انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** سیرالصحابہؓ تعارف سیرصحابہ رضی اللہ عنہم..... ایک تعارف صحابی رضی اللہ عنہ کی تعریف صحابی کے اصل معنی ساتھی اور رفیق کے ہیں؛ لیکن یہ اسلام کی ایک مستقل اور اہم اصطلاح ہے ،اصطلاحی طور پر صحابی کا اطلاق ان لوگوں پر ہوتا ہے جنھوں نے بحالت ایمان حضور صلی اللہ علیہ وسلم سےملاقات کی ہو اور ایمان ہی کی حالت میں دنیا سےرخصت ہوئے ہوں۔ (القاموس الفقہی،باب حرف الصاد:۱/۲۰۷ شیخ سعدی ابو حبیب رحمۃ اللہ علیہ) صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مقام:قرآن کریم میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں، آپﷺ کے بعد کوئی نیا نبی آنے والا نہیں ہے،قرآن کریم اور حضور ﷺ کی عملی زندگی کا نمونہ قیامت تک محفوظ رکھنے کے لیے اللہ تعالی نے ایک ایسی جماعت کو منتخب فرمایاجس کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی،صحابہ کرام کے مقام اور ان کی حیثیت کو خود اللہ تعالی نے بیان فرمایا ہے،جس میں سے چند آیتوں کا ترجمہ یہاں پیش کیا جارہا ہے،جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ صحابہ کرام اللہ کی منتخب کردہ ایک چنندہ جماعت ہیں ،ان کی صفات کا تذکرہ گزشتہ نبیوں کی کتابوں میں بھی بیان کیا گیا ہے،اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں، اللہ نے صحابہ کرام کو جنت کی خوشخبری بھی سنادی،آیات قرآنی ملاحظہ فرمائیں: (۱)"ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا ..الخ۔ (فاطر:۳۲) ترجمہ:پھر وارث بنایا ہم نے کتاب کا ان لوگوں کو جن کا ہم نے اپنے بندوں میں سے انتخاب کیا..الخ۔ "الکتاب" یعنی قرآن مجید کے پہلے وارث بالیقین صحابۂ رسول ہیں، جن کے بارے میں آیتِ مبارکہ گواہی دیتی ہے، وہ اﷲ کے منتخب بندے ہیں؛ پھر بعض مقامات پر ان منتخب بندوں کو سلامِ خداوندی سے بھی نوازا گیا، ارشاد ہے: (۲)"قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَسَلاَمٌ عَلٰی عِبَادِہٖ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی"۔ (النمل:۵۹) اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! آپ فرمادیجئے کہ تعریفات سب اﷲ کے لیے ہیں اورسلام ہو ان بندوں پر جن کو اﷲ نے منتخب فرمایا۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت سفیان ثوری رحمۃاللہ علیہ سے روایت ہے کہ اس آیت میں منتخب بندوں سے مراد "صحابۂ رسول" ہیں۔ (التفسیر المظہری:۷/۱۲۴) (۳)محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے مقابلہ میں سخت ہیں (اور)آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحم دل ہیں،تم انہیں دیکھوگے کہ کبھی رکوع میں ہیں،کبھی سجدے میں(غرض)اللہ کے فضل اور خوشنودی کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں ،ان کی علامتیں سجدہ کے اثر سے ان کے چہروں پر نمایاں ہیں،یہ ہیں ان کے وہ اوصاف جو تورات میں مذکور ہیں...الخ۔ (الفتح:۲۹) (۴)اور مہاجرین اور انصار میں سے جو لوگ پہلے ایمان لائے اور جنہوں نے نیکی کے ساتھ اُن کی پیروی کی،اللہ ان سب سے راضی ہوگیا ہے اور وہ اس سے راضی ہیں اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کررکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ،جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے،یہی بڑی زبردست کامیابی ہے۔ (التوبہ:۱۰۰) (۵)اﷲ تعالیٰ نے تم کو ایمان کی محبت عطافرمائی اور ایمان کو تمہارے دلوںمیں مرغوب کردیا، کفروفسق (گناہِ کبیرہ) عصیان (گناہِ صغیرہ) سے تم کو نفرت عطاکی، ایسے ہی لوگ اﷲ کے فضل وانعام سے راہِ راست پر ہیں۔ (الحجرات:۷) (۶)ان لوگوں کے دلوں میں اﷲ تعالیٰ نے ایمان ثبت کردیا ہے اور ان کو اپنے فیضِ غیب سے مضبوطی عطا فرمائی۔ (المجادلہ:۲۲) صحابہ کا مقام احادیث پاک میں زبانِ رسالت سے صحابہ کے چنندہ ہونے کی خوشخبری دی گئی،جن میں سے چند احادیث کا ترجمہ یہاں پیش کیا جارہا ہے: "اِنَّ اﷲَ اخْتَارَ اَصْحَابِیْ عَلٰی العٰالَمِیْنَ سِوٰی النَّبِیِّیْنَ وَالْمُرْسَلِیْنَ.... وَقَالَ فِیْ اَصْحَابِیْ کُلُّھُمْ خَیْرٌ"۔ (مجمع الزوائد:۱۰/۱۶) اﷲ تعالیٰ نے نبیوں اور رسولوں کے بعد ساری دنیا سے میرے صحابہ کو منتخب فرمایا اورفرمایا: میرے سب ہی صحابہ بھلائی والے ہیں۔ "اِنَّ اﷲَ اخْتَارَنِیْ وَاخْتَارَ لِیْ اَصْحَابِیْ...الخ"۔ (الفتح الکبیر فی ضم الزیادۃ إلی الجامع الصغیر، باب حرف الھمزۃ، حدیث نمبر:۳۲۲۴، صفحہ نمبر:۱/۲۹۷) اﷲ نے میرا انتخاب فرمایا اور میرے لیے میرے صحابہ کا انتخاب فرمایا ۔ "خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ"۔ (بخاری، باب لایشھد علی شھادۃ جور، حدیث نمبر:۲۴۵۸) لوگوں میں بہترین میرے قرن والے ہیں؛پھر وہ جو ان کے بعد ہیں، پھر وہ جو ان کے بعد ہیں۔ حافظ ابن ِ حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فتح الباری میں لکھا ہے :"قرنی" سے مراد صحابہ ہیں، نیز بخاری میں باب صفۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم(کتاب الفضائل ۷/۳) میں ہے کہ "بُعِثْتُ فِیْ خَیْرُ الْقُرُوْنِ بَنِیْ آدَمَ"۔ ابن آدم کے سب سے بہترلوگوں کے درمیان مجھے بھیجا گیاہے۔ اسی لیے حضرت ابن ِ مسعودؓ فرمایا کرتے تھے: صحابۂ رسول اس امت کے سب سے افضل افراد تھے، جو دل کے اعتبار سے بہت نیک،علم کے لحاظ سے سب سے پختہ اور تکلفات کے اعتبار سے سب سے زیادہ دور رہنے والے تھے۔ (رزین،مشکوٰۃ:۱/۳۲) حافظ ابن عبدالبر نے "الاستیعاب" اور علامہ سفارینی نے "شرح الدرۃ المضیئہ" میں لکھا ہے کہ جمہور ِ امت کی رائے کے مطابق صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین انبیاء علیہم السلام کے بعد سب سے افضل ہیں۔ (مقدمۃ لاستیعاب تحت الاصابۃ:۱/۲) صحابہ سے متعلق امت مسلمہ کو ہدایت قرآن کریم میں اور احادیث میں صحابہ کرامؓ کی مدح وثناء کی گئی اور ان کو جنت کی بشارت دی گئی اور اسی کے ساتھ امت کو ان کے ادب واحترام اور ان کی اقتداء کا حکم بھی دیا گیا ہے، ان میں سے کسی کو برا کہنے پر سخت وعید بھی فرمائی ہے ،ان کی محبت کورسول اللہﷺ کی محبت، ان سے بغض کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض قرار دیا گیا ہے، اس سلسلہ کی چند احادیث ملاحظہ فرمائیں: "خَیْرُالْقُرُوْنِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ"۔ (مسلم:کتاب فضائل الصحابۃ،حدیث نمبر:۴۶۰۰) میرے عہد کے مسلمان بہترین مسلمان ہیں پھر ان کے بعد آنے والے پھر ان کے بعد آنے والے۔ "عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ"۔ (مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، حدیث نمبر:۴۶۱۰) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میرے صحابہ کو برا نہ کہو؛اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرو تو وہ ان کے ایک مد بلکہ اس کے نصف خرچ کرنے کے برابر بھی نہیں ہوسکتا۔ ایک اور روایت میں آپ نے ارشاد فرمایا: "قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي لَاتَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ وَمَنْ آذَى اللَّهَ يُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ"۔ (ترمذی، بَاب فِيمَنْ سَبَّ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم،حدیث نمبر ۳۷۹۷) لوگو! میرے صحابہ کے معاملہ میں اللہ سےڈرو اللہ سے ڈرو میرے بعد ان کو نشانہ نہ بناؤ ،جس نے ان سے محبت کی اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے در حقیقت مجھ سے بغض رکھا ،جس نے ان کو اذیت پہنچائی اس نے مجھ کو اذیت پہنچائی اور جس نے مجھ کو اذیت پہچائی اس نے اللہ کو اذیت پہنچائی اور جس نے اللہ کو اذیت پہنچائی قریب ہے کہ اللہ تعالی اس کو پکڑلے۔ حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: خدا کی قسم ہے کہ صحابہ کرام میں کسی شخص کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی جہاد میں شریک ہونا جس میں اس کا چہرہ غبار آلود ہوجائے غیر صحابہ سے ہر شخص کی عمر بھر کی عبادت وعمل سے بہتر ہے اگرچہ اس کو عمر نوح(علیہ السلام)عطا ہوجائے۔ (ابوداؤد،باب فی الخلفاء،حدیث نمبر۴۰۳۱) صحابہ کی شان میں گستاخی کرنے والے کا حکم اگر کوئی شخص صحابہ کی شان میں گستاخی کرے تو اس کے فاسق العقیدہ ہونے میں تو کوئی کلام نہیں، لیکن تکفیر میں اختلاف ہے ،فقہائے احناف میں عبدالرشید طاہر البخاری نے لکھا ہے کہ اگر کوئی رافضی شیخین کی شان میں گستاخی کرے اور لعنت بھیجے تو وہ کافر ہے۔ (خلاصۃ الفتاوی:۴/۳۸۱) ملا علی قاری نے بھی مشائخ سے اس طرح کی بات نقل کی ہے لیکن اس کو از روئے قواعد مشکل قرار دیا ہے ۔ (شرح فقہ اکبر:۲۲۹) فقہاء مالکیہ میں علامہ دردیر نے ایسے شخص کو کافر تو قرار نہیں دیا ہے لیکن صحابہ اور اہل بیت کی تنقیص کرنے والوں کو شدید تعزیر کا مستحق قرار دیا ہے (الشرح الصغیر۴/۴۴۴)علامہ صاوی مالکی نے نقل کیا ہے کہ قول معتمد یہ ہے کہ خلفاء اربعہ کی اہانت یا تکفیر کی وجہ سے کفر کافتوی تو نہیں لگایا جائے گاالبتہ تعزیر کی جائے گی لیکن سحنون مالکی نے خلفاء اربعہ کو کافر کہنے والوں کو مرتد قرار دیا ہے نیز صاوی نے یہ بھی لکھا ہے کہ جو تمام صحابہ کی تکفیر کرے وہ بالاتفاق کافر ہے۔ (حاشیہ صاوی علی الشرح الصغیر:۴/۴۴۔۴۴۳) غرض اگر از راہ احتیاط صحابی کی شان میں گستاخی کو کفر قرار نہ دیا جائے تب بھی اس کے قریب بہ کفر ہونے میں شبہ نہیں ؛اسی لیے سلف نے مشاجراتِ صحابہ پر گفتگو کرنے سے بھی منع کیا ہے ،افسوس کہ گزشتہ نصف صدی میں ایسی کتابیں منظر عام پر آئی ہیں جن میں ناحق صحابہ کے اختلاف کو زیر بحث لایا گیا ہے اور آخر یہ بحث کہیں تو ناصبیت کے درجے کو پہنچ گئی ہے اور کہیں اس کی سرحد تشیع سے جاملی ہے ،حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کا عمل خدمت نہیں بلکہ بد خدمتی ہے اور ایک ایسی راہ پر بے احتیاطی سے قدم رکھنا ہے جو شیشہ سے زیادہ نازک اور بال سے زیادہ باریک ہے، فالی اللہ المشتکی وبہ التوفیق۔ خصوصیات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین عام افراد امت سے صحابہ کرام کو بچند وجوہ خاص امتیاز حاصل ہے : (۱)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کی برکت سے اللہ تعالی نے ان کو ایسا بنادیا تھا کہ شریعت ان کی طبیعت بن گئی تھی خلاف شرع ان سے کوئی کام یا گناہ صادر ہونا انتہائی شاذ ونادر تھا ان کے اعمال صالحہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دین اسلام پر اپنی جانیں اور مال واولاد سب کو قربان کرنا اور ہر کام پر اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضیات کے اتباع کو وظیفہ زندگی بنانا اور اس کے لیے ایسے مجاہدات کرنا جس کی نظیر پچھلی امتوں میں نہیں ملتی ایسے بےشمار اعمال صالحہ اور فضائل وکمالات سے صحابہ کرام مزین تھے۔ (۲)اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت وعظمت اور ادنی گناہ کے صدور کے وقت ان کا خوف وخشیت اور فوراً توبہ کرنا بلکہ اپنے آپ کو سزا جاری کرنے کے لیے پیش کردینا اور اس پراصرار کرناروایات حدیث میں معروف ومشہور ہے، بحکم حدیث توبہ کرلینے سے گناہ مٹادیا جاتا ہے اور ایسا ہوجاتا ہے کہ کبھی گناہ کیا ہی نہیں۔ (۳)قرآنی ارشاد کے مطابق انسان کی حسنات بھی اس کی سیئات کا خود بخود کفارہ ہوجاتی ہیں: "اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّئَاتِ"۔ (ھود:۱۱۴) (۴)اقامت دین اور نصرت اسلام کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انتہائی عسرت اور تنگدستی اور مشقت ومحنت کے ساتھ معرکے سر کرنا کہ اقوام عالم میں ان کی نظیر نہیں ملتی۔ (۵)ان حضرات کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور امت کے درمیان واسطہ اور رابطہ ہونا کہ باقی امت کو قرآن وحدیث اور دین کی تمام تعلیمات انھیں حضرات کے ذریعے پہنچی ان میں خامی اور کوتاہی رہتی تو قیامت تک دین کی حفاظت اور دنیا کے گوشہ گوشہ میں اشاعت کا کوئی امکان نہیں تھا ،اس لیے حق تعالی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت وبرکت سے ان کے اخلاق وعادات ان کی حرکات وسکنات کو دین کے تابع بنادیا تھا ،ان سے اول تو گناہ صادر ہی نہ ہوتا تھا اور اگر عمر بھر میں کبھی شاذ ونادر کسی گناہ کا صدور ہوگیا تو فوراً اس کا کفارہ توبہ استغفار اور دین کے معاملہ میں پہلے سے زیادہ محنت ومشقت اٹھانا ان میں معروف ومشہور تھا۔ (۶)حق تعالی نے ان کو اپنے نبی کی صحبت کے لیے منتخب فرمایا اور دین کا راستہ اور رابطہ بنایا تو ان کو خصوصی اعزاز بھی عطا فرمایا کہ اسی دنیا میں ان سب حضرات کی خطاؤں سے درگزر اور معافی اور اپنی رضا اوررضوان کا اعلان کردیا اور ان کے لیےجنت کا وعدہ قرآن میں نازل فرمادیا۔ (۷)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو ہدایت فرمائی کہ ان سب حضرات سے محبت وعظمت علامت ایمان ہے اور ان کی تنقیص وتوہین خطرہ ایمان اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتکلیف دینےکا سبب ہے۔ ان وجوہات کی بنیاد پر امت کا یہ عقیدہ قرار پایا کہ ان کی طرف کسی عیب وگناہ کی نسبت نہ کریں ان کی تنقیص وتوہین کے شائبہ سے بھی گریز کریں۔ قرآن کریم نے ان کی مدح وثنا اور ان سے اللہ تعالی کے راضی ہونے کا بھی اعلان فرمادیا جو عفو درگزر سے بھی زیادہ اونچا مقام ہے ،جن حضرات کے گناہوں اور خطاؤں کو حق تعالی معاف کرچکا تو اب کسی کو کیا حق ہے کہ ان گناہوں اور خطاؤں کا تذکرہ کرکے اپنا نامہ اعمال سیاہ کرے اور اس مقدس گروہ پر امت کے اعتقاد واعتماد میں خلل ڈال کر دین کی بنیادوں پر ضرب لگائے، اس لیے سلف صالحین نے عموماً ان معاملات میں زبان کو بند رکھنے اور خاموش رہنے کو ایمان کی سلامتی کا ذریعہ قرار دیا۔ (ملخص مقام صحابہ:۱۱۱۔۱۱۴، از مفتی محمدشفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ) صحابہ اورمحبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے نزدیک آپ ﷺ اپنی جان،اپنے مال ومتاع ،اپنی عزت وآبرو اوراپنی اولاد،عزیزواقارب سے زیادہ محبوب وعزیز تھے،جس کی متعدد مثالیں موجود ہیں،جن میں سے دو مثالوں کو یہاں نقل کیا جارہا ہے: حضرت ابوبکر صدیق ؓرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب العمر صحابی ہیں،اسلام قبول کرنے اور اس کی نشر واشاعت کی محنت میں جان توڑ کوششوں کے کرنے کو دیکھ کر مکہ کے سرداروں کو چپ نہ رہا گیا،حتی کہ ایک دن آپ کو خوب زدوکوب کیا گیا ،عقبہ بن ربیعہ ان کے پاس آکر اپنے پیوند والے جوتوں سے انھیں مارنا شروع کیا،حالت یہ ہوئی کہ ناک پر گہرا زخم آیا،چہرہ پہچانانہ جاتا تھا۔ بہت دیر بعد ان کے قبیلہ بنو تمیم کوعلم ہوا،کپڑے میں لپیٹ کر گھر لایا گیا، صحت یابی کی امید یں ٹوٹ چکی تھیں،اللہ کے فضل نے دستگیری کی اور آپؓ دن کے آخری حصہ میں باہوش ہوئے،آنکھ کھلی اور زبان بولنے کے لائق ہوئی تو سب سے پہلا بول یہی تھا کہ:رسول اللہﷺ کیسے ہیں؟پاس بیٹھے لوگوں نے کوسنا اور برا بھلا کہنا شروع کیا کہ:جن کی وجہ سے یہ مصیبت آئی ہے،ہوش آیا توپھران ہی کا تذکرہ؟ان کی والدہ "امّ خیر" سے یہ کہتے ہوئے :صبح سے کچھ نہیں کھائے ہیں ،کچھ کھلا پلا دینا،لوگ اٹھ کر چلے گئے،جب گھر میں کوئی نہ رہا تو اماں نے کھانے کے لیے اصرار کیا؛لیکن حضرت ابوبکرؓکی بس ایک رٹ تھی کہ :رسول اللہﷺ کیسے ہیں؟جب والدہ نے ام جمیل بن خطاب ؓ کو بلالائیں انھوں نے بتایا کہ آپﷺ بہ خیر وعافیت ہیں،پوچھا کہاں پر ہیں؟ کہا:دار ابن ارقم میں تشریف فرماں ہیں،یہ سن کرحضرت ابو بکر ؓنے فرمایا:بخدا! میں اس وقت تک کچھ کھا پی نہیں سکتا جب تک کہ رسول اللہﷺ سے ملاقات نہ کرلوں،جب سارے لو گ اپنے اپنے گھر جاچکے ،تو دونوں نے سہارا دے کر رسول اللہ کی خدمت میں پہنچایا۔ (البدایہ:۳/۳۰) حضرت عروہ بن زبیر ؓکی ایک لمبی حدیث میں ہے کہ قریش نے حضرت خبیبؓ کو خریدا؛ تاکہ جنگ بدر میں اپنے مقتول آباء کے بدلے میں ان کو قتل کریں؛پھر جب پھانسی دینے کے لیے تختۂ دار پر چڑھا یا اور پوچھا کیا تم یہ گواراکرو گے کہ محمدﷺ تمھاری جگہ ہوں،حضرت خبیب ؓ بول پڑے :خدائے عظیم کی قسم ! مجھے یہ بھی گوارا نہیں کہ میرے قتل کے بدلےمیں میرے آقا کے قدمِ مبارک میں کوئی کانٹا چبھے ۔ حفاظتِ قرآن میں صحابہ کی خدمات حضور اکرمﷺ کے اس دنیا سے پردہ فرماجانے کے بعددور صحابہ میں حفاظت قرآن سے متعلق کی گئی محنتوں کا حاصل درج ذیل روایتوں سے ثابت ہوتا ہے: حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جنگ یمامہ کے فوراً بعد حضرت ابو بکر نے ایک روز مجھے پیغام بھیج کر بلوایا،میں ان کے پاس پہنچا تو وہاں حضرت عمر بھی موجود تھے حضرت ابو بکر نے مجھ سے فرمایا کہ :عمر نے ابھی آکر مجھ سے یہ بات کہی ہے کہ جنگ یمامہ میں قرآن کریم کے حفاظ کی ایک بڑی جماعت شہید ہوگئی ،اور اگر مختلف مقامات پر قرآن کریم کے حافظ اسی طرح شہید ہوتے رہے تو مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں قرآن کریم کا ایک بڑا حصہ ناپید نہ ہوجائے ،لہٰذا میری رائے یہ ہے کہ آپ اپنے حکم سے قرآن کریم کو جمع کروانے کا کام شروع کردیں ،میں نے عمرؓ سے کہا کہ جو کام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا اسے ہم کیسے کریں، عمر نے جواب دیا کہ: خدا کی قسم یہ کام بہتر ہی بہتر ہے، اس کے بعد عمر مجھ سے بار بار یہی کہتے رہے یہاں تک کہ مجھے بھی اس پر شرح صدر ہوگیا اوراب میری رائے بھی وہی ہے جو عمر ؓکی ہے ،اس کے بعد حضرت ابو بکرؓ نے مجھ سے فرمایا :تم نوجوان اور سمجھ دارآدمی ہو ہمیں تمہارے بارے میں کوئی بدگمانی نہیں ہے تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کتابت وحی کا کام بھی کرتے رہے ،لہٰذا تم قرآن کریم کی آیتوں کو تلاش کرکے انہیں جمع کرو۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: خدا کی قسم اگر یہ حضرات مجھے کوئی پہاڑ ڈھونے کا حکم دیتے تو مجھ پر اتنا بوجھ نہ ہوتا جتنا جمع قرآن کے کام میں ہوا ،میں نے ان سے کہا کہ آپ وہ کام کیسے کررہے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا ،حضرت ابو بکر نے فرمایا کہ: یہ کام بہتر ہی بہتر ہے ،اس کے بعد حضرت ابو بکر بار بار مجھ سے یہی کہتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالی نے میرا سینہ اسی رائے کے لیے کھول دیا جو حضرت ابو بکر وعمر (رضی اللہ عنہما) کی رائے تھی ،چنانچہ میں نے قرآنی آیات تلاش کرنا شروع کیا اور کھجور کی شاخوں پتھرکی تختیوں اور لوگوں کے سینوں سے قرآن کریم کو جمع کیا۔ (صحیح بخاری،کتاب فضائل القرآن،حدیث نمبر:۴۶۰۳) یہ اعلان عام کردیا گیا کہ جس شخص کے پاس قرآن کریم کی جتنی آیات لکھی ہوئی موجود ہوں وہ حضرت زید کے پاس لے آئےاورجب کوئی شخص ان کے پاس قرآن کریم کی لکھی ہوئی کوئی آیت لے کر آتا تو وہ مندرجہ ذیل چار طریقوں سے اس کی تصدیق کرتے تھے۔ ۱۔سب سے پہلے اپنی یادداشت سے اس کی توثیق کرتے ۔(حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ حافظ قرآن تھے)۔ ۲۔پھر حضرت عمر بھی حافظ قرآن تھے اور روایات سے ثابت ہے کہ حضرت ابو بکر نے ان کو بھی اس کام میں حضرت زید کے ساتھ لگادیا تھا اور جب کوئی شخص کوئی آیت لے کر آتا تھا تو حضرت زید اور حضرت عمر دونوں مشترک طور پر اسے وصول کرتے تھے۔ (فتح الباری:۹/۱۱۔بحوالہ ابن ابی داؤد) ۳۔ کوئی لکھی ہوئی آیت اس وقت تک قبول نہیں کی جاتی تھی جب تک دو قابل اعتبارگواہوں نے اس بات کی گواہی نہ دیدی ہو کہ یہ آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھی گئی تھی۔ (اتقان:۱/۶۰) ۴۔اس کے بعد ان لکھی ہوئی آیتوں کا ان مجموعوں کے ساتھ مقابلہ کیا جاتا تھا جو مختلف صحابہ نے تیار کر رکھے تھے ۔ (البرہان فی علوم القرآن للزرکشی:۱/۲۳۸) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانے میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ کے پاس(حضرت ابو بکر کے تیار کرائے ہوئے)جو صحیفے موجود ہیں وہ ہمارے پاس بھیج دیجئے،ہم ان کو مصاحف میں نقل کرکے آپ کو واپس کردیں گے ،حضرت حفصہ نے وہ صحیفے حضرت عثمان کے پاس بھیج دیے،حضرت عثمان نے چار صحابہ کی ایک جماعت بنائی، جو حضرت زید بن ثابت،حضرت عبداللہ بن زبیر،حضرت سعید بن العاص اور حضرت عبدالرحمن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہم پر مشتمل تھی،اس جماعت کو اس کام پر مأ مور کیا گیا کہ وہ حضرت ابو بکر کے صحیفوں سے نقل کرکے کئی ایسے مصاحف تیار کریں جن میں سورتیں بھی مرتب ہوں(اب یہی مصحف ساری دنیا میں قرآن کریم کی شکل میں موجود ہے) حفاظتِ حدیث میں صحابہ کی خدمات (۱)حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص فرماتے ہیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنتا تھا اسے محفوظ رکھنے کی غرض سے لکھ لیا کرتا تھا قریش کے لوگوں نے مجھے منع کیا کہ تم ہربات رسول اللہﷺ سے لکھ لیا کرتے ہو؛ حالانکہ رسول اللہﷺ ایک انسان ہیں ان پر بھی خوشی اور غصہ دونوں حالتیں طاری ہوتی ہیں؛ چنانچہ میں لکھنے سے رُک گیا اور رسول اللہﷺ کے پاس جاکر یہ بات میں نے عرض کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگشتِ مبارک سے اپنے دہنِ مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: "اكْتُبْ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَايَخْرُجُ مِنْهُ إِلَّاحَقٌّ"۔ (ابوداؤد،بَاب فِي كِتَابِ الْعِلْمِ، حدیث نمبر:۳۱۶۱) تم لکھتے رہو کیونکہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، میرے منہ سے حق بات ہی کا صدور ہوتا ہے۔ (۲)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں مجھ سے زیادہ حدیثوں کا جامع کوئی نہیں ہے سوائے عبداللہ بن عمرو کے کیونکہ وہ لکھتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا۔ (بخاری شریف، کتاب العلم، باب کتابۃ العلم:۱/۲۲) (۵)فتح مکہ کے موقعہ پر حضورﷺ نے خطبہ دیا تو ایک یمنی صحابی جن کا نام ابوشاہ تھا درخواست کی کہ ان کے واسطے یہ خطبہ لکھ دیا جائے ،حضورﷺ سے اجازت چاہی گئی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا "اُکْتُبُوْا لِاَبِیْ شَاہ" (ابوشاہ کے لیے لکھ دو)۔ (بخاری، کتاب العلم، باب کتابۃ العلم:۱/۲۲) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ کے دور میں حدیث کے کئی مجموعے (جو ذاتی نوعیت کے تھے) تیار ہوچکے تھے، جیسے صحیفۂ صادقہ، صحیفۂ علی، کتاب الصدقہ، صحفِ انس بن مالک، صحیفۂ سمرہ بن جندب، صحیفۂ سعد بن عبادہ اور صحیفۂ ہمام بن منبہ رضی اللہ عنہم، اس طرح تاریخ کی وہ کتاب یعنی حضورﷺ کی زندگی عہدِ صحابہ میں بجائے ایک نسخہ کے ہزاروں نسخوں کی صورت میں موجود ہوچکی تھی اس اعتبار سے حفاظتِ حدیث کی ایک صورت خود صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی تھی۔ دورصحابہ رضی اللہ عنہ میں فتوحات کے اسباب دور صحابہ میں اسلام اتنی تیزی سے کیسے پھیلا،اس کی وجوہات اور اسباب کیا تھے ؟اس بات پر غور کیا جائے تو واضح طور پر معلوم ہوگا کہ صحابہ حضور اکرم ﷺ کے فیض یافتہ تھے،اشاعت اسلام کے خاطر صحابہ ہر طرح کی قربانی دیا کرتے تھے، عدل وانصاف ،مساوات،حفاظتِ امانت اس جیسے اور کئی اوصاف تھے،جس کی وجہ سے اسلام تیزی سے پھیلتا گیا،جن میں سے اہم اوراصولی اسباب حسب ذیل قراردیئے جاسکتے ہیں۔ (۱)صحابہ کرام دنیا کی فتح کے لئے اٹھے تو ان کے سامنے ایک خاص مقصد تھا جس کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا مطمع نظر قرار دیا تھا، چنانچہ بخاری شریف میں ہے کہ جب آپ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو غزوہ خیبر میں علم فتح عنایت فرمایا تو ساتھ ساتھ یہ الفاظ بھی فرمائے۔ "لان یھدی اللہ بک رجلا خیرلک من حمر النعم"۔ اگر خدا تمہارے ذریعہ سے ایک شخص کو بھی ہدایت دے دے تو وہ تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ (۲)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک خود صحابہ کرام کی فتوحات کا ایک عظیم الشان سبب تھی، محبت واطاعت نے صحابہ کرام کو اس شمع ہدایت کا پروانہ بنادیا تھا، اوروہ صرف جان دے کر اس سے جدا ہوسکتے تھے۔ (۳)صحابہ کرامؓ کی فتوحات کا ایک بڑا سبب مشقت اور تکلیف کوبرداشت کرنا تھا،صحابہ کرام نے فوجی خدمات کے ادا کرنے میں جس قدر جسمانی تکلیفیں اٹھائی ہیں، اس کی نظیر سے دنیا کی مذہبی اورسیاسی تاریخ خالی ہے۔ صحابہ کرامؓ کو ایک غزوہ میں فی کس صرف ایک کھجور ملتی تھی جس کو وہ بچوں کی طرح چوس کے پانی پی لیتے تھے، درخت سےپتے جھاڑ لاتے تھے اوراس کو پانی میں بھگو کرکھالیتے تھے۔ (ابوداؤد، کتاب الاطعمہ، باب فی دواب البحر۔ مسلم، کتاب الایمان، باب من لقی اللہ بالایمان وہو غیر شاک فیہ داخل الجنتہ وحرم علی النار) غزوہ احزاب میں سامان رسد اس قدر کم تھا کہ تمام صحابہؓ مٹھی بھر جو اورمتأثر ہوئی چربی پر بسر کرتے تھے۔ (بخاری، غزوہ خندق) ایک غزوہ میں تمام صحابہ کے درمیان صرف ایک سواری تھی اس لیے پیدل چلتے چلتے تلووں میں سوراخ ہوگئے تھے ،پاؤں کے ناخن گر گر پڑتے تھے، مجبورا تمام صحابہ کو پاؤں میں چیتھڑے لپیٹنے پڑے، اسی مناسبت سے اس غزوہ کا نام ذات الرقاع پڑگیا جس کے معنی چیتھڑے کے ہیں۔ (مسلم، کتاب اللجہاد، باب غزوہ ذات الرقاع) (۴)صحابہ کرام کی فتوحات کا ایک سبب ان کا بے باکانہ اقدام تھا، چنانچہ صحابہ کرام نے مدین میں داخل ہوناچاہا تو بیچ میں دریا پڑتا تھا، لیکن اس سیلاب کو یہ دریا کیوں کر روک سکتا تھا؟ تمام صحابہ نے دریا میں گھوڑے ڈالدئے اوراس کو عبور کرکے شہر میں داخل ہونا چاہا،ایرانیوں نے اس منظر کو دیکھا تو کہا کہ دیوان آمدند اوریہ کہہ کر شہر کو خالی کردیا۔ (طبری،صفحہ نمبر:۲۴۴۱) (۵)فتوحات کا ایک سبب صحابہ کا صبر واستقلال ہے۔ ایک بار رومیوں نے مسلمانوں کے مقابل میں ایک لشکر گراں جمع کیا ،حضرت ابو عبیدہ ابن جراحؓ نے حضرت عمرؓ کو اس خطرے کی اطلاع دی تو انہوں نے لکھا کہ مسلمان بندے پر جب کوئی مصیبت نازل ہوتی ہے تو اس کے بعد خدا اس کو اطمینان وسکون عطافرماتا ہے ایک مشکل دو آسانیوں پر غالب نہیں آسکتی، خدا وند تعالی قرآن پاک میں خود کہتا ہے۔ "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ"۔ (آل عمران:۲۰۰) مسلمانوں صبرکرو، باہم صبر کی تلقین کرو، استقلال اختیار کرو اورخدا سے ڈرو شائد تم کامیاب ہوجاؤ۔ (۶)اگر فوج میں ایک بددیانت سپاہی بھی شامل ہے تو وہ پوری فوج کی مادی اوراخلاقی طاقت کو بے اثر کرسکتا ہے، اس کو حرص و طمع ہر قسم کی منافقت پر آمادہ کرسکتی ہے، وہ ہر قسم کی نمک حرامی کرسکتا ہے، وہ درپردہ دشمن کا جاسوس بن سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ چند پیسوں پر اپنے فوجی مقصد کو قربان کرسکتا ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا قول ہے۔ "مَاظَهَرَ الْغُلُوْل فِي قَوْم قطّ إلاألْقَى اللَّه فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْب"۔ (طبری،صفحہ نمبر:۲۶۹۶) کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں خیانت پیدا ہو اور مرعوب نہ ہو جائے۔ لیکن صحابہ کرام نے قیصر و کسریٰ کے دربار کے سامان دیکھے ، دنیا نے ان کے آگے اپنا خزانہ اگل دیا، ان کے سامنے زر وجواہر کے انبار لگ گئے، تاہم ان میں کوئی چیز ان کی دیانت کو صدمہ نہ پہونچا سکی، ایران کی فتح کے بعد جب دربار خلافت میں کسریٰ کی مرصع تلوار اور زریں کمر بند آیا تو حضرت عمرؓ نے ان کو دیکھ کر فرمایا کہ جس قوم نے ان چیزوں کو ہاتھ نہیں لگایا وہ ایک دین دار قوم ہے۔ یہی دیانت تھی جس نے صحابہ کے سامنے فتوحات کے دروازے کھول دیئے تھے (طبری،صفحہ۲۶۹۰) (۷)صحابہ کرام کے فتوحات کا ایک سبب ان کا مساویانہ طرز عمل تھا، اسلامی فوج میں اصول مساوات سے ذرہ برابر تجاوز نہیں کیا جاسکتا تھا، جنگ ایران میں حضرت ابو عبیدہؓ سپہ سالار تھے ان کے سامنے چند ایرانی رئیسوں نے نہایت لذیذ کھانے پیش کئے تو انہوں نے پوچھا کیا تم نے اسی طرح کے کھانوں سے تمام فوج کی ضیافت کی ہے؟ بولے نہیں فرمایا ابو عبیدہ بدترین شخص ہوگا اگر ایک قوم کوساتھ لے کر آئے جو اس کے آگے اپنا خون بہائے اورپھر وہ اپنے آپ کو ان پر ترجیح دے وہ وہی کھائے گا جس کو سب لوگ کھاتے ہیں۔ (طبری ،صفحہ نمبر:۲۱۷۱) اس مساوات نے خود مخالفین کو یقین دلادیا تھا کہ اس قوم کے سامنے اب ان کے عرش کے پائے متزلزل ہوجائیں گے، چنانچہ جب رومیوں سے جنگ ہوئی تو "قینقلاء" نے ایک عربی جاسوس کو بھیجا کہ مسلمانوں کی اخلاقی حالت کا پتہ لگائے اس نے پلٹ کر خبردی کہ یہ لوگ راتوں کو تو راہب رہتے ہیں اور دن کو شہسوار بن جاتے ہیں، اگر ان کے بادشاہ کا لڑکا بھی کوئی چیز چرائے تو اس کے ہاتھ کاٹ لیتے ہیں اوراگر زنا کرے تو اس کو سنگسار کرتے ہیں، یہ سن کر قینقلاء خود بول اٹھا کہ، اگریہ سچ ہے تو میرے لئے یہی بہتر ہے کہ میں پیوند خاک ہوجاؤں۔ (ایضا،۲۱۲۶) (۸)صحابہ کرام کی فتوحات کو ذمیوں کی ہمدردی اور اعانت نے بھی بہت کچھ ترقی دی،کیونکہ صحابہ کرام نے ذمیوں کے ساتھ جو سلوک کیا اس نے ان کو اس قدر گرویدہ کرلیا کہ جب یرموک میں رومیوں سے معرکہ آرائی ہوئی اور صحابہ کرام نے اس خیال سے کہ اب وہ ذمیوں کی جان و مال کی حفاظت نہیں کرسکتے، جزیہ و خراج کی کل رقم ان کو واپس کردی، تو اہل حمص نے کہا کہ تمہاری عادلانہ حکومت ہم کو اپنی قدیم ظالمانہ حکومت سے زیادہ پسند ہے ،ہم تمہارے عامل کے ساتھ ہر قل کی فوج سے معرکہ آرا ہوں گے یہودیوں نے تورات کی قسم کھا کر کہا کہ جب تک ہم مغلوب نہ ہوجائیں ہر قل کا عامل حمص میں داخل نہیں ہوسکتا۔ (فتوح البلدان: ۱۴۴) صحابہ کرام کے حریفوں کو اس طرز عمل نے خود یقین دلادیا تھا کہ یہ جو قوم معاہدہ کی اس قدر پابند ہو اس کی اخلاقی طاقت کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ،چنانچہ جب مسلمانوں کی فوج سے ایک رومی قیدی بھاگ نکلا اور ہر قل نے اس سے مسلمانوں کے حالات پوچھے تواس نے کہا کہ وہ لوگ دن کو شہسوار اوررات کو راہب ہوتے ہیں جس قوم سے معاہدہ کرتے ہیں اس سے ہر چیز بہ قمیت لے کر کھاتے ہیں اور جس شہر میں داخل ہوتے ہیں امن و امان کے ساتھ داخل ہوتے ہیں، ہر قل نے یہ سن کر کہا کہ اگر یہ سچ ہے تو وہ میرے ان دونوں قدموں کے نیچے کی زمین تک کے مالک ہوجائیں گے۔ (طبری، صفحہ نمبر:۲۳۹۵) (۹)صحابہ کرام کی فتوحات کا ایک سبب ان کا اتحاد تھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی صحابہ کرام نے اس اتحاد کو قائم رکھا اور جب اس میں کسی قسم کا ضعف پیدا ہوا تو اس کی اصلاح کی، ایک بار حضرت عمرؓ کو خبر ہوئی کہ قریش نے مختلف مجلسیں قائم کرلی ہیں اور باہم مل جل کر نہیں بیٹھتے تو ان کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا کہ مجھے معلوم ہوا کہ تم لوگوں نے مختلف مجلسیں قائم کرلی ہیں اوراب یہ امتیاز قائم ہوگیا ہے کہ لوگ کہتے ہیں یہ فلاں کا دوست ہے ،خدا کی قسم یہ تمہارے مذہب کو، تمہارے شرف کو اورتمہارے تعلقات کوبہت جلد برباد کردے گا، اورگویا میں ان لوگوں کو دیکھ رہا ہوں جو اس کے بعد کہیں گے کہ یہ فلاں کی رائے ہے، اور اسلام کے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالیں گے، ایک ساتھ نشست و برخاست کرو، کیونکہ وہ ہمیشہ تمہاری محبت کو قائم رکھے گا اوردشمن تمہارے اجتماع کو دیکھ کر مرعوب ہونگے۔ (طبری، صفحہ نمبر:۲۷۵۶) (۱۰)ان اسباب کے علاوہ اور دوسرے اخلاقی اوصاف ؛مثلا مذہبی پابندی،وفا، صدق، اصلاح اور مواسات وغیرہ نے بھی صحابہ کرام کی فتوحات کو بہت کچھ ترقی دی، صحابہ کرام کی مادی طاقت کا غیر قوموں پر کوئی اثر نہیں پڑسکتا تھا، چنانچ عجمیوں نے جب ان کے تیر دیکھے تو نہایت حقارت آمیز لہجے میں کہا کہ، یہ تکلے ہیں، لیکن ان کی روحانیت عجمیوں کے بڑے بڑے جنرلوں کو مرعوب کردیتی تھی، ایک بارمقام قادسیہ میں صبح کی اذان ہوئی تو تمام صحابہ اس تیزی سے نماز ادا کرنے کے لئے دوڑے کہ ایرانیوں کو دھوکا ہوا کہ حملہ کرنا چاہتے ہیں، لیکن جب رستم نے دیکھا کہ وہ ایک روحانی آواز پر اس قدر جلد جمع ہوجاتے ہیں تو خود بخود بول اٹھا کہ عمرمیرا کلیجہ کھا گیا۔ (طبری،صفحہ نمبر:۲۲۹۱) اسی جنگ میں جب ایک ایرانی گرفتار ہوا اور اس نے مسلمانوں کے اخلاقی منظر کو دیکھا تو مسلمان ہوگیا اورکہا کہ جب تک تم میں یہ وفا، یہ صداقت ،یہ اصلاح ، یہ مواسات ہے تم لوگ شکست نہیں کھاسکتے۔ (طبری،صفحہ نمبر:۲۲۶۴) (۱۱)بعض اوقات صحابہ کرام کی ظاہری شان و شوکت ،کچھ کم موثر اور ان کا ظاھری جوش وخروش بھی کچھ کم مرعوب کرنے والانہ تھا، حضرت حارث بن یزیدؓ بکری کا بیان ہے کہ میں مدینہ آیا تو دیکھا کہ مسجد کھچا کھچ بھری ہوئی ہے، سیاہ جھنڈیاں لہرا رہی ہیں، حضرت بلالؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تلوار لگائے ہوئے کھڑے ہیں، میں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا آپ ﷺ عمروبن العاصؓ کو ایک مہم پر روانہ فرما رہے ہیں۔ (ترمذی،تفسیر القرآن سورہ ذاریات) (۱۲)صحابہ کرام کو ان کی مستعدی اورسرگرمی نے بھی غزوات میں بہت کچھ کامیاب کیا اوران کو مختلف جنگی خطرات سے محفوظ رکھا۔ (ملخص سیر صحابہ:ج،۵ حصہ دوم:۱۷۶) خلاصہ دنیا کی محبت صحابہ کے دلوں سے نکل چکی تھی،صحابہ نے اشاعتِ اسلام کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیا تھا، الغرض! جن صفات پر اللہ نے خلافت ارضی اور آخرت کی کامیابی کا وعدہ فرمایا تھا وہ پورا ہوا،اس ارشاد خدا وندی پر غور کیجیے: تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئےہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں ،ان سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں ضرور زمین میں اپنا خلیفہ بنائے گا،جس طرح اُن سے پہلے لوگوں کو بنایا تھا اوران کے لیے اس دین کو ضرور اقتدار بخشے گا جسے ان کے لیے پسند کیا ہے اور ان کو جو خوف لاحق رہا ہے اس کے بدلے انہیں ضرور امن عطا کرے گا (بس) وہ میری عبادت کریں میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں،اور جو لوگ اس کے بعد بھی ناشکری کریں گے تو ایسے لوگ نافرمان ہوں گے،اور نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور رسول کی فرماں برداری کرو تاکہ تمہارے ساتھ رحمت کا برتاؤ کیا جائے۔ (النور:۵۵۔۵۶) اس آیت میں خلافت ارضی کا وعدہ اللہ تعالی نے چند صفات کے ساتھ مقید فرمایا ہے،یعنی ایمان،عمل صالح،خالص اللہ کی عبادت، ہر قسم کے شرک سے اجتناب،نمازوں کی پابندی،زکوۃ کی ادائیگی اور سب سے اہم بات رسول اللہﷺ کی اطاعت،یہ صفات صحابہ کرام میں مجموعی طور پر پوری طرح پائی جاتی تھیں،صحابہ کرام کی روحانیت مادیت پر غالب تھی،ان حضرات کو ہر کام میں اللہ اور اس کے رسول کی رضا مقصود ہوتی تھی،اللہ تعالی نے دور صحابہ میں اپنے اس وعدہ کو پورا کردکھایا،اور قیامت تک اللہ کا یہ وعدہ برحق ہے کہ جب کبھی اور جن لوگوں میں یہ صفات پیدا ہوں گی اللہ تعالی ان کو صحابہ کی طرح کامیابی عطا فرمائے گا۔ سنتِ صحابہ رضی اللہ عنہم صحابہ کے اقوال وافعال وتقریرات جن کو اصطلاح میں اثر واٰثار سے بھی تعبیر کرتے ہیں نیز تابعین کے اقوال وافعال کو بھی اثر کہتے ہیں اور صحابہ وتابعین سے منقول امور کے درمیان فرق کے لیے سنت صحابہ کو حدیث موقوف اور تابعین سے منقول امور کو مقطوع کہتے ہیں اور حضورﷺ کی سنت کو حدیث مرفوع کہتے ہیں۔ سنتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی اہمیت وحجت سنت صحابہؓ کی اہمیت وحجت یعنی شرعی دلیل ہوناان کی اس عظمت وشرف سے ظاہر ہے جس سے اللہ نے ان کو نوازا تھا؛ نیز حضورﷺ سے اور ان کے ارشادات سے جن کا تعلق خاص طور سے اسی موضوع سے ہے ،حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم حضورﷺ کی صحبت سے مستفید ہونے اور نزول وحی کے زمانے کو پانے کی وجہ سے شریعت کے احکام اور اللہ ورسول کے منشا ومراد سے سب سے زیادہ واقف اور اس کو سمجھنے والے تھے، اس لیے ان کے اقوال وافعال وتقریرات لائق اقتدا ہیں نیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کا ارشاد نقل فرمایا ہے کہ: صحابہ کے اختلاف کے باوجود جو آدمی ان کی کسی چیز کو اپنائے گاوہ میرے نزدیک ہدایت پر ہوگا،اس طرح کی اور کئی احادیث ہیں جن کی بنا پر ائمہ اربعہ اور تمام معتبر معتمد علماء وفقہاء ان کے اقوال وفتاوی کو حجت بنانے اور ماننے پر متفق ہیں۔ (المدخل،فصل فی العالم والکیفیۃ نیتہ:۱/۱۰۴۔ اعلام الموقعین،وجوب اتباع الصحابۃ والتابعین:۴/۱۳۹۔ اصول الفقہ از عبیداللہ اسعدی،سنت صحابہ:۲۰۹) صحابہ رضی اللہ عنہم کی تعداد ابوزرعہ رازی کا قول ہے کہ آپ کی وفات کے وقت جن لوگوں نے آپ کو دیکھا اورآپ سے حدیث سنی ان کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی(تجرید:/۳) جن میں مرد اور عورت دونوں شامل تھے اوران میں ہر ایک نے آپ سے روایت کی تھی (مقدمہ اصابہ :۳) ابن فتحون نے ذیل استیعاب میں اس قول کو نقل کرکے لکھا ہے کہ ابوزرعہ نے یہ تعداد صرف ان لوگوں کی بتائی ہے جو رواۃ حدیث میں تھے، لیکن ان کے علاوہ صحابہؓ کی جو تعداد ہوگی وہ اس سے کہیں زیادہ ہوگی (ایضاً) بہرحال اکابر صحابہؓ کے نام ان کی تعداد اوران کے حالات تو ہم کو صحیح طورپر معلوم ہیں، لیکن ان کے علاوہ ہم اورصحابہ کی صحیح تعداد نہیں بتاسکتے،اسد الغابہ میں لکھا ہے کہ خود صحابہؓ کے زمانہ میں مشاغل دینیہ نے صحابہ کو یہ موقع نہ دیا کہ وہ اپنی تعداد کو محفوظ رکھیں (مقدمہ اسد الغابہ :۳) اس کے علاوہ اکثر صحابہ ؓ صحرانشین بدوی تھے، اس لیے ایسی حالت میں ان کا گمنام رہنا ضروری تھا۔ (مقدمہ اصابہ :۴) صحابہ رضی اللہ عنہم کازمانہ صحابہ کرام کا مبارک زمانہ ابتدائے بعثت سے شروع ہوکر پہلی صدی کے آخر تک ختم ہوگیا اوراس طرح رسول اللہ ﷺ کی معجزانہ پیشین گوئی پوری ہوئی جو ان الفاظ میں کی گئی ہے۔ "فَإِنَّ رَأْسَ مِائَةٍ لَا يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ الْيَوْمَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ"۔ (بخاری، کتاب موقیت الصلوٰۃ،بَاب السَّمَرِ فِي الْفِقْهِ وَالْخَيْرِ بَعْدَ الْعِشَاءِ،حدیث نمبر:۵۶۶) ترجمہ:جو لوگ آج روئے زمین پر موجود ہیں ان میں سے سو سال کے بعد کوئی باقی نہ رہے گا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت کا مطالعہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین دین کی بنیاد ہیں، دین کے اول پھیلانے والے ہیں، انہوں نے حضور اقدسﷺ سے دین حاصل کیا اور ہم لوگوں تک پہنچایا، یہ وہ مبارک جماعت ہے کہ جس کو اللہ جل شانہ نے اپنے نبی پاکﷺ کی مصاحبت کے لیے چنا اور اس بات کی مستحق ہے کہ اس مبارک جماعت کو نمونہ بناکر اس کا اتباع کیا جائے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے جسے دین کی راہ اختیار کرنی ہے تو ان کی راہ اختیار کرے جو اس دنیا سے گزر چکے ہیں اور وہ حضرت محمدﷺ کے صحابہ ہیں جو اس امت کا افضل ترین طبقہ ہے ،قلوب ان کے پاک تھے، علم ان کا گہرا تھا، تکلف اور بناؤٹ ان کے اندر نہیں تھی،اللہ جل شانہ نے انھیں اپنے نبی کی صحبت اور دین کی اشاعت کے لیے چنا تھا، اس لیے ان کی فضیلت کوپہچانو ان کے نقش قدم پر چلو اور طاقت بھر ان کے اخلاق اور ان کی سیرتوں کو مضبوط پکڑو ،اس لیے کے وہی ہدایت کے راستے ہیں۔ (مشکوۃ،باب اعتصام بالکتاب والسنۃ ،حدیث نمبر:۱۹۳،ازرزین) انسان کے فرائض میں سب سے مقدم اور سب سے اہم فرض یہ ہے کہ اخلاق انسانی کی اصلاح کی جائے ،علم اور فن،تہذیب وتمدن،صنعت وحرفت تمام چیزیں دنیا میں آئیں اور آتی رہیں گی؛ لیکن انسانیت کو تہذیب سے آراستہ کرنا بہت ضروری تھا اس لیے دنیا میں جب سب سے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام کو بھیجا گیا تو اسی ذمہ داری کے ساتھ بھیجا گیا پھر ان کے بعد آنے والے بڑے بڑے پیغمبر اسی سلسلے کو یعنی تہذیب نفوس کو آگے بڑھاتے رہے اس کے بعد سب سے آخر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام کمالات کا مجموعہ بناکر بھیجا گیا اور پھر اعلان کردیا گیا کہ : "اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاۭ"۔ (المائدہ: ۳) آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کومکمل کردیا ،تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لیے) پسند کرلیا۔ اب انسانوں کے اخلاق سدھارنے کے لیے قیامت تک کوئی نیا نبی آنے والا نہیں ہے،اگر کوئی انسان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا مطالعہ کرنا چاہے یا آپ کی تربیت کا انداز دیکھنا چاہے ،آپ کے اقوال وافعال اور اعمال کا نمونہ دیکھنا چاہےتو وہ صحابہ کرام کی مقدس جماعت ہے،صحابہ کرام کی زندگیوں کا مطالعہ ایمانی کیفیت کو بڑھاتا ہے، زندگی کے اصول سکھاتا ہے،عقائد ،عبادات ،معاشرت اورمعاملات انسان کے درست ہوتے ہیں، سنت اور بدعت کی پہچان ہوتی ہے۔ اس زمانے کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ صحابہ کرام کی مقدس زندگی کو دنیا کے سامنے اس طرح پیش کیا جائے جس سے لوگوں میں شوق عمل پیدا ہو اور اس مثال کو پیش نظر رکھ کر لوگ خود بخود اپنے عقائد واعمال کی طرف مائل ہوں۔ (خلاصہ سیر الصحابہ:۵/۷) جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی کو پہچاننے کے لیے حضرات صحابہ ہی کی زندگی معیار ہوسکتی ہے کیونکہ یہی وہ مقدس جماعت ہے جس نے براہ راست حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادہ کیا اور آپ کی نبوت کی روشنی بغیر کسی پردہ اور بغیر کسی واسطے کے صحابہ کرام پر پڑی ان میں جو ایمان کی حرارت اور نورانی کیفیت تھی وہ بعد والوں کو میسر آنا ممکن نہ تھی، اس لیے قرآن کریم نے صحابہ کرام کی پوری جماعت کی تقدیس وتعریف فرمائی ہے اور جماعت صحابہ کو مجموعی طور پر "رضی اللہ عنہم ورضو عنہ" فرمایا یعنی اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، صحابہ کرام راستہ پانے والے اور راستہ دکھانے والے ہیں ،اسی غرض سے آئندہ صفحات میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کی سیرت کو پیش کیا جارہا ہے ۔