انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت عبداللہ بن مخرمہؓ نام ونسب عبداللہ نام،ابو محمد کنیت،سلسلہ نسب یہ ہے،عبداللہ بن مخرمہ بن عبدالعزیٰ ابن ابی قیس بن عبدودبن نصر بن مالک بن حسل بن عامر بن لوئی قرشی، عامری ماں کا نام بہنانہ تھا اور قبیلہ بنو کنانہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ (اسد الغابہ:۳/۲۵۲) اسلام وہجرت آغازدعوت میں مشرف باسلام ہوئے، اسلام کے بعد ہجرت حبشہ کا شرف حاصل کیا، پھر وہاں سے مدینہ آئے اور کلثوم بن ہدم کے یہاں اترے،آنحضرتﷺ نے ان میں اور فردہ بن عمرو بیاضی میں مواخاۃ کرادی۔ (ابن سعد،جلد۳،ق۱:۲۹) غزوات مدینہ آنے کے بعد سب سے پہلے بدر عظمیٰ میں شریک ہوئے اوربدری ہونے کا امتیاز حاصل کیا، اس وقت ان کی عمر تیس سال تھی، بدر کے بعد احد اورخندق وغیرہ تمام معرکوں میں آنحضرتﷺ کے ساتھ رہے۔ (ابن سعد،جلد۳،ق۱:۲۹) شہادت حضرت عبداللہ کا جذبۂ شہادت اتنا بڑھا ہوا تھا کہ ہر موئے بدن خوننا بہ فشانی کے لیے بے قرار رہتا تھا؛چنانچہ وہ دعا کیا کرتے تھے؛کہ خدایا تو مجھے اس وقت تک دنیا سے نہ اٹھا جب تک میرے جسم کا جوڑ جوڑ تیری راہ میں زخموں سے چور چور نہ ہوجائے، یہ دعا قبول ہوئی اوربہت جلد اس کا موقع مل گیا، حضرت ابوبکرؓ کے عہد خلافت میں فتنہ ارتداد کی مہم میں مجاہدانہ شریک ہوگئے اور مرتدوں کے مقابلہ میں اس بے جگری سے لڑے کہ جسم کے تمام جوڑ بند زخموں سے چور ہوگئے،رمضان کا مبارک مہینہ تھا،روزہ رکھے ہوئے تھے،عبداللہ بن عمروؓ غروب آفتاب کے وقت جب کہ ابن مخرمہؓ کا آفتاب عمر لب بام آچکا تھا،ان کی خبر لینے آئےانہوں نے پوچھا ابن عمرؓ تم افطار کرچکے ؟ انہوں نے کہا ہاں، فرمایا میرے لیے بھی پانی لاؤ؛لیکن پانی آتے آتے ابن مخرمہ تشنہ لب حوض کوثر پر پہنچ گئے،اس وقت ان کا اکتالیسواں سال تھا۔ (استیعاب:۱/۳۷۰) اہل وعیال اولاد میں صرف ایک صاحبزادہ مساحق کا پتہ چلتا ہے ،یہ زینب بنت سراقہ کے بطن سے تھے۔ (ابن سعد،جلد۳،ق۱:۲۹۴) فضل وکمال ابن مخرمہؓ علم وعمل اورزہدوورع کے لحاظ سے ممتاز شخصیت کے مالک تھے،صاحب اسد الغابہ لکھتے ہیں وکان فاضلاً عابداً یعنی ابن مخرمہ ؓ فاضل اور عبادت گذار تھے۔ (اسد الغابہ:۳/۳۵۳)