انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت سلمان فارسیؓ نام ونسب نسبی تعلق اصفہانی کے آب الملک کے خاندان سے تھا، مجوسی نام "مابہ" تھا،اسلام کے بعد سلمان رکھا گیا اوربارگاہ نبوت سے سلمان الخیر لقب ملا ،ابو عبداللہ کنیت ہے سلسلہ نسب یہ ہے ،مابہ ابن بوذخشان بن مورسلان بن بیہود ان بن فیروز بن سہرک۔ قبل اسلام آپ کے والد اصفہان کے "جی" نامی قریہ کے باشندہ اوروہاں کے زمیندار وکاشت کار تھے،ان کو حضرت سلمانؓ سے اس قدر محبت تھی کہ ان کو لڑکیوں کی طرح گھر کی چار دیواری سے نکلنے نہ دیتے تھے، آتشکدہ کی دیکھ بھال ان ہی کے متعلق کر رکھی تھی،چوں کہ مذہبی جذبہ ان میں ابتدا سے تھا، اس لیے جب تک آتش پرست رہے اس وقت تک آتش پرستی میں سخت غلورہا اور نہایت سخت مجاہدات کیے، شب وروز آگ کی نگرانی میں مشغول رہتے تھے، حتیٰ کہ ان کا شمار ان پجاریوں میں ہوگیا تھا، جو کسی وقت آگ کو بجھنے نہیں دیتے ہیں۔ مجوسیت سے نفرت اورعیسائیت کا میلان ان کے والد کا ذریعہ ٔمعاش زمین تھی، اس لیے زراعت کی نگرانی وہ بذات خود کرتے تھے، ایک دن وہ گھر کی مرمت میں مشغولیت کی وجہ سے کھیت خود نہ جاسکا اوراس کی دیکھ بھال کے لیے سلمان کو بھیج دیا، ان کوراستہ میں ایک گرجا ملا، اس وقت اس میں عبادت ہورہی تھی، نماز کی آوا سن کر دیکھنے کے لیے گرجے میں چلے گئے نماز کے نظارہ سے ان کے دل پر خاص اثر ہوا، اور مزید حالات کی جستجو ہوئی اور عیسائیوں کا طریقہ عبادت اس قدر بھایا کہ بیساختہ زبان سے نکل گیا کہ یہ مذہب ہمارے مذہب سے بہتر ہے،چنانچہ کھیتوں کا خیال چھوڑ کر اسی میں محور ہوگئے، عبادت ختم ہونے کے بعد عیسائیوں سے پوچھا کہ اس مذہب کا سرچشمہ کہاں ہے، انہوں نے کہا شام میں ،پتہ پوچھ کر گھر واپس آئے، باپ نے پوچھا اب تک کہاں رہے، جواب دیا کچھ لوگ گرجے میں عبادت کررہے تھے مجھ کو ان کا طریقہ ایسا بھلا معلوم ہوا کہ غروب آفتاب تک وہیں رہا، باپ نے کہا وہ مذہب تمہارے مذہب کا پاسنگ بھی نہیں ،جواب دیا بخدا وہ مذہب ہمارے مذہب سے کہیں برتر ہے،اس جواب سے ان کے باپ کو خطرہ پیدا ہوگیا کہ کہیں یہ خیال تبدیل مذہب کی صورت میں نہ ظا ہرہو،اس لیے بیڑیاں پہنا کر مقید کردیا، مگر ان کے دل میں تلاش حق کی تڑپ تھی، اس لیے عیسائیوں کے پاس کہلا بھیجا کہ جب شام کے تاجر آئیں تو مجھ کو اطلاع دینا، چنانچہ جب وہ آئے تو ان کو خبر کردی ،انہوں نے کہا جب واپس ہوں تو مجھ کو بتانا ،چنانچہ جب کاروان تجارت لوٹنے لگا تو ان کو خبر کی گئی، یہ بیڑیوں کی قید سے نکل کر ان کے ساتھ ہوگئے شام پہنچ کردریا فت کیا کہ یہاں سب سے بڑا مذہبی شخص کون ہے،لوگوں نے بشپ کا پتہ دیا، اس سے جاکر کہا مجھ کو تمہارا مذہب بہت پسند ہے، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ تمہارے پاس رہ کر مذہبی تعلیم حاصل کروں، اورمجھ کو اس مذہب میں داخل کرلو۔ تبدیل مذہب چنانچہ مجوسیت کے آتشکدہ سے نکل کر، " آسمانی بادشاہت" کی پناہ میں آگئے مگر یہ بشب بڑبداعمال اور بداخلاق تھا، لوگوں کو صدقہ کرنے کی تلقین کرتا، جب وہ دیتے تو اس کو فقراء اورمساکین میں تقسیم کرنے کے بجائے خود لے لیتا، اس طریقہ سے اس کے پاس سونے اور چاندی کے ساتھ مٹکے جمع ہوگئے،حضرت سلمانؓ اس کی حرص کو دیکھ دیکھ کر پیچ وتاب کھاتے تھے،مگر زبان سے کچھ نہ کہہ سکتے تھے، اتفاق سے وہ مرگیا،عیسائی شان و شوکت کے ساتھ اس کی تجہیز و تکفین کرنے کو جمع ہوئے، اس وقت انہوں نے اس کا سارا اعمال نامہ ان لوگون کے سامنے کھول کر رکھدیا، لوگوں نے پوچھا،تم کو کیسے معلوم ہوا،انہوں نے ان کو لے جاکر اس اندوختہ خزانہ کے پاس کھڑا کردیا، تلاشی لی گئی تو واقعی ساتھ مٹکے سونے چاندی سے بھرے ہوئے برآمد ہوئے،عیسائیوں نے اس کی سزا میں نعش دفن کرنے کے بجائے صلیب پر لٹکا کر سنگسار کی،اس کی جگہ دوسرا پشب مقرر ہوا، یہ بڑا عباد و زاہد اور تارک الدنیا تھا، شب وروز عبادت الہی میں مشغول رہتا، اس لیے سلمانؓ اس سے بہت مانوس ہوگئے اور دلی محبت کرنے لگے،اورآخر تک اس کی صحبت سے فیض یاب ہوتے رہے ،جب اس کی موت کا وقت قریباآیا تو اس سے کہا میں آپ کے پاس عرصہ تک نہایت لطف ومحبت کے ساتھ رہا،اب آپ کا وقت آخر ہے اس لیے آئندہ کے لیے مجھ کو کیا ہدایت ہوتی ہے، اس نے کہا میرے علم میں کوئی ایساعیسائی نہیں ہے جو مذہب عیسوی کا سچا پیرو ہو،سچے لوگ مرکھپ گئے اور موجودہ عیسائیوں نے مذہب کو بہت کچھ بدل دیا ہے اور بہتر ے اصول تو سرے سے چھوڑہی دیے ہیں،ہاں موصل میں فلاں شخص دین حق کا سچا پیرو ہے تم جاکر اس سے ملاقات کرو۔ موصل کاسفر چنانچہ اس بشپ کی موت کے بعد حق کی جستجو میں وہ موصل پہنچے اور تلاش کرکے اس سے ملے اورپورا واقعہ بیان کیا کہ فلاں پادری نے مجھ کو ہدایت کی تھی کہ آپ کے یہاں ابھی تک حق کا سرچشمہ ابلتا ہے اورمیں آپ سے مل کر اپنی تشنگی فرو کروں ،اس نے ان کو ٹھہرالیا،پہلے پادری کے بیان کے مطابق یہ پادری درحقیقت بڑا متقی اورپاکباز تھا، اس لیے سلمانؓ نے آئندہ کے متعلق اس سے بھی وصیت کی خواہش کی،اس نے نصیبین میں ایک شخص کا پتہ بتایا۔ نصیبین کا سفر چنانچہ اس کی موت کے بعد وہ نصیبین پہنچے اورپادری سے مل کر دوسرے پادری کی وصیت بتائی،یہ اسقف بھی پہلے دونوں اسقفوں کی طرح بڑا عابد و زاہد تھا، سلمانؓ یہاں مقیم ہوکر اس سے روحانی تسکین حاصل کرنے لگے،ابھی کچھ ہی دن اس کی صحبت سے فیض اٹھایا تھا کہ اس کا وقت بھی آپہنچا، حضرت سلمان ؓ نے گذشتہ اسقفوں کی طرح اس سے بھی آئندہ کے متعلق مشورہ طلب کیا، اس نے عموریہ میں گوہر مقصود کا پتہ بتایا۔ عموریہ کا سفر چنانچہ اس کی موت کےبعد انہوں نے عموریہ کا سفر کیا اوروہاں کے اسقف سے مل کر پیام سنایا اوراس کے پاس مقیم ہوگئے ،کچھ بکریاں خرید لیں، ان سے مادی غذا حاصل کرتے تھے اور صبر وشکر کے ساتھ روحانی غذا اسقف سے حاصل کرنے لگے ،جب اس کا پیمانہ حیات بھی لبریز ہوگیا، تو حضرت سلیمان نے اس کو اپنی پوری سرگذشت سنائی کہ اتنے مراتب طے کرتا ہواآپ کے پاس پہنچا تھا، آپ بھی آخرت کا سفر کرنے کو آمادہ ہیں،اس لیے میرا کوئی سامان کرتے جائیے،اس نے کہا بیٹا! میں تمہارے لیے کیا سامان کروں،آج دنیا میں کوئی شخص ایسا باقی نہیں ہے،جس سے ملنے کا تم کو مشورہ دوں،البتہ اب اس نبیﷺ کے ظہور کا زمانہ قریب ہے،جو ریگستان عرب سے اُٹھ کر دین ابراہیم کو زندہ کرے گا اور کھجوروں والی زمین کی طرف ہجرت کرےگا،اس کی علامات یہ ہیں کہ وہ ہدیہ قبول کرے گا، اورصدقہ اپنے لیے حرام سمجھے گا، اس کے دونوں شانوں کے درمیان مہرنبوت ہوگی، اگر تم اس سے مل سکو تو ضرور ملنا۔ اسقف کی بشارت اورعرب کا سفر اس اسقف کے مرنے کے بعد سلمان عرصہ تک عموریہ میں رہے،کچھ دنوں بعد بنو کلب کے تاجر ادھر سے گذرے،سلمانؓ نے ان سے کہا کہ اگر تم مجھ کو عرب پہنچا دو تو میں اپنی گائیں اور بکریاں تمہاری نذر کردوں گا،وہ لوگ تیار ہوگئے اورزبان حال سے یہ شعر چلتا ہوں تھوڑی دور ہر ایک راہروکےساتھ پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں پڑہتے ہوئے ساتھ ہولیے۔ غلامی لیکن ان عربوں نے وادی القریٰ میں پہنچ کر دھوکا دیا اور ان کو ایک یہودی کے ہاتھ غلام بنا کر فروخت کرڈالا؛ مگر یہاں کھجور کے درخت نظر آئے جس سے تو آس بندھی کہ شاید وہ منزل مقصود ہو، جس کا اسقف نے پتہ دیا تھا، تھوڑے دن ہی قیام کیا تھا ؛کہ یہ امید بھی منقطع ہوگئی، آقا کا چچازاد بھائی مدینہ سے ملنے آیا، اس نے سلمانؓ کو اس کے ہاتھ بیچ دیا۔ غلامی اور مدینہ کا سفر وہ اپنے ساتھ مدینہ لے چلا اورسلمان غلامی درغلامی سہتے ہوئے مدینہ پہنچے، ہاتف غیب تسکین دے رہا تھا کہ یہ غلامی نہیں ہے۔ اسی سے ہوگی ترے غم کدہ کی آبادی تری غلامی کے صدقے ہزار آزادی درحقیقت اس غلامی پر جو کسی کے آستانِ نازتک پہنچانے کا ذریعہ بن جائے ہزاروں آزادیاں قربان ہیں،جوں جوں محبوب کی منزل قریب ہوتی جاتی تھی، کشش بڑھتی جاتی تھی اور آثار و علامات بتاتے تھے کہ شاید مقصود کی جلوہ گاہ یہی ہے ،اب ان کو پورا یقین ہوگیا اور دیدار جمال کی آرزو میں یہاں دن کاٹنے لگے۔ اس وقت آفتاب رسالتﷺ مکہ پر توافگن ہوچکا تھا؛لیکن جو روستم کے بادلوں میں چھپا تھا، سلمانؓ کو آقا کی خدمت سے اتنا وقت نہ ملتا تھا کہ خود اس کا پتہ لگاتے آخر انتظار کرتے کرتے وہ یوم مسعود بھی آگیا کہ مکہ کا آفتاب عالمتاب مدینہ کے افق پر طلوع ہوا،حرمان نصیب سلمانؓ کی شب ہجر تمام ہوئی اورصبح امید کا اجالا پھیلا،یعنی سرورعالم ﷺ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے،سلمانؓ کھجور کے درخت پر چڑھے،کچھ درست کررہے تھے،آقا نیچے بیٹھا ہوا تھا کہ اس کے چچازاد بھائی نے آکر کہا اللہ بنی قیلہ کو غارت کرے سب کے سب قبا میں ایک شخص کے پاس جمع ہیں جو مکہ سے آیا ہے، یہ لوگ اس کو نبی سمجھتے ہیں، سلمانؓ کے کانوں تک اس خبر کا پہنچنا تھا کہ یارائے ضبط باقی نہ رہا، صبر وشکیب کا دامن چھوٹ گیا، بدن میں سنسناہٹ پیدا ہوگئی اور قریب تھا کہ کھجور کے درخت پر سے فرش زمین پر آجائیں ،اسی مدہوشی میں جلد از جلد درخت سے نیچے اترے اور بدحواسی میں بے تحاشا پوچھنے لگے،تم کیا کہتے ہو،آقا نے اس سوال پر گھونسہ مار کر ڈانٹا کہ تم کو اس سے کیا غرض ،تم اپنا کام کرو، اس وقت سلمانؓ خاموش ہوگئے۔ اسلام لیکن اب صبر کسے تھا، کھانے کی چیزیں پاس تھیں، ان کو لے کر دربار رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا میں نے سنا ہے کہ آپ اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں اورکچھ غریب الدیا راوراہل حاجت آپ کے ساتھ ہیں ،میرے پاس چیزیں صدقہ کے لیے رکھی تھیں، آپ لوگوں سے زیادہ اس کا کون مستحق ہوسکتا ہے،اس کو قبول فرمایے،آنحضرت ﷺ نے دوسرے لوگوں کو کھانے کا حکم دیا، مگر خود نوش نہ فرمایا، اس طریقہ سے سلمانؓ کو نبوت کی ایک علامت کا مشاہدہ ہوگیا کہ وہ صدقہ نہیں قبول کرتے،دوسرے دن پھر ہدیہ لے کر حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ کل آپ نے صدقہ کی چیزیں نہیں نوش فرمائی تھیں آج یہ ہدیہ قبول فرمائیے، آپ نے قبول کیا، خود بھی نوش فرمایا اور دوسروں کا بھی دیا، اسی طریقہ سے دوسری نشانی یعنی مہر نبوت کی بھی زیارت کی اور باچشم پر نم آپ کی طرف بوسہ دینے کو جھکے،آنحضرت ﷺ نے فرمایا سامنے آؤ، سلمان نے سامنے آکر ساری سرگذشت سنائی، آنحضرت ﷺ کو یہ دلچسپ داستان اتنی پسند آئی کہ اپنے تمام اصحاب کو سنوائی۔ اسلام حضرت سلمانؓ اتنے مرحلوں کے بعد دین حق سے ہم آغوش ہوئے اور گوہر مقصود سے دامن بھر کر آقا کے گھر واپس آئے۔ آزادی غلامی کی مشغولیت کے باعث فرائض مذہبی ادا نہ کرسکتے تھے، جس کی بنا پر غزوۂ بدر واحدمیں شریک نہ ہوسکے، آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آقا کو معاوضہ دے کر آزادی حاصل کرلو، تین سو کھجور کے درختوں اور چالیس اوقیہ سونے پر معاملہ طے ہوا۔ آنحضرت ﷺ نے عام مسلمانوں سے سفارش فرمائی کہ اپنے بھائی کی مدد کرو، سب نے حسب حیثیت کھجور کے درخت دیے، اس طریقہ سے تین سو درخت ان کو مل گئے اورآنحضرت ﷺ کی مدد سے انہوں نے ان کو بٹھایا اورزمین وغیرہ ہموار کرکے ایک شرط پوری کردی، سونے کی ادائیگی کا سامان خدا نے اس طرح کردیا ،آنحضرت ﷺ کو کسی غزوہ میں مرغی کے انڈے کے برابر سونا مل گیا، آپ ﷺ نے سلمانؓ کو دیدیا ،یہ وزن میں ٹھیک چالیس اوقیہ تھا، اس سے گلو خلاصی حاصل کی اورآنحضرت ﷺ کی خدمت میں رہنے لگے۔ (قبل از اسلام سے آزادی تک کے کل حالات مسند احمد بن حنبل،جلد۵،صفحہ:۴۱تا ۴۴ کی مختلف روایات سے ماخوذ ہیں اوران کو لکھ دیا گیا ہے) مواخاۃ غلامی سے آزادی کے بعد مسلمانوں کے ساتھ رہنے لگے، اس وقت بالکل غریب الدیار تھے،کوئی شناسا نہ تھا، آنحضرت ﷺ نے مکی مہاجرین کی طرح ان سے اور ابودرداءؓ سے مواخاۃ کرادی۔ (بخاری:۸۹۸/۲) غزوات بدرواحد کی لڑائیاں ان کی غلامی کے زمانہ میں ختم ہوچکی تھیں،آزادی کے بعد پہلا غزوۂ خندق پیش آیا، اس میں انہوں نے اپنے حسن تدبری سے پہلی دونوں لڑائیوں کی عدم شرکت کی تلافی کردی، غزوۂ خندق میں تمام عرب کا ٹڈی دل اس ارادہ سے امنڈآیا تھا کہ مسلمانوں کا کامل استیصال کردے اورحملہ خود مدینہ پر تھا، جس کے کسی سمت نہ قلعہ تھا نہ فصیل تھی، مقابلہ بڑا سخت تھا، ایک طرف قبائل عرب کا عظیم الشان متحدہ لشکر تھا، دوسری طرف مٹھی بھر مسلمان تھے،آنحضرت ﷺ نے عام مسلمانوں سے مشورہ کیا،سلمان فارسیؓ چونکہ ایران کی صف آرائیاں دیکھے ہوئے تھے، اس لیے جنگی اصولوں سے اچھی طرح واقف تھے،انہوں نے مشورہ دیا کہ اس انبوہ کا کھلے میدان میں مقابلہ کرنا مناسب نہیں ہے، مدینہ کے چاروں طرف خندقیں کھود کر شہر کو محفوظ کردیاجانا چاہئے،یہ تدبیر مسلمانوں کو بہت پسند آئی،(ابن سعد جزء۲،قسم۱،صفحہ:۴۷) اوراسی پر عمل کیا گیا، خندق کی کھدوائی میں آنحضرت ﷺ بہ نفس نفیس شریک تھے، اورمٹی ڈھوتے ڈھوتے شکم مبارک مٹی سے اٹ گیا تھا اور رجزیہ اشعار زبان پر جاری تھے، (بخاری،جلد۲،کتاب المغازی غزوۂ خندق) ذیقعدہ ۵ھ میں طرفین میں جنگ شروع ہوئی، عربوں کو اس طریقۂ جنگ سے واقفیت نہ تھی،وہ اس ارادے سے آئے تھے کہ مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے، مگر یہاں آکر دیکھا کہ ان کے اور مدینہ کے بیچ میں خندق کی فصیل ہے، ۲۱،۲۲ دن تک مسلسل محاصرہ قائم رہا، مگر شہر تک پہنچنا ان کو نصیب نہ ہوا اورآخر کار ناکام لوٹ گئے۔ خندق کے علاوہ حضرت سلمانؓ تمام لڑائیوں میں شریک رہے اور غزوہ خندق کے بعد سے کوئی غزوہ ایسا نہیں ہوا جس میں شریک ہوکر دادِ شجاعت نہ دی ہو۔ (اسد الغابہ:۳۳۰/۲) عہد صدیقی اورعراق آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد عرصہ تک حضرت سلمانؓ مدینہ میں رہے اور غالباً عہد صدیقی کے آخر یا عہد فاروقی کی ابتدا میں انہوں نے عراق کی اوران کے اسلامی بھائی ابودرداءؓ نے شام کی سکونت اختیار کرلی،یہاں اقامت کے بعد ابودرداء کو اللہ نے مال واولاد سے بہت نوازا، انہوں نے سلمانؓ کو خط لکھا کہ تم سے چھٹنے کے بعد اللہ نے مجھ کو مال ودولت اوراہل و عیال سے سرفراز کیا اورارض مقدس کی سکونت کا شرف حاصل ہوا، انہوں نے جواب دیا کہ یاد رکھو مال واولاد کی کثرت میں کوئی بھلائی نہیں ہے، بھلائی اس میں ہے کہ تمہارا حلم زیادہ ہو اور تمہارا علم تم کو نفع پہنچائے، محض ارض مقدس کا قیام کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتا،جب تک تمہارا عمل اس قابل نہ ہو اور عمل بھی اس طرح ہوکہ گویا اللہ تم کو دیکھ رہا ہے اور تم اپنے کو مردہ سمجھو۔ عہد فاروقی سلمانؓ ایران کی فوج کشی میں مجاہدانہ شریک ہوئے اورچونکہ خود ایرانی تھے اس لیے فتوحات میں بہت قیمتی امداد پہنچائی،مگر اصول اسلام کو ہمیشہ پیش نظر رکھا، ایک ایرانی قصر کے محاصرہ کے وقت حملے سے پیشتر محصورین کو سمجھا دیا کہ میں بھی تمہارا ہم قوم تھا؛لیکن اللہ نے مجھ کو اسلام سے نوازا تم لوگ عربوں کی اطاعت گذاری سے کسی طرح نہیں بچ سکتے ،میں تم کو سمجھائے دیتا ہوں کہ اگر تم لوگ اسلام لاکر ہجرت کرکے ہم میں مل جاؤ تو تمکو اہل عرب کے حقوق دیے جائیں گے اور جو قانون ان کے لیے ہے وہی تم پر جاری کیا جائے گا اور اگر اسلام نہیں قبول کرتے اور صرف جزیہ منظور کرتے ہو تو ذمیوں کے حقوق تم کو ملیں گے اوران کا قانون تم پر نافذ کیا جائے گا، تین دن تک برابر تبلیغ کا فرض ادا کرتے رہے، جب اس کا کوئی اثر نہ ہوا تو حملہ کا حکم دیا اور مسلمانوں نے قصر مذکور بزور شمشیر فتح کرلیا۔ (مسند احمد بن حنبل:۴۴۱/۵) فتح جلولا میں بھی شریک تھے اوروہاں مشک کی ایک تھیلی ہاتھ آئی تھی، جو وفات کے وقت کام میں لائے۔ (ابن سعد جزء۴،ق۱،صفحہ:۶۶) گورنری حضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت میں مدائن کی حکومت پر سرفراز تھے،اس کی تفصیل آئندہ عادات واخلاق کے تذکرہ میں آئے گی۔ حضرت سلمانؓ مقربین بارگاہِ نبویﷺ میں تھے، اس لیے حضرت عمرؓ ان کا بہت احترام کرتے تھے، ایک دفعہ سلمانؓ حضرت عمرؓ کے پاس گئے اس وقت وہ ایک گدے پر ٹیک لگائے بیٹھے تھے،سلمانؓ کو دیکھ کر گدا ان کی طرف بڑھادیا۔ (مستدرک حاکم:۳/۵۵۹) علالت حضرت عثمانؓ کے عہدِ خلافت میں بیمار پڑے، سعد بن ابی وقاصؓ عیادت کو گئے سلمان رونے لگے،سعدؓ نے کہا، ابو عبداللہ رونے کا کونسا مقام ہے،آنحضرت ﷺ تم سے خوش دنیا سے گئے،تم ان سے حوض کوثر پر ملوگے، بچھڑے ہوئے ساتھیوں سے ملاقات ہوگی، کہا اللہ کی قسم میں موت سے نہیں گھبراتا اور نہ دنیا کی حرص باقی ہے، رونا یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عہد کیا تھا کہ ہمارا دنیاوی سازوسامان ایک مسافر کے زادراہ سے زیادہ نہ ہونا چاہئے، حالانکہ میرے گرد اس قدر سانپ (اسباب) جمع ہیں،سعد کہتے ہیں کہ کل سامان جس کو سانپ سے تعبیر کیا تھا، ایک بڑے پیالے، ایک لگن اورایک تسلہ سے زیادہ نہ تھا، اس کے بعد سعد نے خواہش کی کہ مجھ کو کوئی نصیحت کیجئے، فرمایا کہ کسی کام کا قصد کرتے وقت، فیصلہ کرتے وقت،تقسیم کرتے وقت اللہ کو یادرکھا کرو۔(ابن سعد،جز۲،قسم۲،صفحہ:۶۵) اسی بیماری کے دوران میں اوراحباب نے بھی نصیحت ووصیت کی خواہش کی،فرمایا،تم میں سے جس سے ہوسکے اس کی کوشش کرے کہ وہ حج، عمرہ،جہادیا قرآن پڑھتے ہوئے جان دے اور فسق وفجور اورخیانت کی حالت میں نہ مرے۔ (ابن سعد ،جز۴،ق۲،صفحہ:۶۵) فضل و کمال حضرت سلمانؓ کے وقت کا بڑا حصہ آنحضرت ﷺ کی صحبت میں گذرتا تھا، اس لیے آپ علوم و معارف سے کافی بہرہ ور ہوئے، حضرت علیؓ سے آپ کے مبلغ علم کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا کہ ان کو علم اول اور علم آخر سب کا علم تھا اور وہ ایسا دریا تھے جو پایابی سے نآشنا رہا، وہ ہمارے اہل بیت میں تھے،دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ وہ علم و حکمت میں لقمان حکیم کے برابر تھے، (استیعاب:۵۷۳/۲) علم اول سے مراد کتب سابقہ کا علم اور علم آخر سے مقصود آخری کتاب الہی یعنی قرآن کا علم ہے اور اہل بیت میں اس طرح ان کا شمار ہے کہ آنحضرت ﷺ نے قربت اختصاص کی بناء پر اوراس لیے کہ عربوں میں ان کا کوئی خاندان نہ تھا، ان کو اعزازاً اپنے اہل بیت میں داخل کرلیا تھا۔ حضرت معاذ بن جبلؓ جو خود بہت بڑے عالم اور صاحب کمال صحابی تھے،ان کے کمال علم کے معترف تھے،چنانچہ ایک مرتبہ اپنے ایک شاگرد سے کہا کہ چار آدمی سے علم حاصل کرنا،ان چاروں میں ایک سلمان کا نام بھی تھا، (ابن سعد جزو۲،قسم۱،صفحہ:۶۱) ایک موقع پر خود زبان نبوت نے ان کے علم وفضل کی ان الفاظ میں تصدیق کی ہے کہ سلمانؓ علم سے لبریز ہیں، (ابن سعد،جز۲،قسم۱،صفحہ:۶۱) صاحب اسد الغابہ لکھتے ہیں کہ سلمانؓ فضلائے صحابہؓ میں تھے، (اسدالغابہ:۳۳۱/۲) آپ کی کوششوں سے حدیث کا کافی حصہ اشاعت پذیر ہوا، آپ کے مرویات کی تعداد ۶۰ ہے،ان میں سے تین حدیثیں متفق علیہ ہیں، ان کے علاوہ ایک میں مسلم اور تین میں بخاری منفرد ہیں۔ (تہذیب الکمال:۱۴۷) ابو سعید قدریؓ، ابو الطفیلؓ،ابن عباسؓ اوس بن مالک اورابن عجزہ وغیرہ آپ کے زمرہ ٔتلامذہ میں ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۱۳۸/۴) گو حضرت سلمانؓ کا علم بہت وسیع تھا، تاہم حدیث بیان کرنے میں بہت محتاط تھے، اس لیے ان کی مرویات کی تعداد۶۰ سے متجاوز نہ ہوسکی، حضرت حذیفہؓ مدائن میں لوگوں سے بعض ایسی باتیں بیان کرتے تھے جو آنحضرت ﷺ نے غصہ کی حالت میں کسی کے متعلق فرمائی تھیں، لوگ ان کی تصدیق کے لیے حضرت سلمانؓ کے پاس آئے، آپ نے صرف اس قدر جواب دیا کہ حذیفہؓ زیادہ بہتر جانتے ہیں لوگوں نے حضرت حذیفہؓ سے آکر کہا کہ ہم نے آپ کی بیان کردہ حدیث سلمانؓ کو سنائی ، وہ نہ اس کی تصدیق کرتے ہیں اور نہ تردید،حضرت ابوحذیفہؓ نے سلمان ؓ سے کہا کہ جو کچھ تم نے آنحضرت ﷺ سے سنا ہے اس کی تصدیق کیوں نہیں کرتے، فرمایا بعض اوقات آنحضرت ﷺ لوگوں کو کچھ غصہ میں کہہ دیتے تھے اور بعض اوقات خوش ہوکر کچھ فرمادیتے تھے، معلوم ہوتا ہے کہ تم ان باتوں کو بیان کرکے کسی کو کسی کا دوست اور کسی کو کسی کا دشمن بنادو گے ،کیا تمہیں معلوم نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ خداوندا!غصہ کی حالت میں اگر کسی کے متعلق کوئی برا کلمہ نکل جائے تو اس کو اس کے حق میں خیر کردینا پھر ان سے کہا تم اس قسم کی باتوں سے باز آو، نہیں تو میں عمرؓ کو آگاہ کردوں گا۔ (ابوداؤد:۱۶۹/۲) چونکہ وہ اسلام سے قبل عرصہ تک نصرانی رہ چکے تھے، اس لیے عیسائی مذہب کے متعلق کافی معلومات رکھتے تھے،حضرت ابوہریرہؓ فرماتے تھے کہ سلمان دوکتابوں کا علم رکھتے ہیں ،کلام اللہ اور انجیل ،مذہب عیسوی کے مسائل محض پادریوں کی زبانی نہیں سنے تھے؛بلکہ خود انجیل کا مطالعہ کیا تھا، چنانچہ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ میں نے توراۃ میں دیکھا ہے کہ کھانے کے بعد وضو کرنے سے برکت ہوتی ہے۔ (مسند احمد بن حنبل:۴۱/۵) عام حالات ،تقرب بارگاہِ نبویﷺ حضرت سلمانؓ صحابہ کرام کے اس خاص زمرہ میں تھے جن کو بارگاہِ نبوی میں مخصوص تقرب حاصل تھا، چنانچہ صحابہ کرام کے علاوہ کم لوگ ایسے تھے جو بارگاہ نبوت کی پذیرائی میں حضرت سلمان کی ہمسری کرسکتے ہوں، غزوۂ خندق کے موقع پر جب مہاجرین وانصار علیحدہ علیحدہ جمع ہوئے تو مہاجرین کہتے تھے کہ سلمان ہمارے زمرہ میں ہیں انصار کہتے تھے کہ ہماری جماعت میں ہیں، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ سلمانؓ ہمارے اہل بیت میں ہیں، (مستدرک حاکم:۵۹۸/۳) ام المو منین عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ سلمان کی شب کی تنہائی کی صحبت آنحضرت ﷺ کے پاس اتنی لمبی ہوتی تھی کہ ہم لوگوں کو (ازواج)خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ کہیں ہمارے حصوں کی رات بھی اس نشست میں نہ گذرجائے، انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ فرماتے تھے کہ جنت تین آدمیوں کی مشتاق ہے، علی، عمار اور سلمان کی، (جامع ترمذی،مناقب سلمان)آپ کے تقرب کی آخری مثال یہ ہے کہ ایک موقع پر آنحضرت ﷺ حضرت صدیق اکبرﷺ جیسے فدائی اسلام اور جلیل القدر صحابی سے حضرت سلمانؓ اوران کے بعض رفقاء کے بارہ میں رنجیدہ ہوگئے، اس کا واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ ابو سفیان چند آدمیوں کے ساتھ حضرت صہیبؓ،بلالؓ، اورسلمان ؓ کے پاس سے گذرے، ان تینوں بزرگوں نے کہا کہ اللہ کی کوئی تلوار اللہ کے دشمن (ابوسفیان) کی گردن پر نہیں پڑی، حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ تم لوگ سردار قریش کی شان میں ایسا کلمہ زبان سے نکالتے ہو اورآنحضرت ﷺ سے آکر بیان کیا، آپ نے فرمایا کہ شاید تم نے ان لوگوں کو ناراض کردیا، اگر تم نے ان لوگوں کو ناراض کیا تو گویا اللہ کو ناراض کیا، حضرت ابوبکر بہت نادم ہوئے اورآکر ان بزرگوں سے معذرت کی۔ (مسلم:۲۶۲/۲) اخلاق و عادات حضرت سلمان فارسیؓ میں مذہبی جذبہ کی شدت فطری تھی، جس طرح آتش پرستی کے زمانہ میں سخت آتش پرست اورنصرانیت کے زمانہ میں عابد و زاہد نصرانی تھے، اس طرح مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد اسلام کا مکمل نمونہ بن گئے، ان کے اصلی فضل و کمال کا میدان یہی ہے۔ زہد و تقویٰ ان کا زہد وورع اس حد تک پہنچ گیا تھا، جس کے بعد رہبانیت کی حد شروع ہو جاتی ہے،اس کی ادنی مثال یہ ہے کہ عمر بھر گھر نہیں بنایا، جہاں کہیں دیوار یا درخت کا سایہ مل جاتا پڑےرہے، ایک شخص نے اجازت چاہی کہ میں آپ کے لیے مکان بنادوں،فرمایا مجھ کو اس کی حاجت نہیں وہ پیہم اصرار کرتا تھا، یہ برابر انکار کرتے جاتے تھے،آخر میں اس نے کہا کہ آپ کی مرضی کے مطابق بناؤں گا، فرمایا وہ کیسا، عرض کیا اتنا مختصر کہ اگر کھڑے ہوں تو سر چھت سے مل جائے اور اگر لیٹیں تو پیر دیوار سے لگیں،فرمایا خیر اس میں کوئی مضائقہ نہیں چنانچہ اس نے ایک جھونپڑی بنادی۔ (استیعاب،جلد:۵۷۲/۲،حیدرآباد) اس زہد کا اثر زندگی کے ہر شعبہ میں نمایاں تھا، مزخر فاتِ دنیا کو کبھی پاس نہ آنے دیتے تھے ،وفات کے وقت گھر کا پورا اثاثہ بیس بائیس درہم سے زیادہ کا نہ تھا، بستر میں معمولی سا بچھونا اور دو اینٹیں تھیں جن کا تکیہ بناتے تھے، اس پر بھی روتے تھےاور فرماتے تھے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ انسان کا سازوسامان ایک مسافر سے زیادہ نہ ہونا چاہئے اور میرا یہ حال ہے، (مسند احمد بن حنبل:۴۳۸،۴۳۹/۵) یہ حالت زندگی کے دور میں قائم رہی، جب امارت کے عہدہ پر ممتاز تھے، اس وقت بھی کوئی فرق نہ آیا، حسن بیان کرتے ہیں کہ سلمانؓ جب پانچ ہزار تنخواہ پاتے تھے،اور تیس ہزار نفوس پر حکومت کرتے تھےاس وقت بھی ان کے پاس صرف ایک عبا تھی،جس میں لکڑیاں جمع کرتے تھے اوراس کا آدھا حصہ اوڑھتے اور آدھا بچھاتے تھے۔ (ابن سعد،جلد۴،ق۱،صفحہ:۶۲) رہبانیت سے اجتناب مگر اسلام کی تعلیمات کے خلاف ان کی زندگی راہبانہ نہ تھی مذہبی تشدد کے ساتھ ساتھ دنیاوی حقوق کا بھی پورا لحاظ رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتے تھے، ان کےاسلامی بھائی حضرت ابودرداؓ بڑے عابد و زاہد بزرگ تھے،رات بھر نماز پڑھتے اور دن بھر روزہ رکھتے تھے، ساری ساری رات عبادت میں گذاردیتے ،حضرت سلمانؓ ان سے ملنے کے لیے ان کے گھر جایا کرتے تھے، ایک مرتبہ ابودرادؓ کی بیوی کو بہت خراب حالت میں دیکھا، پوچھا تم نے یہ کیا صورت بنا رکھی ہے، انہوں نے کہا کس کے لیے بناؤ سنگار کروں ،تمہارے بھائی کو تو دنیا کی ضرورت باقی نہیں رہی، حضرت ابودرداؓ جب گھر آئے تو ملنے ملانے کے بعد کھانا منگایا، مگر خود معذرت کی کہ میں روزہ سے ہوں، فرمایا جب تک تم نہ کھاؤ گے میں بھی نہ کھاؤں گا، پھر رات کو حضرت سلمانؓ ان کے پاس ہی لیٹے اوران کو دیکھتے رہے، جب وہ عبادت کو اٹھے تو روک کر فرمایا کہ تم پر تمہارے رب ،تمہاری آنکھ اور تمہاری بیوی سب کا حق ہے ،روزوں کے ساتھ افطار اور شب بیداری کے ساتھ سونا بھی ضروری ہے، اس کے بعد دونوں نے یہ معاملہ آنحضرت ﷺ کے سامنے پیش کیا، آپ نے ابودرادء ؓ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ سلمانؓ تم سے زیادہ مذہب کے واقف کار ہیں۔ سادگی حضرت سلمانؓ کی تصویر حیات میں سادگی بہت غالب تھی، جوہر زمانہ میں یکساں قائم رہی، مدائن کی امارت کے زمانہ میں جب کہ شان و شوکت اورخدم وحشم کے تمام لوازم ان کے لیے مہیا ہوسکتے تھے، اس وقت بھی ان کی سادگی میں کوئی فرق نہ آیا، لباس میں ایک عبا اورایک اونچا پائجامہ ہوتا تھا، ایرانی اس ہیت کو دیکھ کر گرگ آمد، گرگ آمد، کہتے ،ایک مرتبہ اسی امارت کے زمانہ میں اس شان سے نکلے کہ سواری میں بلازین کا گدھا تھا لباس میں ایک تنگ اورچھوٹی قمیص تھی، جس سے گھٹنے بھی نہ چھپتے تھے،ٹانگیں کھلی ہوئیں تھیں، لڑکے اس ہیت کذائی میں دیکھ کر پیچھے لگ گئے،لوگوں نے یہ طوفان بے تمیزی دیکھا، تو ڈانٹ کر ہٹایا کہ امیر کا پیچھا کیوں کرتے ہو، ایک مرتبہ ایک دستہ فوج کی سرداری سپرد ہوئی، فوجی امارت کی شان و شوکت کا کیا ذکر ،یہاں معمولی سپاہی کی بھی وضع نہ تھی، چنانچہ فوجی نوجوان دیکھ کر ہنستے اور کہتے کہ یہی امیر ہیں۔ (ابن سعد،جزء۴،ق ۱،صفحہ:۶۲) ابو قلابہ راوی ہیں کہ ایک شخص سلمانؓ کے یہاں گیا، دیکھا کہ وہ بیٹھے،آٹا گوندھ رہے ہیں، پوچھا خادم کہاں ہے، کہا کام سے بھیجا ہے ،مجھ کو یہ اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ دودوکاموں کا بار اس پر ڈالوں۔ (ابن سعد جزء۴،ق۱،صفحہ:۶۴) اس غیر معمولی سادگی کی وجہ سے لوگوں کو اکثر مزدور کا دھوکہ ہوجاتا تھا، ایک مرتبہ ایک عبسی نے جانور کے لیے چارہ خریدا ،حضرت سلمانؓ کھڑے تھے ان سے کہا اس کو گھر تک پہنچادو، وہ اٹھا کر لے چلے، راستہ میں لوگوں نے دیکھا تو کہنے لگے لائیے ہم پہنچادیں یہ حال دیکھ کر عبسی نے پوچھا یہ کون ہیں، لوگوں نے کہا آنحضرت ﷺ کے صحابہ ہیں وہ سن کر بہت نادم ہوا اورکہا آپ تکلیف نہ کیجئے؛لیکن انہوں نے فرمایا، اس میں مجھے نیت کا ثواب مقصود ہے،اب میں اس بوجھ کو بغیر پہنچائے ہوئے نیچے نہیں رکھ سکتا۔ فیاضی فیاضی اور انفاق فی سبیل اللہ بھی آپ کا نمایاں وصف تھا، آپ کو جس قدر وظیفہ ملتا تھا اس کو کل مستحقین میں تقسیم کردیتے تھے اور خود چٹائی بُن کر معاش پیدا کرتے تھے اور چٹائی کی آمدنی کا بھی ایک تہائی اصل سرمایہ کے لیے رکھ لیتے، ایک تہائی بال بچوں پر خرچ کرتے اورایک تہائی خیرات کرتے تھے،ارباب علم کے بڑے قدر دان تھے،جب کوئی رقم ہاتھ آجاتی توحدیث نبوی کے شائقین کو بلا کر کھلادیتے تھے۔ صدقات سے اجتناب صدقات سے بہت سخت پرہیز کرتے تھے، اگر کسی چیز میں صدقہ کا ادنی شائبہ ہوتا تو اس سے بھی احتراز کرتے،ایک غلام نے خواہش کی کہ مجھ کو مکاتب بنادیجئے ،فرمایا:تمہارے پاس کچھ ہے،کہا میں لوگوں سے مانگ کر ادا کردوں گا ،فرمایا تم مجھ کو لوگوں کے ہاتھ کادھوون کھلانا چاہتے ہو،(ابن سعد،جز۴قسم۱،صفحہ:۶۴) حالانکہ اس کا مانگاان کے لیے صدقہ نہ رہ جاتا ۔ حلیہ بال گھنے،کان لمبے اور دراز قامت تھے۔