انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت امام حاتم بن علوان اصمؒ (م:۲۳۷ھ) ۱۔ہر چیز کی زینت ہوتی ہے اورخوف عبادت کی زینت ہے،خوف کی علامت امید کو کم کرنا ہے۔ (الرسالۃ القشیریۃ،ص:۱۷۶) ۲۔حاتم اصمؒ سے کسی نے سوال کیا،کیا انسان ہر کسی کی خطا کو برداشت کرے؟فرمایا"ہاں سوائے اپنی خطا کے کہ اسے برداشت نہ کرے؛بلکہ اسے درست کرے" (الرسالۃ القشیریۃ،ص:۳۳۵) ایک دن شفیق بلخی ؒ نے اپنے شاگرد حاتم اصمؒ سے پوچھا "تم کتنے دنوں سے میرے ساتھ ہو؟"عرض کیا "۳۳ سال سے " پوچھا " تم نے اس مدت میں مجھ سے کیا سیکھا؟’’عرض کیا " آٹھ مسئلے" فرمایا "انا للہ وانا الیہ راجعون! میرے اوقات تمہارے اوپر ضائع ہوگئے کہ تم نے صرف آٹھ مسئلے سیکھے" حاتم اصم ؒ نے کہا " اے استاذ! میں نے زیادہ نہیں سیکھے اورنہ میں جھوٹ بولنے کو پسند کرتا ہوں" شفیق بلخی ؒ نے کہا "اچھا بتاؤ وہ کون سے آٹھ مسئلے ہیں کہ میں بھی سنوں’’ حاتمؒ نے کہا: ۱۔پہلا مسئلہ یہ ہے کہ میں نے مخلوق کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ ہر شخص کا ایک محبوب ہوتا ہے جو قبر تک اس کے ساتھ رہتا ہے جب وہ قبر میں چلا جاتا ہے تو اپنے محبوب سے جدا ہوجاتا ہے،اس لئے میں نے اپنا محبوب حسنات (نیکیوں) کو ٹھہرایا کہ جب میں قبر میں جاؤں تو میرا محبوب بھی میرے ساتھ رہے۔ ۲۔دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ میں نے اس آیت میں غور کیا: "وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى ، فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى" (النازعات:۴۰،۴۱) "جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرگیا اوراپنے نفس کو خواہشات سے روکا تو جنت اس کا ٹھکانہ ہے" پھر میں نے یقین کرلیا کہ اللہ تعالی کافر مانا درست ہے،اس لئے میں نے اپنے نفس پر خواہشات دور کرنے کی محنت کی،یہاں تک کہ وہ اللہ تعالی کی اطاعت پر جم گیا۔ ۳۔تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ میں نے اس دنیا کو دیکھا تو یہ پایا کہ جس کسی کے پاس کوئی چیز قدر و قیمت کی ہے وہ اس کو اٹھا کر رکھ چھوڑتا ہے اورحفاظت کرتا ہے،پھر جودیکھا تو اللہ تعالی نے فرمایا: "مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللَّهِ بَاقٍ" (النحل:۹۶) "جو کچھ تمہارے پاس ہے ختم ہوجانے والا ہے اورجو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ باقی رہے گا" پس جو چیز قدر وقیمت کی میرے ہاتھ لگی وہ میں نے حق تعالیٰ کی طرف پھیردی تاکہ اس کے پاس موجود رہے۔ ۴۔چوتھا مسئلہ یہ ہے کہ میں نے لوگوں کو دیکھا تو ہر ایک کا میلانِ خاطر مال ،حسب ونسب اورشرافت میں پایا،پھر ان چیزوں پر غور کیا تو سب ہیچ معلوم ہوئیں، پھر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو سوچا: "إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ" (الحجرات:۱۳) "اللہ تعالی کے نزدیک زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ تقویٰ والا ہے" اس لئے میں نے تقوی اختیار کیا تاکہ اللہ تعالی کے نزدیک عزت والا بن جاؤں۔ ۵۔میں نے لوگوں کو دیکھا کہ ایک دوسرے کے بارے میں بد گمانی کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو برا کہتے ہیں اوراس کی وجہ حسد ہے: ((ماخلا جسد عن حسد)) "کوئی شخص حسد سے خالی نہیں" پھر اللہ تعالیٰ کے اس کلام میں غور کیا: "نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا" (الزخرف:۳۲) "ہم نے تقسیم کیا ہے لوگوں میں ان کی ضروریات معاش کو دنیا کی زندگی میں" اس لئے میں نے حسد کو چھوڑ کر مخلوق سے کنارہ کیا اورجان لیا کہ قسمت اللہ تعالی کے یہاں سے ہے، اس لئے میں نے مخلوق کی عداوت چھوڑدی۔ ۶۔میں نے لوگوں کو دیکھا کہ ایک دوسرے سے سرکشی اورکشت و خون کرتے ہیں، میں نے اللہ تعالی کے قول کی طرف رجوع کیا تو اس نے یہ فرمایا ہے: "إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ" (فاطر:۶) "شیطان تمہارا دشمن ہے اس کو دشمن سمجھو،وہ اپنی جماعت کو اس طرف بلاتا ہے کہ وہ دوزخی ہوجائیں" اس بنیاد پر میں نے اسی اکیلے شیطان کو اپنا دشمن ٹھہرالیا کہ اس سے بچتا رہوں باقی ساری مخلوق کی عداوت چھوڑدی۔ ۷۔میں نے لوگوں کو دیکھا کہ ہر ایک شخص روٹی کے ایک ٹکڑے کا طالب ہے اور اس کی طلب میں اپنے نفس کو ذلیل کرتا ہے اورایسے کاموں میں گھستا ہے جو اس کےلئے جائز نہیں ہیں، میں نے اللہ تعالی کے کلام میں غو کیا تو اس نے فرمایا ہے: "وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا" (ھود:۶) "کوئی جاندار ایسا نہیں جس کا رزق اللہ تعالی کے ذمہ نہ ہو" میں نے سمجھا کہ میں بھی اللہ تعالی کے ان جانداروں میں سے ہوں جن کا رزق اس کے اوپر ہے اس لئے طلب رزق چھوڑ کر ادائے حقوق خدا میں مشغول ہوا۔ ۸۔میں نے لوگوں کو دیکھا تو سب کو کسی پر بھروسہ کرتے ہوئے پایا کوئی زمین پر بھروسہ کرتا ہے کوئی تجارت پر کوئی کسی پیشہ پر کوئی بدن کی تندرستی پر،پھر میں نے اللہ تعالیٰ کو یہ فرماتے ہوئے دیکھا: "وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ" (الطلاق:۳) "جو اللہ تعالی پر بھروسہ کرے تو اللہ اس کے لئے کافی ہے۔" اس لئے میں نے اکیلے اللہ پر بھروسہ کیا کہ وہی مجھے کافی ہے۔ یہ آٹھ مسئلے سن کر شفیق بلخی ؒ نے فرمایا ‘‘اے حاتم ! اللہ تجھ کو توفیق دے، میں نے جو علوم قرآن ،توریت،انجیل اور زبور پر نظر کی تو ان سب کی اصل انہی مسائل ہشتگانہ کو پایا، وہ سب علوم ان میں آجاتے ہیں۔ (ثمرات الأوراق،ص:۲۱،۲۲) (۱)نفس و شیطان مجھ سے ہر صبح یہ تین باتیں پوچھ کر تشویش میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں : کیا کھائے گا ، کیا پہنے گا اور کہاں رہے گا اور میں ان کو تین جواب دے کر یکسو کرلیتا ہوں : موت کھاؤں گا ، کفن پہنوں گا اور قبر میں رہوں گا ۔ (۲)جو شخص حبِّ الٰہی کا دعویٰ کرتا ہےمگر اپنے کو حرام سے نہیں بچاتا اس کا دعوئ محبت غلط ہے ، جو شخص حبِّ رسول کا دعویٰ کرتا ہے مگر غرباء و مساکین سے محبت نہیں کرتا تو اس کا دعوئ محبت غلط ہے ، جو شخص جہنم سے خوف کا دعوی ٰ کرتا ہے لیکن گناہوں سے نہیں بچتا تو اس کا دعوئ خوف ِجہنم غلط ہے ، اور جو شخص جنت کی محبت کا دعوی کرتا ہے مگر صدقہ خیرات نہیں کرتا تو اس کا دعوئ محبتِ جنت غلط ہے ۔ (۳)جس نے چار چیزوں کو چار موقعوں کے لئے موقوف کردیا وہ جنتی ہے : نیند کو قبر میں جانے تک ، فخر کو اعمال تلنے تک ، راحت و آرام کو پل صراط سے گزرنے تک ، اور شہوانی تقاضوں کو جنت میں داخل ہونے تک ۔ (۴)چار چیزیں جن کی قدر سوائے چار لوگوں کے کوئی نہیں جانتا : جوانی کی قدر __________ اس کو بوڑھے ہی پہچانتے ہیں ، عافیت کی قدر __________ اسے گرفتار ِبلا ہی جانتے ہیں ، زندگی کی قدر __________ اس کو مردے ہی جان سکتے ہیں،اور صحت کی قدر __________ اس کو بیمار ہی جانتے ہیں ۔ (۵)جلد بازی اور عجلت پسندی اگرچہ شیطانی حرکت ہے مگر پانچ مقامات اس سے مستثنیٰ ہیں ، بلکہ ان میں تعجیل مسنون ہے : کوئی مہمان آجائے تو اس کے اکرام میں جلدی کرنی چاہئے ، کسی کا انتقال ہوجائے تو تجہیز و تدفین میں جلدی کرنی چاہئے ، بچے بالغ اور نکاح کے لائق ہو جائیں تونکاح میں جلدی کرنی چاہئے ، استطاعت ہوتے ہی قرض کی ادائیگی میں جلدی کرنی چاہئے ، اور جب کوئی گناہ ہوجائے تو توبہ و استغفار میں جلدی کرنی چاہئے ۔ (۶)جب تم کوئی قصور کرو تو جلد توبہ کرلو ، اور لوگوں کے سامنے معذرت پیش نہ کرو ، کیونکہ لوگوں کے سامنے معذرت گناہ سے بدتر ہے ۔ (۷)اگر تم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی نافرمانی کرو اور دیکھو کہ اس کے انعام برابر آرہے ہیں تو اس سے ڈرو کیونکہ یہ استدراج (ڈھیل اور چھوٹ )ہے ؛ہم نے اسلاف کو دیکھا ہے کہ صغائر کو اتنا بڑا سمجھتے تھے جتنا تم کبائر کو نہیں جانتے ۔ (۸)جو شخص مال کو اپنے لئے مفید سمجھتا ہے اس نے گویا مال کو آخرت کے لئے پسند کیا ۔ (۹)یہ انصاف نہیں کہ تم اللہ کی نافرمانی پر لوگوں کو تو برا سمجھو اور اپنے آپ کو کچھ نہ کہو ۔ ( اپنے آپ سے ناراض ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو بھوکا پیاسا رکھے اور بستر پر نہ سوئے اور اس کے ساتھ ایسا سلوک کرے جیسا کسی دشمن کے ساتھ کیا جاتا ہے )۔ (۱۰)نیک عورت کی علامت یہ ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کا خوف ہو،وہ قناعت سے مالا مال ہو ، سخاوت اس کا زیور ہو، اس کی عبادت اپنے خاوند کی اطاعت ہو ، اور اس کی پوری کوشش موت کی تیاری ہو ۔اور فرماتے ہیں تم اپنے داماد اور بہنوئی کے مددگار رہو اس سے تم اپنی بیٹی اور بہن کا دین قائم رکھ سکو گے ، اور ان دونوں کے ساتھ مل کر ان کے خاوندوں کی مخالفت نہ ہونی چاہئے ، اس سے ان کا دین بگڑے گا۔ (۱۱)لوگوں نے اخلاق میں تین با تیں چھوڑدیں، اول : دوستوں سے حسن اخلاق کی قدر کرنا ، دوم : ان کے عیوب کو پوشیدہ رکھنا ، سوم : ان کی تکلیف کو برداشت کرنا ۔ (۱۲)مؤمن کی علامت یہ ہے کہ عبادات بجالائے اور اس کے باوجود روتا رہے ، اور منافق کی نشانی یہ ہے کہ عمل کو بھول جائے اور ہنستا رہے ۔ (۱۳)تین عادتیں ہیں اگر کسی مجلس میں ہوں تو اس مجلس والے رحمت سے محروم ہوتے ہیں اول : جس میں محض دنیاوی امور کا ذکر ہو ، دوم :جس میں بکثرت ہنسی ہو، سوم : جس میں لوگوں کی غیبت کی گئی ہو ۔ (۱۴)اہلِ علم سے ہمیں یہ بات پہونچی ہے کہ جھوٹا دوزخ میں کتّے کی شکل میں پھرےگا ، اور حاسد خنزیر کی شکل میں ، اور غیبت کرنے والا اورچغلخور بندر کی صورت میں مسخ ہوگا ۔