انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ۳۳ھ کے واقعات ولید بن عقبہ کی معزولی کے بعد کوفہ کی گورنری پر سعید بن العاصؓ مقرر ہوئے تھے جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے،سعید بن العاصؓ نے کوفہ میں پہنچ کر اہل کوفہ کی دلجوئی اورمدارات میں کوئی کوتاہی نہ کی،مالک بن حارث نخعی جو مالکِ بن اشترکے نام سے مشہور ہے،ثابت بن قیس ہمدانی،اسود بن یزید،علقمہ بن قیس، جندب بن زہیر جندب بن کعب ازدی،عروہ بن الجعد،عروبن الحق خزاعی، صعصعہ وزید پسران سوجان بن المواعدی مکیل بن زیاد وغیر ہم سب سعید بن العاصؓ کی صحبت میں آکر بیٹھتے اوربے تکلفانہ باتیں کرتے کبھی ہنسی مذاق کی باتیں بھی ہوجاتیں،ایک روز سعید بن العاصؓ گورنر کوفہ کی زبان سے نکلا کہ یہ علاقہ تو قریش کا باغ ہے،یہ سُن کر مالک اشترنے فورا غصے کے لہجہ میں کہا کہ جس علاقے کو اللہ تعالیٰ نے ہماری تلواروں کے زور سے فتح کیا ہے تم اس کو اپنی قوم کا بستان خیال کرتے ہو،ساتھ ہی دوسرے لوگوں نے اس قسم کی باتیں شروع کیں،شوروغل بلند ہوا تو عبدالرحمن اسدی نے لوگوں کو شور وغل مچانے سے منع کیا، اُس پر سب نے مل کر عبدالرحمن کو مارا اوراس قدر زدوکوب کیا کہ بے چارہ بے ہوش ہوگیا، اس واقعہ کے بعد سعید بن العاصؓ نے رات کی صحبت موقوف کرکے درباری مقرر کردیئے کہ لوگوں کو آنے سے باز رکھیں،اس رات کی روزانہ مجلس کے برخاست ہونے کا لوگوں کو بہت ملال ہوا اوراب عام طور پر جہاں دو چار آدمی مل کر بیٹھتے یا کھڑے ہوتے سعید بن العاصؓ کی اوراُن کے ساتھ حضرت عثمان غنیؓ کی بھی شکایت زبان پر لاتے،ان شکایت کرنے والوں کے گرد اوربہت سے بازاری آدمی جمع ہوجاتے۔ رفتہ رفتہ یہ سلسلہ طویل ہوا اورفتنہ بڑھنے لگا تو سعید بن العاصؓ نے یہ تمام روداد حضرت عثمان غنی کی خدمت میں لکھ کر بھیج دی،عثمان غنیؓ نے جواباً سعید بن العاصؓ کو لکھا کہ ان لوگوں کو کوفہ سے شام کی طرف امیر معاویہؓ کے پاس بھیج دو، چنانچہ سعید بن العاصؓ نے سب کو شام کی طرف روانہ کردیا،حضرت امیر معاویہؓ نے اُن کی خوب خاطر مدارات کی،اُن کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے اور اُن کا روزینہ بھی مقرر کردیا،بات یہ تھی کہ حضرت عثمان غنیؓ نے حضرت امیر معاویہؓ کو لکھ دیا تھا کہ چند سرکش لوگوں کی ایک جماعت تمہاری طرف بھجوائی جاتی ہے تم کو شش کرو کہ وہ راہِ راست پر آجائیں،اسی لیے امیر معاویہ نے ان لوگوں کے ساتھ نہایت محبت وہمدردی کا برتاؤ کیا، چند روز کے بعد انہوں نے ان لوگوں کو سمجھایا کہ قریش کی سیادت کو تسلیم کریں اورمسلمانوں کے باہمی اتفاق کو درہم برہم نہ ہونے دیں ؛لیکن خلیفہ ابن صوجان نے امیر معاویہؓ کی نہایت معقول وہمدردانہ باتوں کا بہت ہی غیر معقول اور سراسرنادرست جواب دیا اوراپنی ضد پر اڑارہا،مجبوراً امیر معاویہؓ نے حضرت عثمان غنیؓ کو لکھا کہ یہ لوگ راہ راست پر آنے والے نظر نہیں آتے،حضرت عثمان غنیؓ نے اُن کو لکھا کہ ان لوگوں کو حمص کی جانب عبدالرحمن بن خالدؓ کے پاس بھیج دو، حضرت امیر معاویہؓ نے اُن کو حمص کی جانب روانہ کردیا،عبدالرحمنؓ بن خالد والی حمص نے ان کے ساتھ ان کے حسب حال سختی اور درشتی کا برتاؤ کیا،حتی کہ اپنی مجلس میں بیٹھنے کی بھی اجازت نہیں دی، چند روز کے بعد یہ لوگ سیدھے ہوگئے اوراپنی سابقہ سرکشی کی حرکات پر اظہار افسوس کیا، عبدالرحمن بن خالد نے اس کی اطلاع دربار خلافت کو لکھ بھیجی وہاں سے اجازت آگئی کہ اگر یہ لوگ اب کوفہ کی طرف جانا چاہیں تو جانے دو