انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت سعد بنؓ ربیع نام ونسب سعد نام،قبیلہ خزرج سے ہیں سلسلہ نسب یہ ہے،سعد بن ربیع بن عمرو بن ابی زہیربن مالک بن امرؤ القیس بن مالک اغر بن ثعلبہ بن کعب بن خزرج بن حارث بن خزج اکبر اسلام عقبۂ اولیٰ میں مسلمان ہوئے اور عقبہ ثانیہ میں شرکت کی (اسد الغابہ:۲/۲۷۷) دوسری بیعت میں اپنے قبیلہ کے نقیب بنائے گئے،حضرت عبداللہؓ بن رواحہ بھی اسی قبیلہ کے نقیب تھے۔ (اسد الغابہ:۲/۲۷۷) غزوات اوردیگر حالات حضرت عبدالرحمن ؓ بن عوف سے (جو عشرہ مبشرہ میں تھے)برادری قائم ہوئی، حضرت سعدؓ نے اپنے مہاجر بھائی کے ساتھ جو غیر معمولی جوش وخروش اورخلوص ظاہر کیا اس کی نظیر تاریخ عالم کے کسی باب میں نہیں مل سکتی،تمام انصار نے مال و متاع جائداد اور زمین آدھی آدھی مہاجرین کو دیدی تھی،لیکن حضرت سعدؓ نے ان چیزوں کے علاوہ اپنی ایک بیوی بھی پیش کی،حضرت عبدالرحمنؓ اگرچہ اس وقت مفلوک الحال تھے،تاہم دل غنی تھا، بولے خدا تمہارے بال بچوں اور مال ودولت میں برکت دے،مجھے اس کی ضرورت نہیں تم مجھ کو باز ار دکھلادو۔ (اسد الغابہ:۲/۲۷۷،۲۷۸،واصابہ:۳/۷۷) غزوۂ بدر کی شرکت سے تذکرے خاموش ہیں،غزوۂ احد میں شریک تھے اوراسی میں نہایت جانبازی سے لڑکر شہادت حاصل کی جسم پر نیزہ کے بارہ زخم تھے، موطا میں ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کوئی سعد بن ربیع کی خبر لاتا ،ایک شخص نے کہا میں جاتا ہوں زرقانی میں ہے کہ انہوں نے جاکر لاشوں کا گشت لگایا اور ان کا نام لے کر آوازدی شہر خموشاں میں ہر طرف سناٹا تھا کوئی جواب نہ آیا ؛لیکن جب یہ آوازدی کہ مجھ کو رسول اللہﷺ نے تمہارے پاس بھیجا ہےتو ایک ضعیف آواز کان میں پہنچی کہ میں مردوں میں ہوں، یہ حضرت سعدؓ کا اخیروقت تھا، دم توڑ رہے تھے ،زبان میں قابو میں نہ تھی، تاہم ان سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ سے میراسلام کہنا اورانصار سے کہنا کہ اگر خدا نخواستہ رسول اللہ ﷺقتل ہوئے اور تم میں سے ایک بھی زندہ بچ گیا تو خدا کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہو گے!کیونکہ تم نے لیلۃ العقبہ میں رسول اللہ ﷺ پر فدا ہونے کی بیعت کی تھی یہ شخص جس کا نام بعض روایتوں میں ابی بنؓ کعب آیا ہے وہیں کھڑے رہے اور حضرت سعدؓ کی روح مبارک جسد عنصری سے پرواز کر گئی۔ بنا کر دند خوش رسمے بخون وخاک غلطیدن خدارحمت کندایں عاشقان پاک طینت را حضرت ابیؓ نے وصیت کے یہ آخری کلمات آنحضرتﷺ کو پہنچائے تو فرمایا خدا ان پر رحم کرے،زندگی اورموت دونوں میں خدا اور رسول کی بہی خواہی مدِ نظر رہی۔ (اسد الغابہ:۲۷۸) دفن کے وقت دو دو آدمی ایک قبر میں رکھے گئے تھے، خارجہؓ بن زید بن ابی زہیر جو حضرت سعدؓ کے چچا ہوتے تھے ان کے ساتھ دفن کئے گئے کہ جس طرح دنیا میں ساتھ دیا تھا قبر میں بھی ساتھ دیں۔ (بخاری:۱/۶۰) اہل وعیال دولڑکیاں چھوڑیں،ایک کا نام ام سعید تھا ،آنحضرتﷺ نے جائداد میں دو ثلث ان کو عطا فرمائے قرآن مجید کی آیت میراث فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ (نساء:۱۱) اگر دو عورتوں سے زیادہ ہوں تو دو ثلث ان کا حصہ ہوگا۔ اسی موقع پر نازل ہوئی اوراسی تقسیم سے یہ معلوم ہوا کہ دو عورتوں کا بھی وہی حصہ ہے جو تین یا چار کا ہے۔ (اسدالغابہ:۲/۲۷۸) دو بیویاں تھیں جن میں ایک کا نام عمرہ بنت حزم تھا۔ (اصابہ:۲/۷۷) فضل وکمال آنحضرتﷺ سے حدیث سننے کے علاوہ لکھنا جانتے تھے اور چونکہ رئیس کے بیٹے تھے تعلیم کا خاص اہتمام ہوا تھا کتابت اسی زمانہ میں سیکھی تھی۔ (اسد الغابہ:۲/۲۷۷) اخلاق جوش ایمان اور حب رسولﷺ عقبہ اوراحد کے کارناموں سے ظاہر ہوتی ہے ،غزوہ احد میں جو وصیت کی وہ اس کا بالکل بین ثبوت ہے۔ مشرکین مکہ کی تیاریوں کی خبر جب آنحضرتﷺ کے پاس احد میں آئی تھی تو آنحضرتﷺ نے سعدؓ کو آگاہ کیا تھا۔ (طبقات ابن سعد:۲۵) انہی باتوں کی وجہ سے حضرت سعدؓ کا اثر تمام صحابہ پر تھا، ان کی صاحبزادی ام سعید حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں آئیں تو انہوں نے اپنا کپڑا بچھا دیا ، حضرت عمرؓ نے کہا یہ کون ہیں؟ فرمایا کہ یہ اس شخص کی بیٹی ہے جو مجھ سے اور تم سے بہتر تھا، پوچھا یا خلیفۂ رسول اللہﷺ!وہ کیوں؟ ارشاد ہوا کہ اس نے آنحضرتﷺ کے زمانہ میں جنت کا راستہ لیا اور ہم تم یہیں باقی رہ گئے۔ (اصابہ:۷۷)