انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** جہنم کی زنجیریں،ہتھکڑیاں،بیڑیاں جہنم کی زنجیریں اللہ تعالی کا ارشاد ہے إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْکَافِرِينَ سَلَاسِلَ وَأَغْلَالًا وَسَعِيرًا (الانسان:۴) ترجمہ:ہم نے کافروں کے لئے زنجیریں،طوق اور آتش سوزاں تیار کر رکھی ہے۔ وَجَعَلْنَا الْأَغْلَالَ فِي أَعْنَاقِ الَّذِينَ کَفَرُوا (سباء:۳۳) ترجمہ:اورہم کافروں کی گردنوں میں طوق ڈالیں گے (اورہاتھ پاؤں میں زنجیر،پھر مشکیں کسا ہوا جہنم میں جھونک دیا جائے گا) إِذِ الْأَغْلَالُ فِي أَعْنَاقِهِمْ وَالسَّلَاسِلُ يُسْحَبُونَ،فِي الْحَمِيمِ ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُونَ (غافر:۷۱،۷۲) ترجمہ:جب طوق ان کی گردنوں میں ہوں گے اور(ان طوقوں میں)زنجیریں (پروئی ہوئی ہوں گی جن کا دوسرا سرا فرشتوں کے ہاتھ میں ہوگا اوران زنجیروں سے)ان کو گھسیٹتے ہوئے کھولتے پانی میں پہنچائیں گے،پھر یہ آگ میں جھونک دئے جائیں گے ۔ خُذُوهُ فَغُلُّوهُ ، ثُمَّ الْجَحِيمَ صَلُّوهُ ، ثُمَّ فِي سِلْسِلَةٍ ذَرْعُهَا سَبْعُونَ ذِرَاعًا فَاسْلُكُوهُ (الحاقہ:۳۰،۳۱،۳۲) ترجمہ:اس شخص کو پکڑو اور اس کے گلے میں طوق پہنادو،پھر دوزخ میں اس کو داخل کردو،پھر ایک ہی زنجیر میں جس کی پیمائش ستر گز ہے اس کو جکڑدو۔(اس گز کی مقدار خدا کو معلوم ہے کیونکہ یہ گز وہاں کا ہوگا) حسن بن صالحؒ فرماتے ہیں غل کا معنی یہ ہے کہ ایک ہاتھ کو گردن کے ساتھ باندھ دیا جائے۔ (ابن ابی الدنیا) إِنَّ لَدَيْنَا أَنْکَالًا وَجَحِيمًا ، وَطَعَامًا ذَا غُصَّةٍ وَعَذَابًا أَلِيمًا (المزمل:۱۲،۱۳) (ترجمہ)ہمارے یہاں بیڑیاں ہیں اوردوزخ ہے اور گلے میں پھنس جانے والا کھاناہے اوردردناک عذاب ہے۔(پس ان لوگوں کو ان چیزوں سے سزادی جائےگی) بیڑی اورزنجیر کی تپش حضرت حسن بصریؒ نے جہنم کا ذکر کیا تو فرمایا اگر جہنم کی ایک بیڑی پہاڑوں پر رکھ دی جائے تو ان کو بحر اسود تک منتشر کردے اور اگر ایک ہاتھ کی زنجیر کسی پہاڑ پر رکھی جائے تو(اپنے وزن اورتپش )سے اسے پیس ڈالے۔ (سیار بن حاتم) حضرت موسی بن ابی عائشہؒ نے یہ آیت کی تلاوت کی أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذَابِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (الزمر:۲۴) (ترجمہ)بھلا جو شخص اپنے منہ کو قیامت کے روز سخت عذاب کی سپر بنادے گا(اورایسے ظالموں کو حکم ہوگا کہ جو کچھ تم کیا کرتے تھے(اب) اس کا مزہ چکھو۔تو فرمایا جہنم میں ان کے ہاتھوں کو ہتھکڑیاں لگادی جائیں گی اور وہ اپنے چہروں سے عذاب کا استقبال کریں گے ان میں اس کی طاقت نہ ہوگی کہ جہنم سے اپنی حفاظت کر سکیں جب بھی ان پر کوئی عذاب مسلط ہوگا اس کا اپنے چہروں سے استقبال کریں گے۔ (ابن ابی حاتم) طوق ڈالنے کے لئے ستر ہزار فرشتے لپکیں گےحضرت فضیل بن عیاضؓ فرماتے ہیں جب اللہ تعالی حکم فرمائیں گے خُذُوهُ فَغُلُّوهُ(الحاقۃ:۳۰) (اسے پکڑو اورجکڑدو)تو اس پر ستر ہزار فرشتے لپکیں گے ہر ایک آگے بڑھے گا کہ کون اس کی گردن میں طوق ڈالتا ہے۔(ابن ابی حاتم)حضرت مجاہد،حسن بصری اورعکرمہ وغیرہ نے انکال کا ترجمہ بیڑیوں سے کیا ہے نیز حضرت حسن فرماتے ہیں یہ بیڑیاں آگ کی ہوں گی۔ بیڑیاں کیوں پہنائی جائیں گی ابو عمران جونی فرماتے ہیں اللہ کی قسم یہ ایسی بیڑیاں ہوں گی جو کبھی نہیں کھلیں گی۔حضرت حسن بصری فرماتے ہیں مجھے خدا کی عزت(غلبہ) کی قسم اہل جہنم کو اس خوف سے قید نہیں کیا جائے گا کہ ایسا نہ ہو کہ خدا کو عاجز کرکے جہنم سے نکل جائیں ؛بلکہ اس لئے کہ وہ جہنم ہی میں(قیدیوں کی شکل میں) پڑے رہیں۔ زنجیر کی لمبائی (حدیث)حضرت عبداللہ بن عمرؓ حضوراکرمﷺ سے نقل کرتے ہیں: لَوْ أَنَّ رَصَاصَةً مِثْلَ هَذِهِ وَأَشَارَ إِلَى مِثْلِ جُمْجُمَةٍ أُرْسِلَتْ مِنْ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ وَهِيَ مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ لَبَلَغَتْ الْأَرْضَ قَبْلَ اللَّيْلِ وَلَوْ أَنَّهَا أُرْسِلَتْ مِنْ رَأْسِ السِّلْسِلَةِ لَسَارَتْ أَرْبَعِينَ خَرِيفًا اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ قَبْلَ أَنْ تَبْلُغَ أَصْلَهَا (مسند احمد،باب مسند عبداللہ بن عمروبن العاص:حدیث نمبر:۶۵۶۱) ترجمہ: اس جھجمہ کنویں کے ارد گرد کے کسی پتھر کو آسمان سے زمین کی طرف چھوڑا جائے جس کی مسافت پانچ سو سال ہے تو وہ رات ہونے سے پہلے زمین پر پہنچ جائے گا اوراگراسے(جہنم کی ) زنجیر کے ایک سرے سے چھوڑا جائے تو اس کی انتہاء تک پہنچنے کے لئے چالیس سال تک لڑھک تا رہے گا۔ زنجیر کی ایک کڑی (حدیث) حضرت عمرؓسے روایت ہے کہ جبریلؑ نے حضور ﷺ سے عرض کیا: لو ان حلقۃ من سلسلۃ اھل النار التی نعت اللہ فی کتابہ وضعت علی جبال الدنیا لا نقضت ولم یردھا شئی حتی تنتھی الی الارض السابعۃ السفلی (خرجہ الطبرانی وفی اسنادہ مقال) (ترجمہ)اگر اہل جہنم کی زنجیر کی ایک کڑی، جس کا ذکر اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے،کو دنیا کے پہاڑوں پر رکھ دیا جائے تو وہ ان سے گذرجائے اورکوئی شئے اس کے سامنے رکاوٹ نہ بنے یہاں تک کہ وہ نچلی ساتویں زمین تک جا پہنچے ۔ نوف شامیؒ کے نزدیک زنجیر کی پیمائش حضرت نوف شامیؒ نے : ثم فی سلسلۃ ذر عھا سبعون ذراعافاسلکوہ (پھرایک ہی زنجیر میں جس کی پیمائش سترگز ہے اس کو جکڑدو)کے متعلق فرمایاذراع کے برابر ہے اورایک باع یہاں سے مکہ تک ہے(جب انہوں نے یہ پیمائش بتلائی) وہ اس وقت کوفہ میں تھے۔ زنجیر کی ایک کڑی کا وزن حضرت ابن المبارکؒ اپنی سند سے حضرت کعبؒ سے نقل کرتے ہیں کہ بلاشبہ اس زنجیر کا حلقہ(کڑی)جس کا ذکر اللہ تعالی نے ذرعھاسبعون ذراعا میں فرمایا ہے دنیا کے تمام لوہے سے بہت زیادہ ہے۔ حضرت ابن المنکدرؒ فرماتے ہیں اگر دنیا کا تمام لوہا جو استعمال ہوچکا یا جو باقی ہے یہ ایک کڑی کے برابر بھی نہیں ہوسکتا جن کڑیوں (زنجیر) کا ذکر اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں کیا اور فرمایا: فِي سِلْسِلَةٍ ذَرْعُهَا سَبْعُونَ ذِرَاعًا (ابو نعیم) زنجیر سے کیسا باند ھا جائے گا حضرت ابن المبارکؒ سفیان سے فاسلکوہ(پس اسے جکڑدو)کی تفسیر میں نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ اس (زنجیر کو)کافر کی دبر(جائے پخانہ)سے داخل کرکے (منہ سے) نکالا جائے گا۔ حضرت ابن جریجؒ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایازنجیر کو کافر کی مقعد(جائے پاخانہ)میں داخل کیا جائے گا اوراس کے منہ سے نکالا جائے گا پھر اسے اس میں اس طرح پرویاجائے گا جیسے بھوننے کے لئے ٹڈی میں پرویا جاتا ہے۔ (ابن ابی حاتم) حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں اس زنجیر کو کافر کی دبر میں داخل کرکے اس کے نتھنوں سے نکالا جائے گا یہاں تک کہ وہ پاؤں کے بل کھڑا نہیں ہوسکے گا۔ (ابن ابی حاتم) گردنوں میں زنجیر ڈال کر باندھ دئے جائیں گے ابو ہاشم کہتے ہیں کفار کے لئے جہنم میں میخیں ٹھونکی جائیں گی جن کے ساتھ زنجیر ہوں گے جو ان کی گردنوں میں ڈالدئے جائیں گے پھر جہنم ایک زبردست رینک مارے گی جس سے ان(کفار)کو پانچ سو سال کی مسافت کے برابر دور پھینک دے گی پھران کو ایک دن میں واپس لائے گی اسی دن کے متعلق اللہ تعالی نے: وَإِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ (الحج:۴۷) میں ارشاد فرمایا کہ (اورایک دن تیرے رب کے یہاں ہزار برس کے برابر ہوتا ہے جو تم گنتے ہو،ترجمہ شیخ الہندؒ) دوزخی سمیت پوری زنجیر کی خطرناکی حضرت سعید بن جبیرؒ فرماتے ہیں اگر دوزخیوں میں سے کسی آدمی کو زنجیر سمیت (پہاڑوں پر) رکھ دیا جائے تو وہ( ان) پہاڑوں کو نیست ونابود کردے۔ زنجیر میں باندھنے کی اور شکلیں فرمان باری تعالی: فَيُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِي وَالْأَقْدَامِ (الرحمن:۴۱) (ترجمہ)سو(ان کے)سرکے بال اورپاؤں پکڑ لئے جائیں گے) کی تفسیر میں حضرت ضحاکؒ فرماتے ہیں کافر کے پشت پیچھے سے اس کے سرکے بالوں اورپاؤں کو ایک زنجیر میں باندھ دیا جائے گا۔ سدیؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کافر کے سر کے بالوں اورقدموں کو ملایا جائے گا پھر سر کے بالوں کو پاؤں اور پشت سے باندھ کر بٹ دیا جائے گا۔ کافر کی کمر توڑدی جائے گی حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ کافر کے سرکے بالوں اورقدموں کو پکڑا جائے گا اوراس کی کمر توڑی جائے گی جیسے لکڑی کو تنور میں(جلانے کے لئے)توڑدیا جاتا ہے۔ زنجیر کی گرمی کی شدت حضرت حسن ؒ فرماتے ہیں جہنم کو ایک زمانہ سے قیامت تک بھڑکایا جائے گا اس کا کھانا،پانی،طوق سب گرم ہیں اگر ان میں سے کسی طوق کو پہاڑوں پر رکھ دیا جائے تو انہیں سیاہ پانی تک چیردے اوراگر زنجیر کا ایک ہاتھ (جتنا حصہ)کسی پہاڑ پر رکھ دیا جائے تو اسے پیس ڈالے اوراگر کسی پہاڑ اورعذاب خدا وندی کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ بھی ہو تو بھی یہ پہاڑ پگھل جائے گا، ان کفار کو زنجیروں میں باندھ دیا جائے گا یہاں تک کہ ان کو آگ جلائے گی اورروحوں کو باقی رکھے گی۔ (سیار بن حاتم)مذکورہ روایت کو ابن ابی الدنیا نے حضرت حسن بصری کے واسطے سے حضور علیہ السلام سے اس کے ہم معنی ذکر کیا ہے جس کے آخر میں یہ لفظ بھی ہیں کہ روحیں سانس کی نالیوں میں چیخ وپکار کرتے ہوئے باقی رہیں گی۔ (والموقوف اشبہ) بدن جلیں گے روحیں زنجیروں میں قید رہیں گی ابن المعزی فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ بدن توختم (ہوتے رہیں گے) اور روحیں زنجیروں میں باقی رہیں گی۔ (عبداللہ بن احمد) بادلوں سے طوق اورزنجیر برسیں گے (حدیث)یعلی بن منیہؓ نبی کریم ﷺ سے مرفوعا روایت کرتے ہیں: ینشی اللہ سبحانہ لاھل النار سحابۃ سوداء مظلمۃ فیقال یا اھل النارای شی تطلبون فیذکرون بھا سحابۃ الدنیا فیقولون یا ربنا الشراب فتمطر ھم اغلا لا تزید فی اغلالھم وسلا سل تزید فی سلا سلھم وجمر ایلتھب علیہ (طبرانی وابن ابی حاتم مرفوعا وابن ابی الدنیا موقوفالم یرفعہ) (ترجمہ)اللہ سبحانہ تعالی اہل جہنم کے لئے سیاہ سایہ دار بادل پیدا فرمائیں گے پس انہیں پکارا جائے گا اے آگ والو تم کیا چیز طلب کرتے ہو؟تو وہ اس پر دنیا کا بادل یاد کریں گے اورکہیں گے اے ہمارے پروردگار پانی(چاہیے)توان پر(پانی کی جگہ)طوق برسائے جائیں گےجوان کے طوقوں پر اضافہ ہوں گے اورزنجیربرسائے جائیں گے جو ان کے زنجیروں پر اضافہ ہوں گے اورانگارے چھوڑے جائیں گے جو ان پر مزید شعلے بھڑکائیں گے۔ طوق اورزنجیر ابھی تیار ہیں (حدیث)حضرت ابوہریرہؓ نے معراج کا واقعہ بیان کیا اور فرمایا کہ پھر نبی ﷺ ایک وادی پر تشریف لائے اور مکروہ آواز سنی اور بدبودار ہوا پائی تو پوچھا اے جبریل یہ کیا ہے؟تو انہوں نے عرض کیا: هذاصوت جهنم ، تقول:يارب آتني ماوعدتني فقدكثرت سلاسلي وأغلالي وسعيري وحميمي وضريعي وغساقي وعذابي،وقد بعد قعري، واشتد حري ، فآتني ما وعدتني ، قال : لك كل مشرك ومشركة، وكافر وكافرة، وكل خبيث وخبيثة ، وكل جبار لا يؤمن بيوم الحساب (مختصر تاریخ دمشق،باب ذکر عروجہ الی السماء واجتماعہ:۱/۱۷۱) (ترجمہ)یہ جہنم کی آواز ہے یہ کہتی ہے اے میرے پروردگار آپ نے میرے ساتھ جو وعدہ فرمایا ہے وہ مجھے عطا فرمائیے میری زنجیریں ،طوقیں،سوزش،جلتا ہوا پانی بہنے والی پیپ اورعذاب بہت بڑھ گیا ہے میری گہرائی بڑھ گئی میری گرمی سخت ہوگئی پس آپ نے میرے ساتھ جو وعدہ فرمایا ہے وہ مجھے عطا فرمائیے تو اللہ تعالی نے فرمایا ہر مشرک(مرد) اورمشرک (عورت)اورہر خبیث مرد اورخبیث (عورت)اورہر مغرور قیامت کا منکر تیرے لئے ہے۔ لوہے کے ہتھوڑے ارشاد باری تعالی ہے: وَلَهُمْ مَقَامِعُ مِنْ حَدِيدٍ ، كُلَّمَا أَرَادُوا أَنْ يَخْرُجُوا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ أُعِيدُوا فِيهَا (الحج:۲۱،۲۱) (ترجمہ)اوران کے(مارنے کے لئے)لوہے کے گرز(ہتھوڑے)ہوں گے(اوراس مصیبت سے کبھی نجات نہ ہوگی)وہ لوگ جب(دوزخ میں)گھٹے گھٹے (گھبراجائیں گے اور)اس سے باہر نکلنا چاہیں گے تو پھر اس میں دکھیل دئے جائیں گے۔ ہتھوڑے کا وزن (حدیث)حضرت ابو سعید خدریؓ نبی کریم ﷺ کافرمان نقل فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: لَوْ أَنَّ مِقْمَعًا مِنْ حَدِيدٍ وُضِعَ فِي الْأَرْضِ فَاجْتَمَعَ لَهُ الثَّقَلَانِ مَا أَقَلُّوهُ مِنْ الْأَرْضِ (خرجہ الامام احمد) (ترجمہ)اگر لوہے کا ایک گرز زمین پر رکھ دیا جائے اوراس (کواٹھانے) کے لئے تمام انسان اورجنات مل جائیں تب بھی اسے زمین سے نہیں اٹھا سکیں گے۔ اس ہتھوڑے کی خاصیت (حدیث)حضرت ابو سعیدؓ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: لَوْ ضُرِبَ الْجَبَلُ بِقَمْعٍ مِنْ حَدِيدٍ لَتَفَتَّتَ ثُمَّ عَادَ (مسند احمد،باب مسند ابی سعید الخدریؓ ،حدیث نمبر:۱۱۳۶۰) (ترجمہ)اگر لوہے کے ہتھوڑے سے پہاڑ کو مارا جائے تو وہ ریزہ ریزہ ہوجائے پھر دوبارہ(اپنی اصلی حالت پر)لوٹ آئے۔ (فائدہ)یعنی اس ہتھوڑے میں ایک خاصیت یہ ہے کہ یہ جس چیز پر مارا جائے وہ ریزہ ریزہ ہونے کے بعد دوبارہ اسی حالت میں آجاتی ہے تو دوزخیوں کو جب ضربیں لگیں گی تو وہ بھی ریزہ ریزہ ہونے کے بعد اپنی پہلی حالت میں آجائیں گے۔ مالک بن دینار فرماتے ہیں جب اہل جہنم آگ میں ہتھوڑوں کی ضربیں برداشت نہ کرسکیں گے تو گرم پانی کے حوضوں میں غوطے لگائیں گے اور(ان کی)تہہ میں چلے جائیں گے جیسے دنیا میں کوئی آدمی پانی میں غوطہ لگاتا ہے اور(اس کی تہہ میں)نیچے نیچے چلتا رہتا ہے۔ (کتاب الزھد امام احمد) حضرت عمرؓ کا ہتھوڑوں سے ڈرانا حضرت سعیدؒ حضرت قتادہؒ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا انہیں جہنم سے ڈراؤ شاید وہ اس سے خوف کھائیں کیونکہ اس کی گرمی سخت ہے گہرائی بہت زیادہ ہے اس کا پانی کھولتی ہوئی پیپ ہے اس کے ہتھوڑے لوہے کے ہیں۔ ایک بزرگ کا واقعہ صالح مری نے کسی کے سامنے یہ آیت پڑھی إِذِ الْأَغْلَالُ فِي أَعْنَاقِهِمْ وَالسَّلَاسِلُ يُسْحَبُونَ ، فِي الْحَمِيمِ ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُونَ (غافر:۷۱،۷۲) (ترجمہ)جبکہ طوق ان کی گردنوں میں ہوں گے اور(ان طوقوں میں)زنجیریں(پروئی ہوئی ہوں گی جن کا دوسرا سرا فرشتوں کے ہاتھ میں ہوگا اوران زنجیروں سے ،ان کو گھسیٹتے ہوئے کھولتے پانی میں پہنچائیں گے پھر یہ آگ میں جھونک دئے جائیں گے،تو ایک آدمی نے ایک زور دار چیخ ماری اور دم بخود ہوکر گرپڑا تو صالح مری کہتے ہیں کہ ہم اس کے پاس سے چلے گئے اوراسے چھوڑدیا(کیونکہ ان کو اس کے بہت جلد افاقہ میں آنے کا اطمینان تھا۔ (ابن ابی الدنیا) حضرت یزید الضبی کا واقعہ حضرت یزید الضبی کے سامنے کسی آدمی نے یہ آیت پڑھی : وَتَرَى الْمُجْرِمِينَ يَوْمَئِذٍ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفَادِ (ابراہیم:۴۹) (ترجمہ)اور(اس روز اے مخاطب)تو مجرموں کو(یعنی کافروں کو)زنجیروں میں جکڑے ہوئے دیکھے گا۔توحضرت یزید ضبی نے زاروقطار رونا شروع کردیا یہاں تک کہ ان پر بے ہوشی طاری ہوگئی۔ (عبداللہ بن احمد) حضرت مالکؒ بن دینار کی حالت حضرت مالکؒ بن دینار کی یہ بات پہلے گذرچکی ہے کہ وہ ساری رات صبح تک گھر کے صحن میں کھڑے رہے اور فرمایا اہل جہنم اپنی زنجیروں اورطوقوں سمیت صبح تک مسلسل میرے سامنے پیش کئے جاتے رہے۔