انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** امیر عبدالعزیز کاقتل اس جرم بغاوت کی تصدیق کے دربار خلافت سے جو مناسب حکم جاری ہوسکتا تھا وہی جاری ہوا یعنی خلیفہ سلیمان نے انہی لوگوں کے ہاتھ جو خزانہ اور تحفے لےکر آئے تھے اندلس کے پانچ مسلمان سرداروں کے نام حکم بھیجا کہ اگر عبدالعزیز کی نیت بد ہے تو اس کو بلا توقف قتل کردو امیر عبدالعزیزنے اپنا دارالحکومت اشبیلیہ میں قائم کیا تھا جس وقت خلیفہ کا یہ حکم سب سے پہلے حبیب بن عبیدہ کے پاس پہنچا ہے اس نے باقی چار شخصوں کو بھی بغرض مشورہ دعوت دی آخر پانچوں سرداروں کا یہی مشورہ ہوا کہ امیر عبدالعزیز کو قتل کردیا جائے چنانچہ ان سرداروں نے خلیفہ کے حکم کی تعمیل میں عبدالعزیز کو گرفتار کرکےقتل کردیا اور اس کا جسم اصیلیہ میں دفن کرکے سر دمشق کی جانب بھیج دیا اور موسی بن نصیر کے ہمشیر زادے یعنی امیر عبدالعزیز کے پھوپی زاد بھائی ایوب بن حبیب لخمی کو اندلس کا امیر بنایا خلیفہ سلیمان نے چونکہ عبادلعزیز کے مجرم یا بے گناہ ہونے کی تحقیق اندلس ہی کے پانچ سرداروں کو سپرد کردی تھی،لہذا خلیفہ کے نزدیک یہ امر ابھی تک مشتبہ تھا کہ عبدالعزیز قتل ہوگا یا نہیں اس لیے اس نے امیر عبدالعزیز کی جگہ کوئی امیر مقرر کرکے روانہ نہیں کیا تھا بلکہ انہی سرداروں کو اجازت دی تھی کو وہ جس کو مناسب سمجھیں اپنا امیر منتخب کرلیں چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا ،اندلس کے مذکورہ پانچ سردار اگر عبدالعزیز کو مجرم نہ پاتے تو ہر گز قتل نہ کرتے خلیفہ عبدالعزیز کے قتل میں جس حزم واحتیاط سے کام لیا اس سے زیادہ احتیاط ممکن نہ تھی ان معزز سرداروں کی تعداد بھی اس قدر کافی تھی کہ ان سب کا متفقہ طور پر غلطی کرنے کا امکان نہ تھا ان سے زیادہ اور کوئی ذریعہ تحقیق بھی نہیں ہوسکتا تھا سردار کس قدر بے نفس اور منصف مزاج تھے اس کا اندازہ اس طرح ہوسکتا ہے کہ انہوں نے عبدالعزیزکو قتل کرنے کے بعد اسی کے خاندان کے ایک شخص کو امارت اندلس کے لیے منتخب کیا جو عبدالعزیز کا نہ صرف پھوپی زاد بھائی تھا بلکہ وہ رشتہ میں اس کا چچا زاد بھائی بھی تھا یعنی ایوب ابن حبیب کا باپ موسی بن نصیر کا چچازاد بھائی اگر یہ لوگ کسی ذاتی عداوت کی بنا پر عبدالعزیز کو قت کرتے تو اسی کے خاندان میں حکومت اندلس کو باقی رہنے نہ دیتے اس واقعہ کو یورپی مورخین نے کچھ اس انداز میں بیان کیا ہے جس سے خلیفہ سلیمان کی انتہائی نا انصافی اور ظلم کا تصور ہوتا ہے وہ عبدالعزیز بن موسی کی تعریف وتوصیف میں خوب مبالغہ کرتے ہیں جس کو پڑھ کر مسلمان بہت خوش ہوتے ہیں پھر جب اس مظلوم وبے گناہ مقتول ہونے کا حال پڑھتے ہیں تو خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کی نفرت سے قلب لبریز ہوجاتا ہے اور عیسائی مورخوں کا منشا پوراہوتا ہے ،عبدالعزیز بن موسی ۹۸ھ میں مقتول ہوا۔