انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** (۲)نقل وروایت میں کسی بات کی صحیح نقل و روایت کے لیے کون سے اسباب ہوسکتے ہیں؛کہ بات اس نقل وروایت میں پوری طرح محفوظ ہے اوراس میں کوئی تبدیلی ہونے نہ پائے؛ یہاں تک کہ اس پر پورا اعتماد کیا جاسکے؟ آنحضرتﷺ نے اس کے لیے وہ تمام اندازاختیار کیئے جو عملی طور پر اس باب میں اختیار کیئے جاسکتے تھے۔ (۱)آپ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کہ ذمے لگایا کہ وہ آپ کی باتیں آگے لے جاتے رہیں گو ایک بات ہی کیوں نہ ہو۔ (۲)آپﷺ نے چند صحابہ کے ذمہ تبلیغ حدیث کی محنت نہ لگائی؛بلکہ ہر ایک حاضرصحابی کے ذمہ لگایا ؛کہ وہ غائبین تک آپ کی باتیں لے جائیں اور تبلیغ حدیث کریں۔ (۳)ہر نقل و روایت میں آپ کی خواہش رہی ؛کہ بات ان لوگوں کے ذریعے آگے پہنچے جو اسے زیادہ سمجھنے کے اہل ہوں؛ تاکہ بات کا مفہوم برقراررہے۔ (۴)آپ نے اس پر شدید نکیر فرمائی؛کہ کوئی شخص جان بوجھ کر آپ کے ذمہ کوئی ایسی بات لگائے جو آپ نے نہ کہی ہو۔ (۵)آپ نے اس پر بھی شدید نکیر فرمائی؛کہ کوئی شخص آپ کی کسی بات کو چھپائے،شریعت میں کتمان علم کو اصولی درجے میں ایک بڑا گناہ قرار دیا گیا۔ (۶)بعض صحابہ کو ان کی طلب پر احادیث لکھنے کی بھی اجازت دی؛ تاکہ انہیں یاد رہے اور وہ آگے پہنچاسکیں۔ (۷)عورتوں کے لیے مستقل تعلیم کا اہتمام فرمایاتاکہ ان میں بھی نقل ورروایت کا سلسلہ چلے اور تاریخ گواہ ہے ؛کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے،کس قدر روایات کا بوجھ اٹھایا اورکس محنت سے یہ ذخیرہ علم آگے امت تک پہنچایا۔ ذخیرہ حدیث میں ان تمام پہلوؤں پر مشتمل روایات ملتی ہیں اوران سے پتہ چلتا ہے؛کہ آنحضرتﷺ کو کس اہتمام سے حفاظت حدیث کی فکر تھی، دنیا نے پھر عملاً دیکھا کہ صحابہ کرام ؓ نے حضورﷺ کے اس حکم کو کس اخلاص اور جانفشانی سے اپنی زندگیوں کا موضوع بنایا، اب ہم ساتوں امور کے بارے میں حضور اکرمﷺ کے کچھ ارشادات پیش کرتے ہیں۔ (۱)حضرت عبداللہ بن عمرؓ (۶۷ھ) کہتے ہیں؛کہ آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا: "بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْایۃ"۔ (مشکوٰۃ:۳۲،عن البخاری) (۲)حضرت ابوبکرؓ(۴۹ھ) کہتے ہیں کہ حضوراکرمﷺ نے حجۃ الوداع کے دن میدان عرفات میں انسانی حقوق کا جو چارٹر پیش کیا اس میں آپ نے یہ بھی فرمایا تھا: "لِيُبَلِّغ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ فَإِنَّ الشَّاهِدَ عَسَى أَنْ يُبَلِّغَ مَنْ هُوَ أَوْعَى لَهُ مِنْهُ"۔ (بخاری،باب قول النبیﷺ ،حدیث نمبر:۶۵) ترجمہ: خبردار! چاہئے کہ جو میرے پاس حاضر ہے وہ میری باتوں کو اس حد تک پہنچائے جو اس وقت مجھ سے غائب ہے ؛کیونکہ ہوسکتا ہے کہ حاضراسے اس شخص تک پہنچادے جو اس سے بھی زیادہ اسے یاد رکھنے والا ہو۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر صحابی آپ کے سامنے ہر وقت حاضر نہ ہوتا تھا کبھی کوئی حاضر ہوتااورکبھی غائب، حاضرین غائب تک آپ کی تعلیمات پہنچاتے تھے۔ (۳)حضرت عبداللہ بن مسعودؓ(۲۲ھ) نے حضور اکرمﷺ کو فرماتے سنا: "نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ غَيْرَهُ فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ لَيْسَ بِفَقِيهٍ"۔ (ترمذی،باب ماجاء فی الحث علی تبلیغ السماع،حدیث نمبر:۲۵۸۰) ترجمہ :اللہ تعالی اس شخص کو سر سبز فرمائے جس نے ہم سے کوئی حدیث سنی، اسے یاد رکھا؛ یہاں تک کہ اسے کسی اور تک پہنچادیا، کئی ایسے بھی علم کو اٹھانے والے ہوتے ہیں جو اسے ان تک پہنچادیں جو ان سے زیادہ دین کی سمجھ رکھتے ہوں اور کئی ایسے بھی علم کو اٹھانے والے ہوتے ہیں جو خود فقیہ نہیں ہوتے۔ حضرت انس بن مالکؓ (۹۱ھ) کہتے ہیں کہ حضورﷺ جب کلام فرماتے تو آپ کی پوری کوشش ہوتی کہ لوگ اچھی طرح سمجھ جائیں۔ (۴)"إِذَا تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ أَعَادَهَا ثَلَاثًا"۔ (بخاری،باب من اعاد الحدیث ثلاثا لیفھم عنہ،حدیث نمبر:۹۳) ترجمہ: آپ جب کوئی کلمہ ارشاد فرماتے تو اسے تین تین دفعہ دہراتے۔ تین دفعہ دہرانے کا مطلب اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ آپ اپنی احادیث کو انمٹ نقوش کی طرح چھوڑنا چاہتے تھے،بھولے سے بھلائی نہ جاسکیں اور قلب سے مٹائی نہ جاسکیں۔ (۴)حضرت زبیرؓ(۳۶ھ) کہتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: "مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ"۔ (بخاری،باب اثم من کذب علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم،حدیث نمبر:۱۰۴) ترجمہ: جو شخص(جان بوجھ کر) مجھ پر کوئی جھوٹ باندھے اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے؛یعنی یہ کام وہ جہنم میں جانے کے لیے کررہا ہے۔ اورحضورؐ نے یہ بھی فرمایا کہ مجھ پر جھوٹ لگانا ایسا نہیں جیسے تم میں سے کسی پر کوئی جھوٹ لگائے،اگر آپ کی حدیث ہمیشہ کے لیے سند اورحجت نہ ہوتی،تو آپ پر جھوٹ باندھنا اتنابڑا گناہ نہ ہوتااور حدیث کو اس کی اصل صورت میں نقل کرنے کا یہ اہتمام نہ ہوتا۔ (۵)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ(۵۷ھ) کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا: مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَهُ ثُمَّ كَتَمَهُ أُلْجِمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِلِجَامٍ مِنْ نَار۔ (ترمذی،باب ماجاء فی کتمان العلم،حدیث نمبر:۲۵۷۳) ترجمہ:جس سے علم کی کوئی بات پوچھی جائے اور وہ اسے چھپائے اسے قیامت کےدن آگ کی لگام میں جکڑا جائےگا۔ حضرت ابوذر غفاریؓ(۳۲ھ)کہتے ہیں "لَوْوَضَعْتُمْ الصَّمْصَامَةَ عَلَى هَذِهِ وَأَشَارَ إِلَى قَفَاهُ ثُمَّ ظَنَنْتُ أَنِّي أُنْفِذُ كَلِمَةً سَمِعْتُهَا مِنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ تُجِيزُوا عَلَيَّ لَأَنْفَذْتُهَا"۔ (بخاری،باب العلم قبل القول والعمل:۱۱۹) ترجمہ: اگر تم تلوار میری اس گردن پر رکھ دو؛ پھر بھی مجھے پتہ ہو کہ پیشتر اس کے کہ تم اسے مجھ پر چلادو میں ایک ایسی بات جو میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی بیان کرسکوں گا تو میں اسے ضرور کہہ دوں گا (یعنی ایسے نازک وقت میں بھی روایت حدیث سے نہ رکوں گا)۔ (۶)ایک انصاری حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ میں آپﷺ سے حدیث سنتا ہوں اور بھول جاتا ہوں،حضورﷺ نے فرمایا:"استعن بیمینک" (جامع ترمذی:۲/۱۰۷) (اپنےدائیں ہاتھ سے مدد لے لیا کرو) یعنی لکھ لیا کرو،روایت میں یہ بھی ہے کہ "واوما بیدہ لخط" کہ آپ نے اپنے ہاتھ سے لکھنے کا اشارہ بھی فرمایا، اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے حدیث کی حفاظت کا کس قدر اہتمام فرمایا ہے۔ (۷)عورتیں امت کا نہایت لائق احترام طبقہ ہیں اور یہی نئی نسلوں کی پہلی استاذ ہیں، آنحضرتﷺ نے انہیں بھی نقل وروایت میں شرف تلمذ بخشا۔