انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** بددعا حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ کفار نے قتال کیا جس سے ہم نماز عصر سے رہ گئے، یہاں تک کہ سورج ڈوبنے کے قریب ہوگیا،آپ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ جنہوں نے ہمیں نماز عصر سے روکا ان کے گھروں کو اورقبروں کو آگ سے بھردے۔ (طحاوی:۱۰/۱۳۰) حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ ابو جہل اوراصحاب قریش نے جب آپ ﷺ کی پشت مبارک پر اونٹ کی غلیظ اوجھڑی ڈال دی تو آپ ﷺ نے ان پر بددعاء کی،جب بددعاء کرتے تو ۳ مرتبہ بددعاء کرتے؛چنانچہ آپ ﷺ فرماتے : اَللّٰھُمَّ عَلَیْکَ بِقُرَیْشِ،اَللّٰھُمَّ عَلَیْکَ بِاَبِیْ جَھْلٍ وَعُتْبَۃَ بْنِ رَبِیْعَۃَ ترجمہ: اے اللہ آپ کی گرفت اورپکڑ قریش پر اور ابو جہل پر،عتبہ بن ربیعہ وغیرہ پر ہو۔ امام بخاری ؒ نے ادب مفرد میں باب باندھا ہے" ظالم پر بددعاء کرنا" اس سے اس بات کی وضاحت مقصود ہے کہ ظلم کرنے والے پر بددعاء درست ہے۔ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ جو ظلم کرے اورستائے اس پر بددعاء جائز ہے،ہاں اگر صبر کرے تو بہتر ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن:۱/۶) محدث بھوپالی نے" نزل الابرار" میں ظالم پر بدعاء کے جواز پر لکھا ہے کہ نصوص کتاب اللہ سنت اور اسلاف امت کے اقوال سے اس کا درست ہونا ثابت ہے؛چنانچہ حضرت جابرؓ سے منقول ہے کہ اہل کوفہ نے حضرت سعد بن وقاص کے متعلق شکایت کی (جس سے ان کو بڑی اذیت پہنچی) تو انہوں نے بددعاء دیتے ہوئے کہا،کہ اگر یہ جھوٹا ہے تو اس کی عمر کو خوب لمبی فرما، اس کی تنگدستی کو زائد فرما اور اس کو آزمائش میں مبتلا فرما؛چنانچہ شکایت کرنے والے کا یہی حال ہوا، اسی طرح عروہ بن زبیر سے مروی ہے کہ ارویٰ بنت اوس نے سعید بن زید سے لڑائی کی تو انہوں نے بددعاء دیتے ہوئے کہا تو اندھا ہو؛چنانچہ اس وقت تک نہیں مرے جب تک کہ نابینا نہ ہوگئے۔ (نزل الابرار:۳۷۴،ابن ابی الدنیا:۴/۳۵) حسن بصری سے مروی ہے کہ جو اذیت دے اس کے لئے یہ دعاء کرے: اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلَیْہِ اَللّٰھُمَّ اسْتَخْرِجْ حَقِّیْ اَللّٰھُمَّ حُلْ بَیْنَہُ وَبَیْنَ مَایُرِیْدُ مِنْ ظُلْمِیْ ترجمہ:اے اللہ ظالم پر میری مدد فرما، اے اللہ میں حق عنایت کا طالب ہوں،اے اللہ ہمارے اورظالم کے درمیان حائل ہوجائیے۔ (تفیسر القطبی:۶/۵،البحر المحیط:۴/۲۳۸،ابن کثیر:۴/۳۹) زاذان ؓ نے بیان کیا کہ ایک شخص نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے گفتگو کرتے ہوئے حضرت علیؓ کو جھوٹا کہا،حضرت علیؓ نے فرمایا میں نے ایسا نہیں کہا،حضرت علیؓ نے فرمایا اگر تم جھٹلاؤ گے تو میں بددعاء کروں گا، اس نے کہا ہاں کردو بدعاء؛چنانچہ آپ نے بددعاء کی وہ شخص اندھا ہوگیا۔ (ابن ابی الدنیا:۳۲) مطرف کی ایک شخص نے بے ادبی کی اوراسے جھوٹا کہا ،اس پر مطرف نے کہا اگر تو جھوٹا ہے تو خدا جلد تجھے ہلاک کرے؛چنانچہ وہ شخص اسی وقت مرگیا۔ (ابن ابی الدنیا:۴/۶۷) عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا کہ میں مالک بن دینار کے پاس بیٹھا تھا اور ہمارے پاس محمد بن واسع اورحبیب ابو محمد بھی تھے،ایک شخص آیا اورمالک بن دینار سے تقسیم کے سلسلہ میں سخت گفتگو کی اورکہا تم نے غلط کیا، اپنے اصحاب اورخادموں کے ساتھ ناحق رعایت کی تاکہ چاہنے والے زیادہ ہوجائیں اور لوگ تیری طرف رخ کریں،مالک رونے لگے اورکہا میں نےایسا نہیں کیا،اس نے کہا تونے ایسا ہی کیا،مالک پر رونا آگیا،اس نے کہا،اس نے مجھے ذکر سے غافل کیا،اے اللہ اس شخص سے مجھے جس طرح چاہے نجات دے،پس وہ شخص فوراً منھ کے بل گرا اور مرگیا۔ (ابن ابی الدنیا:۴/۷۱) نافع بن عتبہ کی باندی نے بیان کیا کہ حضرت سعد نے شامی شخص سے اپنی لڑکی کی شادی کی،اس شرط پر کہ وہ اسے شام نہ لے جائے گا،اس نے بعد میں لے جانا چاہا،حضرت سعد نے منع کیا ،اس نے انکار کردیا،حضرت سعد نے دعاء کی،اے اللہ اس کے ارادہ کو پورا نہ فرما؛چنانچہ وہ شخص راستہ میں مرگیا۔ (ابن ابی الدنیا:۴/۳۶)