انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ۴۱۔عبدالرحمن بن اسودؒ نام ونسب عبدالرحمن نام،ابوحفص کنیت،نسب نامہ یہ ہے،عبدالرحمن بن اسود بن یزیدبن قیس بن عبداللہ بن مالک بن علقمہ بن سلامان بن سہل بن بکر بن عوف بن نخع نخعی مدحجی ان کے والد اسود بن یزید بڑے صاحب علم اورعابد وزاہد تابعی تھے ان کے حالات اوپر گزرچکے ہیں۔ فضل وکمال اگرچہ علم میں عبدالرحمن کا کوئی قابل ذکر پایہ نہ تھا،لیکن وہ اس سے تہی دامن بھی نہ تھے،حضرت عائشہؓ کے ساتھ ان کے والد کے عقیدت مندانہ مراسم تھے،اس سلسلہ میں ان کو حضرت عائشہؓ کی خدمت میں بھی حاضری کا اتفاق ہوتا تھا، ان کا بیان ہے کہ جب تک میں نابالغ تھا، حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں بغیر حصولِ اجازت چلا جاتا،بلوغ کے بعد پھر اجازت لینے لگا۔ (ابن سعد:۲/۲۰۲) حدیث ان تعلقات کی بناء پر ان کو حضرت عائشہؓ سے استفادہ کا موقع ملتا تھا؛چنانچہ حدیث میں انہوں نے حضرت عائشہؓ،انس بن مالکؓ،عبداللہ بن زبیرؓ، اوراپنے والد اوروالد کے چچا علقمہ بن قیسؓ سے فیض اٹھایا تھااور ان سے ابو اسحٰق سبیعی،ابو اسحق شیبانی،مالک بن مغول ہارون بن عنترہ،عاصم بن کلیب لیث بن ابی مسلم اور محمد بن اسحٰق ابن یسار وغیرہ نے سماع حدیث کیا تھا۔ (تہذیب التہذیب:۶/۱۴۰) فقہ حدیث سے زیادہ ان کو فقہ میں درک تھا، حافظ ابن حجر ان کو فقیہ لکھتے ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۶/۱۴۰) عبادت وریاضت گو علم میں اپنے والد کے برابر نہ تھے، لیکن عمل میں ان کے خلف الصدق تھے،رات رات بھر عبادت کرتے تھے، محمد بن اسحٰق روایت کرتے ہیں کہ عبدالرحمن حج کے سلسلہ میں ہمارے یہاں آئے، ان کے ایک پاؤں میں کچھ تکلیف تھی،مگر اس حالت میں بھی وہ صبح تک نمازیں پڑھتے رہے اورعشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی (ایضاً) زندگی بھر میں علیحدہ علیحدہ اسی حج اوراسی عمرے کیے۔ (تہذیب الکمال:۲۲۴) رمضان میں اپنے قبیلہ کی امامت کرتے تھے اوراہل قبیلہ کے ساتھ بارہ ترویحے پڑھتے تھے اور اس میں ایک تہائی قرآن سناتے تھے ان کے علاوہ خود علیحدہ ایک ترویحہ میں بارہ بارہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ (ابن سعد:۶/۲۰۳) بلا تفریق مذہب سلام سلام اسلام کی نشانی سمجھتے تھے اوربلا قید مذہب وملت مسلم اور غیر مسلم سب کو سلام کرتے تھے،سنان بن حبیب سلمی کا بیان ہے کہ میں عبدالرحمن بن اسود کے ساتھ پل کی طرف گیا، راستہ میں جو بھی یہودی اورنصرانی ملتا تھا، سب کو سلام کرتے تھے،میں نے کہا آپ ان مشرکوں کو سلام کرتے ہیں جواب دیا سلام مسلم کی نشانی ہے،اس لیے میں چاہتا ہوں کہ لوگ پہچان لیں کہ میں مسلمان ہوں۔ (ایضاً:۲۰۳) تعلقات کا لحاظ قدیم تعلقات اوربزرگوں کے مراسم وتعلقات کا بڑا لحاظ رکھتے تھےابی غام بن طلق کا بیان ہے کہ جاہلیت کے زمانہ میں ہم اوراسود بن یزید میں ہمسنی کے تعلقات تھے،عبدالرحمن اس کا اتنا لحاظ کرتے تھے کہ جب کسی سفر میں جاتے یا سفر سے آتے، تو ہم لوگوں کو آکر سلام کرتے تھے۔ (ابن سعد:۶/۲۰۳) حلیہ اورلباس حنا کا خضاب لگاتے تھے اورخز کی چادر اوڑھتے تھے۔