہ اوریحییٰ نے پوچھا کیا خواب تھا، فرمایا میں نے اسے نہ کسی سے بیان کیا ہے اورنہ مرتے دم تک بیان کروں گا ،اس گفتگو کے بعد عمرو بن سعید کے خط کا جواب لکھا کہ جو شخص اللہ عزوجل کی طرف بلاتا ہے ،عمل صالح کرتا ہے اوراپنے اسلام کا معترف ہے،وہ خدا اور اس کے رسول سے اختلاف کیونکر کر سکتا ہے،تم نے مجھے امان ،بھلائی اورصلہ رحمی کی دعوت دی ہے، پس بہترین امان اللہ تعالی کی امان ہے، جو شخص دنیا میں خدا سے نہیں ڈرتا ،خداقیامت کے دن اس کو امان نہیں دیگا، اس لئے میں دنیا میں خدا کا خوف چاہتا ہوں تاکہ قیامت کے دن اس کی امان کا مستحق رہو ں،اگر خط سے تمہاری نیت واقعی میرے ساتھ صلہ رحمی اورنیکی کی ہے تو خدا تم کو دنیا اورآخرت دونوں میں جزائے خیر دے، والسلام (طبری:۷/۲۶۹،۲۸۱)