انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** غزوۂ خیبر(محرم۷ہجری) پس منظر : غزؤہ خندق کے بعد اگر چہ حضور ﷺ کو اطمینان حاصل ہوگیا تھا کہ قریش جنگوں سے اس قدر خستہ اور کمزور ہوگئے ہیں کہ اب ان میں مدینہ پر حملہ کرنے کی تاب وہ طاقت نہیں رہی ؛لیکن آپﷺ کا جو اصل مقصد تھا کہ عالمی دعوت کی آزادی کے ساتھ بلا روک ٹوک تبلیغ ہو اس کے لئے وہ ہنوز سنگِ راہ اور خطرہ بنے ہوئے تھے، اس لحاظ سے آپﷺ کے سامنے غزؤہ خندق کے بعد دو خطرے اور دو رکاوٹیں تھیں ، ایک شمالی اور ایک جنوبی ، شما ل میں خیبر کے یہود تھے اور جنوب میں مکہ کے قریش تھے ، عالمی دعوت کی عمومی تبلیغ کے لئے ان دونوں رکاوٹوں کو دور کرناضروری تھا، پہلے آپﷺ نے قریش کی طرف اس خیال سے توجہ کی کہ ان کی طرف توجہ کرنے سے دو باتوں میں سے ایک ضرور حاصل ہوجائے گی، یا تو صلح ہوجائے گی یا جنگ کی نوبت آئے گی، صلح ہوجائے تو جنوبی رکاوٹ ختم ہوجائے گی اور اگر جنگ ہوجائے تو مکہ فتح ہوجائے گا ؛کیونکہ قریش میں مقابلہ کی تاب نہیں ہے اور یہ معلوم تھا کہ یہود ایسے نہیں ہیں کہ خیبر کے قلعہ کو چھوڑ کر مکہ معظمہ آئیں گے اور قریش کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑیں گے، آپﷺ کا اندازہ صحیح ثابت ہوا اور نتیجہ حسب دل خواہ نکلا اور قریش سے صلح ہوگئی اور اس طریقہ سے عالمی دعوت کی راہ سے جنوبی رکاوٹ اور خطرے سے اطمینان ہوگیا، اس کے بعد اب ضروری تھا کہ عالمی دعوت کی راہ سے شمالی خطرہ اور رکاوٹ کو دور کیاجائے کیونکہ بغیر اس کے حجاز میں عالمی دعوت کی آزادی کے ساتھ بلا روک ٹوک تبلیغ ناممکن تھی اس لئے عالمی دعوت کی عمومی تبلیغ کے مقصد کے لحاظ سے غزؤہ خیبر درحقیقت صلح حُدیبیہ کا تتمہ اور تکملہ تھا (پیغمر عالم - مولانا عبدالصمد رحمانی)۔ غزؤہ خیبر کے اسباب کے بارے میں مولانا صفی الرحمن مبارکپوری " الرحیق المختوم" میں رقم طراز ہیں: جب رسول اﷲ ﷺ صلح حُدیبیہ کے نتیجہ میں جنگ احزاب کے تین بازؤں میں سے سب سے مضبوط بازو (قریش) کی طرف سے پوری طرح سے مطمئن اور مامون ہوگئے تو آپﷺ نے چاہا کہ بقیہ دو بازووں … یہود اور قبائل نجد … سے بھی حساب کتاب چکا لیں تاکہ ہر جانب سے مکمل امن و سلامتی حاصل ہوجائے اورپورے علاقہ میں سکون کا دور دورہ ہو، اور مسلمان ایک پیہم خوں ریز کشمکش سے نجات پاکر اﷲ کی پیغام رسانی اور اس کی دعوت کے لئے فارغ ہوجائیں۔ چونکہ خیبر سازشوں اور دسیسہ کاریوں کا گڑھ ، فوجی انگیخت کا مرکز او ر لڑانے بھڑانے اور جنگ کی آگ بھڑکانے کی کان تھا اس لئے سب سے پہلے یہی مقام مسلمانوں کی نگاہ التفات کا مستحق تھا، رہا یہ سوال کہ خیبر واقعتاً ایسا تھا یا نہیں تو اس سلسلہ میں ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ اہل خیبر ہی تھے جو جنگ خندق میں مشرکین کے تمام گروہوں کو مسلمانوں پر چڑھا لائے تھے، پھر یہی تھے جنھوں نے بنو قریظہ کو غدر و خیانت پر آمادہ کیاتھا، نیز یہی تھے جنھوں نے اسلامی معاشرہ کے پانچویں کالم منافقین سے اور جنگ احزاب کے تیسرے بازو … بنو غطفان اور بدووں … سے رابطہ پیہم قائم کر رکھا تھا اور خود بھی جنگ کی تیاریاں کررہے تھے اور اپنی کارروائیوں کے ذریعہ مسلمانوں کو آزمائش میں ڈال رکھا تھا یہاں تک کہ نبی ﷺ کو بھی شہید کرنے کا پروگرام بنالیاتھا، اور ان حالات سے مجبور ہوکر مسلمانوں کوباربارفوجی مہمیں بھیجنی پڑتی تھیں، اور ان دسیسہ کاروں اور سازشیوں کے سربراہوں مثلاً سلام بن ابی الحقیق اور اُسید بن زارم کا صفایہ کرناپڑاتھا، لیکن ان یہود کے تو تئیں مسلمانوں کا فرض درحقیقت اس سے بھی کہیں بڑاتھا، البتہ مسلمانوں نے اس فرض کی ادائیگی میں قدرے تاخیر سے اس لئے کام لیا تھا کہ ابھی ایک قوت …یعنی قریش …جو ان یہود سے زیادہ بڑی ، طاقتور، جنگجو اور سرکش تھی مسلمانوں کے مدمقابل تھی، اس لئے مسلمان اسے نظر انداز کرکے یہود کا رخ نہیں کرسکتے تھے ؛ لیکن جوں ہی قریش کے ساتھ اس محاذ آرائی کا خاتمہ ہوا ان مجرم یہودیوں کے محاسبہ کے لئے فضاء صاف ہوگئی اور ان کا یوم الحساب قریب آگیا(الرحیق المختوم)۔ ربیع الاول ۴ ہجری میں غزوہ نبونضیر ہوا تھا جس میں مسلمانوں نے بیس دن تک بنو نضیر کا محاصرہ کر لیا تھا جس پر انہوں نے قتل نہ کرنے کی شرط کے ساتھ صلح کی درخواست کی تھی، حضور اکرم ﷺ نے اسلحہ نہ لے جانے کی شرط کے بعد ان کی جاں بخشی فرمائی اور انھیں اپنا وطن چھوڑ دینے کا حکم دیا تھا ، ہر تین آدمیوں کو ایک اونٹ پر اپنا سامان لاد کر لے جانے کی اجازت بھی مرحمت فرمائی ؛چنانچہ وہ لوگ اپنا تمام اثاث البیت لے کر گاتے بجاتے خوشیاں مناتے مدینہ سے روانہ ہوئے تھے، ان میں سے کچھ تو شام کی طرف چلے گئے ، کچھ خیبر میں جا بسے ، ان میں حئی بن اخطب (حضرت صفیہؓ کا باپ ) بڑا بد نیت، سازشی اور عیار سردار تھا، اس نے اپنا رسوخ اس درجہ بڑھا یا کہ پورے خیبر کا سردار بن گیا ، غزوہ احزاب میں سارے عرب کو مسلمانوں کے خلاف جمع کرنے میں اسی کی کوششیں کار فر ما تھیں ، قریش کو بھڑکانے اور مدینہ پر حملہ کرنے پر اسی نے آمادہ کیا تھا ، اس مقصد کے لئے یہودی سرداروں کا وفد لے کر مکہ گیا ، انھیں رسد، اسلحہ ، مال ، افراد ہر طرح کی مدد کایقین دلایا ، دوران محاصرہ یہودی قبیلہ بنو قریظہ کو ہر طرح کا دباؤ ڈال کر مسلمانوں سے کئے ہوئے معاہدہ سے علحٰدہ کر لیا، اس کی یہ فطری خواہش تھی کہ مدینہ میں چھوڑی ہوئی جائیداد ، زمینوں اور نخلستانوں پر دوبارہ قبضہ حاصل کرے ، اس مقصد کے لئے وہ مدینہ کے شمال مشرق میں پھیلے ہوئے مشہورجنگجو قبیلہ بنو غطفان کی دیگر شاخوں بنی مرّہ ، فزارہ اور ان کے حلیف بنو اسد سے ساز باز کئے ہوئے تھا ، ان سے عہد تھا کہ اگر مسلمان خیبر پر حملہ آور ہوں تو وہ ہر طرح کی مدد کریں گے ، بنو قریظہ کے محاصرہ کے بعد اس بد نیت اور فتنہ پرداز کی گردن مار دی گئی۔ غزوہ احزاب میں شکست کھانے کے باوجود یہود ان ِ خیبر متحد تھے ، بنی قریظہ کا انجام ان کے سامنے تھا اس لئے در پردہ انتقام پر آمادہ ہوگئے ، بنونضیر کے سربراہ جو خیبر میں آکر آباد ہو گئے تھے ان میں ابو رافع سلام بن ابی الحقیق بھی تھا جو مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوا ، اس کے بعد خیبر کی سیاست میں ایک بہت بڑی تبدیلی آئی، بنو نضیر جو قریش کے حامی تھے ان کے ہاتھوں سے قیادت نکل چکی تھی، نیا سرادار اسیر بن زارم منتخب ہوا جس نے یہودی قبائل کو جمع کر کے کہا کہ " میرے پیشروؤں نے محمد (ﷺ ) سے مقابلہ کے لئے جو تدابیر اختیار کیں وہ غلط تھیں ، میری دانست میں صحیح تدبیر یہ ہے کہ خود محمد(ﷺ) کے دار الریاست ( مدینہ ) پر حملہ کیا جائے اور میں یہی طریقہ اختیار کروں گا" اس نے اس مقصد کے لئے قبیلہ غطفان کا دورہ کیا، انہیں خوب بھڑکانے کے بعد اس نے دیگر قبائل کو بھی آمادہ کیا، چنانچہ اس طرح بیس پچیس ہزار کی فوج جمع ہوگئی، واقدی کا بیان ہے کہ ہر روز دس ہزار افراد قلعوں سے باہر نکل کر صف بندی کرتے اور کہتے کہ محمد ( ﷺ )ہم پر کس طرح فتح حاصل کرسکتے ہیں، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ رئیس المنافقین عبدا للہ بن اُبی نے یہودیوں کو مدینہ پر حملہ کرنے کی دعوت دی جو مسلمانوں کے جنگی رازوں سے انہیں واقف کرتا رہتا تھا ، گویا کہ وہ ان کا جاسوس تھا، جب یہ اطلاعات مدینہ پہنچیں تو حضور اکرم ﷺ نے حضرت عبداﷲؓ بن رواحہ کو تحقیق کے لئے خیبر روانہ فرمایا، انھوں نے چھپ کر یہودیوں کی سازشوں کو سنا اور واپس آکر تصدیق کی ، (سیرت احمد مجتبیٰ)یہ تھے وہ اسباب و علل جو غزوۂ خیبر کا باعث ہوئے ، خیبرعبرانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی قلعہ کے ہیں ، ایک روایت یہ ہے کہ خیبر بن قابیہ بن مہلا ئیل کے نام پر اس آبادی کا نام خیبر پڑ گیا، یہ مقام مدینہ منورہ سے آٹھ منزل یا ۹۶ میل کے فاصلہ پرواقع ہے، خیبر ایک پست اور وسیع وادی ہے جس میں شہر آباد ہے ، اس کے اطراف نخلستان ہیں ، دو وادیاں نطاۃ اور اشق نامی ہیں، یہاں یہودیوں کے چھوٹے چھوٹے قبائلی محلے تھے اور ان کے کھیت ، چشمے، چراگاہیں، گڑھیاں اور قلعے تھے، وہ خود کفیل تھے اور حفاظتی اعتبار سے بھی مستحکم تھے ، خیبر میں کئی چھوٹے اور بڑے قلعے بنے ہوئے تھے جن کی تعداد مورخین نے سات، بارہ اور چودہ لکھی ہے ، دفاعی لحاظ سے یہ ایک دوسرے کے ممد و معاون تھے، طعم کے معنی برج اور حصن کے معنی قلعہ کے ہیں ، ان قلعوں کے نام یہ ہیں ( سیرت احمد مجتبیٰ): ۱- حصن ناعم ( آسودہ زندگی ) ۲- حصن قموس ( بے آرام شہر ) ۳- حصن الشق ( ہر چیز کا آدھا ) ۴- حصن النطاۃ ( کچی کھجور کا غلاف) ۵- السُلالم ( حاجت پڑنے پر وسیلہ) ۶- حصن الوطیح ( مٹی ، کھر یا ) ۷- حصن الکتیبہ( سواروں کا دستہ) ۸- حصن صعب بن معاذ ( سخت دشوار) ۹- حصن قلّہ یا قلعہ الزبیر ( چوٹی) ۱۰- حصن اُبی ّ( اُبی کا قلعہ ) ۱۱- حصن الیُر( خشک زمین ) ۱۲- مربطہ ( جانوروں کے باندھنے کی جگہ) ۱۳- حصن نزار ( نزار کا قلعہ) ۱۴- حصن قصارہ ( کشادہ مضبوط مکان) ان قلعوں میں یہودیوں کی بیس ہزار فوج تھی اور دس ہزار جنگجو تھے ، بعض قلعوں پر منجنیقیں بھی نصب تھیں، رسول اللہﷺ نے چاہا کہ ان لوگوں سے معاہدہ ہو جائے تو اچھا ہے، اس بناء پر آپ ﷺ نے حضرت عبداللہ ؓ بن رواحہ کو بھیجا لیکن ادھر تو یہودخود سخت دل اور ایک بد گمان قوم تھی اُدھرمنافقین ان کو ابھارتے تھے ، اسی زمانے میں رئیس ا لمنافقین عبداللہ بن ابی بن سلول نے اہل خیبر کے پاس کہلا بھیجا کہ محمد( ﷺ) تم پر حملہ کرنا چاہتے ہیں؛ لیکن تم ان سے نہ ڈرنا، انکی ہستی کیا ہے؟ مٹھی بھر آدمی ہیں جن کے پاس ہتھیار تک نہیں ، یہود نے یہ سن کر کنانہ اور ہودہ ابن قیس کو غطفان کے پاس بھیجا کہ ہمارے ساتھ مل کر مدینہ پر حملہ کرو تو ہم نخلستان کی نصف پیداوار تم کودیں گے،( ایک روایت میں ہے کہ) غطفان نے اس کو منظور کیا، غطفان کا ایک طاقتور قبیلہ بنو فزارہ تھا، ان کو جب معلوم ہوا کہ خیبر والے آنحضرت ﷺ پر حملہ کرنے والے ہیں تو وہ خود خیبر میں آئے کہ ہم تمہارے ساتھ شریک ہو کر لڑیں گے، آنحضرت ﷺکو جب معلوم ہوا تو آپ ﷺنے بنو فزارہ کو خط لکھا کہ خیبر والوں کی مدد سے باز آؤ، خیبر فتح ہو جائے گا تو تم کو بھی حصہ دیا جائے گا؛ لیکن بنو فزارہ نے انکار کیا، خیبر کا غزوہ اور غزوات کی بہ نسبت چند امتیازات رکھتا ہے، سب سے مقدم یہ کہ جب آپ ﷺ نے خیبر کا قصد کیا تو اعلان عام کر دیا کہ ہمارے ساتھ صرف وہ لوگ آئیں جو طالب جہاد ہوں، اب تک جو لڑائیاں ہوئیں تھیں محض دفاعی تھیں، یہ پہلا غزوہ ہے جس میں غیر مسلم رعایابنائے گئے اور طرزحکومت کی بنیاد قائم ہوئی، اسلام کا اصلی مقصد تبلیغ دعوت ہے، اگر کوئی قوم اس دعوت کی سدّ راہ نہ ہوتو اسلام کو اس سے نہ تو جنگ ہے نہ اس کے رعایا بنانے کی ضرورت ہے ،صرف معاہدہ صلح کافی ہے جس کی بہت سی مثالیں اسلام میں موجود ہیں لیکن جب کوئی قوم خود اسلام کی مخالفت پر کمر بستہ ہو اور اس کو مٹادینا چاہے تو اسلام کو مدافعت کے لئے تلوار ہاتھ میں لینا پڑتی ہے اور اس کو اپنے زیر اثر رکھنا پڑتا ہے ، خیبر اسی قاعدہ کے موافق اسلام کاپہلا مفتوحہ ملک تھا ، ( شبلی نعمانی- سیرۃ النبی جلد اول )