انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** انتخاب حضرت فاروق اعظمؓ نے انتخاب خلیفہ کے لئے تین دن کی مہلت مقرر فرماکر حضرت مقداد کو حکم دے دیا تھا کہ نامزد شدہ اشخاص کی مجلس میں جب تک کہ وہ اپنے آپ میں سے کسی کو خلیفہ منتخب نہ کرلیں،کسی دوسرے کو نہ جانے دینا، صرف عبداللہ بن عمرؓ کو رائے دینے کے لئے شریک ہونے کی اجازت تھی،تاکہ اس طرح رائے دہندوں کی تعداد طاق یعنی سات ہوجائے،لیکن عبداللہ بن عمرؓ کے لئے پہلے سے آپ نے یہ حکم صادر فرمادیا تھا کہ ان کو ہرگز خلیفہ منتخب نہ کیا جائے،اس وقت کسی نے عبداللہ بن عمرؓ کے لئے کہا،تو آپ نے فرمایا تھا کہ بارِ خلافت کی ذمہ داری میرے ہی لئے کیا کم ہے کہ میں اپنے خاندان میں دوسروں پر بھی یہ محنت ڈالوں اوراُن کو بہت سی آسائشوں سے محروم کردوں،فاروقِ اعظمؓ سے جب کسی شخص نے خلیفہ کے متعین و نامزد فرمادینے کے لئے کہا،توآپ نے جواب دیا کہ میں صدیق اکبرؓ کی سنت پر عمل کرکے کسی کو اپنے بعد نامزد نہ کروں،تو یہ میرے لئے جائز ہے،میں اپنے بعد کسی کو اگر خلیفہ مقرر کرتا تو وہ ابو عبیدہ بن الجراح تھے،جو مجھ سے پہلے فوت ہوگئے،یا پھر میں ابو حذیفہ کے غلام سالمؓ کو خلیفہ بناتا وہ بھی مجھ سے پہلے فوت ہوگئے یہ فرما کر پھر آپ نے ان چھ شخصوں کے نام لئے جو اوپر درج ہوچکے ہیں۔ حضرت مقداد الاسود اورحضرت ابو طلحہ انصاری نے وصیت فاروقی کے موافق فاروقِ اعظمؓ کی تجہیز وتکفین سے فارغ ہوکر حضرت صہیبؓ کو تو عارضی طور پر تین دن کے لئے تاانتخاب خلیفہ مدینہ کا حکمراں اورامام مقرر کیا اورخود اپنے آدمیوں کی جمعیت لے کر علیؓ،عثمانؓ،زبیرؓ،سعدؓ،عبدالرحمن اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو مسوربن الخزامہؓ اوربقول دیگر حضرت عائشہؓ کے مکان میں جمع کرکے دروازے پر حفاظت کی غرض سے بیٹھ گئے،حضرت طلحہؓ مدینہ میں موجود نہ تھے،کوئی اوراس مکان میں داخل نہیں ہوسکتا تھا،حضرت عمرو بن العاصؓ اورحضرت مغیرہ بن شعبہؓ دروازہ پر آکر بیٹھ گئے تھے،حضرت سعد بن وقاصؓ کو معلوم ہوا،تو انہوں نے اُن دونوں کو دروازے پر بھی نہ بیٹھنے دیا اور وہاں سے اُٹھوا دیا تاکہ وہ کہیں یہ نہ کہہ سکیں،کہ ہم بھی اصحاب شوریٰ میں شامل تھے،جب سب صاحبان اطمینان سے آکر بیٹھ گئے،تو سب سے اول حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے کھڑے ہوکر کہا، کہ جو لوگ خلافت کے لئے نامزد کئے گئے ہیں،اُن میں سے کون ایسا ہے،جو اپنے آپ کو خلافت سے دست بردار قراردیتا ہے،اسی کو یہ اختیار دیا جائے گا کہ وہ جس کو تم میں سب سے افضل ولائق سمجھے اُس کو خلیفہ مقرر کردے،اس بات کو سُن کر اُس مختصر مجمع میں سے کسی نے کوئی جواب نہ دیا،سب خاموش رہے،تھوڑی دیر انتظار کرنے کے بعد حضرت عبدالرحمن بن عوف نے پھر اعلان کیا کہ میں اپنے آپ کو خلافت سے دست بردار قرار دیتا ہوں اورانتخاب خلیفہ کے کام کو انجام دینے پر تیار ہوں،یہ سُن کر سب نے تائید کی اورحضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کو اختیار دیا کہ آپ جس کو چاہیں ہم میں سے خلیفہ منتخب فرمادیں،مگر حضرت علیؓ بن ابی طالب بالکل خاموش رہے،انہوں نے ہاں یا نا کچھ نہیں کہا،تب حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے حضرت علیؓ کی طرف مخاطب ہوکر کہا کہ آپ نے کچھ نہیں فرمایا آپ بھی اپنی رائے کا اظہار کیجئے،حضرت علیؓ نے کہا کہ میں بھی اس رائے سے متفق ہوں ؛لیکن شرط یہ ہے کہ تم پہلے یہ اقرار کرلو کہ جو فیصلہ کروگے بلا رورعایت اورنفسانیت کو دخل دئیے بغیر محض حق پرستی اورامت کی خیر خواہی کے لئے کرو گے، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے کہا کہ میں تم سے عہد کرتا ہوں کہ بلا رو رعایت بلا نفسانیت اورمحض امت کی بہتری اوربھلائی کے لئے حق پرستی کی بنا پر فیصلہ کروں گا،لیکن تم سب اس بات کا اقرار کرو کہ جس کو میں منتخب کروں گا اُس پر رضا مند ہوجاؤ گے اورجو میری رائے اورمیرے فیصلے کی مخالفت کرے گا، تم سب اس کے مقابلے میں میری مدد کرو گے یہ سُن کر حضرت علیؓ اورتمام مجمع نے اقرار کیا کہ ہم سب تمہارے فیصلہ کی تائید اوراُس کے نفاذ میں تمہاری امداد کریں گے۔ یہ عہد وپیمان ہوجانے کے بعد مجمع منتشر ہوا اورلوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے آئے کیونکہ ابھی تین دن کی مہلت باقی تھی،اس دن کے عرصہ میں حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ برابر صاحب الرائے اور جلیل القدر صحابۂ کرام سے اُن کی رائیں دریافت فرماتے رہے، خود بھی غور وخوض میں مصروف رہے،حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمانؓ سے الگ ہوکر جاکر دریافت کیا کہ اگر میں آپ سے بیعت نہ کروں تو آپ مجھے کس کی بیعت کرنے کی رائے دیتے ہیں،انہوں نے کہا کہ آپ کو حضرت علیؓ کے ہاتھ پر بیعت کرنی چاہئے ،پھر میں نے حضرت علیؓ سے بھی تنہائی میں یہی سوال کیا،تو انہوں نے حضرت عثمانؓ کا نام لیا،پھر میں نے حضرت زبیرؓ سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ علیؓ یا عثمانؓ دونوں میں سے کسی ایک کے ہاتھ پر بیعت کرلو،پھر میں نے حضرت سعدؓ سے تنہائی میں دریافت کیا تو انہوں نے حضرت عثمانؓ کا نام لیا،پھر میں نے اور صاحب الرائے حضرات سے دریافت کیا تو کثرت رائے حضرت عثمان ہی کی نسبت ظاہر ہوئی،سہ روزہ مہلت کی آخری شب کو پھر مذکورۂ بالا حضرات کا مجمع اسی مذکورہ مکان میں ہوا،حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے حضرت زبیرؓ اورحضرت سعدؓ کو الگ بلا کر کہا کہ عام طور پر علیؓ وعثمانؓ کی نسبت لوگوں کی زیادہ رائیں ظاہر ہوئی ہیں، ان دونوں حضرات نے بھی انہیں دونوں کی نسبت اپنی رائے ظاہر کی، پھر حضرت سعدؓ بن ابی وقاص نے کہا کہ آپ تو ہم سے بیعت لے لیں اورہم کو ان جھگڑوں سے آزاد کردیں،حضرت عبدالرحمنؓ نے فرمایا یہ کیسے ممکن ہے، میں تو ان لوگوں کے دائرے سے آزاد ہوچکا ہوں،جو خلافت کے لئے نامزد ہوئے تھے، پھر حضرت عبدالرحمنؓ نے حضرت علیؓ اور حضرت عثمانؓ کو الگ لے جاکر کچھ باتیں کیں،انہیں مشوروں اور باتوں میں صبح ہوگئی،یہی صبح انتخاب خلیفہ کے اعلان ہونے کی صبح تھی،لوگ منتظر تھے،نمازِ فجر کے بعد تمام مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم آدمیوں سے کھچا کھچ بھر گئی،تمام حضرات مسجد میں تشریف رکھتے تھے اورمنتظر تھے کہ دیکھئے حضرت عبدالرحمن بن عوف کیا فیصلہ سُناتے ہیں۔حضرت عبدالرحمنؓ کے کچھ فرمانے سے پہلے بعض لوگوں نے اپنی اپنی رائے ظاہر کرنی شروع کردی یہ لوگ اصحاب شوریٰ میں سے نہ تھے،مثلاً حضرت عمارؓ نے کہا کہ میں حضرت علیؓ کو مستحق خلافت سمجھتا ہوں،ابن ابی سرحؓ اورعبداللہ بنؓ ابی ربیعہ نے کہا کہ ہم حضرت عثمانؓ کو زیادہ مستحق ومناسب پاتے ہیں، اس قسم کی چہ می گوئیاں شروع ہوئیں تو حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ سے کہا کہ تم اب دیر کیوں کررہے ہو،اندیشہ ہے کہ مسلمانوں میں کوئی فتنہ نہ پیدا ہوجائے، تم جلد اپنی رائے کا اظہار کرکے اس مسئلہ کو ختم کردو،حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اُٹھے اور تمام مجمع کو مخاطب کرکے کہا کہ جہاں تک میری طاقت میں تھا، میں نے ہر طبقہ اورہر گروہ کی رائے معلوم کرلی ہے اوراُس کام میں کسی غفلت وکم التفاقی کو مطلق راہ نہیں دی ہے ، میرے فیصلے سے اب کسی کو انکار کا موقع حاصل نہیں ہے؛کیونکہ بہ رضا ورغبت تمام اصحاب شوریٰ اور نامزدگانِ خلافت نے میرے فیصلے کو ناطق تسلیم کرلیا ہے اورمیں اپنی تمام طاقت صحیح فیصلہ تک پہنچنے کے لئے صرف کرچکا ہوں یہ کہہ کر انہوں نے حضرت عثمان غنیؓ کو اپنے پاس بُلایا اورکہا کہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام اور سنت شیخین پر چلنے کا اقرار کرو،انہوں نے اقرار کیا کہ میں خدا اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اورصدیقؓ وفاروقؓ کے نمونے پر چلنے کی کوشش کروں گا،اس کے بعد حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے حضرت عثمان غنیؓ کے ہاتھ پر بیعت کی،اُن کے بعد سب لوگ حضرت عثمانؓ کے ہاتھ پر بیعت کرنے لگے،حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اول اس نظارے سے کچھ دل گرفتگی ہوئی اور مسجد سے اُٹھ کر باہر جانے لگے،لیکن پھر کچھ خیال آیا توفوراً بڑی عجلت وبے تابی کے ساتھ صفوں کو چیرتے ہوئے بڑھے، اورحضرت عثمان غنیؓ کے ہاتھ پر بیعت کی ،حضرت طلحہؓ اس روز یعنی یکم محرم کو مدینہ میں موجود نہ تھے اوراسی لئے وہ شریک مشورہ نہ ہوسکے تھے،حضرت طلحہؓ اگلے روز یعنی ۲ محرم ۲۴ ھ کو مدینہ میں تشریف لائے اور یہ سُن کر کہ تمام لوگوں نے بالاتفاق حضرت عثمان غنیؓ کے ہاتھ پر بیعت کرلی ہے،حضرت عثمانؓ کی خدمت میں بغرض بیعت حاضر ہوئے، حضرت عثمان نے اُن سے کہا کہ آپ کی غیرموجودگی میں میرا انتخاب ہوگیا ہے اورزیادہ دنوں آپ کا انتظار نہیں ہوسکتا تھا،اگر آپ مدعی خلافت ہوں تو میں آپ کے حق میں خلع خلافت کرنے کو تیارہوں،حضرت طلحہ ؓ نے کہا،کہ جب تمام لوگوں نے آپ کی خلافت پر بیعت کرلی ہے تو میں بھی آپ کی خلافت پر رضا مند ہوں،میں مسلمانوں میں کوئی فتنہ اوراختلاف ڈالنا نہیں چاہتا، یہ کہہ کر انہوں نے بھی حضرت عثمان غنیؓ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ بیعت کے بعد حضرت عثمان غنیؓ منبر پر کھڑے ہوئے اورلوگوں کو مخاطب کر کے اعمال صالحہ کی ترغیب دلائی، مال و دولت کی فراوانی سے جو غفلت پیدا ہوتی ہے اُس سے ڈرایا اور رضائے الہی کو ہمیشہ مقدم رکھنے کی نصیحت کی،اُس کے بعد صوبوں کے عاملوں اورحاکموں کے نام ایک حکم جاری کیا،جس میں فاروق اعظمؓ کی وفات اوراپنے انتخاب کا تذکرہ تھا،نیز اُن کو تاکید کی گئی تھی کہ جس طرح فاروق اعظمؓ کی خلافت میں دیانت وامانت کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے رہے ہو اسی طرح انجام دیتے رہو۔