انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ۱۶۔حسن بصریؒ نام ونسب حسن نام،ابوسعید کنیت ،والد کا نام یسار تھا،علمی کمالات کے لحاظ سے سرخیل علماء اوراخلاقی وروحانی فضائل کے اعتبار سے سرتاج اولیاء تھے۔ ان کے والدین غلام تھے،ان کی غلامی کے بارہ میں مختلف بیانات ہیں ،ایک روایت یہ ہے کہ ان کے والد میسان کے قیدیوں میں تھے،انس بن مالک کی پھوپھی ربیع بنت نصر نے خرید کر آزاد کیا تھا دوسری روایت یہ ہے کہ ان کے والد اوروالدہ دونوں بنی نجار یعنی ایک انصاری کی غلامی میں تھے، انہوں نے بیوی کے مہر میں بنی سلمہ کو دے دیا تھا،بنی سلمہ نے ان کو آزاد کردیا، تیسری روایت یہ ہے کہ ان کے والد حضرت زید بن ثابتؓ کے غلام تھے اوران کی ماں ام المومنین حضرت ام سلمہؓ کی لونڈی تھیں،ان اختلافات سے قطع نظر کرکے اتنا مسلم ہے کہ یسار اوران کی بیوی لونڈی غلام تھے اورجیسا کہ آگے چل کر معلوم ہوگا آخری روایت زیادہ مستند ہے۔ ام المومنین ام سلمہؓ کی رضاعت حسن بصری آخری عہد فاروقی میں جب کہ حضرت عمرؓ کی خلافت کو دوسال باقی رہ گئے تھے یعنی ۱۲ھ میں پیدا ہوئے،ام المومنین ام سلمہؓ کی غلامی کی نسبت سے ان کو وہ شرف میسر ہوا جو کم خوش قسمتوں کے حصہ میں آیا ہوگا،ان کی ماں لونڈی تھیں، اس لیے اکثر گھر کے کام کاج میں لگتی رہتی تھیں، جب وہ حسن بصری کو چھوڑ کر کسی کام میں لگ جائیں اور وہ رونے لگتے تو حضرت ام سلمہؓ ان کو بہلانے کے لیے چھاتی منہ میں دے دیتیں پھر ان کی ماں لوٹ کر دودھ پلاتیں، اس طرح اُن کو ام المومنین کی رضاعت کا شرف حاصل ہوا۔ حسن بصری حضرت ام سلمہؓ کے سایہ شفقت میں پلے تھےان کے علاوہ دوسری ازواج مطہرات کے گھروں میں بھی ان کی آمد ورفت رہتی تھی ان کا خود بیان ہے کہ حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت تک جب کہ ان کی عمر تیرہ چودہ سال کی تھی وہ بے تکلف ازواج مطہرات کے گھروں میں آتے جاتے تھے۔ (ابن سعد،جلد۷،ق۲) علمی کمالات حسن بصری ایسے زمانہ میں پیدا ہوئے تھے جب کہ صحابہ کرام کی بڑی تعداد موجود تھی اورایسے مقام پر ان کی نشوونما ہوئی تھی جہاں کی گلی گلی علوم نبوی کا مخزن تھی ،پھر انہیں صحبت ایسے بزرگوں کی میسر آئی جو تعلیماتِ اسلامی کا زندہ نمونہ اوراخلاق نبوی کی مجسم تصویر تھے اس لیے ان کا دامن علم و عمل فضل وکمال اورزہد وورع جملہ اخلاقی اورروحانی فضائل سے مالا مال ہوگیا، علامہ ابن سعد لکھتے ہیں۔ کان الحسن جامعاً عالماً عالیاً رفیعاً فقیھاً ماموناً ،عابداً،ناسکاً،کبیرالعلم فصیحا جمیلا وسفیاً (ایضاً:۱۱۵) حسن بصری جامع کمالات تھے، عالم تھے، بلند مرتبت رفیع المنزلت تھے،فقیہ تھے،مامون تھے،عابد وزاہد تھے،وسیع العلم تھے،فصیح و بلیغ اورحسین وجمیل تھے،غرض وہ جملہ ظاہری اورباطنی نعمتوں سے مالا مال تھے، حافظ ذہبی لکھتے ہیں،حافظ ،علامۃ من بحور العلم، فقیۃ النفس ،کبیر الشان، عدیم النظیر،ملیح التذکیر،بلیغ الموعطۃ، راس فی انواع الخیر(تذکرہ الحفاظ ،جلد اول،ص۶۲) علامہ نووی لکھتے ہیں کہ وہ مشہور عالم تھے ان کی جلالتِ شان پر سب کا اتفاق ہے۔ (تذکرہ الحفاظ:۱/۶۲) اکابر علماء کی رائے اس عہد کے تمام علماء اورارباب کمال کا ان کی جلالت پر اتفاق ہے،امام شعبی کہتے تھے کہ میں نے اس ملک (عراق) کے کسی شخص کو بھی ان سے افضل نہیں پایا، قتادہ لوگوں کو ہدایت کرتے تھے کہ اس شخص (حسن بصری) کا دامن پکڑو میں نے رائے میں اس سے زیادہ کس شخص کو عمر بن الخطابؓ کے مشابہ نہیں دیکھا، اعمش کہتے تھے کہ حسن حکمت کو محفوظ رکھتے تھے اوراس کو بولتے تھے،امام باقر فرماتے تھے کہ ان کی باتیں انبیاء کی باتوں کے مشابہ ہیں،غالب القطان کہتے تھے کہ اس عہد کے علماء پر حسن کو ایسی ہی فضیلت حاصل تھی جیسےطیور میں باز کو گوریوں پر ہوتی ہے،جو شخص اس زمانے کے سب بڑے عالم کو دیکھنا چاہے اسے حسن کو دیکھنا چاہیے، عمرو بن مرہ کہتے ہیں کہ مجھے اہل بصرہ پر حسن اورمحمد دوشیخوں کی وجہ سے رشک ہے،یونس بن عبید اللہ اورحمید الطویل کہتے تھے کہ میں نے بہت سے فقہا کو دیکھا؛ لیکن حسن سے زیادہ کسی کو کامل المروۃ نہیں پایا،عطاء بن ابی رباح لوگوں کو ہدایت کرتے تھے کہ تم لوگ اس شخص (حسن) کی طرف مسائل میں رجوع کیا کرو، وہ بہت بڑے عالم، امام اورمقتداء ہیں، امام مالک فرماتے تھے کہ تم لوگ حسن بصری سے مسائل پوچھا کرو؛ کیونکہ انہوں نے محفوظ رکھا اورہم نے بھلادیا، بعض لوگ یہاں تک کہتے تھے کہ اگر حسن نے سن شعور میں عہد صحابہ پایا ہوتا تو یہ بزرگوار رائے میں ان کے محتاج ہوتے۔ (ابن سعد،ج۷،ق۲،تذکرہ حسن بصری) اگرچہ حسن بصری جامع العلوم تھے،لیکن ان کی زندگی زیادہ تر زہد وعبادت اورروحانی مشاغل میں بسر ہوتی تھی، اس لیے ان کے روحانی مرتبہ کے مقابلہ میں ان کے علم کی تفصیلات بہت کم ملتی ہیں،تاہم جتنے حالات ملتے ہیں وہ سر سری اندازہ لگانے کے لیے کافی ہیں،ان کو تفسیر فقہ اورحدیث جملہ مذہبی علوم میں یکساں دستگاہ حاصل تھی۔ تفسیر مفسر کی حیثیت سے انہوں نے کوئی خاص شہرت حاصل نہیں کی،لیکن تفسیر کی تعلیم انہوں نے بڑی محنت سے حاصل کی تھی، بارہ برس کے سن میں وہ حافظ قرآن ہوگئے تھے، ابوبکر الہذالی کابیان ہے کہ جب تک وہ ایک سورۃ کی تفسیر و تاویل اورشان ِنزول وغیرہ سے پوری واقفیت نہ حاصل کرلیتے تھے،اس وقت تک آگے نہ بڑھتے تھے (شذرات الذہب :۱/۱۳۷) اس محنت نے ان کو قرآن کا بڑا عالم بنادیا تھا اوروہ تفسیر کا درس دیتے تھے۔ حدیث حدیث میں ان کے درجہ کا اندازہ حافظ ذہبی کے ان الفاظ سے ہوسکتا ہے کہ :وہ علامہ اور علم کے سمندروں میں تھے (تذکرہ الحفاظ:۱/۶۲) حدیث میں انہوں نے ان بزرگوں سے فیض پایاتھا جن میں سے اکثر اس فن کے اساطین اوررکن اعظم تھے؛چنانچہ صحابہ میں حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ،ابوموسیٰ اشعریؓ، عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباسؓ، عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ، انس بن مالکؓ، جابر بن معاویہؓ، معقل بن یسار، ابی بکرہؓ، عمران بن حصین اور جندب بجلیؓ سے براہ راست استفادہ کیا تھا اور عمر بن الخطابؓ ،ابن کعبؓ،سعد بن عبادہؓ،عمار بن یاسر، ابو ہریرہؓ،ثوبان، عثمان بن ابی العاص اورمعقل بن سنان سے بالواسطہ مستفید ہوئے،صحابہ کے علاوہ اکابر تابعین کی ایک بڑٰ ی جماعت سے سماعِ حدیث کیا تھا۔ (تہذیب التہذیب:۲/۲۶۴)