انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ۴۰۔عبید اللہ بن عبداللہؒ نام ونسب عبید اللہ نام،ابو عبد اللہ کنیت، مشہور صحابی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے بھائی عتبہ کے پوتے تھے، نسب نامہ یہ ہے، عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود بن غافل بن حبیب بن سمخ بن فار بن مخزوم مخزومی۔ فضل وکمال عبید اللہ کا گھر علم عمل کا گہوارہ تھا،اس ماحول نے ان کو علم وعمل کا مجمع البحرین بنادیا،فضل وکمال کے لحاظ سے وہ ممتاز ترین تابعین میں شمار ہوتے تھے،انہیں حدیث فقہ شعر وشاعری اوردوسرے مروجہ علوم میں پورا درک تھا، علامہ ابن سعد لکھتے ہیں: کان ثقۃ کثیر الحدیث العلم(ابن سعد:۵/۱۸۵) شاعر علامہ نووی لکھتے ہیں کہ ان کی جلالت امامت اورعظیم منزلت پر سب کا اتفاق ہے۔ (تہذیب الاسماء،ج ۱،ق۱،ص ۳۱۲) حدیث حدیث کے وہ ممتاز حفاظ میں تھے، صحابہ میں انہوں نے ابن عمرؓ،ابن عباس ابوہریرہؓ،ابو سعید خدریؓ، ابو واقد لیثیؓ ،زید بن خالدؓ،نعمان بن بشیرؓ، عمار بن یاسرؓ ابو طلحہ انصاریؓ،ام المومنین حضرت عائشہؓ صدیقہؓ اور فاطمہ بنت قیسؓ اورتابعین میں ایک کثیر جماعت سے فیض اٹھایا تھا۔ (تہذیب التہذیب:۴/۴۲۳) حافظہ اتنا قوی تھا کہ ایک مرتبہ جو حدیث سن لیتے تھے، وہ ہمیشہ کے لیے دماغ میں محفوظ ہوجاتی تھی،اس حافظہ نے ان کے علم کا دائرہ نہایت وسیع کردیا تھا ، اما م زہری کا بیان ہے کہ میں جن جن علماء کے پاس بیٹھا ان کے پاس جو کچھ تھا سب حاصل کرلیا،لیکن عبید اللہ علم کا بحر بے پایاں تھے، ان کے پاس جب آتا تھا تو ہمیشہ تازہ علم حاصل ہوتا تھا (تہذیب التہذیب،ج ۱،ق ۱،ص ۳۱۲) میں نے بہت علم حاصل کیا اورایک حد پر پہنچنے کے بعد خیال ہوا کہ جو کچھ میں حاصل کرچکا ہوں وہ بہت کافی ہے،لیکن جب عبید اللہ سے ملا تو معلوم ہوا کہ میرا علم کچھ بھی نہیں ہے۔ (ابن خلکان:۱/۲۷۱) فقہ فقہ میں خصوصیت کے ساتھ ان کا پایہ نہایت بلند تھا،امام ابو جعفر طبری کا بیان ہے کہ علم احکام اورحلال وحرام کی معرفت میں ان کا پایہ نہایت بلند تھا، ان کے تفقہ کی سب سے بڑی سند یہ ہے کہ وہ مدینہ کے ساتھ مشہور فقہا میں سے ایک تھے حافظ ابن عبد البر کا بیان ہے کہ وہ مدینہ کے ان دس پھر ان کے بعد ان سات فقہاء میں سے تھے،جو فقہ وفتاویٰ کا محور تھے،وہ بڑے صاحب علم، فاضل اورفقہ میں بڑے بلند پایہ تھے۔ (ایضاً بحوالہ ابن عبد البر) شاعری شاعر بھی تھے، ابن عبدالبرکا بیان ہے کہ وہ نہایت اچھے شاعر تھے،میرے علم میں دور صحابہ سے اس وقت تک قضاء میں ان سے بڑا شاعر اورشاعروں میں اتنا بڑا فقیہ کوئی نہ تھا۔ (تہذیب التہذیب:۷/۲۴) وہ حقیقی شاعر تھے،ان کی شاعری تفنن ِ طبع کے لیے نہ ہوتی تھی ؛بلکہ سوزِ قلب سے مجبور ہوکر شعر کہتے تھے،جب ان کی شعر گوئی پر کوئی اعتراض کرتا تو جواب دیتے کہ ایک درد مند اوردل کا بیمار اگر سانس نہ لے تو کیسے زندہ رہ سکتا ہے (ابن سعد:۵/۱۸۴) ابو تمام نے حماسہ میں ان کے اشعار نقل کیے ہیں: شققت القلب ثم زردت فیہ ھواک فلیم فالتام الفتور میں نے اپنا دل چیر کر اس میں تیری محبت کا بیج بویا بونے کے بعد شگاف قلب برابر ہوگیا۔ تغلغل حب عثمۃ فی قوادی فیادیہ مع الخافی یسیر عثمہ کی محبت میرے قلب میں ساری اور پیوست ہوگئی، وہ محبت جو علانیۃ نظر آتی ہے اس محبت سے کم ہے جو مخفی ہے۔ تغلغل حیث لم یبلغ شراباولا حزن ولم یبلغ سرور وہ دل کی اس گہرائی میں پہنچ گئی ہے جہاں شراب ،غم اور خوشی کوئی شے نہیں پہنچ سکتی بعض لوگوں نے ان اشعار پر اعتراض کیا کہ آپ ایسے عاشقانہ اشعار کہتے ہیں،فرمایا دل کے بیمار کولدود(ایک تلخ دواجومنہ میں لگائی جاتی ہے) سے راحت ہوتی ہے۔ زہد وعبادت اس درددل اورسوزِ باطن نے ان کو بڑا عابد ومتورع بنادیا تھا، امام نووی انہیں صلحائے تابعین میں اور ابن خلکان عبادت گزار لکھتے ہیں (تہذیب الاسماء:۱/۳۱۲) ان کی نمازیں بڑی طویل اورسکون واطمینان کی ہوتی تھیں، امام مالک کا بیان ہے کہ عبید اللہ بڑی طویل نمازیں پڑھتے تھے اورکسی شخص کے لیے بھی اس میں جلدی نہ کرتے تھے،ایک مرتبہ علی بن حسین (امام زین العابدین) ان کے پاس آئے، اس وقت عبید اللہ نماز پڑھ رہے تھے، وہ بدستور نماز میں مشغول رہے، علی دیر تک ان کا انتظار کرتے رہے، نماز تمام کرنے کے بعد لوگوں نے اعتراض کیا کہ تمہارے پاس رسول اللہ ﷺ کے نواسہ آئے اور تم نے اتنی دیر تک ان کو انتظار کرایا،فرمایا خدا میری مغفرت فرما جس کو علم کی تلاش ہو اسے تکلیف اٹھانا چاہئے (تذکرہ الحفاظ:۱/۶۸)اگر درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے تو عبیداللہ کے اخلاقی فضائل وکمالات کا اندازہ کرنے کے لیے یہ مثال کافی ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ان ہی کے تربیت یافتہ تھے، ان پر ان کے اخلاقی کمالات کا اتنا اثر تھا کہ وہ کہا کرتے تھے کہ عبید اللہ کی ایک صحبت اورتھوڑی دیران کے ساتھ ہمنشینی مجھے دنیا مافیہا سے عزیز ہے، خدا کی قسم ان کی ایک رات میں بیت المال کے ایک ہزار دینار سے خریدنے کو تیار ہوں،لوگوں نے کہا امیر المومنین بیت المال کے تحفظ میں شدت واہتمام کے باوجود آپ ایسا فرماتے ہیں،جواب دیا خدا کی قسم میں ان کی رائے،ان کی نصیحت اوران کی نصیحت کے وسیلہ سے ایک ہزار کے بجائے بیت المال میں ہزاروں ہزار داخل کروں گا، باہمی گفتگو سے عقل میں تازگی پیدا ہوتی ہے، قلب کو راحت ملتی ہے،غم دور ہوتا ہے اور ادب سدھر تا ہے۔ (ابن خلکان :۱/۲۷۱) وفات باختلافِ روایت ۹۸ یا ۹۹ میں مدینہ میں وفات پائی۔ (ابن سعد:۵/۱۸۶)