انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** روزہ روزہ کی حقیقت وفضیلت اوراُس کےنہ رکھنے کا نقصان روزہ کی حقیقت روزہ کے لیے قرآن وحدیث میں "صوم" کا لفظ آیا ہے؛ صوم کے اصل معنی "رکنے" کے ہیں، خاص طور پر کھانے پینے سے رکنا؛ اگرگھوڑا چارہ نہیں کھاتا تو عرب کہا کرتے تھے "صام الفرس علی آریہ"۔ (البحرالرائق، کتاب الصوم: ۶/۱۲۵) شریعت میں کھانا، پینا اور جماع سے صبح صادق کے طلوع ہونے کے وقت سے لیکر غروبِ آفتاب تک روزہ کی نیت سے رکے رہنے کا نام "صوم" ہے۔ (جامع الرموز: ۱/۱۵۳) روزہ دراصل اپنے خالق ومعبود سے عشق ومحبت کے تعلق کا مظہر ہے، نماز میں خوف وتعظیم کا پہلو غالب ہے کہ بندہ اپنے آقا کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا ہے، کبھی جھکتا ہے، کبھی اپنی جبیں بندگی زمین پر رکھ دیتا ہے، روزہ میں اللہ تعالیٰ سے محبت کا اظہار ہے کہ خدا کی خوشنودی کی طلب میں بھوک سے، پیاس سے، دنیا کی چیزوں سے بے تعلقی ہے، لذت لب ودہن سے بے نیازی ہے اور ایک ہی آرزو ہے کہ اس کا رب اس سے راضی ہوجائے، کھانے کے اسباب موجود ہیں؛ لیکن ایک دانہ حلق سے نیچے نہیں جاسکتا، پانی کی کمی نہیں اور پیاس نے لب ودہن کو خشک کررکھا ہے؛ لیکن کیا مجال ہے کہ کوئی گھونٹ حلق کو ترکردے، دن بھر تپنے اور سورج ڈوبنے کے بعد اللہ ہی کے حکم سے روزہ دار کھاتا اور پیتا ہے، یہی روزے کی حقیقت ہے۔ روزہ کی اہمیت توحید ورسالت کی شہادت کے بعد نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج اسلام کے عناصر اربعہ ہیں، روزہ اسلام کی اہم ترین عبادات میں سے ہے، اسلام میں اس کی اہمیت کے پیش نظر مکمل ماہِ رمضان کے روزوں کو فرض قرار دیا گیا؛ نیزسفر یامرض کی وجہ سے روزہ متعذر ہوجائے تو بعد میں اس کی قضا کو لازمی قرار دیا گیا: "وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْعَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ"۔ ( البقرۃ: ۱۸۵) "پھرجوشخص تم میں بیمار ہو یاسفر میں ہو تو دوسرے ایام کا شمار رکھتا ہے"۔ (ترجمہ تھانویؒ) نیز عورت کے لیے حالت حیض ونفاس میں نماز جیسی اہم عبادت کو معاف کیا گیا لیکن روزہ کی قضا لازم قرار دی گئی: "عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كُنَّا نَحِيضُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ نَطْهُرُ فَيَأْمُرُنَا بِقَضَاءِ الصِّيَامِ وَلَا يَأْمُرُنَا بِقَضَاءِ الصَّلَاةِ"۔ (ترمذی، باب ماجاء فی قضاء الحائض الصیام دون الصلاۃ، حدیث نمبر:۷۱۷) "حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم حضورﷺ کے زمانہ میں حالتِ حیض میں ہو؛ پھرجب پاک ہوجاتے تو آپ ﷺ ہمیں روزے کی قضا کا حکم فرماتے اور نماز کی قضا کرنے کا حکم نہ فرماتے"۔ اور روزہ کی اہمیت ہی کی وجہ سے ایسے بیمار جنہیں صحت کی امید ہی نہ ہو ان کے حق میں شریعت نے یہ حکم دیا کہ یہ روزے کے بجائے اس کا فدیہ ادا کریں۔ (تفسیرمظہری: ۱/۲۳۸، قاضی محمد ثناء اللہ صاحبؒ، مطبوعہ:زکریا، دیوبند، یو پی) روزہ کی فضیلت حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (روزہ کی فضیلت اور قدروقیمت بیان کرتے ہوئے) ارشاد فرمایا کہ آدمی کے ہراچھے عمل کا ثواب دس گنا سے سات سو گناہ تک بڑھایا جاتا ہے (یعنی اس امتِ مرحومہ کے اعمال خیر کے متعلق عام قانونِ الہٰی یہی ہے کہ ایک نیکی کا اجر اگلی امتوں کے لحاظ سے کم از کم دس گنا ضرور عطا ہوگا اور بعض اوقات عمل کرنے والے کے خاص حالات اور اخلاص وخشیت وغیرہ کیفیات کی وجہ سے اس سے بھی بہت زیادہ عطا ہوگا؛ یہاں تک کہ بعض مقبول بندوں کو ان کے اعمال حسنہ کا اجر سات سو گنا عطا فرمایا جائیگا؛ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے اس عام قانون رحمت کا ذکر فرمایا) مگر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ روزہ اس عام قانون سے مستثنیٰ اور بالاتر ہے وہ بندہ کی طرف سے خاص میرے لیے ایک تحفہ ہے اور میں ہی (جس طرح چاہوں گا) اس کا اجر وثواب دونگا، میرا بندہ میری رضا کے واسطے اپنی خواہش نفس اور اپنا کھانا، پینا چھوڑدیتا ہے (لہٰذا میں خود ہی اپنی مرضی کے مطابق اس کی اس قربانی اور نفس کشی (نفس کو مارنے) کا صلہ دونگا) روزہ دار کے لیے دومسرتیں ہیں (۱)افطار کے وقت (۲)اپنے مالک ومولیٰ کی بارگاہ میں حضوری ملاقات کے وقت، اور قسم ہے کہ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے (یعنی انسانوں کے لیے مشک کی خوشبو جتنی اچھی پیاری ہے اللہ کے پاس روزہ دار کے منہ کی بو اس سے بھی اچھی ہے) اور روزہ (دنیا میں شیطان ونفس کے حملوں سے بچاؤ کے لیے اور آخرت میں آتشِ دوزخ سے حفاظت کے لیے ڈھال ہے) اور جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو چاہیے کہ وہ بے ہودہ اور فحش باتیں نہ بکے اور شوروشغب نہ کرے اور اگر کوئی دوسرا اس سے گالی گلوج یاجھگڑا کرے تو کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں۔ (بخاری، باب ھل یقول انی صائم اذاشتم، حدیث نمبر:۱۷۷۱۔ مسلم، حدیث نمبر:۱۹۴۴ "عن أبِی صالِح الزیاتِ أنہ سمِع أباہریرۃؓ یقول قال رسول اللہﷺ قال اللہ عز وجل کل عملِ ابنِ آدم"الخ) اس حدیث کے آخر میں رسول اللہ ﷺ نے جو یہ ہدایت فرمائی ہے کہ "جب کسی کا روزہ ہو تو وہ فحش اور گندی باتیں اور شوروشغب بالکل نہ کرے اور اگر بالفرض کوئی دوسرا اس سے الجھے اور گالیاں دے جب بھی کوئی سخت بات نہ کہے؛ بلکہ صرف اتنا کہدے کہ بھائی میرا روزہ ہے، اس آخری ہدایت میں اشارہ ہے کہ اس حدیث میں روزہ کی جو خاص فضیلتیں اور برکتیں بیان کی گئی ہیں یہ انہی روزوں کی ہیں جن میں شہوت نفس اور کھانے پینے کے علاوہ گناہوں؛ حتی کہ بری اور ناپسندیدہ باتوں سے بھی پرہیز کیا گیا ہے، ایک دوسری حدیث میں آیا ہے، جو شخص روزہ رکھے لیکن برے کاموں اور غلط باتوں سے پرہیز نہ کرے تو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی اللہ کو کوئی احتیاج نہیں ہے۔ (بخاری، باب من لم یدع قول الزور والعمل بہ فی الصوم، حدیث نمبر:۱۷۷۰ "عن أبِی ہریرۃؓ قال قال رسول اللہﷺ من لم یدع قول الزورِ والعمل بِہِ فلیس لِلہِ حاجۃٌ فِی أَن یدع طعامہ وشرابہ") حضرت سہل بن سعد ساعدیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جنت کے دروازوں میں ایک خاص دروازہ ہے جس کو "باب الریان" کہا جاتا ہے، اس دروازے سے قیامت کے دن صرف روزہ داروں کا داخلہ ہوگا، ان کے سوا کوئی اس دروازے سے داخل نہیں ہوسکے گا، اس دن پکارا جائے گا کہ کدھر ہیں وہ بندے جو اللہ کے لیے روزے رکھا کرتے تھے اور بھوک پیاس کی تکلیف اٹھایا کرتے تھے؟ وہ اس پکار پر چل پڑیں گے۔ (بخاری، باب الریان للصائمین، حدیث نمبر:۱۷۶۳۔ مسلم، حدیث نمبر:۱۹۴۷) روزہ میں جس تکلیف کا احساس سب سے زیادہ ہوتا ہے اور جو روزہ دار کی سب سے بڑی قربانی ہے وہ اس کا پیاسا رہنا ہے، اس لیے اس کو جو صلہ اور انعام دیا جائیگا اس میں سب سے زیادہ نمایاں اور غالب پہلو سیرابی کا ہونا چاہیے، اسی مناسبت سے جنت میں روزہ داروں کے داخلہ کے لیے جو مخصوص دروازہ مقرر کیا گیا ہے اس کی خاص صفت "سیرابی وشادابی" ہے۔ "ریان" کے لغوی معنی ہیں "پورا پورا سیراب" (المنجد:۴۲۱) یہ بھرپور سیرابی تو اس دروازہ کی صفت ہے جس سے روزہ داروں کا داخلہ ہوگا، آگے جنت میں پہنچ کر جو کچھ اللہ تعالیٰ کے انعامات ان پر ہوں گے ان کا علم تو صرف اللہ تعالیٰ کو ہی ہے، جس کا ارشاد ہے: "الصوم لی وأنا اجزی بہ" بندہ کا روزہ بس میرے لیے ہے اور میں خود ہی اس کا صلہ دونگا۔ (صحیح ابن خزیمہ، باب ذکر طیب خلفۃ الصائم عنداللہ یوم القیامۃ، حدیث نمبر:۱۸۹۶ "عن ابی صالح الزیات انہ سمع اباھریرۃ یقول"الخ) حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ مجھے کسی عمل کا حکم فرمائیے، جس سے اللہ تعالیٰ مجھے نفع دے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ روزہ رکھا کرو اس کی مثل کوئی بھی عمل نہیں ہے۔ (نسائی شریف، باب ذکرالاختلاف علی محمد بن ابی بعقوب، حدیث نمبر:۲۱۹۰) نماز، روزہ، صدقہ، حج اور اللہ کے مخلوق کی خدمت وغیرہ اعمالِ صالحہ میں یہ بات مشترک ہونے کے باوجود کہ یہ سب تقرّب الی اللہ کا ذریعہ اور وسیلہ ہیں، ان کی الگ الگ کچھ خاص تاثیرات اور خصوصیات بھی ہیں جن میں یہ ایک دوسرے سے ممتاز اور منفرد ہیں؛ گویا ؎ "ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است" ہرپھول کا رنگ اور خشبو الگ ہوا کرتی ہے۔ ان انفرادی اور امتیازی خصوصیات کے لحاظ سے ان میں سے ہرایک کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ "اس کے مثل کوئی عمل نہیں ہے" مثلاً نفس کو مغلوب اور مقہور کرنے اور اس کی خواہشوں کو دبانے کے لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ اس صفت میں کوئی دوسرا عمل روزہ کے مثل نہیں ہے؛ لہٰذا حضرت ابوامامہ کی اس حدیث میں روزہ کے بارے میں جو فرمایا گیا کہ "اس کے مثل کوئی عمل نہیں ہے" اس کی حقیقت یہی سمجھنی چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: روزہ اور قرآن دونوں بندے کی سفارش کریں گے (یعنی اس بندے کی جو دن میں روزے رکھے گا اور رات میں اللہ کے حضور میں کھڑے ہوکر اس کا پاک کلام قرآن مجید پڑھے گا یاسنے گا) روزہ عرض کریگا: اے میرے پروردگار! میں نے اس بندے کو کھانے پینے اور نفس کی خواہش پورا کرنے سے روکے رکھا تھا، آج میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما (اور اس کے ساتھ مغفرت ورحمت کا معاملہ فرما) اور قرآن کہیگا کہ میں نے اس کو رات میں سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا تھا، خداوند! آج اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما (اور اس کے ساتھ بخشش اور عنایت کا معاملہ فرما) چنانچہ روزہ اور قرآن دونوں کی سفارش اس بندہ کے حق میں قبول فرمائی جائیگی (اور اس کے لیے جنت اور مغفرت کا فیصلہ فرمادیا جائیگا) اور خاص مراحم خسروانہ سے اس کو نوازا جائیگا۔ (مسنداحمد، مسند عبداللہ بن عمروبن العاصؓ، حدیث نمبر:۶۶۲۶۔ شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر:۱۹۳۸۔ المستدرک للحاکم علی الصحیحین، حدیث نمبر۲۰۳۶) وہ بندے کتنے خوش نصیب ہیں جن کے حق میں ان کے روزوں کی اور نوافل میں ان کے پڑھے ہوئے یاسنے ہوئے قرآن پاک کی سفارش قبول ہوگی، یہ ان کے لیے کیسی مسرت اور فرحت کا وقت ہوگا، اللہ تعالیٰ ہم گنہگاروں کو بھی محض اپنے کرم سے ان خوش بختوں میں شامل کردے (آمین) بلاعذر رمضان کا روزہ نہ رکھنے کا نقصان حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو آدمی سفر وغیرہ کی شرعی رخصت اور بیماری جیسے کہ عذر کے بغیر رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑ دیگا وہ اگر اس کے بجائے عمر بھر بھی روزے رکھے تو جو چیز فوت ہوگئی وہ پوری ادا نہیں ہوسکتی۔ (ترمذی، باب ماجاء فی الافطار متعمدا، حدیث نمبر:۶۵۵۔ ابن ماجہ، حدیث نمبر:۱۶۶۲۔ سنن کبریٰ للنسائی، حدیث نمبر:۳۲۷۹)