انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ۴۴۔عبدالرحمن بن قاسمؒ نام ونسب قاسم نام، ابو محمد کنیت،مشہور تابعی قاسم بن محمد بن ابی بکر کے صاحبزادے ہیں، نسب نامہ یہ ہے،عبد الرحمن بن قاسم بن ابی بکر بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ ،ماں کا نام قریبہ تھا، یہ عبدالرحمن بن ابی بکر کی صاحبزادی تھیں اس طرح عبدالرحمن کی رگوں میں دادھیال اورنانہال دونوں جانب سے صدیقی خون تھا۔ پیدائش حضرت عائشہؓ کی زندگی میں پیدا ہوچکے تھے۔ (تذکرہ الحفاظ:۱/۱۱۴) فضل وکمال عبدالرحمن کے والد قاسم بن محمد فضل وکمال اورزہد وورع کے لحاظ سے بڑے رتبہ کے تابعی تھے، اس لیے یہ دونوں کمالات گویا انہیں وراثۃً ملے تھے، امام نووی لکھتے ہیں کہ ان کی جلالت،امامت،فضیلت اورصلاح پر سب کا اتفاق ہے۔ حدیث مدینہ کے بڑے حفاظ میں تھے،علامہ ابن سعد لکھتے ہیں کان ورع کثیر الحدیث حافظ ذہبی امام اورحجت لکھتے ہیں،حدیث میں انہوں نے اپنے والد قاسم، ابن مسیب عبداللہ بن عبداللہ بن عمر، سالم بن عبداللہ، بن عمر، نافع اور محمد بن جعفر بن زبیر وغیرہ بڑے بڑے تابعین سے استفادہ کیا تھا اور سماک بن حرب ،امام زہری،عبیداللہ بن عمروبن عجلان شام بن عروہ،منصور بن زاذان،یحییٰ بن منصور،یحییٰ بن سعید انصاری،موسیٰ بن عقبہ،ایوب سختیانی،حمید الطویل،مالک،شعبہ ،حماد بن سلمہ، ثوری،اوزاعی،ابن جریج اورلیث وغیرہ جیسے اکابر آپ کے فیض یافتہ تھے۔ (تہذیب التہذیب:۶/۲۵۵) فقہ فقہ میں بھی ممتاز پایہ رکھتے تھے، ابن حبان انہیں مدینہ کے سادات فقہا میں لکھتے ہیں امام نووی رضی الرضی اورفقیہ ابن الفقیہ کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۶/۲۵۴) زہد وورع زہد وورع میں بھی ممتاز پایہ رکھتے تھے، ابن سعد، حافظ ذہبی ابن حجر اور امام نووی تمام ارباب سیر وطبقات ان کے زہد وورع پر متفق البیان ہیں، مصعب خیار مسلمین میں لکھتے ہیں، مروہ کا بیان ہے کہ مدینہ میں ان سے افضل کسی کو نہیں پایا (تہذیب التہذیب:۶/۲۵۴) ابن عینیہ انہیں اس عہد کا افضل ترین شخص کہتے تھے۔ (تذکرہ الحفاظ:۱/۱۱۲) وفات ان کی جائے وفات اورسنہ وفات دونوں میں ارباب سیر کا اختلاف ہے،ابن سعد کا بیان ہے کہ شام میں ۱۲۶ھ میں وفات پائی، خلیفہ کی روایت کے مطابق سنہ یہی ہے،لیکن جائے وفات مدینہ ہے،بعض ۱۳۱ھ لکھتے ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۶/۲۵۵)