انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** معبود ماننے میں توحید معبود ماننے میں توحید یعنی اللہ سبحانہ وتعالی ہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، اس کی عبادت میں کسی کوہرگز شریک نہ سمجھا جائے؛ جیسے نماز ،رکوع،سجدہ،روزہ،صدقہ اور خیرات کرنا اور اس کے مقدس گھر کی زیارت کے لیے دور دراز سے سفر کرکے آنا اور وہاں جاکر اس کے گھر کا طواف کرنا، اسکی طرف رخ کر کے سجدہ کرنا، قربانی کا جانور بکرا وغیرہ لےکر جانا، وہاں منتیں مانگنا، کعبہ پر غلاف چڑھانا، کعبہ کے آگے کھڑے ہوکر دعائیں مانگنا، اس کے چاروں طرف روشنی کرنا، اس میں خادم بن کر رہنا، جھاڑو دینا، حاجیوں کو پانی پلانا وضو اور غسل کے لیے پانی مہیا کرنا، آبِ زمزم کو تبرک سمجھ کر پینا، بدن پر ڈالنا، عزیز و اقارب کے لیے لے جانا، اس کے آس پاس کے جنگل کا ادب واحترام کرنا وہاں شکار نہ کرنا، درخت نہ کاٹنا، گھاس نہ اکھاڑنا، جانورنہ چرانا،یہ سب کام اللہ نے اپنی عبادت کے طور پر مسلمانوں کو بتائے ہیں۔ (فائدہ) اب اگر ان میں سے کوئی کام جیسے سجدہ کرنا، رکوع کرنایاصرف جھکنا،کسی درگاہ وغیرہ پر قربانی کا جانور بکرا وغیرہ لیجانا یا وہاں جاکر دعائیں مانگنا، اس کی درودیوار کو چومنا، اس میں خادم بن کر رہنا وغیرہ یہ سب کام اللہ تعالی کی عبادت میں غیر کو شریک کرنے کے برابر کہلاتے ہیں ، جو شرک ہے۔ (رسالۃ التوحید:۱/۴۷) اللہ تعالی کا بذات خود فرشتوں اور اہل علم کا گواہی دینا کہ اصل معبود اللہ سبحانہ وتعالی ہے ارشاد باری ہے: "شَہِدَ اللہُ أَنَّہُ لاَإِلَـہَ إِلاَّہُوَ وَالْمَلاَئِکَۃُ وَأُوْلُواْ الْعِلْمِ قَآئِمَاً بِالْقِسْطِ لاَإِلَـہَ إِلاَّہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ"۔ (آل عمران:۱۸) گواہی دی ہے اللہ تعالی نے اس کی کہ بجز اس ذات کے کوئی معبود ہونےکے لائق نہیں اور فرشتوں نے بھی اور اہل علم نے بھی؛ وہ اس شان سے ہیں کہ اعتدال کے ساتھ انتظام رکھنے والے ہیں، ان کے سوا کوئی معبود ہونے کے لائق نہیں وہ زبردست ہیں حکمت والے ہیں۔ (ترجمہ حضرت تھانویؒ) ایک اور جگہ آیا ہے: "وَإِلَـہُکُمْ إِلَہٌ وَاحِدٌ لاَّ إِلَہَ إِلاَّ ہُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِیْمُ "۔ (البقرۃ:۱۶۳) اورجوتم سب کے معبود بننے کا مستحق ہے وہ تو ایک ہی معبودہے،اس کے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں رحمٰن ہے رحیم ہے۔ (ترجمہحضرت تھانویؒ) اس کے علاوہ بہت ساری آیات ہیں جو صرف اللہ تعالی ہی کے معبود ہونے کو بتلاتی ہیں۔