انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** غزوہ سویق نجد کے اس سفر سے واپس آکر قریبا تین ماہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں تشریف فرمارہے،ابو سفیان جنگِ احد میں یہ کہہ کر گیا تھا کہ آئندہ سال مقام بدر میں لڑائی ہوگی،مسلمانوں نے اس بات کو منظور کرلیا تھا،منافقین مدینہ جو رات دن مسلمانوں کی بربادی کی تدبیر سوچتے رہتے تھے، انہوں نے نعیم بن مسعود کو مکہ بھیجا کہ قریش کو اُحد کی قرارداد یاد دلائے اورجنگ کے لئے آمادہ کرے،نعیم نے ابو سفیان کو توجہ دلائی کہ مسلمانوں کے مقابلے کی تیاری میں مصروف ہیں،لیکن تم یہ کام کرو کہ مدینہ میں جاکر ہماری عظیم الشان تیاریوں کا حال سُناؤ اورمسلمانوں کو ڈراؤ تاکہ وہ مدینہ سے نہ نکلیں اوراس سال لڑائی نہ ہو،اگر یہ کام تم سے سر انجام پاگیا تو تم کو بیس اونٹ بطور شکریہ پیش کئے جائیں گے،نعیم نے مدینہ میں آکر بڑی آب وتاب کے ساتھ قریش کی تیاریوں کا حال جا بجا بیان کرنا شروع کیا، یہ خبر سُن سُن کر مسلمان کچھ فکر مند ہونے لگے،لیکن حضرت عمر فاروقؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے سچے رسول ہیں پھر مسلمان ان خبروں کو سن سن کر کیوں گھبرارہے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی ایک شخص بھی میرے ہمراہ نہ چلے تو میں تنہا حسب وعدہ کفار کے مقابلے کے لئے بدر کے میدان میں پہنچ جاؤں گا،؛چنانچہ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کی تیاری کی اوربدر کی جانب روانہ ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ڈیڑھ ہزار صحابہ کرامؓ کا لشکر تھا،روانگی کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن رواحہؓ کو مدینہ کا عامل مقرر فرما گئے تھے، اس مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لشکر کا علم حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو سپرد کیا تھا، کل فوج میں اس مرتبہ دس گھوڑے تھے،ابوسفیان لڑائی سے جان بچانا اور طرح دینا چاہتا تھا، مگر جب اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ سے روانہ ہونے کا حال معلوم ہوا تو وہ مکہ سے دو ہزار کا لشکرِ جرار لے کر چلا ،خشک سالی کی وجہ سے اُس لشکر کے پاس سامانِ اذوقہ میں ستو کے سوا اورکچھ نہ تھا، اس واسطے اس لشکر کا نام جیش السویق مکہ میں مشہور ہوا۔ ابو سفیان کے لشکر میں اس مرتبہ بچاس سوار تھے،یہ دو ہزار کا لشکر جب مقامِ عسقان میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ اسلامی لشکر میں ڈیڑھ ہزار جانباز موجود ہیں،اہل مکہ بدر اوراُحد میں دیکھ چکے تھے کہ تہائی اور چوتھائی تعداد کے مسلمانوں سے بھی ان کو شکست کھانی پڑی تھی،اب بھی اگرچہ مسلمان تعدادِ میں کم یعنی صرف ۳/۴تھے مگر اس تعداد کا حال معلوم ہوکرکفار کے اوسان خطا ہوگئے اور مقام عسفان ہی سے یہ کہہ کر مکہ کو واپس چلے گئے کہ ہم قحط سالی کے ایام میں جنگ کرنا مناسب نہیں سمجھتے یہ لشکر جب راستہ ہی سے واپس ہوکر مکہ میں پہنچا ہے تو مکہ کی عورتوں نے کہا کہ تم صرف ستوپینے گئے تھے،اگر لڑنے کے ارادہ سے جاتے تو واپس کیوں آتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مقام بدر میں پہنچ کر آٹھ روز تک کفار کے منتظر رہے،آٹھویں روز معبد بن ابی معبد خزاعی نے آکر اطلاع دی کہ ابو سفیان مکہ سے روانہ ہوکر اورمقام عسفان تک پہنچ کر پھر واپس چلا گیا ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سُن کر بدر سے مدینہ منورہ کو واپس تشریف لے آئے،یہ آخر رجب ۴ ھ کا واقعہ ہے،اس سفر کا نام غزوہ بدر موعد،غزوۂ بدر ثانی اور غزوۂ بدر صغریٰ اور غزوۂ بدر اخریٰ مشہور ہے،مالِ غنیمت تو مسلمانوں کے ہاتھ نہ آیا لیکن ان ایام میں چونکہ بدر میں میلہ لگتا تھا اس لئے مسلمانوں نے تجارت کے ذریعہ فائدہ اُٹھا لیا۔ ماہِ شعبان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں واپس تشریف لے آئے، اسی سال میں حضرت امامِ حسین بن علیؓ پیدا ہوئے،اسی سال شراب حرام ہوئی،اسی سال عبداللہ بن عثمانؓ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے نے بعمرچھ سال وفات پائی، اس بچے کی وفات کا سبب یہ تھا کہ مرغ نے آنکھ میں پنجہ یا خار ماردیا تھا جس کی تکلیف سے جاں بری ممکن نہ ہوئی، اسی سال زینب بنت خزیمہ کا انتقال ہوا،اسی سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالسلام مخزومی کی وفات کے بعد اُن کی بیوی اُم سلمہؓ سے نکاح کیا ،فاطمہ بنتِ اسید یعنی حضرت علی کرم اللہ جہہ کی والدہ نے بھی اسی سال انتقال کیا۔