انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** تعمیر مسجد نبوی حضرت ابو ایوب ؓ انصاری کے مکان میں قیام کے دوران جب نماز کا وقت آتا حضورﷺ جہاں موجود ہوتے وہیں نماز ادا فرماتے، کچھ دن بعد ایک مسجد بنانے کا خیال آیااُسی جگہ پر جہاں پرآپﷺ کی اونٹنی قصویٰ بیٹھی تھی، دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ زمین عمرو بن بنی نجار کے دو یتیم بچوں سہل اور سہیل کی ہے ، آپﷺنے ان دونوں بچوں کو بلا کر کہا کہ وہ اپنی زمین مسجدکے لئے قیمتاً دیں لیکن ان دونوں اور ان کے قبیلہ والوں نے قیمت لینے سے انکار کر دیا، لیکن آپﷺ نے قیمت پر اصرار فرمایا تو دس دینار طئے ہوئی، اس کی قیمت ادا کر نے کے بارے میں مختلف روایات ہیں، امام زہری نے حضرت ابو بکر ؓ صدیق کا نام لکھا ہے، دیگر روایتوں میں حضرت اسعدؓ بن زرارہ اور حضرت ابو ایوب ؓ انصاری کے نام ہیں۔ زمین ان بچوں سے حاصل کر کے صاف کروائی گئی، اس زمین میں مشرکین کی چند قبریں تھیں جو اکھڑوادی گئیں ، کھجور کے درخت کٹوا کر قبلہ کی طرف باڑھ لگائی گئی، اس وقت قبلہ بیت المقدس تھا،یہ وہی جگہ تھی جہاں ہجرت سے قبل حضرت اسعد ؓ بن زرارہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے، مسجد کی تعمیر کاآغاز ربیع الاول ۱ ھ م اکٹوبر ۶۲۲ ء میں ہوا ، مسجد کے طول و عرض کے بارے میں مختلف روایات ہیں،یہ مسجد سو سو ہاتھ طویل و عریض تھی اور اس کے تین دروازے تھے، کھجور کے درخت کے تنوں سے مسجد کے ستون بنائے گئے اور سائبان کے طور پر کھجور کے درخت کی شاخیں مع پٹھے شہیتر کی جگہ ڈالے گئے، رمضان میں حضورﷺ اور صحابہؓ مسجد میں اعتکاف میں تھے کہ بارش ہوئی اور کھجور کی ٹہنیوں والی چھت سے پانی ٹپک کر زمین گیلی ہو گئی ،حضورﷺ نے اسی گیلی زمین پر سجدہ فرمایا جس کے نشانات پیشانی مبارک پر نمایاں تھے،یہ دیکھ کر صحابہؓ نے بعد مشورہ کچھ درہم جمع کر کے چھت ڈالنے کے لئے اجازت طلب کی جس پر آپﷺنے فرمایا کہ میں موسیٰ ؑ کے طریقہ سے ہٹ نہیں سکتا اس لئے یہ عریش ان کی جھونپڑی کی مانند ہوگا، یہ سن کر صحابہؓ نے کنکریاں لا کر اپنی اپنی جگہ بچھالیں، اس طرح مسجد میں سنگریزوں کا فرش بن گیا۔ قریب میں بیر ایوب نام کا کنواں تھا ، وہاں اینٹیں تیار کی گئیں، صحابہ ؓ کرام اینٹیں اور پتھراٹھا کر لاتے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بھی اس کام میں ان کے شریک تھے۔