انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حیات طیبہ:۳/۲ہجری(۶۲۴ء) سریہ حضرت عبداللہ بن جحش(رجب۲ہجری) ماہ رجب میں حضور ﷺ نے حضرت عبداللہؓ بن جحش آپﷺ کے پھوپی زاد بھائی اور ام المومنین حضرت زینبؓ کے بھائی کی امارت میں ایک گشتی دستہ روانہ فرمایا، اسلام قبول کرنے سے قبل حضرت عبداللہؓ کا نام مربع تھا جسے حضور ﷺ نے بدل کر عبداللہ رکھا، دار ارقم میں جانے سے پہلے مسلمان ہوئے حضور ﷺ نے اس دستہ کی امارت حضرت عبداللہؓ کو عطا کی اور انہیں امیر المومنین کا خطاب بھی عطا فرمایا، اس دستہ میں مجاہدین کی تعداد( ۱۲)اور بہ اختلاف روایت (۸) بتلائی گئی ہے، اس کا مقصد قریش کی نقل و حرکت معلوم کرنا تھا، آپﷺ نے حضرت عبداﷲؓ بن جحش کو ایک تحریر بند لفافہ میں دے کر فرمایا کہ دو دن کے سفر کے بعد اسے کھولنااور جہاں جانے کا حکم ہے وہاں جانا، دو دن کے بعد عبداﷲؓ بن جحش نے تحریر کھول کر دیکھی تو اس میں لکھا تھا کہ جب نخلہ جو طائف اور مکہ کے درمیان ہے پہنچ جاؤ تو قریش کے قافلہ کا انتظار کرو اور کسی ساتھی کو چلنے پر مجبور نہ کرو، جو چلنا چاہے اسے ساتھ لو اور جو واپس جانا چاہے اسے واپس کر دو، حسب ہدایت یہ لوگ مقام نخلہ پہنچے، یہ مقام مدینہ سے کافی دور اور نہایت پرخطر تھاکیونکہ جس نخلستان میں ان کو اترنے کا حکم تھا وہ ابن عامر کا باغ تھا اور مکہ کے قریب تھا ، تو وہا ں کفار قریش کا قافلہ ملا جو تجارتی سامان لے کر آرہا تھا ، اس میں عمرو بن الحضرمی، عثمان بن عبداﷲ بن مغیرہ مخزومی ، اس کا بھائی نوفل بن عبداﷲ اور حکیم بن کیسان جیسے ذمہ دار لوگ تھے، ابن ہشام کے مطابق رجب کا آخری دن تھا، مسلمانوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ آج اگر کفار کو چھوڑ دیا گیا تو یہ لوگ حرم میں داخل ہو جائیں گے، اور اگر روکا گیا تو لڑائی کا اندیشہ ہے جو اس ماہ حرام میں منع ہے ، کسی نے کہا کہ رجب ختم ہو چکا ہے اور شعبان شروع ہو گیا ہے، بالآخر سب کا اتفاق اس پر ہوا کہ جس کو قتل کرسکو کرو اور اسباب تجارت پر قبضہ کرلو ، حضرت واقدؓ بن عبداللہ تمیمی نے ایک تیر عمرو بن الحضرمی کو مارا جس سے وہ مارا گیا، یہ اسلام کی طرف سے پہلا قتل تھا، مسلمانوں نے دو افراد عثمان بن عبداللہ اور حکم بن کسیان کو گرفتار کر لیا اور مال تجارت پر بھی قبضہ کر لیا، حضرت عبداللہؓ بن جحش نے مال غنیمت کے پانچ حصے کئے اور پانچواں حصہ آنحضرت ﷺ کے لئے رکھ کر باقی سب مجاہدین میں برابر ، برابر تقسیم کر دیا، یہ ان کا اجتہاد تھا اس لئے کہ مال غنیمت کے بارے میں ابھی تک احکام نازل نہیں ہوئے تھے۔ جب حضرت عبداللہؓ بن جحش واپس ہوکر حضور ﷺ کی خدمت میں مال خُمس اور قیدی پیش کئے تو آپﷺ نے مال غنیمت لینے سے انکار کردیااور فرمایا کہ: میں نے تمہیں ماہ حرام میں لڑائی کا حکم نہیں دیا تھا؛ چونکہ یہ سب کچھ حضرت عبداللہ ؓ بن جحش نے اپنی ذمہ داری پر کیا تھا اس لئے حضورﷺ کی سرزنش سے وہ خائف ہوگئے اور انہوں نے خیال کیا کہ اللہ تعالیٰ بھی ناراض ہوجائے گا، ا س موقع پر سورۂ بقرہ کی آیات ۲۱۷ اور ۲۱۸ نازل ہوئیں جس کے ذریعہ اُن مخلص بندوں کی ڈھارس بندھائی گئی: " اے پیغمبر (لوگ) تم سے عزت و حرمت والے مہینہ میں جنگ کرنے کی نسبت (حکم) دریافت کرتے ہیں ، کہہ دو کہ اس مہینے میں جنگ کرنا بڑا گناہ ہے مگر لوگوں کو اﷲ کی راہ سے روکنا اور اﷲ کو نہ ماننا اور مسجد حرام ( خانہ کعبہ) میں جانے سے لوگوں کو روکنا اور مکہ کے رہنے والوں کو وہاں سے نکال دینا (جو یہ کفار کرتے ہیں) اﷲ کے نزدیک اس سے بڑا گناہ ہے اور فتنہ پردازی تو خوں ریزی سے بھی بڑھ کر ہے اور اے مسلمانویہ کفار ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ اگر ان کا بس چلے تو تم کو تمھارے دین سے پھیر دیں تم سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے اور کفر کی حالت میں مر جائے تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت میں برباد ہوجائیں گے اور یہی لوگ دوزخ میں جانے والے ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ (سورہ بقرہ : ۲۱۸) " اور جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے گھر بار چھوڑا اور اﷲ کی راہ میں جہاد کیا تو ایسے ہی لوگ رحمت کے امید وار ہیں اور اﷲ بڑا بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ (سورہ بقرہ : ۲۱۸) جب قرآن مجید میں اس حکم کا نازل ہوا اور اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کے خوف و ہراس کو دور فرمایاتو حضور اکرم ﷺ کے دل کا بوجھ ہلکا ہوا، قریش نے عثمان بن عبداﷲ اور حکم بن کیسان کی رہائی کے لئے جو فدیہ بھیجا اس کے قبول کرنے سے آپﷺ نے انکار فرمایا اور یہ فرمایا کہ : ہم ان دونو ں کے مطابق تمھارا فدیہ (اس وقت تک ) قبول نہیں کریں گے جب تک کہ ہمارے دونوں آدمی (سعدؓ بن ابی وقاص اور عتبہؓ) نہ آجائیں ؛کیونکہ ان دونوں کے متعلق ہمیں تم سے اندیشہ ہے، پس اگر تم نے ان دونوں کو قتل کردیا تو ہم بھی تمھارے دونوں آدمیوں کو قتل کردیں گے۔ ( ابن ہشام) جب حضرت سعدؓ اور حضرت عتبہؓ آگئے تو حضور اکرم ﷺ نے ان سے فدیہ لے کر ان دونوں کو رہا کردیا، حکم بن کیسان نے رہائی کے بعد اسلام قبول کرلیا اور عثمان بن عبداﷲ مکہ چلاگیااور کفر کی حالت میں مرا۔ یہ سریّہ بعض اعتبارات سے بڑی اہمیت کا حامل ہے اس لئے کہ اس کے دوران مسلمانوں کی جانب سے پہلا قتل ہوا ، پہلے قیدی ملے، پہلی غنیمت ملی ، امیر لشکر کو پہلی بار امیر المومنین کا خطاب ملا اور انہوں نے اپنی طرف سے پہلا اجتہاد کیا، بعدمیں خلفائے راشدین میں سب سے پہلے حضرت عمرؓ امیرا لمومنین کے لقب سے پکارے گئے ۔ (مصباح الدین شکیل ، سیرت احمد مجتبیٰ) حضرت عروہ ؓبن زبیر کا بیان ہے کہ غزوۂ بدر اوردوسری تمام لڑائیاں جو قریش کے ساتھ ہوئیں ان سب کا سبب یہی عمرو بن الحضرمی کا قتل تھا جو عبداللہ حضرمی کا بیٹا تھا، گرفتار ہونے والے بھی با اثر لوگ تھے، طبری کے بیان کے مطابق جنگ بدر اور دوسری لڑائیاں جو مسلمانوں اور کافروں کے درمیان ہوئیں ان سب کا سبب عمرو بن عبداللہ الحضرمی کا قتل تھا۔ یہ چند سرایا ء اور غزوات جو غزوہ بدر سے پہلے ہوئے ان میں سے کسی میں بھی لوٹ مار اور قتل و غارت گری کی نوبت نہیں آئی جب تک کہ مشرکین نے کرز بن جابر فہری کی قیادت میں لوٹ مار نہیں کی، اب تک مسلمانوں نے جو مہمیں روانہ کیں ان کا مقصد حفاظت خود اختیاری تھا لیکن لوٹ مار کی ابتداء مشرکین نے اپنے طرف سے کی ، اس لئے سورہ بقرہ کی آیات ۱۹۰ تا ۱۹۳ کے ذریعہ جنگ کو فرض قرار دیا گیا اور سورہ محمد کی آیات ۴ تا ۷ میں جنگ کا طریقہ بتلایاگیا: " اور جو لوگ تم سے لڑیں تم بھی اﷲ کی راہ میں (یعنی دین کی حمایت میں) ان سے لڑو مگر زیادتی نہ کرو کیونکہ اﷲ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا (۱۹۰) اور ان کو جہاں پاؤ قتل کرو اور جہاں سے انھوں نے تم کو نکالاہے تم بھی ان کو نکال باہر کرو اور فتنہ و فساد قتل و خوں ریزی سے کہیں بڑ کر ہے او ر جب تک وہ تم سے مسجد حرام(یعنی کعبہ)کے پاس نہ لڑیں تم بھی وہاں ان سے نہ لڑو، ہاں اگر وہ تم سے لڑیں تو تم بھی ان کو مارو، ان کافروں کی یہی سزاہے(۱۹۱) پھر اگر وہ اپنی حرکتوں سے باز آجائیں تو اﷲ بخشنے والا مہربان ہے(۱۹۲) اور ان سے اس وقت تک لڑتے رہو کہ ملک میں فتنہ و فساد باقی نہ رہے اور دین سب اﷲ کا ہوجائے پھر اگر وہ (فتنہ و فساد سے )باز آجائیں تو ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہ کرنی چاہیے(۱۹۳) (سورۂ بقرہ) سورہ محمد آیات ۴ تا ۷… " (اے مسلمانو)جب تمھارا کافروں سے مقابلہ ہوجائے تو ان کی گردنیں اڑادو یہاں تک کہ جب ان کو خوب قتل کرچکو تو (جو زندہ پکڑے جائیں )ان کومضبوط جکڑ دو پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ چھوڑ دو یا کچھ مال لے لو یہاں تک کہ لڑائی والے اپنے ہتھیار رکھ دیں یہی (حکم ہے)اور اﷲ چاہتا تو ان سے انتقام لے لیتا لیکن اس نے چاہا کہ تم میں سے بعض کو بعض کے ساتھ آزمائے اور جو لوگ اﷲ کی راہ میں مارے گئے تو اﷲ ہرگز ان کے عملوں ضائع نہیں کرے گا(۴) بلکہ ان کو منزل مقصود تک پہنچائے گا اور ان کی حالت درست کرے گا(۵) اور ان کو بہشت میں داخل کرے گا جس کی پہچان ان کو بتادی ہے(۶) اے ایمان والو ! اگر تم اﷲ کی مدد کروگے تو وہ تمھاری مدد کرے گا اور تم کو ثابت قدم رکھے گا(۷) (سورۂ محمد)