انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** فتح افریقہ حضرت عبداللہ بن سعدؓ نے حضرت عثمان غنیؓ سے اجازت طلب کی کہ شمال افریقہ پر چڑھائی ہونی چاہئے،اس زمانہ میں افریقہ ایک برا اعظم کا نام ہے، مگر اُس زمانہ میں افریقہ نام کی ایک ریاست بھی تھی،جو طرابلس اورطنجہ کے درمیانی علاقہ پر پھیلی ہوئی تھی، لیکن اس زمانہ میں افریقہ اُن ملکوں کے مجموعہ پر بھی بولا جاتا تھا جو آج کل براعظم افریقہ کے شمالی حصہ میں واقع ہیں یعنی طرابلس الجیریا،ٹیونس مراکو وغیرہ،حضرت عثمان غنیؓ نے عبداللہ بن سعدؓ کو فوج کشی کی اجازت دے دی ،انہوں نے دس ہزار فوج کےسا تھ مصر سے خروج کرکے علاقہ برقہ میں سرحدی رئیسوں کو مغلوب کیا،ان رئیسوں کو اپنے زمانہ حکومت میں عمرو بن العاصؓ بھی چڑھائی کرکے جزیہ کی ادائیگی کے لئے مجبور کرچکے تھے اور بعد میں وہ موقع پاکر خود مختار ہوگئے تھے،اس لئے اب انہوں نے جزیہ کے ادا کرنے اور اپنے آپ کو محکوم تسلیم کرنے مین زیادہ چون وچرا نہیں کی،اس کے بعد جب عبداللہ بن سعدؓ ملک کے درمیانی حصے اور طرابلس کی طرف بڑھنے لگے،تو حضرت عثمان غنی نے مدینہ منورہ سے ایک فوج مرتب کرکے ان کی مدد کے لئے روانہ کی،اس فوج میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ حضرت عبداللہ بن عباسؓ ،حضرت عبداللہ بن زبیرؓ،حضرت عمرو بن العاصؓ حضرت حسین بن علیؓ، حضرت ابن جعفر وغیرہ حضرات شامل تھے، یہ فوج مصر سےہوتی ہوئی برقہ میں پہنچی،تو وہاں عبداللہ بن سعدؓ نے استقبال کرکے اس سے ملاقات کی،اب سب مل کر طرابلس کی طرف بڑھے،رومیوں نے طرابلس سے نکل کر مقابلہ کیامگر شکست کھا کر بھاگے، مسلمانوں کا طرابلس پر قبضہ ہوگیا،طرابلس پر قبضہ مکمل کرکےخاص ریاست افریقہ کی طرف لشکر اسلام بڑھا ،افریقہ کا بادشاہ جرجیر نامی قیصر کا ماتحت اورخراج گزار تھا،اس کو جب اسلامی لشکر کے اپنی طرف متوجہ ہونے کی اطلاع ملی،تو اُس نے ایک لاکھ بیس ہزار فوج جمع کرکے ایک شبانہ روز کی مسافت پر آگے بڑھ کر مسلمانوں کا مقابلہ کیا،دونوں لشکر ایک دوسرے کے مقابل پہنچ گئے، تو حضرت عبداللہ بن سعدؓ نے سب سے پہلے عیسائی لشکر کو اسلام کی دعوت دی،جر جیر نے اس دعوت کا صاف انکار کیا تو دوبارہ جزیہ ادا کرنے کے لئے کہا گیا،جب اس نے جزیہ ادا کرنے سے بھی صاف انکار کیا تو مسلمانوں نے صف آرائی کرکے لڑائی شروع کی،لڑائی بڑے زورو شور سے ہوئی،فتح وشکست کی نسبت کوئی پیشن گوئی نہیں کی جاسکتی تھی،کہ اتنے میں مسلمانوں کی کمک کے لئے ایک تازہ دم فوج پہنچی،اور لشکر اسلام سے نعرہ تکبیر بلند ہوا۔ اس اجمال کی تفصیل اس طرح ہے کہ بعد مسافت کے سبب اس لشکر کی خبر مدینہ منورہ میں جلد نہیں پہنچ سکتی تھی، حضرت عثمان غنیؓ نے جب دیکھا کہ لشکر افریقہ کی خبر آئے ہوئے زیادہ دن گذر گئے ہیں تو انہوں نے حضرت عبدالرحمن بن زبیرؓ کو ایک دستہ فوج کے ہمراہ افریقہ کی طرف روانہ فرمادیا تھا،حضرت عبدالرحمن بن زبیرؓ اپنی فوج کے ساتھ لشکر اسلام میں داخل ہوگئے، اس لئے مسلمانوں نے نعرۂ تکبیر بلند کیا ،جرجیر نے نعرۂ تکبیر سُن کر دریافت کیا کہ مسلمانوں میں کیوں یہ نعرۂ تکبیر بلندا ہوا، تو اس کو بتایا گیا کہ مسلمانوں کی ایک تازہ دم فوج مدد کے لئےپہنچ گئی ہے، جر جیر یہ سُن کر بہت فکر مند ہوا، مگر اس روز لڑائی کا کوئی فیصلہ نہ ہوسکا،شام ہونے پر دونوں فوجیں اپنے اپنے خیموں کی طرف متوجہ ہوئیں،اگلے روز جب لڑائی شروع ہوئی تو عبداللہ بن زبیرؓ نے میدان جنگ میں عبداللہ بن سعدؓ کو موجود نہ پاکر سبب دریافت کیا اُن کو بتایا گیا کہ جرجیر نے منادی کرادی ہے کہ جو شخص عبداللہ بن سعدؓ کا سرکاٹ کر لائے گا، اس کو ایک لاکھ دینار بطور انعام دئے جائیں گے اوراُس کے ساتھ جرجیر اپنی لڑکی کی شادی بھی کردے گا، لہذا عبداللہ بن سعدؓ جان کے خوف سے میدان میں نہیں آئے، عبداللہ بن زبیر یہ بات سُن کر عبداللہ بن سعدؓ کے پاس ان کے خیمہ میں گئے اورکہا کہ تم بھی اپنے لشکر میں منادی کرادو، کہ جو شخص جرجیر کا سرکاٹ کر لائے گا، اُس کو مالِ غنیمت سے ایک لاکھ دینار دیا جائے گا اورجر جیر کی لڑکی سے اس کا نکاح کیا جائے گا اور جر جیر کے ملک کا حاکم اُس کو بنادیا جائے گا۔ چنانچہ اُسی وقت عبداللہ بن سعدؓ نے منادی کرادی جس سے جرجیر کو سخت مصیبت پیش آئی، عبداللہ بن سعد میدان میں آگئے اور آج بھی طرفین نے خوب خوب داد شجاعت دی، مگر فتح وشکست کا کوئی فیصلہ نہ ہوسکا، جب رات ہوئی تو مجلس مشورت منعقد ہوئی اور عبداللہ بن زبیرؓ نے رائے دی کہ اسلامی لشکر سے آدھی فوج میدان جنگ میں جاکر دشمن کا مقابلہ کرے اورآدھی خیموں میں رہے،جب حسب دستور دونوں فوجیں شام تک لڑائی لڑتی ہوئی تھک کر ایک دوسرے سے جدا ہوں اوراپنے اپنے خیموں کی طرف متوجہ ہوں ،تو اس وقت وہ تازہ دم فوج جو خیموں میں بیٹھی رہی ہے شمشیر بہ کف رومیوں پر ٹوٹ پڑے، اس طرح ممکن ہے کہ لڑائی کا فیصلہ جلد ہوجائے، اس رائے کو سب نے پسند کیا، اگلے دن یعنی تیسرے روز کی جنگ میں نصف فوج صبح سے مصروف جنگ ہوئی اور نصف فوج عبداللہ بن زبیرؓ کی ماتحتی میں خیموں کے اندر منتظر رہی،دوپہر تک فریقین لڑتے رہے اور بعد دوپہر ایک دوسرے سے جدا ہوئے فوراً ابن الزبیرؓ اپنی تازہ دم فوج لے کر خیموں سے نکل پڑے اوررومیوں پر حملہ آور ہوئے رومی اس حملے کی تاب نہ لاکر اپنے خیموں کی پناہ میں گئے ، لیکن ان کو وہاں بھی پناہ نہ ملی ،مسلمانوں نے اُن کو گرفتار اورقتل کرنا شروع کردیا۔ جرجیر نے مقابلہ کیا ابن الزبیرؓ نے اُس کو تلوار کے ایک ہی وارے سے قتل کردیا ،اگلے روز مسلمان اُس میدان سے کوچ کرکے آگے بڑھے اورافریقہ کے دارالصدر شہر سبیطلہ کا محاصرہ کیا چند روز کے بعد اس کو فتح کرکے بے حد و بے شمار مال غنیمت پر قبضہ پایا سواروں کو فی کس تین تین ہزار دینار ملےشہر سبیطلہ کی فتح کے بعد مسلمانوں نے آگے بڑھ کر قلعہ جم کا محاصرہ کیا جس کو اہل افریقہ نے خوب مستحکم کررکھا تھا، اس کو بھی مسلمانوں نے امان کے ساتھ فتح کرلیا اہل افریقہ نے اسلامی طاقت کے آگے اپنے آپ کو مغلوب و مجبور دیکھ کر دس لاکھ دینار جزیہ دے کر صلح کرلیا،ابن زبیرؓ افریقہ کی بشارت اورمال غنیمت کا خمس لے کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے، اورحضرت عثمانِ غنیؓ خلیفہ وقت کی خدمت میں پیش کیا اس خمس کو مروان الحکم نے پانچ لاکھ کے عوض خرید لیا،عبداللہ بن سعدؓ ایک برس تین مہینے کے بعد ۲۷ ھ میں افریقہ سے مصر کو واپس آئے،افریقہ والوں نے بجائے جرجیر کے اپنا ایک اوربادشاہ منتخب کرلیا اور مسلمانوں کو مقررہ جزیہ ادا کرنے لگے،افریقہ اسی ریاست یا اُسی ملک کا نام سمجھنا چاہئے جس کو قرطاجنہ کا ملک کہتے تھے۔