انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت قتادۃؒ آپ کا نام قتادۃ بن دعامۃ السدوسی البصری ہے کنیت ابوالخطاب ہے، آپ مادرزاد نابینا تھے، آپ نے انس بن مالکؓ، عبداللہ بن سرجسؓ، اورابوالطفیلؓ سے حدیثیں روایت کی ہیں (تہذیب التہذیب :۳۱۵۸) قتادۃؒ کا حافظہ بہت قوی تھا جو بات ایک مرتبہ سنتے تھے وہ یاد ہوجاتی تھی اسی وجہ سے آپ کا شمار جید حفاظ حدیث میں ہوتا ہے ،آپ کا بیان ہے میں نے کسی محدث سے کبھی یہ نہیں کہا کہ حدیث کودوبارہ کہیے اورجو کچھ میرے کانوں نے سنا میرے دل نے اسے محفوظ کرلیا۔ (تہذیب التھذیب :۳۱۷۸) قتادہؒ سعید بن المسیب کے پاس حاضر ہوئے اورکافی دنوں تک ان سے مسائل پوچھتے رہے ایک دن سعید بن المسیب نے ان سے کہا تم نے جو کچھ مجھ سے سنا وہ تمہیں یاد ہے، قتادہؒ نے کہا: ہاں میں نے آپ سے اس بارے میں یہ پوچھا تھا آپ نے اسکا یہ جواب دیا تھا میں نے اس بارے میں آپ سے یہ سوال کیا تھاآپ نے اس کا یہ جواب دیا تھا ،اسی طرح آپ نے کافی حدیثیں بیان کردیں تو سعید بن المسیبؒ نے کہا میں نہیں سمجھتا کہ خدا نے تمہارے جیسا انسان بھی پیدا کیا ہے (التفسیر والمفسرون:۱۱۳) ابن حبان کہتے ہیں" قتادہ قرآن وفقہ کے جاننے والوں میں سے تھے اوراپنے زمانہ کے حفاظ حدیث میں آپ کا شمار تھا"۔ (تہذیب التہذیب:۳۱۸۸) معمر کہتے ہیں میں نے قتادہ کو یہ کہتے ہوئے سنا قرآن میں کوئی آیت ایسی نہیں مگر میں نے اس کے متعلق کچھ نہ کچھ ضرور سن رکھا ہے، امام احمد بن حنبل کہتے ہیں قتادہ تفسیر کے عالم ہیں آپ کی وفات :۱۱۸ھ میں طاعون کے سبب پیش آئی۔ (تذکرۃ الحفاظ:۹۲۱) تفسیری اقوال (۱)"إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئِينَ وَالنَّصَارَى وَالْمَجُوسَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا إِنَّ اللَّهَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ " (الحج:۱۷) اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان اوریہود اورصائبین اورنصاری اورمجوس اورمشرکین اللہ تعالی ان سب کے درمیان قیامت کے روز فیصلہ کردے گا۔ حضرت قتادہؓ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں"الصَّابِئِينَ"ایک قوم ہے جو فرشتوں کی عبادت کرتی ہیں اور قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتی ہیں اور زبور کی تلاوت کرتی ہیں اورمجوس وہ لوگ ہیں جو سورج چاند اورآگ کی پوجاکرتے ہیں "الَّذِينَ أَشْرَكُوا"اس سے مراد بت پرست ہے۔ (الدرالمنثور:۶۵۲۴) (۲)اللہ تعالی کے اس ارشاد "قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ"۔ (مریم:۳۴) ان(کی حقیقیت)کے بارے میں سچی بات یہ ہے جس میں لوگ جھگڑ رہے ہیں۔ کی تفسیر کرتے ہوئے قتادہؒ فرماتے ہیں :حضرت عیسی علیہ السلام کے اوپر اٹھالیے جانے کے بعد بنی اسرائیل جمع ہوئے ہر قوم میں سے ان کا ایک عالم نکلا اورحضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں ان لوگوں نے ایک دوسرے کی رائے معلوم کی، ان چاروں میں سے ایک نے کہا عیسی اللہ ہے جو زمین پر اتر آئے جسے زندہ کرنا تھا اسے زندہ کیا اورجسے مارنا تھا اسے مارا پھر آسمان پر چلے گئے اس نظریہ کے ماننے والوں کو یعقوبیہ کہا جاتا ہے، تینوں نے کہا تم نے جھوٹ کہا پھر دونوں نے تیسرے سے کہا، تم ان کے بارے میں اپنا عقیدہ بیان کرو توتیسرے نے کہا "وہ اللہ کے بیٹے ہیں" اورجو اس عقیدہ کو مانتے ہیں انہیں نسطریہ کہا جاتا ہے؛چنانچہ دونوں نے کہا تم نے جھوٹ کہا پھر دونوں میں سے ایک نے دوسرے سے کہا تمہار ان کے بارے میں کیا عقیدہ ہے اس نے کہا وہ تین معبودوں میں کے تیسرے ہیں اللہ معبود ہے عیسی معبود ہے اوران کی ماں معبود ہے اس عقیدہ کے ماننے والوں کو اسرائیلیہ کہا جاتا ہے اوریہی نصاری پر حکمران تھے ،چوتھے نے کہا: تم نے بھی جھوٹ کہا،وہ اللہ کے بندے، اس کے رسول، اس کی روح اور اس کے کلمہ ہیں اوروہ سب مسلمان تھے پھر ان چاروں میں سے ہر ایک کے نظریہ کو ماننے والے کچھ کچھ لوگ ہوگئے ان لوگوں نے آپس میں قتال کیا پھر وہ سب مسلمانوں پر غالب آگئے، اس کا بیان اللہ تعالی کےقول میں ہے: وَيَقْتُلُونَ الَّذِينَ يَأْمُرُونَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ"۔ (ال عمران:۲۱) اورقتل کرتے ہیں ایسے لوگوں کو جو اعتدال کی تعلیم دیتے ہیں سو ایسے لوگوں کو درد ناک عذاب کی خبر سنادیجئے۔ (الدرالمنثور:۵۰۸۴) (۳)"ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ هَاجَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا فُتِنُوا ثُمَّ جَاهَدُوا وَصَبَرُوا إِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَحِيمٌ"۔ (النحل:۱۱۰) پھر جن لوگوں نے فتنے میں مبتلا ہونے کے بعدہجرت کی،پھر جہاد کیا اور صبر سے کام لیاتو ان باتوں کے بعد تمہارا پروردگار یقیناً بہت بخشنے والا،بڑا مہربان ہے۔ اس آیت کی تفسیرکرتے ہوئے قتادۃؒ فرماتے ہیں ہم سے یہ بات ذکر کی گئی کہ جب اللہ تعالی نے مکہ والوں کے متعلق آیتیں نازل فرمائیں جس میں یہ ہدایت تھی کہ ان سے اسلام اس وقت تک قبول نہیں کیا جائے گا جب تک کہ وہ ہجرت نہ کرلے تو مدینہ والوں نے یہ آیتیں لکھ کر مکہ میں اپنے ساتھیوں کے پاس روانہ کردیں وہ لوگ مکہ سے نکل پڑے تو مشرکین سے ان کا سامنا ہوگیا تو مشرکین واپس ان کو مکہ لے آئے، اس موقع پر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی: الٓمّٓo أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ"۔ (العنکبوت:۱،۲) الم، کیا ان لوگوں نے یہ خیال کررکھا ہے کہ وہ اتنا کہنےپر چھوٹ جائیں گے کہ ہم ایمان لے آئے اور ان کو (قسم قسم کے مصائب سے) آزمایا نہ جائے گا۔ تو مدینہ والوں نے مکہ والوں کے پاس اسے لکھ کر روانہ کردیا، جب ان کے پاس یہ آیتیں پہونچیں تو مکہ والے مسلمانوں نے یہ طے کرلیا کہ ہم مکہ سے نکل جائیں گے؛ اگر مکہ کے مشرکین ان سے تعرض کریں گے تو ان سے مقابلہ کریں گے ؛حتی کہ یا تو نجات پاجائیں گے یا پھر شہید ہو کر اللہ سے جا ملیں گے؛ چنانچہ وہ لوگ نکلے، مشرکین نے ان کو پکڑا، مسلمانوں نے ان سے مقابلہ کیا بعض ان میں سے شہید ہوگئے اوربعض نجات پاگئے تو اس موقع پر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی: ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ هَاجَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا فُتِنُوا ثُمَّ جَاهَدُوا وَصَبَرُوا إِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَحِيمٌ"۔ (النحل:۱۱۰) معمر کہتے ہیں میں نے قتادہ کو یہ کہتے ہوئے سنا قرآن میں کوئی آیت ایسی نہیں مگر میں نے اس کے متعلق کچھ نہ کچھ ضرور سن رکھا ہے، امام احمد بن حنبل کہتے ہیں قتادہ تفسیر کے عالم ہیں آپ کی وفات :۱۱۸ھ میں طاعون کے سبب پیش آئی۔ (تذکرۃ الحفاظ:۹۲۱)