انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** غزوہ بنو قریظہ یہودی قبیلہ بنو قریظہ سے متعلق حسب ذیل امور پیش نظر رکھنے چاہیے: ۱) جب حضور اکرم ﷺ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو پہلے ہی سال آپﷺ نے یہود سے دوستانہ معاہدہ کیا جس میں بنو قریظہ بھی شریک تھے اور اس معاہدہ کے بعد مسلمان اور بنو قریظہ حلیف کی حیثیت سے مل جل کر رہتے تھے، ۲) اس معاہدہ کے ذریعہ حضور اکرم ﷺ نے بنو قریظہ اور یہود کے دوسرے قبائل کو پوری پوری مذہبی آزادی دی تھی اور جان و مال کی حفاظت کا اقرار کیاگیاتھا، ۳) حضور اکرم ﷺ نے بنو قریظہ پر یہ خصوصی اکرام فرمایا تھا کہ اس معاہدہ میں سماجی زندگی میں ان کو دوسرے یہود کے مساوی اور برابر کردیاتھا حالانکہ اس سے پہلے وہ مرتبہ میں وہ بنو نضیر سے کم تھے یعنی بنو نضیر کا کوئی آدمی بنو قریظہ کے کسی آدمی کو قتل کردیتا تو بنو نضیر کو آدھا خوں بہا دینا پڑتاتھا بر خلاف اس کے بنو قریظہ پورا خوں بہا ادا کرتے تھے چنانچہ معاہدہ کے بعد جب دیت کا ایک معاملہ پیش آیا تو انھوں نے زیادہ خوں بہا دینے سے انکار کردیا اور بنو نضیر کو یہ کہلا بھیجا کہ " ہم اب تک زیادہ دیت صرف تمھارے ظلم اور خوف کی وجہ سے دیتے رہے ہیں ، اب محمد(ﷺ) کے آنے کے بعد تو زیادہ دیت نہیں دے سکتے(کیونکہ اب ظلم و زیادتی کا خوف نہیں رہا) ۴) جب قریش نے ان کو معاہدہ شکنی پر آمادہ کیا تو وہ تیار ہوگئے ، آنحضرت ﷺ نے ان سے تجدید معاہدہ کرناچاہا ، بنو نضیر نے انکار کیا اور جلاوطن کردئیے گئے لیکن بنو قریظہ نے نئے سرے سے معاہدہ کرلیا چنانچہ ان کو امن دے دیا گیا، بنو قینقاع جیسے دولت مند اور بہادر قبیلہ نے فتنہ انگیزی کی چنانچہ ۲ ھ میں ان کا محاصرہ کیا گیا اور ان کا اخراج عمل میں آیا، ۵) باوجود معاہدہ ہونے کے عین غزوہ خندق کے موقع پر انھوں نے معاہدہ کی خلاف ورزی کی اور علانیہ کفار کے ساتھ جنگ میں شریک ہوئے ، ۶) بنو نضیر جب جلا وطن ہوئے تو ان کے رئیس آعظم حیٔ بن اخطب ، ابو رافع ، سلام بن ابی الحقیق خیبر جاکر آباد ہوگئے، جنگ احزاب انھی کی کوششوں کا نتیجہ تھا، قبائل عرب میں دورہ کرکے تما م ملک میں آگ لگادی اور قریش کے ساتھ مل کر مدینہ پر حملہ آور ہوئے ،اس وقت تک بنو قریظہ معاہدہ پر قائم تھے؛ لیکن حیٔ بن اخطب نے ان کو بہکا کر معاہدہ کی خلاف ورزی کروائی اور ان سے وعدہ کیا کہ خدانخواستہ اگر قریش حملہ سے دستبردار ہو کر چلے گئے تو میں خیبر چھوڑ کر یہیں آ رہوں گا، چنانچہ اس نے عہد وفا کیا، قریظہ نے غزؤہ احزاب میں علانیہ شرکت کی اور شکست کھاکر ہٹ گئے تو اسلام کے سب سے بڑے دشمن حیٔ بن اخطب کو ساتھ لائے،مذکورہ بالا امور کے علاوہ ان کا ایک سنگین جرم یہ بھی تھا جو اہل سیر نے لکھا ہے کہ: ۷) غزؤہ خندق میں مستورات قلعہ میں حفاظت کے لئے بھیج دی گئی تھیں تو بنو قریظہ نے ان پر حملہ کرناچاہاتھا،ان وجوہ کی بنا پر یہ ضروری تھا کہ ان کا آخری فیصلہ کیاجائے اور اگر وہ دوبارہ صلح و آتشی کے لئے تجدید کرنا چاہیں تو پھر تجدید عہد کرلی جائے،صحیح مسلم شریف میں ہے کہ : " بنو نضیر اور بنوقریظہ نے حضور اکرم ﷺ سے جنگ کی تو رسول اﷲ ﷺ نے بنو نضیر کو جلا وطن کردیا اور بنو قریظہ کو رہنے دیا اور ان پر احسان کیا" حضور اکرم ﷺ ۲۲ ذیقعدہ ۵ ہجری بدھ کے دن بعد نماز فجر غزوۂ خندق سے مدینہ واپس تشریف لائے ، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ: حضور ﷺ نے ہتھیار اُتارے اور غسل فرمایا ، پھر کسی کی آواز پر باہر نکلے، میں نے دیکھاکہ حضرت دحیہ کلبیؓ مسجد نبوی کی اس جگہ پر جہاں نماز جنازہ ادا کی جاتی تھی موجود ہیں، ان کا جسم گرد آلود تھا جسے حضور ﷺ جھاڑ رہے تھے ، وہ کہہ رہے تھے ، آپ ﷺنے ہتھیار کھول دئیے؛ حالانکہ فرشتے ابھی تک باندھے ہوئے ہیں ، اُٹھئے اور اُس طرف کا رُخ فرمائیے، انہوں نے منزل کی سمت بتائی ، اشارہ یہودیوں کی بستی بنو قریظہ کی طرف تھا ، میں اس طرف جا رہاہوں تا کہ ان کے قلعوں میں زلزلے برپا کر دوں اور ان کے دلوں میں دہشت ڈال دوں ، علامہ ابن کثیر نے ابن اسحاق کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ حضور اکرم ﷺ خندق سے واپس ہوکر اسلحہ کھول کر رکھ دئیے، بوقت ظہر جبرئیل ؑ حضور اکرم ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا !یا رسول اﷲﷺ کیا آپﷺ نے ہتھیار اور اسلحہ کھول دئیے ہیں؟ آپﷺ کے اثبات میں جواب دینے پر جبرئیل ؑ نے کہا کہ ملائکہ نے ابھی تک اسلحہ نہیں کھولے، اﷲ تعالیٰ نے آپﷺ کو بنو قریظہ کی طرف روانہ ہونے کا حکم دیاہے، یہ ظہر کا وقت تھا ، حضور اکرمﷺ نماز ادا کر چکے تھے ، آپﷺ نے حضرت بلالؓ کو طلب فرمایا اور حکم دیا کہ منادی کرو ، " اللہ کے بندو : تم میں سے جو بھی یہ آواز سنے اور جو سمع و طاعت پر قائم ہے وہ جہاد کی راہ میں نکل پڑے ، نماز عصر ادا نہ کرے مگر بنو قریظہ میں، حضرت علیؓ کو پرچم عطا ہوا اور دو سو مجاہدوں کے ساتھ بنو قریظہ جانے کا حکم ہوا ، اس بستی کی مسافت دن بھر سے کچھ کم تھی،اس منادی کا مقصد یہ تھا کہ جلد سے جلد مجاہدین بنو قریظہ پہنچ جائیں ، بعض نے راستہ میں عصر کی نماز ادا کی اور بعض نے وہاں جا کر عشاء کے ساتھ عصر ادا کی ،آنحضرت ﷺ نے مدینہ میں حضرت عبداللہ ؓ ابن اُم مکتوم کو اپنا نائب مقرر فرمایا اور پھر مہاجرین و انصار کے ساتھ روانہ ہوئے ، راستہ میں بنو نجار کے محلہ کے بہت سے مجاہد صف بنائے ہوئے تیار ملے، آپﷺ نے دریافت فرمایا کہ تمہیں کس طرح اطلاع ہوئی ، جواب ملا، دحیہ ؓ کلبی بتاگئے ہیں، فرمایا! وہ حضرت جبریل علیہ السلام تھے جو دحیہ کلبی کی شکل میں آئے تھے، حضور اکرم ﷺ رات میں محلہ بنو قریظہ میں بیرانا یا بیرانی نام کے ایک کنویں پر اترے ، مجاہدین کی تعداد تین ہزار تھی جس میں (۳۶) گھڑ سوار تھے ، ان مجاہدین کو دیکھ کر بنو قریظہ کے لوگ قلعوں میں بند ہوگئے جن کی تعداد تقریباً سات سو (۷۰۰) تھی جن کا سالارکعب بن اسد تھا، حئی بن اخطب اس کا مشیر خصوصی تھا، یہ لڑائی میدان جنگ میں نہیں ہوئی ، بنو قریظہ کے پاس مضبوط قلعے تھے ، سامان ِخوراک کافی مقدار میں تھا اور بہت سے پانی کے چشمے موجود تھے ، اسلحہ بھی کافی تعداد میں تھے ، ان کے مقابلہ میں مسلمانوں کے پاس ان وسائل کی کمی تھی؛ لیکن نہایت بہادری سے ڈٹ کران کے قلعوں کا محاصرہ کئے ہوئے تھے ، طرفین میں تیر اور پتھروں کا تبادلہ ہوتا رہا، محاصرہ طول کھینچتا رہا جس کی مدت بہ اختلاف روایات پندرہ روز ، اکیس روز اور پچیس روز بتلائی گئی ہے ، بنو قریظہ نے محاصرہ سے تنگ آکر ایک قاصد بناش بن قیس کو اس پیام کے ساتھ بھیجا کہ جن شرائط پر بنو نضیر کو بستی خالی کرنے کی اجازت دی گئی تھی ہم بھی وہی شرائط قبول کرتے ہیں ، غزوۂ احزاب میں ان کا کردار بڑا گھناؤنا تھا ، اگر ان کی مدد سے دشمن کامیاب ہو جاتا تو مسلمان تباہ و برباد ہو جاتے ، اس وجہ سے ان کی درخواست رد کر دی گئی اور ان سے کہا گیا کہ بلا شرط ہتھیار ڈال دیں،سردار بنو قریظہ کعب بن اسد نے اپنے لوگوں کو جمع کر کے ان کے سامنے تین صورتیں رکھیں : ۱، پہلی صورت یہ کہ ہم اطاعت قبول کر لیں کیونکہ یہ وہی نبی ہیں جن کا توریت میں ذکر ہے ، اس طرح تمہاری جان و مال محفوظ ہوجائیں گے ، اس کی قوم نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا ، ۲، دوسری صورت یہ ہے کہ اپنی عورتوں اور بچوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کر دیں اور پھر مسلمانوں سے مقابلہ کریں ، ہلاک ہو گئے تو ہمارے بعد اپنی نسل ہی نہ ہوگی ، غالب ہو گئے تو بیوی اور بچے مل جائیں گے، قوم نے کہا کہ عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کے بعد ان سے لڑائی کرنے سے کیا حاصل ،یہ سب کچھ تو بال بچوں کے لئے ہے ، ۳، تیسری اور آخری صورت یہ ہے کہ آج یوم سبت ( سنیچر، ہفتہ ) کی رات ہے مسلمان جانتے ہیں کہ ہم اس دن لڑائی نہیں کرتے لہٰذا وہ غافل ہونگے ، اس لئے ان کو دھوکے میں رکھ کر اچانک ان پر حملہ کیا جا سکتا ہے ، قوم نے کہا کہ یوم سبت کی حرمت پامال کرنے سے ہمارے چہرے مسخ ہو جائیں گے ،