انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** غزوہ خندق اوپر کی بیان کردہ چند چھوٹی چھوٹی فوج کشیاں اسی سلسلے میں ہوئیں،بنی نضیر میں حیی بن اخطب سب سے بڑا مفسداور شرارت پیشہ شخص تھا وہ اور قبیلہ بنی نضیر کا بڑا حصہ خیبر میں مقیم ہوا،حیی بن اخطب،سلام بن ابی الحقیق،سلام بن مشکم،کنانہ بن الربیع وغیرہ بنونضیر کے سردار اور ہود بن قیس وابو عمارہ وغیرہ سردارانِ بنووائل متحد ہوکر اول مکہ میں گئے،چندہ کی فہرست بھی کھولی؛چنانچہ قریش نے خوب بڑھ بڑھ کر مال وزر بھی مصارفِ جنگ کے لئے دیا یہاں جب خوب جوش پیدا ہوچکا تو قریشِ مکہ سے مشورہ لے کر یہ لوگ قبائل غطفان میں گئے اور اُن کو بھی اسی طرح مسلمانوں سے جنگ کے لئے برانگیختہ کرنے میں کامیاب ہوئے،قبائل بنوکنانہ بھی آمادہ ہوگئے،پھر اُن یہودیوں کے ساتھ جو مدینہ میں ابھی تک سکونت پذیر تھے(یعنی بنو قریظہ)سازش کاسلسلہ جاری کیا گیا؛حالانکہ بنو قریظہ ابھی تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم عہد تھے اور عہد نامہ کے موافق مسلمانوں کی امداد کرنا اُن کا فرض تھا،بنو سلیم،فزارہ،اشجع،بنوسعد اوربنومرہ وغیرہ قبائلِ قریش اور بنو نضیر اورغطفان وغیرہ قبائل کے سرداروں نے جن کی تعداد پچاس سے کم نہ تھی خانہ کعبہ میں جاکر قسمیں کھائیں کہ جب تک زندہ ہیں مسلمانوں کی مخالفت سے منھ نہ موڑیں گے اور اسلام کی بیخ کنی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ ہونے دیں گے،گزشتہ تجربوں سے فائدہ اُٹھاکر اس عظیم الشان سازش میں حد سے زیادہ احتیاط برتی گئی اور اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ منورہ میں مخالفینِ اسلام کی اس سب سے بڑی سازش کی خبر وقت سے پہلے نہ پہنچ سکی اول ابو سفیان قریش اور اپنے ہم عہد قبائل کا چار ہزار لشکر لے کر مکہ سے روانہ ہوا،مقام مرالظہران میں بنو سلیم کی فوج بھی آکر مل گئی،اسی طرح تمام قبائل راستے میں آ آکر اس لشکر میں شامل ہوتے گئے،بنو نضیر کا سردار حیی بن اخطب اورقبائل غطفان کا سردار عینیہ بن حصین تھا،تمام افواجِ کفار کا سپہ سالارِ اعظم ابو سفیان تھا،مدینہ کے قریب پہنچ کر تمام حملہ آور ہونے کا حال معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجلسِ مشورت منعقد کی یہ رائے قرار پائی کہ مدینہ کے اندر رہ کر ہی مدافعت کی جائے،حضرت سلمان فارسیؓ نے مشورہ دیا کہ حملہ آور فوج سے محفوظ رہنے کے لئے محصور فوج کے گرد خندق کھودی جائے، عرب لوگ اس خندق کے کھودنے کی ترکیب سے ناواقف تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلیمان فارسیؓ کی اس تجویز کو پسند کیا،ایک طرف پہاڑیاں تھیں،ایک طرف مدینہ منورہ کے مکانات کی دیواریں فصیل کی قائم مقامی کررہی تھیں جو سمت کھلی ہوئی تھی اور جس طرف سے دشمن کا حملہ ہوسکتا تھا اس طرف خندق کی کھدائی کا کام شروع کردیا گیا،سلسلہ کوہ اورخندق کے درمیان ایک بیضوی شکل کا میدان بن گیا،یہی گویا مسلمانوں کا قلعہ تھا،اُس کے وسط آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خیمہ تھا خندق پانچ گز چوڑی اورپانچ گز گہری کھودی گئی،خندق کی کل لمبائی کے مساوی حصے کرکے دس دس آدمیوں کو ایک ایک حصہ کھودنے کے لئے دیا گیا،خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک حصہ کی کھدائی میں شامل اورخندق کھودنے میں مصروف تھے،اس خندق میں ایک جگہ بڑا اورسخت پتھر آگیا سب زور آزمائی کرچکے اور پتھر نہ ٹوٹا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ خندق کو اس جگہ سے پھیر کر اوردوسری طرف موڑ کر کھود لینے کی اجازت دی جائے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس جگہ خندق کھودنے میں مصروف تھے وہاں سے اپنا پھاوڑا لے کر چلے اُس پتھر والے حصے میں پہنچ کر اورخندق میں اُتر کر اپنا پھاوڑایا کدال اس زور سے مارا کہ پتھر میں شگاف پڑگیا، ساتھ ہی ایک روشنی نکلی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر کہا،سب صحابہؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقلید میں نعرۂ اللہ اکبر بلند کیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھ کو ملکِ فارس کی کنجیاں دی گئیں،تیسری ضرب میں پتھر ریزہ ریزہ ہوگیاا ور اُسی طرح روشنی نکلی،اللہ اکبر کا نعرہ بلند ہوا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ کو یمن کی کنجیاں دی گئیں،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے جبرئیل امین نے خبردی ہے کہ یہ تمام ملک تمہاری اُمت کے قبضے میں آجائیں گے،اس جگہ غور کرنا چاہئیے کہ چوبیس ہزار کفار کے جرار لشکر کے مقابلے میں مٹھی بھر مسلمان اپنی حفاظت اورجان بچانے کی تدبیروں میں مصروف ہیں تمام ملکِ عرب دشمنی پر تلا ہوا اورخون کا پیاسا ہے،بظاہر بربادی پیش نظر ہے؛ لیکن ایران ،روم اور یمن کے ملکوں کی سلطنت وحکومت کی خوش خبری سُنائی جارہی ہے،یہ کام خدا کے سوا کسی کا نہیں ہوسکتا اور خدا کے سوا کوئی ایسی خبر نہیں دے سکتا تھا۔ اسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ بنو قریظہ کے سردار کعب بن اسید نے بھی مسلمانوں کے خلاف حملہ آوروں سے معاہدہ کرلیا ہے اورحیی بن اخطب بنی قریظہ کے قلعہ میں دوستانہ داخل ہوکر ان کو آمادہ قتال کررہا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تحقیق حال نیز ہدایت ونصیحت کے لئے سعدؓ بن معاذ اورسعد بن عبیدؓ کو بنی قریظہ کے پاس بھیجا اوران دونوں بزرگوں نے ہر چند ان کو سمجھایا؛لیکن کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی ،بنی قریظہ نے نہایت ترش روئی سے جواب دیا کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں جانتے اورنہ اُن سے ہمارا کوئی معاہدہ ہے۔ لشکرِ کفار جب خندق کے سامنے آیا تو خندق کو دیکھ کر بہت متعجب ہوا اورحیران ہوا ؛کیونکہ اس سے پیشتر عربوں نے اس قسم کی خندق نہ دیکھی تھی ،کفار کے ٹڈی دل نے مدینہ کا محاصرہ کرلیایہ حملہ کفار کی طاقت وشوکت کا انتہائی نظارہ اوراسلام کے مقابلے میں کفر کی گویا سب سے بڑی کوشش تھی،مسلمانوں نے اپنی عورتوں اوربچوں کو مدینہ کی ایک خاص گڑھی میں حفاظت کی غرض سے جمع کردیا تھا،یہودیوں کی طرف سے جو گویا مدینے کے اندر ہی تھے حملہ کا ہر وقت خوف تھا اُدھر منافقین کی طرف سے بھی جو مسلمانوں میں ملے جلے رہتے تھے،سخت خطرہ تھا،کفار کی طرف سے کئی مرتبہ خندق کے عبور کرنے کی کوشش ہوئی، مگر وہ کامیاب نہ ہوسکے،ایک مرتبہ دو تین کافر ایک مقام سے جہاں خندق کی چوڑائی کسی قدر کم تھی،گھوڑا کودا کراندر آگئے،اُن میں ایک کافر عمروبن عبدودہزار کے برابر سمجھا جاتا تھا اورملکِ عرب کا مشہور بہادر تھا،اُس کو حضرت علیؓ نے قتل کردیا،باقی بھاگ گئے صبح سے شام تک تیروں کے ذریعہ لڑائی ہوتی تھی،مسلمان بھی کفار کو ترکی بہ ترکی جواب دیتے تھے،یہ حالت قریباً ایک ماہ تک جاری رہی،دشمنوں کا محاصرہ نہایت سخٹ تھا،اُن کو باہر سے ہر قسم کی امداد بہ تواتر پہنچ رہی تھی،نہ سامانِ رسد کی اُن کے لئے کمی تھی،نہ اُن کی جمعیت میں کوئی کمی ہوئی تھی،مسلمانوں کی یہ حالت تھی کہ سامانِ رسد کہیں سے میسر نہ آسکتا تھا فاقوں پر فاقے جاتے تھے،ایک مرتبہ ایک صحابی نے بھوک کی شکایت کی اور کُرتہ اُٹھا کر دکھایا کہ پیٹ پر پتھر باندھ رکھا ہے تاکہ فاقہ کی وجہ سے کمر جھکنے نہ پائے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا کرتہ اُٹھا کر دکھا یا تو دو پتھر پیٹ پر باندھے ہوئے تھے۔ رات کو چونکہ شب خوں کا خوف اورخندق کی حفاظت کرنا ضروری تھا لہذا رات بھر سب کو میدان میں بیدار رہنا،دن بھر دشمن کا مقابلہ کرنا پڑتا تھا،مصعب بن قشیر ایک منافق نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم شام، ایران اوریمن کے ملکوں کی حکومت اپنے دوستوں کو دے رہے ہیں ؛لیکن ہم تو دیکھتے ہیں کہ وہ مدینہ کے اندر بھی اب نہیں رہ سکتے،بعض کہتے تھے کہ گھر سے باہر نکل کر پاخانہ پھرنے کے لئے تو جانہیں سکتے مگر قیصر وکسریٰ کے ملکوں کا خواب دیکھ رہے ہیں،غرض منافقوں کے طعنے،رات کی اوس ،دن کی دھوپ،بھوک،کفار کا مقابلہ،بنی قریظہ کا اندیشہ ،منافقوں کا خطرہ،کفار کی کثرت،مسلمانوں کی قلت، ان تمام حالت میں مسلمانوں نے جس عزم وہمت اور ثبات قدم کا نمونہ دکھایا،اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں نے جب ان کے سامنے ایسی تجویز پیش ہوئی کہ دب کر صلح کرلیں صاف انکار کردیا،اس حالت میں بھی سعید روحیں کھینچ کھینچ کر آتی اوراسلام میں داخل ہوتی رہیں؛ چنانچہ ایک شخص نعیم بن مسعود بن عامر قبیلہ غطفان کے لشکر سے نکل کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا ،انہوں نے مسلمان ہونے کے بعد عرض کیا کہ میں بنو قریظہ اورلشکرِ کفار میں پُھوٹ ڈلوائے دیتا ہوں ؛چنانچہ وہ اول بنو قریظہ کے پاس گئے پھر ابو سفیان کے پاس گئے اورایسی باتیں کیں جس سے بنو قریظہ اورقریش دونوں نے ایک دوسرے سے اپنا اپنا اطمینان چاہا اس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ بنو قریظہ کفار کے حسب منشا علانیہ کوئی جنگی حرکت سے باز رہے،نعیم بن مسعودؓ نے دونوں جگہ اپنے مسلمان ہونے کا اعلان نہیں کیا تھا، اس لئے اُن کی باتیں طرفین کے لئے قابلِ توجہ ہوئیں۔ جب محاصرہ کو ستائیس روز گزر گئے تو ایک روز رات کو تیز وتند ہوا چلی،خیموں کی میخیں اُکھڑ گئیں چولہوں پر دیکچیاں گر گئیں، وَاَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ رِیْحًا وَجُنُوْدًالَّمْ تَرَوْھَا (ہم نے اُن پر ہوا بھیجی اور ایک ایسا لشکر بھیجا جس کو نہیں دیکھ سکتے تھے)اس ہوا اور لشکر نے بڑا کام کیا جابجاڈیروں میں آگ گل ہوگئی،مشرکوں نے آگ کے بجھنے کو بد شگونی سمجھا اور راتوں رات اپنے ڈیرے خیمے اُٹھا کر فرار ہوگئے،کفار کے فرار ہونے کی خبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ کی طرف سے دی گئی،اُسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ بن الیمانؓ کو خبر لانے کے لئے بھیجا،انہوں نے آکر سُنایا کہ کفار کا لشکر گاہ خالی پڑا ہے اور وہ بھاگ گئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب کفار قریش ہم پر کبھی حملہ آور نہ ہوں گے،مسلمان خوشی خوشی مدینے میں داخل ہوئے،یہ واقعہ ماہِ ذیقعدہ ۵ھ میں وقوع پذیر ہوا،آپ جب کفار کے مقابلہ پر مدینہ کے باہر خندق کے اس طرف قیام فرما تھے تو مدینہ میں ابن اُم مکتوم کو عامل بنا گئے تھے،مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس آکر بہت ہی تھوڑی دیر قیام فرمایا اورظہر کی نماز ادا کرکے حکم دیا کہ عصر کی نماز یہاں کوئی آدمی نہ پڑھے ؛بلکہ عصر کی نماز بنی قریظہ کے محلہ میں ادا کی جائے ،بعض صحابہؓ نے ابھی ہتھیار بھی نہیں کھولے تھے،یہ حکم سُنتے ہی اُسی طرح بنو قریظہ کی طرف روانہ ہوگئے۔