انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** اندلس کی اسلامی حکومت پر ایک نظر خیر القرون کے عرب حکمرانوں کی طرح اندلس میں بھی عربوں کی حکومت اگرچہ شخصی نظر آتی تھی،مگر اس میں جمہوریت کا رنگ بہت زیادہ شامل تھا، خلیفہ کا حکم اور شریعت کا قانون ہر فرد بشر پر یکساں عامل تھا، ان حکمرانوں میں نہ موروثی جاگیر دار تھے نہ موروثی امراء،عبدالرحمن ثانی اموی سلطان پر قاضی کی کچہری میں ایک عیسائی نے دعویٰ کیا اورقاضی کے حکم کی اس عظیم الشان سلطان کو اُسی طرح تعمیل کرنی پڑی جس طرح ایک غلام کو تعمیل کرنی پڑتی، قاضی قانون شرع کے موافق خلیفہ کو سزا دینے کی قدرت رکھتا تھا، کوتوالی کا انتظام نہایت اعلیٰ درجہ کا تھا،ہر بازار میں ایک محتسب ہوتا تھا جو تجارت پیشہ لوگوں کے کاروبار کی نگرانی کرتا تھا،ہر شہر وقصبے میں شفاخانے اور دواخانے کُھلے ہوئے تھے سڑکیں اورنہریں مسلمانوں نے تمام ملک میں جال کی طرح بچھادی تھیں، خلیفہ ہشام نے دریائے وادی الکبیر کا نہایت شان دار اورخوبصورت پُل بنایا، اسی طرح جا بچا دریاؤں کے پُل بن گئے تھے، فنونِ جنگ اورآئین فوج کشی میں عام طور پر مسلمان ساری دنیا سے زیادہ شائستہ تھے، اندلس کے مسلمانوں نے قلعہ شکنی کے آلات ایجاد کئے،یورپ کے وحشیوں کو جو ہمیشہ فتح مند ہونے پر شہروں اور بستیوں کو جلا کر خاک سیاہ کردیا کرتے اور عورتوں،بچوں،بوڑھوں تک کو تہ تیغ کردیتے تھے،اپنے طرز عمل سے مسلمانوں نے آٹھ سو برس تک شائستگی کی تعلیم دی کہ فتح یاب ہونے پر بے گناہ رعایا کو کسی قسم کا بھی آزار نہیں پہنچانا چاہئے، زراعت کو مسلمانوں نے اس قدر ترقی دی تھی کہ یہ ایک مکمل فن بن گیا تھا،ہر میوہ دار درخت اور زمین کی خاصیت وماہیت سے واقفیت حاصل کی، اندلس کے ہزاروں لاکھوں میل مربع رقبوں کو بنجر اور ویران پڑے ہوئے تھے، مسلمانوں نے میوہ دار درختوں اور سرسبز وشاداب لہلہاتے ہوئے کھیتوں کی شکل میں تبدیل کردیا، چاول،نیشکر،روئی، زعفران، انار، آڑو،شفتالو وغیرہ جو آج کل اندلس میں بکثرت پیدا ہوتے ہیں مسلمانوں ہی کے طفیل اندلس ؛بلکہ تمام یورپ کو نصیب ہوئے، اندلوسیہ اوراشبیلیہ کے صوبوں میں زیتوں اورخرما کی کاشت کو بڑی ترقی دی،سریش،غرناطہ اورمالقہ کے علاقوں میں انگوروں کی بڑی پیدا وار ہوتی تھی،زراعت کے ساتھ مسلمانانِ اندلس نے معدنیات کی تلاش میں بھی کوتاہی نہیں کی، سونا،چاندی، لوہا، فولاد،پارہ،کہربا،تانبا،یاقوت اورنیلم وغیرہ کی کانیں دریافت کیں اوریہ چیزیں بکثرت پیدا ہونے لگیں، غرناطہ کی سلطنت اندلس میں مسلمانوں کی آخری نشانی تھی، لیکن اس چھوٹی سی سلطنت نے بھی فنِ تعمیر اورقدر دانی علوم کے متعلق بڑی بڑی عظیم الشان یادگار یں چھوڑی ہیں، مسلمانوں نے ایسا عجیب وغریب سیمنٹ ایجاد کیا کہ قصر حمراء جو سلطنت غرناطہ کی نشانی دنیا میں باقی ہے،آج تک اپنے مصالحہ کی پختگی سے سیاحوں کو حیران کردیتا ہے، قصرالحمراء کو شاہانِ غرناطہ نے بصرفِ زر کثیر شہر کے قریب ایک نہایت بلند ٹیلے پر جبل شلیر کی برف سے ڈھکی ہوئی چوٹیوں کے سایہ میں تیار کیا تھا،اس کی چار دیواری کے اندر ایسے خوشنما سبزوشاداب باغات نہرہائے شیریں،درختہائے میوہ دارتھے کہ چشم فلک نے اس کی نظیر نہ دیکھی تھی،اس قصر کی ہر ایک چیز قابلِ دید اوراس قدر حیرت انگیز ہے کہ دنیا کے مشہور صناع ودست کار دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں،اس کی بلند دیواروں کی گچ کی صفائی سنگِ مرمر سے زیادہ چمک دار اور لوہے سے زیادہ مضبوط ہے،جالی دار دیواروں کی طرح طرح کی نازک گنکاریاں اوراس کی نئی وضع کی محرابوں سے ہر ایک لٹکی ہوئی قلم نزاکت کا اظہار کرتی ہے،مسلمانوں نے اندلس پر قابض ومتصرف ہوکر تمام ملک میں دارالعلوم، مدارس،رسدخانے عظیم الشان کتب خانے کھول دیئے تھے جہاں علمی تحقیقات کا ہر ایک سامان موجود رہتا ہے،بڑے بڑے شہروں میں یونیورسٹیاں یادارالعلوم اورچھوٹے قصبوں میں ابتدائی اوردرمیانی درجے کے مدارس تھے،قرطبہ،اشبیلیہ،مالقہ،سرقسط ،بشونہ،جیان،طلیطلہ وغیرہ بڑے بڑے شہروں میں دارالعلوم قائم تھے،جہاں اطالیہ،فرانس ،جرمن،انگلستان وغیرہ ممالک کے طلباء اورشائقین علوم آتے اور برسوں رہ کر تعلیم پاتے تھے، عربوں نے یونانی ،لاطینی اور اسپانس زبانوں کو بے حد مشقت اورعرق ریزی کے ساتھ سیکھا اوراُن زبانوں میں عربی زبان کے متعدد لغات لکھ ڈالے ،خلیفہ حکم ثانی کے عہد حکومت میں صرف قرطبہ کے کتب خانے میں چھ لاکھ کتابیں مختلف علوم وفنون کی موجود تھیں اور ہر کتاب پر خاص خلیفہ کے ہاتھ کا حاشیہ تحریر تھا، مسلمانوں نے تمام فلسفۂ یونان کی کتابوں کا اپنی زبان میں ترجمہ کرڈالا،ابن رشد جو ارسطو پر بھی فضیلت رکھتا تھا اندلس ہی کا ایک مسلمان تھا،مسلمانوں نے علم ہیئت میں وہ ترقی کی اورایسے رسد خانے قائم کئے کہ تمام یورپ کو انہیں کے نقشِ قدم پر چلنا پڑا اصطرلاب جو رسد خانوں کی روح رواں ہے اندلس کے مسلمانوں کی ایجاد ہے،طب اورجراحی میں اندلسی مسلمانوں نے ایسی ترقی کی تھی کہ چند روز گذشتہ تک تمام یورپ انہیں کی کتابوں سے فیض اُٹھاتا تھا، علم حیوانات ونباتات میں اندنسی مسلمانوں کے کارنامے بے حد عظیم الشان ہیں،قرطبہ اورغرناطہ میں علم حیوانات ونباتات کی تعلیم کے لئے خاص طور پر باغات اورکارخانے موجود تھے،سُن اور روئی سے کاغذ تیار کرنا اندلسی مسلمانوں نے ایجاد کیا،الفانسو یا زدہم کی تاریخ میں لکھا ہے کہ: ’’شہر کے مسلمان بہت سی گونجنے والی چیزیں اورلوہے کے گولے بہت بڑے بڑے سیب کی برابر پھینکتے تھے،یہ گولے اس قدر دور جاتے تھے کہ بعض فوج کے اُس پار جاکر اوربعض فوج کے اندر گرتے تھے‘‘ اس بیان سے ثابت ہے کہ مسلمان جب توپ اوربارود کو استعمال کرتے تھے ،عیسائی اُس سے قطعاً ناواقف تھے،سنین الاسلام کا مصنف لکھتا ہے کہ ۴۴۱ھ میں اندلس کے مسلمانوں میں سے بعض نے امریکہ کو دریافت کیا تھا، مگر اس کی زیادہ شہرت نہ ہوئی یہ شہرت کولمبس کی تقدیر میں لکھی تھی جو بہت دنوں بعد امریکہ پہنچا تھا۔ مسلمانوں کے علمی ذوق وشوق نے تمام یورپ کے لئے ادب فلسفہ اورصنعت وحرفت ؛بلکہ تمام علوم وفنون کے دروازے کھول دیئے تھے،آٹھ سو برس تک مسلمان ہرچیز میں اہل یورپ کے اُستاد بنے رہے، عیسائی امراء زبان اور ہر چیز میں مسلمانوں کی تقلید کرنا اپنے لئے موجب فخر سمجھتے اورعربی نظم ونثر لکھنے کی کوشش کیا کرتے تھے،یہ انہیں مسلمانوں کا اثر تھا،فرانسیسی اوراطالوی زبانوں میں اکثر وہ الفاظ جو جہاز رانی اوربحری انتظامات سے متعلق ہیں، عربی ہیں اوریہ دلیل اس بات کی ہے کہ ان ممالک نے مسلمانوں ہی سے جہاز رانی سیکھی ہے، سیر وشکار کے متعلق بھی اکثر الفاظ عربی الاصل ہیں،علم ہیئت کی اصطلاحیں اوردواؤں کے نام جو یورپ کی زبانوں میں رائج ہیں عربی ہیں۔ غرض کہ اندلس کے مسلمان تمام یورپ کے استاد تمام یورپ کے محسن اورتمام یورپ کو علم وحکمت اورترقی وعزت کے طریقے بتانے والے اتالیق تھے،آج یورپ اپنی کوئی بھی ایسی قابلِ فخر چیز پیش نہیں کرسکتا جس میں بجا طور پر وہ مسلمانوں کا رہین منت نہ ہو، ان احسانات کا جو معاوضہ یورپ اوریورپ کے عیسائیوں نے مسلمانوں کو دیا وہ اوپر بیان ہوچکا ہے۔ اس جگہ ایک مرتبہ پھر اس بات کو یاد کرلینا چاہئے کہ مسلمانوں نے جب پہلی صدی ہجری میں اندلس کو فتح کیا تھا تو کسی عیسائی کو زبردستی مسلمان نہیں بنایا تھا؛بلکہ عیسائی لوگ خود بخود اسلام کی خوبیوں کو دیکھ کر مذہبِ اسلام میں داخل ہوتے تھے،اب جبکہ عیسائیوں نے طاقت حاصل کی اوروہ مسلمانوں کو ان کے مذہب سے نہ پھیرسکے تو عیسائیوں نے لاکھوں مسلمانوں کو جو اندلس میں موجود تھے،قتل کرڈالا،آگ میں جلادیا اورپانی میں ڈبودیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ملکِ اندلس جو مسلمانوں کے عہدِ حکومت میں دنیا کا سب سے زیادہ سرسبز وشاداب اورآباد ملک سمجھا جاتا تھا اورجس کی زرخیز ی ضرب المثل تھی،مسلمانوں کی بربادی کے بعد ایسا ویران وغیر آباد ہوا کہ آج تک ویرانی ونحوست نے اُس کا پیچھا نہیں چھوڑا، مسلمانوں کے زمانے میں پہاروں تک پر زراعت ہوتی تھی اور کوئی چپہ زمین کا بنجر نہ تھا، لیکن آج ہزارہا میل مربع زمین کے قطعات ویران وبنجر پڑے ہوئے ہیں، وہ ملک جو مسلمانوں کے عہد حکومت میں دنیا کا سب سے زیادہ قیمتی اورشان دار ملک تھا، آج سب سے زیادہ منحوس اور بے حقیقت ملک سمجھا جاتاہے۔ مسلمانوں پر یہ مصائب محض اس لئے نازل ہوئے کہ انہوں نے کلام الہیٰ کو پسِ پشت ڈال دیا تھا،جس کی وجہ سے اُن میں خود غرضی اورنا اتفاقی پیدا ہوئی، پابندی اسلام کے ترک ہونے کا نتیجہ یہ تھا کہ مسلمان سردار اپنے بھائی مسلمان سرداروں کی مخالفت میں عیسائیوں کے پاس جاکر اُن سے مدد طلب کرنے میں کوئی باک وتامل نہ کرتے تھے،مسلمانوں نے خود عیسائیوں کے ہاتھوں سے خوشی خوشی مسلمانوں کو ذبح کرایا اورعیسائیوں کے دلوں سے رعبِ اسلامی کو مٹایا،اندلس کے مسلمانوں نے اپنی بد اعمالیوں سے اپنے آپ کو مغضوب بنالیا تھا، اسی لئے اُن کو دنیا کے کسی حصے سے کوئی امداد نہ پہنچی اورکفار کے ہاتھوں سے فجار کو خدائے تعالیٰ نے سزا دلوائی،مسلمان جب کبھی اور جہاں کہیں دینِ اسلام سے ایسے غافل اورقرآنِ کریم سے بے تعلق ہوئے ان پر ایسی ہی مصیبتیں نازل ہوئیں اور آئندہ بھی ہمیشہ مسلمانوں کی بربادی کے اسباب قرآن کریم کی طرف سے غافل ہوجانے ہی کی بد اعمالی میں تلاش کئے جاسکیں گے، بجائے اس کے کہ ہم اندلس کے مسلمانوں کی تباہی پر نوحہ خوانی کریں،ہم کو چاہئے کہ ان کےحالات سے عبرت آموز ہوں اوراپنی حالتوں میں اصلاح کی کوششیں کریں،سچے پکے مسلمان بن کر آپس میں بھائی بھائی بن جائیں اورمتحد ومتفق ہوکر سُستی وکاہلی کو چھوڑدیں اورمصروف سعی ہوجائیں کہ اسی کا نام زندگی اوراسی کا نام خدا کی بندگی ہے۔