انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** اسیرانِ جنگ سے حسن سلوک کی تاکید قیدی جب مدینہ میں پہنچ گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اصحاب کرامؓ میں تقسیم فرما کر حکم دیا کہ ان کے ساتھ نیک سلوک کرنا،ان قیدیوں میں ایک شخص ابو عزیز بن عمیر بھی تھا جو لشکرِ کفار کا علمبردار اورحضرت مصعب بن عمیر کا حقیقی بھائی تھا،ابو عزیز کا بیان ہے کہ جب مجھے بدر سے گرفتار کرکے مدینہ کی طرف لا رہے تھے تو میں انصاریوں کی ایک جماعت کے زیرِ حراست تھا،یہ انصاری جب کھانا کھانے بیٹھتے تو روٹی مجھے دیتے اورخود کھجوریں کھا کر گذراہ کرلیتے،میں شرما کر روٹی ان میں سے کسی کو دیتا تو وہ پھر مجھی کو واپس کردیتا،مدینہ میں پہنچ کر ابو عزیز ابی یسرؓ انصاری کے حصے میں آیا، حضرت مُصعبؓ بن عمیر ابی یسرؓ انصاری سے کہنے لگے کہ اس کو خوب حفاظت سے رکھنا اوراس پر سختی کرنا کیونکہ اس کی ماں بڑی مالدار ہے،اس سے معقول فدیہ ملے گا،ابو عزیز نے یہ دیکھ کر کہ میرا حقیقی بھائی میرے محافظ کو سختی کرنے کی تاکید کررہا ہے،کہا کہ بھائی صاحب! کیا آپ میرے لئے یہی خیر خواہی کررہے ہیں؟ حضرت مُصعبؓ نے جواب دیا کہ اب تو میرا بھائی نہیں ہے،میرا بھائی یہ شخص ہے جو تیری حراست کررہا ہے،ابو عزیز کی ماں نے چار ہزار درھم بھیج کر ابو عزیز کو رہائی دلوائی،جنگ بدر میں مشرکوں کے شکست پانے کی خبر جب مکہ میں پہنچی تو جس طرح کفار کو رنج و ملال ہوا اُسی طرح اُن چند مسلمانوں کو جو مکہ میں رہ گئے تھے اور اپنے اسلام کو چھپائے ہوئے تھے،بے حد مسرت وخوشی حاصل ہوئی،ابو لہب کسی وجہ سے اس جنگ میں شریک نہ ہوسکا تھا،اس نے جب مکہ کے تمام بڑے بڑے سرداروں کے مقتول اوراہل مکہ کے شکست یاب ہونے کی خبر سُنی تو اس کے دل پر ایسا دھکا لگا کہ اس کے سننے سے ایک ہفتہ بعد مرگیا۔