انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ایک سوال اوراس کا جواب قرآن کریم کی جامعیت بے شک کلیات میں ہے اور انہی کلیات میں اطاعتِ رسول اور اسوہ حسنہ کی کلیدی آیات بھی ہیں،جن کے تحت لاکھوں جزئیات مل جاتی ہیں اور قرآن پاک کی جامعیت بھی قائم رہتی ہے؛لیکن ہزاروں جزئیات اور باقی رہتی ہیں،یا نئی پیدا ہوجاتی ہیں جن کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات واضح طور پر نہیں ملتیں، سوال یہ ہے کہ زندگی کے یہ مسائل کیسے حل ہوں گے؟ اوران پیش آمدہ جزئیات میں قرآن پاک کی جامعیت اورپیغمبر خدا کی افادیت کہاں تک زندگی کا ساتھ دے سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ قرآن پاک کی ان کلیدی آیات میں جو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو قرآن کریم کے ساتھ جزو لازم ٹھہراتی ہیں، ایک آیت ایسی بھی ہے جو اطاعت کے لیے ایک اور طبقے کو بھی پیش کرتی ہے اس آیت کو پہلے ہم مختصرا ًپیش کرچکے ہیں، اب اسے ذرا تفصیل سے پیش کیا جاتا ہے، قال اللہ تعالی: "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ"۔ (النساء:۵۹) ترجمہ: حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو (اس کے) رسول کا اوران کا جو تم میں سے اولی الامر ہوں (جس بات میں ان کا حکم چل سکے)۔ جس طرح انتظامی امور میں اولی الامر حکام ہیں جو تم میں سے ہوں، علمی امور میں فقہاء و مجتہدین ہیں جو مسائل غیر منصوصہ کومسائل منصوصہ کی طرف لوٹا کر ان کا حکم استنباط کرتے ہیں، وہ کتاب و سنت کے اصول کلیہ دریافت کرلیتے ہیں اور شریعت کے مغز کوپاجاتے ہیں اورپھر ان کے تحت ہر اس مسئلے کو حل کرلیتے ہیں، جس پر شریعت میں کوئی نص وارد نہیں ہوئی، اسی طرح وہ مسائل منصوصہ جن میں بظاہر تعارض معلوم ہو اور ان میں تقدیم و تاخیر زمانی بھی معلوم نہ ہو کہ انہیں نسخ پر محمول کرسکیں،انہیں بھی یہ حضرات اپنے اجتہاد سے حل کرتے ہیں، سو یہ آیت ایک کلیدی آیت ہے،جس کی رو سے مجتہدین کے استنباط کو وہ جملہ مسائل قرآن کریم کے تحت آگئے اور قرآن کریم کا دعویٰ جامعیت اپنی جگہ قائم رہا،حافظ ابوبکر جصاص رازی لکھتے ہیں کہ یہاں حکام اور فقہاء مجتہدین دونوں مراد ہوسکتے ہیں، کیوں کہ اولوالامر کے الفاظ ان سب کو شامل ہیں۔ (احکام القرآن:۲/۲۱۰،ویجوزان یکونوا جمیعا مراد ین بالآیۃ لان الاسم یتنا ولہم جمیعا)