انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** امثال قرآن کریم میں جو امثال مذکور ہوئی ہیں ان کی دو قسمیں ہیں ایک تو وہ امثال کسی بات کو سمجھانے کے لیے تمثیل کے طور پر پیش کی گئی ہیں،مثلاً : مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنبُلَۃٍ مِّئَۃُ حَبَّۃٍ۔ (البقرۃ:۲۶۱) جو لوگ اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی حالت اس بیج کی سی ہے جس نے سات خوشے اگائے ہوں اور ہر خوشے میں سوسو دانے ہوں۔ بتلانا یہ مقصود ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کیے ہوئے مال کا بدلہ آخرت میں سات سو گنا بلکہ بعض حالات میں اس سے بھی زیادہ ملے گا، انسانی عقل اس کو ذرا بعید سمجھ سکتی تھی اس لیے اللہ تعالی نے اسے ایک مثال کے ذریعے سمجھادیا کہ جس طرح زمین میں ڈالا ہو اایک بیج درخت پر سات سو نئے دانے لے کر نمودار ہوتا ہے اسی طرح دنیا میں خرچ کیا ہو ا مال آخرت میں سات سو گنابڑھ کر انسان کو ملے گا ۔ دوسری قسم وہ ہے جسے اردو میں کہاوت کہتے ہیں اس قسم کی امثال قرآن کریم میں دوطرح مذکور ہوئی ہیں بعض تو وہ ہیں جو نزول قرآن کے بعد ہی کہاوت بنیں مثلاً : ھَلْ جَزَاءُ الْاِحْسَانِ اِلَّاالْاِحْسَانِ۔ (رحمٰن:۶۰) اچھائی کا بدلہ اچھائی کے سوا اور کچھ نہیں۔ کہاوتوں کی دوسری قسم وہ ہے جس میں صراحۃً کوئی کہاوت تومذکور نہیں مگر آیت کے مفہوم سے نکلتی ہے وہ یا تو عوامی ضرب الامثال کا سر چشمہ ہے یا ان کی طرف دلالت کرتی ہے ؛ایسی امثال کو"ا مثال کامنہ" کہا جاسکتا ہے اس کی قرآن کریم میں بے شمار مثالیں ہیں مثلاً ایک عربی کہاوت مشہور ہے کہ :لَیْسَ الْخَبْرُ کَالْاَعْیَانِ :شنیدہ کَے بود مانند دیدہ؛ یہ قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیت میںموجود ہے، جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے باری تعالی سے عرض کیا کہ آپ مجھے دکھلائیے کہ آپ مُردے کو زندہ کس طرح کرتے ہیں اس پر باری تعالی نے پوچھا کیا تم اس پر ایمان نہیں رکھتے تب حضرت ابراھیم علیہ السلام نے کہا "بَلٰی وَلٰکِنْ لَّیَطْمَئِنَِ قَلْبِیْ" کیوں نہیں (میں ایمان رکھتا ہوں )مگر (میں نے درخوست اس لیے کی ہے کہ) میرا دل مطمئن ہوجائے ۔ (علوم القرآن:۳۹۳)