انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ۳۴ھ کے واقعات کوفہ کی تو وہ حالت تھی جو اوپر مذکور ہوئی،اُدھر حضرت عثمان غنیؓ نے اپنے دوسرے عاملوں کے نام بھی فرامین روانہ کردئے کہ اس مرتبہ بعد حج سب مدینہ منورہ میں میرے پاس آکر شریک مشورہ ہوں؛ چنانچہ شام سے حضرت امیر معاویہؓ ،مصر سے عبداللہ بن سعد بن ابی سرح،کوفہ سے سعید بن العاصؓ، بصرہ سے عبداللہ بن عامر اور بعض دوسرے چھوٹے چھوٹے صوبوں سے بھی وہاں کے عامل مدینہ میں آکر جمع ہوئے،حضرت عثمان غنیؓ نے علاوہ ان عمال کے مدینہ منورہ کے صاحب الرائے حضرات کو بھی شریک مجلس کیا اوردریافت کیا کہ یہ شورش جو میرے خلاف پھیلی ہے اس کا سبب بتاؤ اورمجھ کو مفید مشورہ دو کہ میں کیا کروں عبداللہ بن عامر نے کہا کہ میرے نزدیک ان لوگوں کو جہاد میں مصروف کردینا بہترین علاج ہے ،خالی بیٹھے ہوئے اس قسم کے فساد اور فتنے سوجھتے ہیں، جب جہاد میں مصروف ہوجائیں گے تو یہ شورشیں خود بخود فنا ہوجائیں گی، سعید بن العاصؓ نے کہا کہ ان شریر لوگوں کے سرداروں یعنی شرارت کے اماموں کی بات بات پر معقول گرفت کی جائے اوران کو منتشر کردیا جائے،اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ان کے پیر ولوگ خود بخود منتشر ہوجائیں گے، امیر المومنین حضرت عثمانؓ نے کہا کہ یہ رائے تو معقول ہے لیکن اس پر عملدر آمد آسان نہیں،حضرت امیر معاویہؓ نے کہا کہ ہم لوگ جو صوبوں کے گورنر ہیں اپنے اپنے صوبوں کو سنبھالیں اوران مفسدوں سے ہر ایک صوبے کو بکلی پاک کردیں،عبداللہ بن سعدؓ نے کہا کہ یہ لوگ سب کے سب لالچی اورزبردست ہیں ان کو مال و زرد ے کر اپنا بنالینا چاہئے۔ اسی مجلس میں جب شورش اورفساد کے متعلق اصل حالات ایک دوسرے سے دریافت کئے گئے تو معلوم ہوا کہ یہ تمام شورش محض فرضی اورخیالی طور پر برپا کی گئی ہے،اصلیت اس کی کچھ بھی نہیں ہے،یہ معلوم ہوکر لوگوں کو اور بھی تعجب ہوا،بعض حضرات نے یہ مشورہ دیا کہ جو لوگ اس قسم کی شرارتوں اوربغاوتوں میں حصہ لیتے ہیں،ان سب کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر قتل کردیا جائے، اور مجرموں کے ساتھ کسی نرمی اوررعایت کو روانہ رکھا جائے، حضرت عثمان غنیؓ نے فرمایا کہ میں صرف اس قدر سزا دے سکتا ہوں جس قدر قرآن وحدیث نے مقرر کی ہے،جب تک میں کسی کو علانیہ مرتد ہوتے ہوئے نہ دیکھوں اس وقت کیسے کسی کو قتل کرسکتا ہوں، جن جن جرموں کی حدود مقرر ہیں انہیں پر حد جاری کرسکتا ہوں،باقی اپنے خلاف ہر ایک فتنہ کو صبر واستقامت کے ساتھ برداشت کرنے کا عزم رکھتا ہوں، غرض اس قسم کی باتیں ہوکر یہ مجلس برخاست ہوئی اور کوئی خاص تجویز اورطرز عمل نہیں سوچا گیا،البتہ یہ ضرور ہوا کہ جہاد کے لئے بعض اطراف میں فوجیں روانہ کرنے کا حکم ضرور بعض عاملوں کو دیا گیا،مدینہ منورہ سے روانہ ہوکر عمال اپنے اپنے صوبوں کی طرف روانہ ہوئے ،جب سعید بن العاصؓ اپنے صوبے کی طرف روانہ ہوئے تو مقام جرعہ پر پہنچ کر انہوں نے دیکھا کہ کوفہ والوں کا ایک بڑا لشکر یزید بن قیس کی ماتحتی میں موجود ہے،سعید بن العاصؓ کے پہنچنے پر یزید نے بڑی سختی اوردرشتی سے کہا کہ تم یہاں سے فوراً واپس چلے جاؤ،ہم تم کو کوفہ میں ہرگز داخل نہ ہونے دیں گے،یہ سُن کر سعید بن العاصؓ کے غلام نے کہا کہ یہ نا ممکن ہے کہ سعید واپس چلے جائیں،یہ سُن کر مالک اشتر نے فوراً آگے بڑھ کر سعید کے غلام کا پاؤں پکڑا اوراونٹ سے نیچے کھینچ کر قتل کردیا اورسعید بن العاصؓ سے کہا کہ جاؤ عثمان سے کہدو کہ ابو موسیٰ اشعری کو بھیج دے، سعید مجبوراً وہاں سے لوٹے اور مدینے میں واپس آکر تمام ماجرا حضرت عثمان غنیؓ کو سنایا انہوں نے اسی وقت ابو موسیٰ اشعری کو اپنے پاس بلا کر کوفہ کی گور نری پرمامور فرمایا، ابو موسی اشعریؓ مدینہ سے روانہ ہوکر کوفہ میں پہنچے اوراپنے ہمراہ حضرت عثمان کا ایک خط کوفہ والوں کے نام لائے کہ تم نے جس شخص کو اپنے لئے پسند اورمنتخب کیا ہے اسی کو تمہاری طرف بھیجا جاتا ہے یہ بھی لکھا تھا کہ جہاں تک شریعت مجھ کو اجازت دے گی میں تمہاری خواہشات پوری کئے جاؤں گا اورتمہاری زیادتیوں کو برداشت کرکے تمہاری اصلاح کی کوشش کروں گا۔ ابو موسیٰ نے کوفہ میں پہنچ کر جمعہ کے روز تمام لوگوں کے سامنے منبر پر چڑھ کر خطبہ دیا جس میں جماعت مسلمین کے اندر تفرقہ مٹانے اورامیر المومنین عثمان غنیؓ کی اطاعت کرنے کی تاکید کی ابو موسیٰ کی اس تقریر سے کوفہ میں کسی قدر سکون نمودار ہوا اورعام لوگ جو سبائی جماعت سے بے خبر اور بے تعلق تھے مطمئن ہوگئے،لیکن عبداللہ بن سبا کے گروہ اورحضرت عثمانؓ سے عناد رکھنے والوں نے رفتہ رفتہ حضرت عثمان غنیؓ کے عمال اور کوفہ کےاردگرد کے اضلاع میں رہنے والے چھوٹے چھوٹے حکام کے متعلق جو عثمان غنیؓ کے مقرر کئے ہوئے تھے شکایات کرنی شروع کیں اور خط و کتابت کے ذریعہ مدینہ منورہ میں دوسرے بااثر حضرات کو بھی حضرت عثمان غنیؓ سے بد گمان بنانا شروع کیا ،مدینہ والوں کے پاس جب باہر والوں سے عاملوں کی شکایات میں خطوط پہنچتے تو وہ بہت پیچ وتاب کھاتے، حضرت عثمان غنیؓ کے پاس آتے اوراُن کو عمال کی سزا دہی اورمعزولی کے لئے مجبور کرتے، حضرت عثمان غنیؓ عندالتحقیق چونکہ اپنے عاملوں کو بے خطا پاتے لہذا وہ اُن کو سزادینے یا معزول کرنے میں تامل کرتے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خود مدینہ منورہ میں عثمان غنیؓ کے متعلق لوگوں کی زبان پر علانیہ شکایتیں آنے لگیں اورجا بجا خلیفۂ وقت کی نسبت سرگوشیاں شروع ہوئیں یہ رنگ دیکھ کر ابو اسید ساعدیؓ کعب بن مالکؓ اورحسان بن ثابتؓ وغیرہ بعض حضرات مدینہ میں لوگوں کو طعن وتشنیع سے روکتے اوراطاعتِ خلیفہ کی تاکید کرتے تھے،مگر لوگوں پر کوئی اثر نہ ہوتا تھا یہ وہ زمانہ تھا کہ عبداللہ بن سبا کے ایجنٹ تمام ممالک اسلامیہ اورتمام بڑے بڑے شہروں اورقصبوں میں پہنچ چکے تھے اوراس کے متبعین ہرجگہ پیدا ہوچکے تھے۔ ممالک اسلامیہ میں طاقت کے اعتبار سے آجکل پانچ بڑے بڑے مرکز تھے،مدینہ تو دارالخلافہ تھا اور شروع ہی سے وہ اسلامی طاقت و شوکت کا منبع و مرکز رہا تھا، کوفہ و بصرہ دونوں فوجی چھاؤنیاں یا لشکری لوگوں اورجنگ جو عربی قبائل کی بستیاں تھیں اوردونوں مقاموں پر اسلامی طاقت اس قدر موجود تھی کہ تمام ایرانی صوبوں پر جیحون کے پار ترکستان تک اورآرمینیہ تک وجارجیہ کے صوبوں تک اور بحر خضر اوربحر اسود کے ساحلوں تک کوفہ وبصرہ کا رعب طاری تھا،فسطاہ یا قاہرہ بھی فوجی چھاؤنی تھی اور مصر کے علاوہ طرابلس و فلسطین تک اس کا اثر پڑتا تھا، دمشق تمام ملک کا دارالصدر تھا،یہاں بھی مسلمانوں کی اس قدر فوجی طاقت موجود تھی کہ قیصر روم اس طاقت سے خائف تھا اورجب کبھی دمشقی فوج کا قیصری فوج سے مقابلہ ہوا، رومیوں نے ہمیشہ شکست ہی کھائی،عبداللہ بن سبا شروع ہی میں ان پانچوں مرکزوں کی اہمیت کو محسوس کرچکا تھا اوراس کو معلوم تھا کہ ان کے سوا کوئی چھٹا مقام ایسا نہیں ہے جہاں مسلمانوں کی فوجی طاقت اور عربوں کی جنگ جو جمعیت ان میں سے کسی مقام کے برابر موجود ہو،لہذا وہ سب سے پہلے مدینہ منورہ میں آیا ،یہاں سے وہ بصرہ پہنچا، بصرہ سے کوفہ،کوفہ سے دمشق اوردمشق سے مصر پہنچا،دمشق میں اس کو حضرت امیر معاویہؓ کی وجہ سے کم کامیابی ہوئی باقی ہر جگہ وہ کامیابی کے ساتھ لوگوں کے خیالات کو خراب کرتا اور چھوٹی یا بڑی ایک جماعت بناتا اوراپنے راز دار شریک کا ر ایجنٹ ہر مقام پر چھوڑتا گیا،دمشق میں بھی اس نے اتنا کام ضرور کیا کہ حضرت ابو ذرؓ کے واقعہ سے فائدہ اٹھا کر لوگوں میں اس خیال کو پھیلایا کہ ابوذرؓ سچ کہتے ہیں، اوروہ راستی پر تھے؛ کیونکہ بیت المال کو امیر معاویہؓ نے اللہ کا مال بتا کر اس پر قبضہ کرنا اوراپنے زیر تصریف رکھنا چاہا ہے حالانکہ وہ مسلمانوں کا مال ہے اورسارے مسلمان اس میں شریک ہیں اورانہیں میں اس کو تقسیم کردینا چاہئے، اسی سلسلے میں اس نے حضرت عثمان غنیؓ کو بھی مورد الزام ٹھہرایا، اورلوگوں کو ان کے خلاف بھڑکایا،اُن کے بعد عبداللہ بن سبا حضرت ابودرداءؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اورنہایت احتیاط اور قابلیت کے ساتھ اپنے خیالات فاسدہ ان کی خدمت میں پیش کرنے شروع کئے انہوں نے عبداللہ بن سبا کی باتیں سُن کر صاف طور پر کہہ دیا کہ تم یہودی معلوم ہوتے ہو اوراسلام کے پردے میں مسلمانوں کو گمراہ کرتے پھر رہے ہو،وہاں جب اس کی دال نہ گلی تو وہ حضرت عبادہ بن صامتؓ کی خدمت میں پہنچاانہوں نے جب اُس کے خیالات سنے اوراس کی باتوں سے اس کا اندازہ کیا تو فوراً اس کو پکڑلیا اورحضرت امیر معاویہ کی خدمت میں لے جاکر کہا کہ مجھ کو تو یہ وہی شخص معلوم ہوتا ہے جس نے ابوذرؓ کو بہکادیا اور تم سے لڑادیا ہے حضرت امیر معاویہؓ نے اسی وقت اس کو دمشق سے نکلوا دیا تھا، اور وہ وہاں سے مصر کی طرف جاکر مصروف کا ر اوراپنی سازشی تدابیر کے جال کے پھیلانے میں مصروف ہوگیا تھا۔ جب ممالکِ محروسہ کے ہر گوشے سے مدینہ منورہ میں خطوط آنے لگے اور خود دارالخلافہ میں شورش کے سامان ہوئے تو حضرت عثمان غنیؓ کے پاس مدینہ کے بعض اکابرآئے اوران کو توجہ دلائی کہ اپنے عاملوں کی خبرلیں اورلوگوں کی شکایتیں دور کریں، حضرت عثمان غنیؓ نے صحابۂ کرام کی جماعت میں چند معتبر ومعتمد حضرات کو منتخب کرکے ہر ایک صوبے کی طرف ایک آدمی بھیجا کہ اصل حالات معلوم کرکے آئیں اوریہاں آکر بیان کریں ؛چنانچہ محمد بن مسلمہ کو کوفہ کی جانب اسامہ بن زید بصرہ کی جانب،عبداللہ بن عمر شام کی جانب روانہ ہوئے،اسی طرح ہر ایک چھوٹے یا بڑے صوبے کی طرف ایک ایک تفتیش کنندہ روانہ ہوا ،چند روز کے بعد سب نے بیان کیا کہ ہم نے تو عاملوں اور والیوں میں کسی قسم کی کوئی برائی نہیں دیکھی سب اپنے اپنے علاقہ میں پوری توجہ اور کوشش کے ساتھ مصروف کار ہیں اور کوئی خلاف شریعت حرکت بھی اُن سے سرزد نہیں ہوتی نہ رعایا میں سے کوئی شریف اورذی عقل شخص اُن کا شاکی ہے،یہ کیفیت اہل مدینہ نے سُنی اورقدرے ان کی تسکین ہوئی ؛ لیکن چند ہی روز کے بعد پھر وہی کیفیت پیدا ہوگئی اب یہ وہ زمانہ تھا کہ حج کا موسم قریب آگیا تھا،حضرت عثمان غنیؓ نے ایک منشور عام ہر شہر وقصبہ میں عام رعایا کے نام اس مضمون کا بھیجا کہ: میرے پاس اس قسم کی خبریں پہنچ رہی ہیں کہ میرے عاملوں سے رعایا کو کچھ نقصان پہنچ رہا ہے وہ ظلم و ستم کا برتاؤ کرتے ہیں،لہذا میں نے تمام عاملوں کے پاس احکام روانہ کردئے ہیں کہ وہ اس مرتبہ حج میں ضرور شریک ہوں پس جس شخص کو میرے کسی عامل سے کچھ شکایت ہو وہ حج کے موقع پر آکر اپنی شکایت میرے سامنے پیش کرے اوراپنا حق مجھ سے یا میرے عامل سے بعد تصدیق وصول کرلے۔