انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مفہوم کی آئینی حیثیت نصوص کے الفاظ سے مسائل کے استنباط میں فقہاء کرام نے بڑی دیدہ ریزی سے کام لیا ہے، نصوص کے ظاہر وباطن، مثبت ومنفی اور موافق ومخالف پہلو میں بہت ہی غور وفکر فرماکر انہوں نے امت کی راہ یابی کے لیے سنگِ میل نصب کئے ہیں، ذیل کی تحریر میں فقہاء کرام کی تصریحات کی روشنی میں مفہوم کی آئینی حیثیت کوواضح کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ مفہوم: الفاظ کے ظاہری معنی کے ساتھ جوبات ذہن میں آتی ہو اسے مفہوم کہتے ہیں۔ مفہوم کی اقسام مفہوم کی دوقسمیں ہیں: (۱)مفہوم موافق (۲)مفہوم مخالف۔ مفہوم موافق کسی لفظ کا محض لغت جان لینے سے یہ جان لینا کہ جوحکم منطوق کا ہے وہی مسکوت عنہ کا بھی ہے اور اس میں کسی رائے اور اجتہاد کی ضرورت نہ ہو (کشف الاسرار:۴/۴۶۵) اسی کا دوسرا نام فحوی الخطاب اور لحن الخطاب ہے۔ مفہوم موافق کے معتبر ہونے کی شرط مفہوم موافق کے معتبر ہونے کی شرط یہ ہے کہ محل نطق میں صرف لفظ سے معنی سمجھ میں آجائے اور مفہوم منطوق سے یاتواولیٰ اور بہتر ہویاکم ازکم برابر کا درجہ رکھتا ہو، منطوق سے اولیٰ ہونے کی مثال میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ مثلاً اللہ تعالیٰ نے والدین کو "اُفْ" تک کہنا حرام قرار دیا ہے (بنی اسرائیل:۲۳) لیکن اللہ تعالیٰ کے ارشاد سے حتمی طور پر یہ بات بھی سمجھ میں آرہی ہے کہ والدین کو مارنا اور گالی دینا بدرجہ اولیٰ حرام ہے؛ کیونکہ ان دونوں صورتوں میں "اُف" کہنے سے بڑھ کر اذیت ہے، اس طرح والدین کو اُف کہنے کا حرام ہونا جومنطوق ہے اس سے مارنا اور گالی دینا حرمت میں بڑھا ہوا(اولیٰ) ہے جومسکوت عنہ اور مفہوم ہے اور مفہوم منطوق سے اولیٰ تونہ ہو البتہ دونوں کا درجہ ہم پلہ ہو اوردونوں حکم کے لحاظ سے برابر ہوں، اس کی مثال ارشادِ باری تعالیٰ ہے: "إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا"۔ (النساء:۱۰) ترجمہ:بلاشبہ جولوگ یتیموں کا مال بلااستحقاق کھاتے ہیں اور کچھ نہیں اپنے شکم میں آگ بھر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس آیتِ کریمہ میں یتیم کے مال کو بلااستحقاق کھانے کوحرام قرار دیا ہے توجس طرح یتیم کا مال بلااستحقاق خود کھانا حرام ہے؛ اسی طرح اس کے مال میں بیجا خرد برد اور تصرف کرنا یادوسروں کوکھلادینا خواہ بطورِ خیرات ہی کیوں نہ ہو حرام ہے؛ کیونکہ یہ سب تصرفات برباد کرنے کے مترادف ہے۔ (شرح الکوکب المنیر:۲/۴۸۲) مفہوم موافق کی اقسام مفہوم موافق کی دو قسمیں ہیں:مقطوع اورمظنون۔ ۱۔مقطوع کا مطلب یہ ہے کہ جوحکم منطوق کی روشنی میں ثابت کیا جارہا ہے اس میں اس کے علاوہ دوسرے حکم کا احتمال نہ ہو۔ ۲۔مظنون کا مطلب یہ ہے کہ اس میں دوسرے حکم کا بھی احتمال ہو۔ (البحرالمحیط:۴/۹) ذیل میں دونوں کی مثال پیش کی جارہی ہے؛ تاکہ مزید وضاحت ہوجائے، مقطوع کی مثال، قرآن پاک میں اللہ کا ارشاد ہے: "فَلَاتَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ" (بنی اسرائیل:۲۳) ترجمہ:ان دونوں کو اف تک نہ کہو۔ اس میں والدین کو کسی بات پر اف کہنے سے بھی اولاد کو منع کیا گیا، اس سے اس بات پراستدلال کرنا کہ انہیں مارناپیٹنا اور برابھلا کہنے بھی ممنوع ہے؛ یہی مفہوم موافق مقطوع ہے۔ مظنون کی مثال، ذمی کے لیے شفعہ ہے یانہیں؟ امام احمد بن حنبلؒ کا یہ مسلک ہے کہ اس کے لیے شفعہ نہیں ہے؛ چنانچہ انہوں نے آپﷺ کے اس ارشاد سے استدلال فرمایا ہے: "وَإِذَالَقِيتُمُوهُمْ فِي الطَّرِيقِ فَاضْطَرُّوهُمْ إِلَى أَضْيَقِ الطَّرِيقِ"۔ (ابوداؤد، كِتَاب الْأَدَبِ، بَاب فِي السَّلَامِ عَلَى أَهْلِ الذِّمَّةِ، حدیث نمبر:۴۵۲۹) ترجمہ:جب تم ان سے راستہ میں ملو توانہیں راستہ کے سب سے تنگ جگہ کی جانب مجبور کرو۔ اس ارشاد سے صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب راستہ میں اس کی مرضی کے مطابق اس کو کوئی حق نہیں ہے توشفعہ میں بھی اس کو حق نہیں دینا چاہیے۔ مفہوم موافق اور جمہورِ امت جمہورِ امت اور ائمہ اربعہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ "مفہوم موافق" شرعاً معتبر ہے، سارے حضرات مفہوم موافق کونصوصِ شرعیہ اور غیرشرعیہ ہرجگہ معتبر مانتے ہیں؛ چنانچہ خاتم الفقہاء علامہ ابن عابدینؒ فرماتے ہیں: "ھُوَمُعْتَبر اِتفاقاً"۔ (رد المحتار،سنن الوضو:۱/۴۸) ترجمہ:مفہوم موافق بالاتفاق معتبر ہے۔ مفہوم مخالف کسی لفظ سے یہ استدلال کرنا کہ منطوق کے لیے جوحکم ثابت کیا جارہا ہے وہی حکم اس کی نقیض یعنی غیرمنطوق کے لیے ثابت ہے، اس کا دوسرا نام دلیلِ خطاب بھی ہے؛ کیونکہ مفہوم مخالف کے جودلائل ہیں وہ یاتوخطاب کے جنس سے ہیں یاخطاب اس پر دلالت کرتا ہے۔ مفہوم مخالف کی اقسام مفہوم مخالف کی دس قسمیں ہیں: (۱)مفہوم صفت (۲)مفہوم علت (۳)مفہومِ شرط (۴)مفہوم عدد (۵)مفہوم غایت (۶)مفہوم لقب (۷)مفہوم حصر (۸)مفہوم حال (۹)مفہوم زمان (۱۰)مفہوم مکان۔ (۱)مفہوم صفت: جہاں کسی وصف پر کوئی حکم لگایا جائے اگروہ وصف نہ رہے تووہاں یہ استدلال کرنا کہ وہ حکم بھی یہاں نہ ہوگا، جیسے جوجانور سال کے اکثر حصے میں چرا گاہ اور جنگلوں میں چرایا جاتا ہو، ان میں زکوٰۃ ہے، اس سے یہ استدلال کرنا کہ جوجانور سال کے اکثر حصہ میں گھر پر چارہ کھاتا ہو، چرا گاہ میں نہ چرایا جاتا ہو ان میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی؛ یہی مفہوم صفت ہے۔ مفہوم صفت کے شرائط مفہوم صفت سے استدلال کی درجِ ذیل شرطیں ہیں: ۱۔وہ صفتِ کاشفہ نہ ہو، یعنی اس صفت سے محض موصوف کی وضاحت مقصود نہ ہو۔ ۲۔اس سے کسی کے مدح وذم کا ارادہ نہ کیا گیا ہو۔ ۳۔رواج کے مطابق اسے ذکر نہ کیا گیا ہو۔ ۴۔موصوف سے متعلق کسی سوال کا جواب نہ ہو۔ (المسودہ فی اصول الفقہ:۳۴۷) (۲)مفہوم علت: کسی حکم کو کسی علت پر معلق کیا جائے جیسے شراب کو حرام قرار دیا گیا ہے؛ کیونکہ وہ نشہ لاتی ہے (اصول الفقہ:۱۲۲) اس موقعہ سے یہ استدلال کرنا کہ جب علت نہیں پائی جائے گی توحکم بھی نہیں پایا جائیگا، اسے مفہوم علت کہتے ہیں۔ (۳)مفہوم شرط: کسی حکم کوشرط کے ساتھ معلق کیا جائے تواس سے یہ استدلال کرنا کہ جب شرط منتفی ہوگی توحکم بھی منتفی ہوجائے گا (الاحکام فی اصول الاحکام:۳/۱۰۳) جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "وَإِنْ كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنْفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ"۔ (الطلاق:۶) ترجمہ:اگروہ (مطلقہ) عورتیں حمل والیاں ہوں توحمل پیدا ہونے تک ان کوخرچ دو۔ آیت بالا میں یہ کہا گیا ہے کہ اگرمطلقہ حاملہ ہوتو اس پر خرچ کرو اور اس سے یہ استدلال کرنا کہ اگرمطلقہ، بائنہ، حاملہ نہ ہوتو شوہر پر اس کا نفقہ لازم نہ ہوگا یہ مفہوم شرط کہلائے گا۔ (۴)مفہوم عدد: کوئی حکم کسی خاص عدد کے ساتھ معلق ہو اب اس سے یہ استدلال کرنا کہ اگروہ عدد نہ پایا جائے تواس حکم کی نقیض ثابت ہوگی؛ خواہ عدد زیادہ ہویاکم ہو. (البحرالمحیط:۴/۴۱) جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: "الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ"۔ (النور:۲) آیت بالا میں جوان غیرشادی شدہ زانی کو سوکوڑے مارنے کا حکم ہے، اب اس سے یہ استدلال کرنا کہ اس سے زائد یاکم کوڑے لگانے کی اجازت نہ ہوگی یہ مفہوم عدد ہے۔ (۵)مفہوم غایت: منطوق میں جب حکم کی کوئی حد مقرر کی گئی ہوتو اس حد پر اس کا حکم توخود بخود منتہی ہوجائے گا ؛لیکن اس سے یہ استدلال کرنا کہ اس حد کے بعد منطوق کے علاوہ دوسرا حکم ثابت ہے؛ یہی مفہوم غایت ہے، جیسے ارشادِ باری تعالیٰ ہے: "وَإِذَاضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ"۔ (النسا۱:۱۰۱) آیت بالا میں مسافر کو نمازوں میں قصر کی اجازت دی گئی ہے، اس سے یہ استدلال کرنا کہ سفر ختم ہونے کے بعد قصر کی اجازت ختم ہوجائے گی مفہوم غایت ہے۔ (۶)مفہوم لقب: اسم علم یااسم نوع کے ساتھ حکم کومعلق کرنا مفہومِ لقب کہلاتا ہے، جیسے "فی الغنم زکوٰۃ" میں زکوٰۃ کے وجوب کا حکم ایک اسم نوع "غنم" پر معلق کیا گیا ہے، اب اس سے یہ استدلال کرنا "غیرغنم میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے، مفہوم لقب ہے۔ (البحرالمحیط:۴/۲۴) (۷)مفہوم حصر: جوحکم کلماتِ حصر میں سے کسی کلمہ کے ذریعہ بیان کیا جائے اس سے یہ استدلال کرنا کہ اس کی ضد میں حکم نہیں ہوگا؛ بلکہ اس کے خلاف حکم ثابت ہے یہ مفہوم حصر کہلاتا ہے۔ (۸)مفہومِ حال: ۹۔مفہومِ زمان، ۱۰۔مفہوم مکان، یہ تینوں مستقل اقسام نہیں ہیں؛ درحقیقت یہ مفہوم صفت ہی کی اقسام ہیں ان میں کوئی خاص حالت مخصوص زمانہ یامکان کی تعیین ہوتی ہے، ان سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ اس کی ضد میں اس کے خلاف حکم ثابت ہے۔ (ارشادالفحول،المسئلۃ الرابعہ،فی انواع المفہوم المخالفۃ:۲/۴۸) مفہوم مخالف اور ائمہ کا اختلاف سطورِ بالا میں مفہوم مخالف کی جن اقسام کا تعارف پیش کیا گیا ہے ان کے شرعاً معتبر ہونے یانہ ہونے میں ائمہ کا اختلاف پایا جاتا ہے، ائمہ ثلاثہ (امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمدؒ) نے جزوی اختلاف کوچھوڑ کر عام طورسے ان تمام اقسام سے سوائے مفہوم لقب کے (کہ اسے کسی نے معتبر نہیں مانا ہے) اپنی اپنی فقہ کی تدوین میں کام لیا ہے اور بہت سے مسائل کی ان پر بنیاد رکھی ہے؛ لیکن احناف نے مفہوم مخالف کوجملہ اقسام کے ساتھ اکثر غیرمعتبر ہی مانا ہے اور آپ نے اپنی فقہ کی ترتیب میں ان سے عموماً کام نہیں لیا ہے۔ (اصول الفقہ لخضری بک:۱۲۳) مفہوم مخالف کے بارے میں احناف کا صحیح موقف عام طور پر ائمہ احناف کی طرف یہ منسوب کردیا جاتا ہے کہ وہ مفہوم مخالف کونصوصِ شرعیہ میں بالکل معتبر نہیں مانتے؛ حالانکہ واقعہ اس کے خلاف ہے، فقہ حنفی کا تتبع کرنے والا ہرشخص اس نتیجہ پر پہونچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ دعویٰ اکثرابواب فقہیہ کے لحاظ سے توصحیح ہے لیکن یہ کہنا کہ ہرہرباب میں یہی بات ہے واقعہ کے خلاف ہے؛ بلکہ عام طور پر فقہاء احناف نے ان نصوصِ شرعیہ میں مفہوم مخالف کومعتبر مانا ہے، جن کاتعلق عقوبات سے ہے؛ چنانچہ علامہ حصکفی کا بیان ہے: "اَلْمَفْھُوْمُ معتبر فِیْ نَصِّ الْعُقُوْبَۃِ" (درمختار علی ہامش الرد:۱/۲۳۰) ترجمہ:یعنی عقوبات سے متعلق نصوص میں مفہوم مخالف معتبر ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "كَلَّا إِنَّهُمْ عَنْ رَبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَمَحْجُوبُونَ"۔ (المطففین:۱۵) ترجمہ:ہرگز (ایسا) نہیں، یہ لوگ اس روز اپنے رب کے دیدار (دیکھنے ) سے روک دیئے جائینگے۔ اس آیت میں قیامت کے دن کفار کی ایک عقوبت (سزا) کا ذکر ہے کہ وہ حضرات خدا کے دیدار سے محروم رہیں گے؛ یہاں احناف نے بھی مفہوم مخالف کا لحاظ کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ "مؤمنین قیامت میں دیدارِ خداوندی سے محروم نہ ہونگے" کیونکہ اگر یہ مانا جائے توکفار کے لیے عدم دیدار کی عقوبت کا کوئی معنی نہیں رہ جاتا۔ (ردالمختار:۱/۲۳۰) فقہی روایات اور عام بول چال میں مفہوم مخالف احناف کا مذہب تویہی ہے کہ مفہوم مخالف صرف بعض ابواب فقہیہ میں معتبر ہے، اس کے علاوہ، اس بات کے بھی قائل ہیں کہ فقہی روایات اور لوگوں کی عام بول چال میں بھی مفہوم کی تمام اقسام؛ حتی کہ مفہوم لقب بھی معتبر ہے، علامہ ابنِ عابدین لکھتے ہیں: "أَنَّهُ فِي الرِّوَايَاتِ وَنَحْوِهَا مُعْتَبَرٌ بِأَقْسَامِهِ حَتَّى مَفْهُومِ اللَّقَبِ"۔ (ردالمحتار:۱/۲۲۹) ترجمہ:فقہی روایات وغیرہ میں مفہوم مخالف کی تمام اقسام؛ حتی کہ مفہوم لقب بھی معتبر ہے۔ عام بول چال میں مفہوم مخالف کے معتبر ہونے کی مثال شمس الائمہ کردریؒ کا کہنا ہے کہ خاص طور پر کسی چیز کو ذکر کرنا عام طور پر اس کے علاوہ سے حکم کی نفی کی دلیل نہیں ہوتا؛ البتہ لوگوں کی عام بول چال عرف ومعاملات اور عقلی دلائل میں اس تخصیص کا اعتبار کیا جاتا ہے، علماء متأخرین نے بھی بلانکیر اسے معتبر گردانا ہے، مثلاً کوئی شخص دوسرے سے کہے "مالک علی أکثر من مأۃ درھم"کہ تمہارے میرے اوپر سودرہم سے زیادہ نہیں ہے، تواس کا یہ قول سودرہم کے اقرار پر محمول ہوگا اور اقرار کا یہ حکم مفہوم مخالف کے اعتبار سے لگایا گیا ہے؛ کیونکہ عام بول چال میں اس جملہ سے یہی مراد لیا جاتا ہے؛ ہاں! اگرکم کی بھی صراحت کردے مثلاً یہ کہے "مالک علی أکثر من مأۃ درھم ولاأقل" کہ تمہارا میرے اوپر نہ سودرہم سے زیادہ ہے اور نہ کم تواس صورت میں ایک درہم کا بھی اقرار ثابت نہ ہوگا، اس لیے کہ متکلم نے اکثر کے مقابلہ میں اقل کا بھی انکار کردیا اور عام بول چال میں اس جملہ کا یہی مطلب ہوا کرتا ہے کہ اس سے اس کے ذمہ کچھ بھی لازم نہ ہوگا۔ (خانیہ:۱/۲۹۔ رسم المفتی:۹۲) فقہی روایات میں مفہوم مخالف کے معتبر ہونے کی مثال ائمہ احناف کے نزدیک فقہی روایات میں بھی مفہوم مخالف کا اعتبار ہے، جیسا کہ سطورِ بالا میں بیان کیا گیا ہے؛ چنانچہ علامہ ابن عابدینؒ نے رسم المفتی میں "غایۃ البیان" کے حوالہ سے یہ مسئلہ لکھا ہے کہ "لیس للمرأۃ أن تنقض ضفائرھا" کہ غسل کے وقت عورت پر اپنی گوندھی ہوئی چوٹیاں کھولنا ضروری نہیں ہے؛ پھرآگے یہ لکھا ہے کہ یہاں عورت کی قید سے مرد سے احتراز ہے کہ مرد پر بہرِحال چوٹیاں کھولنا لازم ہے،کیونکہ اس کے لیے یہ رخصت نہیں ہے اور فقہی روایات میں حکم کوکسی ایک صورت کے ساتھ خاص کرنا اس صورت کے علاوہ کے لیے حکمِ مذکور ثابت نہ ہونے پر دال ہے۔ (رسم المفتی:۹۲) صریح قول کے ساتھ مفہوم مخالف کا اعتبار نہیں متأخرین ائمہ احناف نے فقہی جزئیات یالوگوں کی عام بول چال جہاں بھی مفہوم مخالف کے معتبر ہونے کی بات کہی ہے وہ اس قید کے ساتھ مقید ہے کہ اس کے خلاف کوئی جزئیہ یاقولِ صریح موجود نہ ہو، اس لیے کہ صریح، مفہوم پر مقدم ہوتی ہے، جیسا کہ علامہ طرطوسیؒ وغیرہ نے اس کی صراحت کی ہے؛ یہاں تک کہ احناف کے علاوہ جوحضرات نصوصِ شرعیہ میں علی الاطلاق مفہوم مخالف کومعتبر مانتے ہیں وہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کوئی جزئیہ یاصریح قول اس کے معارض ہوتومفہوم مخالف کومعتبر مانتے ہیں وہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ اگرکوئی جزئیہ یاصریح قول اس کے معارض ہوتومفہوم مخالف کوچھوڑ کر اس پر عمل کیا جائیگا، علامہ ابن عابدین رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "إن القائلین باعتبار المفہومِ فِیْ الأدلۃِ الشَّرْعِیَّۃِ إِنَّمَایَعْتَبِرُوْنَہُ إِذَالَمْ یَأْتِ صَرِیْح بِخِلَافِہِ فَیقدم الصریح ویلغی المفہوم"۔ (رسم المفتی:۹۲) ترجمہ:جولوگ نصوصِ شرعیہ میں مفہوم مخالف کے معتبر ہونے کے قائل ہیں وہ بھی اس کا اعتبار اس وقت کرتے ہیں جب کہ اس کے خلاف کوئی صریح نص نہ آئے؛ ورنہ صریح مقدم ہوگا اور مفہومِ مخالف لغو ہوجائے گا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کے اجتہادی اقوال میں مفہوم مخالف کا اعتبار صحابہ کرامؓ کے وہ اقوال جن کا مدار فکرونظر پر ہے ،ان میں مفہوم مخالف معتبرہے اور جن اقوال کا ادراک عقل سے نہ ہوسکتا ہو ان میں مفہوم مخالف معتبر نہیں اس لیے کہ صحابہ کا جوقول عقل سے نہ سمجھا جاسکتا ہو جیسے حیض کی اقل مدت یاتعدادِ رکعات وغیرہ وہ حدیث مرفوع کے حکم میں ہوتا ہے اور مرفوع، نص ہوا کرتا ہے اور نص میں مفہوم مخالف معتبر نہیں ہوتا؛ چنانچہ علامہ حصکفیؒ لکھتے ہیں: "وَمِنْهُ أَقْوَالُ الصَّحَابَةِ، قَالَ:وَيَنْبَغِي تَقْيِيدُهُ بِمَا يُدْرَكُ بِالرَّأْيِ لَا مَا لَا يُدْرَكُ بِهِ"۔ (درمختار مع ردالمحتار:۱/۲۳۰) ترجمہ:جن جگہوں پر احناف کے یہاں مفہوم مخالف معتبر ہے ان میں سے صحابہ کے وہ اقوال بھی ہیں جن کا مدار اجتہاد ورائے پر ہو؛ البتہ ان کے غیرمدرک بالقیاس اقوال میں مفہوم مخالف کا اعتبار نہیں ہے۔ علتوں میں مفہوم مخالف کا اعتبار احناف کے نزدیک علتوں سے بھی مفہوم مخالف کے طریقہ سے حکم کا استنباط کیا جاتا ہے، مثلاً علامہ ابن عابدین نے "غایۃ البیان" سے ایک مسئلہ لکھا ہے کہ "اگر کوئی درندہ یاجانور محرم پر حملہ کردے اور محرم حالت احرام میں اپنے بچاؤ کے لیےاس کوقتل کرڈالے تومحرم پر کوئی دم وغیرہ واجب نہیں ہے" اس کی دلیل یہ بیان کی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ حالتِ احرام میں ایک درندہ کوماردیا پھراس کے عوض میں ایک مینڈھا قربانی کردی اور اس عمل کی علت آپ نے یہ بیان فرمائی کہ "إناابتدأناہ" ہم نے درندہ پر حملہ کا اقدام کیا تھا، اس علت سے یہ حکم سمجھ میں آیا کہ اگرمحرم حملہ کا اقدام نہ کرے؛ بلکہ اس کے حملہ کو روکنے کے لیے قتل کردے تواس پرکچھ واجب نہ ہوگا؛ اگریہ مفہوم نہ لیا جائے تو پھر "إناابتدأناہ" کی تعلیل کا کوئی فائدہ ہی نہ ہوگا۔ (رسم المفتی:۹۲) مفہوم مخالف کے معتبر ہونے کی شرطیں مفہوم مخالف کے معتبر ماننے والوں نے اس میں متعدد شرطوں کا لحاظ کیا ہے: ۱۔مسکوت عنہ سے حکم کی نفی یااثبات کے سواء کوئی ایسی چیز نہ پائی جائے جوکسی بات کو خاص طور پر ذکر کرنے پر دلالت کرے، جیسے اس میں اولویت یامساوات کا ظہور نہ ہو؛ اگراولویت یامساوات کا ظہور ہوا توپھروہ مفہوم مخالف نہ رہ جائے گا؛ بلکہ مفہوم موافق ہوجائے گا۔ (فواتح الرحموت:۴۱۴) ۲۔عام رواج جس کا ہو اس کا لحاظ کرکے ذکر نہ ہوا ہو؛ اگراس کا لحاظ کیا گیا ہوتو پھر مفہوم مخالف معتبر نہ ہوگا (شرح الکوکب المنیر:۳/۴۹۰) جیسے ارشاد باری ہے "وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ" (النساء:۲۳) "ترجمہ:اور تمہاری ربیبہ جوتمہاری گود میں ہو (ان سے نکاح جائز نہیں)" اس جگہ مفہوم مخالف معتبر نہ ہوگا، اس لیے کہ عموماً ربیب یاربیبہ اپنی ماں کے ساتھ ہوا کرتے ہیں اور جب ان کی ماں کا نکاح کسی سے ہوتا ہے تووہ بھی اپنی ماں کے ساتھ دوسرے باپ کے پاس آجاتے ہیں اور وہیں ان کی پرورش ہوتی ہے، اس لیے قرآنِ پاک میں "فِیْ حُجُوْرِکُمْ" کا ذکر ہے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ربیبہ کی پرورش اس دوسرے شوہر کے بجائے کہیں اور ہوتووہ شوہر ثانی کے لیے حلال ہے؛ کیونکہ آیت میں "فِیْ حُجُوْرِکُمْ" کا ذکر محض رواج اور واقعہ کے بیان کے لیے ہے۔ ۳۔منطوق کومسکوت عنہ پر امتنان اور احسان جتانے کی غرض سے ذکر نہ کیا جائے، جیسے اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کا شمار کراتے ہوئے ارشاد فرمایا: "لِتَأْكُلُوا مِنْهُ لَحْمًا طَرِيًّا"۔ (النحل:۱۴) ترجمہ:تاکہ اس میں سے تازہ تازہ گوشت کھاؤ۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اگرتازہ گوشت نہ ہوتو اسے نہ کھایا جائے؛ کیونکہ یہاں پر طری (تازہ) کی قید احسان کرنے کے لیے ہے، علامہ شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "أَنْ لَایَکُوْن الْمذکور قصد بہ الامتنان"۔ (ارشادالفحول:۲۶۹) ترجمہ:کہ منطوق کے ذریعہ احسان کا ارادہ نہ کیا گیا ہو۔ ۴۔منطوق کسی ایسے سوال کے جواب میں نہ آئے جوکسی خاص حکم یاکسی خاص واقعہ سے متعلق ہو، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "لَاتَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً"۔ (آل عمران:۱۳۰) اس کا یہ مفہوم ہرگز نہیں ہے کہ اگر بہت زیادہ بڑھاکر نہ ہوتو سودکھاسکتے ہیں، اس لیے کہ یہ نہی اس وقت آئی جب کفار آپس میں بہت بڑھا چڑھا کر سود لیتے تھے، جب وہ لوگ آپس میں معاملہ کرتے اور رقم ادا کرنے کی کوئی مدت متعین ہوتی اور وہ مدت آجاتی توکفار صاحب معاملہ کے پاس جاتے اور کہتے کہ یاتومیرا روپیہ ادا کرو یاپھر بڑھاکر دو؛ اگروہ اس وقت ادا نہ کرپاتا توسود کو اصل کے ساتھ ملاکر سب کو اصل قرار دیتے اور پھر ایک وقت متعین کرتے؛ پھراگر صاحب معاملہ متعین وقت پر روپیہ ادا نہیں کرتا تووہی عمل کرتے، اس طرح اصل دَین بڑھتا جاتا؛ بالآخر کئی گنا سود لیتے، اسی پر مذکورہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی کہ سود دوگنا کرکے نہ کھاؤ، ظاہر ہے کہ سود مطلق کھانا حرام ہے؛ مگرچونکہ یہ ایک خاص واقعہ سے متعلق ہے ؛اس لیے اس کا مفہوم مخالف مراد نہیں ہوگا، علامہ شوکانیؒ فرماتے ہیں: "أَنْ لَايَكُونَ الْمَنْطُوقُ خَرَجَ لِسُؤَالٍ عن حُكْمِ أَحَدِ الصِّنْفَيْنِ وَلَاحَادِثَةٍخَاصَّةٍ"۔ (ارشاد الفحول:۲۶۹)ٍ ترجمہ:منطوق کسی ایسے سوال کا جواب نہ ہو جوکسی خاص حکم یاکسی خاص واقعہ سے متعلق ہو۔ ۵۔منطوق کے ذریعہ کسی چیز کی تعظیم اور تاکید حال کا ارادہ نہ کیا گیا ہو، جیسے حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے: "لَايَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثِ"۔ (سنن ابوداؤد، كِتَاب الطَّلَاقِ، بَاب إِحْدَادِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا،حدیث نمبر:۱۹۵۴) ترجمہ:جوعورت اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتی ہو اس کے لیے کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنا جائز نہیں ہے۔ اس حدیث میں رسول اللہؐ نے "ایمان" کی قید مؤمن کی عظمت شان کے لیے لگائی ہے، علامہ ابن نجاررحمہ اللہ لکھتے ہیں: "أَنْ"لا"يَكُونَ خَرَجَ مَخْرَجَ تَفْخِيمٍ" (شرح الکوکب المنیر:۳/۴۹۲) ترجمہ:منطوق کاذکر کسی چیز کی عظمت کو بیان کرنے کے لیے نہ ہو۔ ۶۔منطوق کو مستقل طور پر ذکر کیا گیا ہو، کسی کے تابع بناکر اسے ذکر نہ کیا جائے؛ اگرکسی کاتابع بناکر ذکر کیا جائے گا تواس میں مفہوم مخالف معتبر نہ ہوگا، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: "وَلَاتُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ"۔ (البقرۃ:۱۸۷) یہاں مساجد کی قید احترازی نہیں ہے؛ کیونکہ اسے اعتکاف کا تابع بناکر ذکر کیا گیا ہے؛ لہٰذا اس کا یہ مطلب لینا غلط ہوگا کہ اگرمسجد میں اعتکاف نہ ہوتو حالتِ اعتکاف میں مباشرت جائز ہے، علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "أَنْ يُذْكَرَ مُسْتَقِلًّا فَلَوْ ذُكِرَ على جِهَةِ التَّبَعِيَّةِ لِشَيْءٍ آخَرَ فَلَا مَفْهُومَ له"۔ (ارشاد الفحول:۲۶۹) منطوق کومستقل طور پر ذکر کیا جائے؛ کیونکہ اگراسے کسی دوسری چیز کا تابع بناکر ذکر کیا جائے تواس کا مفہوم مخالف معتبر نہ ہوگا۔ ۷۔منطوق کے سیاق وسباق سے یہ ظاہر نہ ہو کہ اس سے عموم کا ارادہ کیا گیا ہے؛ اگرعموم کا ارادہ ظاہر ہوگا تووہاں مفہوم مخالف کا اعتبار نہ ہوگا، جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ"۔ (البقرۃ:۱۸۷) خدا کا یہ ارشاد اپنے سیاق وسباق کے لحاظ سے اس بات پر دال ہے کہ اس میں شیٔ سے مراد عموم ہے؛ لہٰذا یہاں مفہوم مخالف کا اعتبار نہ ہوگا، علامہ شوکانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: "أَنْ لَايَظْهَرَ من السِّيَاقِ قَصْدُ التَّعْمِيمِ فَإِنْ ظَهَرَ فَلَامَفْهُومَ له"۔ (البحرالمحیط:۴/۲۳) ترجمہ:سیاق سے عموم ظاہر نہ ہوتا ہو؛ اگرایسا ظاہر ہوتواس کا مفہوم مخالف معتبر نہ ہوگا۔ ۸۔مفہوم منطوق کوباطل نہ کرتا ہو؛ اگرکسی مفہوم سے منطوق باطل ہوجائے تواس کا مفہوم مخالف معتبر نہ ہوگا، جیسے آپﷺ کا ارشا دہے: "لَاتَبِعْ مَالَيْسَ عِنْدَكَ"۔ (ترمذی، كِتَاب الْبُيُوعِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِﷺ ،بَاب مَاجَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ بَيْعِ مَالَيْسَ عِنْدَكَ،حدیث نمبر:۱۱۵۳) ترجمہ:تمہارے پاس جو نہ ہو اسے نہ بیچو۔ حدیثِ بالا کا منطوق تویہ ہے کہ جوچیز بائع کے پاس نہ ہو اسے وہ نہ بیچے اور اس کا مفہوم مخالف یہ ہوگا کہ جوچیز بائع کے پاس نہ ہو اسے وہ بیچ سکتا ہے، ظاہر ہے کہ یہ مفہوم مخالف منطوق کے حکم کوباطل کررہا ہے؛ کیونکہ جوبات منطوق کی روشنی میں ممنوع ہے اسی کومفہوم مخالف کی وجہ سے جائز قرار دینا لازم آرہا ہے، اس لیے اس نص میں مفہوم مخالف کا اعتبار نہ ہوگا۔