انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ابو قیس صرمہؓ نام ونسب صرمہ نام، ابو قیس کنیت، سلسلہ نسب یہ ہے،صرمہ بن ابی انس قیس بن مالک بن عدی بن عامر بن غنم بن عدی بن نجار۔ اسلام سے پہلے حضرت صرمہؓ میں چند ایسی باتیں تھیں جنہوں نے ان کو پوری قوم میں معزز بنادیا تھا دنیا ترک کی، راہب بنے،ٹاٹ پہنا، بت پرستی چھوڑی اورجنابت سے غسل کیا ان شریف خصلتوں کے بعد نصرانیت کا خیال ہوا تھا، لیکن فطرت نے خلیل بت شکن کے آستانہ پر پہنچایا اور دین حنیفی میں داخل ہوگئے،اسلام سے قبل ایک عبادت گاہ بھی بنائی اور فرماتے تھے،اعبد رب ابراھیم، میں ابراہیم کے خدا کی پرستش کرتا ہوں۔ (اصابہ:۲/۲۴۲) اس معبد میں ناپاک مرد اور عورت کو جانے کی اجازت نہ تھی، (اسد الغابہ:۹/۷۸) حضرت صرمہؓ خود بھی ایسے گھروں میں جہاں جنب اور حائضہ عورت ہو نہیں جاتے تھے۔ (اسد الغابہ:۹/۷۸) اسلام عالم پیری تھا کہ سرزمین یثرب میں اسلام کا غلغلہ بلند ہوا اور آنحضرتﷺ مدینہ تشریف لائے،انہوں نے نہایت جوش سے خیر مقدم کیا اوراسلام کے شرف سے مشرف ہوئے اس خوشی وانبساط کے موقع پر انہوں نے جو کچھ اشعار لکھے تھے وہ درج ذیل ہیں: ثوى في قريش بضع عشرة حجة ويعرض في أهل المواسم نفسه فلما أتانا واستقرت به النوى وأصبح لا يخشى ظلامة ظالم بذلنا له الأموال من جل مالنا اقول اذا صلیت فی کل بیعۃ يذكر لو يلقى صديقاً مواتيا فلم ير من يؤوي ولم ير داعيا وأصبح مسرورا بطيبة راضيا بعيد ولا يخشى من الناس باغيا وأنفسنا عند الوغى والتآسيا خانیک لا تظھر علی الاعادیا (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب،باب غزواتہ:۱/۱۱) غزوات کی شرکت سے ضعف پیری مانع رہا وفات ۱۲۰ سال کے سن میں وفات پائی ان کے اشعار سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ بدا لي أني عشت تسعين حجةً فلم ألفها لما مضت وعددتها وعشراً ولي ما بعدها وثمانيا يحسنها في الدهر إلا لياليا فضل وکمال حضرت صرمہؓ جاہلیت کے سعدی تھے،ان کا موضوع اخلاق تھا،صاحب اسدالغابہ لکھتے ہیں۔ لہ اشعار کثیرۃ حسان فیھا حکم ومایا ان کے اکثر اشعار حکمت ونصیحت سے لبریز ہیں۔ سبحوا الله شرق كل صباح عالم السر والبيان لدينا يا بني الأرحام لا تقطعوها واتقوا الله في ضعاف اليتامى واعلموا أن لليتيم ولياً ثم مال اليتيم لا تأكلوه يا بني النجوم لا تخذلوها يا بني الأيام لا تأمنوها واجمعوا امرکم علی البر والتقوی طلعت شمسه وكل هلال ليس ما قال ربنا بضلال وصلوها قصيرة من طوال ربما يستحل غير الحلال عالماً يهتدي بغير السؤال إن مال اليتيم يرعاه وال إن خذل النجوم ذو عقال واحذروا مكرها ومكر الليالي وترک الحنا واخذ الحلال حضرت ابن عباسؓ ان کے ہاں جاتے اور ان کے شعر لاتے تھے۔ (اسدالغابہ۵/۱۸) اخلاق گذشتہ واقعات میں ترک بت پرستی، اخلاق حسنہ کی طرف سبقت اور رذائل سے اجتناب و تنفر کا تذکرہ ہوچکا ہے اس سے حضرت صرمہؓ کی فطری صلاحیت معلوم ہوئی ہوگی۔ ایام جاہلیت میں حق کا قائل ہونا اورخداکی تعظیم وتقدیس بالکل غیر معمولی بات تھی ،وہ اپنے اشعار میں اکثر اللہ کا تذکرہ کرتے تھے اور عظمت کے ساتھ کرتے تھے،محمد بن اسحق صاحب سیرت کو چند اشعار ملے تھے، جن کو ہم بھی اس مقام پر نقل کرتے ہیں: يقول أبو قيس وأصبح ناصحاً أوصيكم بالله والبر والتقى فإن قومكم سادوا فلا تحسدونهم وإن نزلت إحدى الدواهي بقومكم وإن يأت غرم قادح فارفقوهم وإن أنتم أملقتم فتعففوا ألا ما استطعتم من وصاتي فافعلوا وأعراضكم، والبر بالله أول وإن كنتم دون أهل الرباسة فاعدلوا فأنفسكم دون العشيرة فاجعلوا وما حملوكم في الملمات فاحملوا وإن كان فضل الخير فيكم فأفضلوا قبول اسلام کے بعد ضعف پیری کےباوجود روزہ رکھتے اور دن بھر کھیت میں کام کرتے تھے، ایک روز شام کو مکان آئے اور افطار کے لئے کھانا مانگا، اس کے آنے میں کچھ د یر ہوئی یہ محنت سےتھکے ہوئے تھے، آنکھ لگ گئی،ابتدائے اسلام میں قاعدہ تھا کہ افطار کے وقت کوئی سوجائے تو تمام رات اور دوسرے دن تک روزہ رکھے،بیوی نے سو تادیکھا تو کہا "خیبۃ لک" تم پر افسوس ہے،صبح اٹھے تو سخت نڈھال تھے، دن چڑھے غش آگیا آنحضرتﷺ کے پاس آئے پوچھاا داس کیسے ہو؟انہوں نے واقعہ بیان کیا۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی "وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمْ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنْ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ" یعنی تم لوگ طلوع فجر تک کھانا کھاسکتے ہو، اس سہولت کو سن کر تمام لوگ باغ باغ ہوگئے۔ (بخاری،باب قول اللہ جل ذکرہ احل لکم لیلۃ،حدیث نمبر:۱۷۸۲)