انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت ہشیم بن بشیر الواسطیؒ نام ونسب ہشیم نام اورابو معاویہ کنیت تھی،نسب نامہ یہ ہے،ہشیم بن بشیر بن ابی حازم القاسم بن دینار (تہذیب التہذیب:۱۱/۵۹)بنو سلیم کے غلام تھے،اس لیے سلمی کہلاتے ہیں (طبقات ابن سعد:۷/۶۱) اور واسطی وطن کی طرف نسبت ہے۔ مولد ووطن ہشیم ۱۰۴ھ میں بمقام واسطہ پیدا ہوئے،پھر ایک عرصہ کے بعد مرکز علم وفن بغداد منتقل ہوگئے تھے اورآخر عمر تک وہیں رہے،(تاریخ بغداد:۱۴/۸۵)بعض علماء کا خیال ہےکہ وہ بخاری الاصل تھے۔ (تہذیب التہذیب:۱۱/۵۹) تحصیل علم اورابتدائی حالات ابتداء میں مقامی علماء سے مستفید ہوئے،اس کے بعد تشنگی علم نے انہیں دور دراز کے ممالک کے چشموں تک پہنچایا اوروہاں انہوں نے ممتاز اورکبار فضلاء کے معدن فضل وکمال سے اپنے ذہن ودماغ کو مالا مال کیا؛چنانچہ مکہ میں انہوں نے امام زہری اورعمر بن دینار سے سماع حاصل کیا،ہشیم کے والد اموی خلیفہ حجاج بن یوسف ثقفی کے باورچی تھے،پھر اس کے بعد تجارت کا پیشہ اختیار کرلیا تھا، ان کی خواہش تھی کہ ہشیم بھی ان کے کاروبار میں ہاتھ بٹائیں اس لیے وہ ان کو طلبِ علم سے روکتے تھے،لیکن وہ ان کے علی الرغم تحصیل علم میں ہمہ تن مشغول رہے۔ اتفاق سے ایک مرتبہ ہشیم سخت بیمار پڑ گئے،قاضی واسط ابو شیبہ کو اس کی اطلاع ہوئی تو وہ اپنے تلامذہ اورعوام کے ایک جم غفیر کے ہمراہ عیادت کو تشریف لائے بشیر بن ابی حازم کے حاشیہ خیال میں بھی نہ آسکتا تھا کہ قاضی وقت ان کے غربت کدہ کو کبھی اپنی تشریف آوری سے زینت بخشے گا، اس لیے وہ اپنے اس غیر متوقع اعزاز پر فرطِ مسرت سے بے قابو ہوگئے،اوراپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ابلغ من امرک ان جاء القاضی الی منزلی لا امنعک بعد ھذا الیوم من طلب الحدیث (طبقات ابن سعد:۷/۱۸۴) تمہاری وجہ سے قاضی میرے گھر تشریف لائے آج کے بعد میں تمہیں طلب حدیث سے نہ روکوں گا۔ فضل وکمال علم وفضل کے اعتبار سے ہشیم بلند مرتبہ حفاظ حدیث میں تھے، متعدد تابعین کرام سے صحبت اورکسبِ فیض کا شرف حاصل تھا،حفظ و اتقان اور عبادت وللہیت میں بھی درجہ کمال پر فائز تھے،بغداد میں اپنے زمانہ کے رئیس المحدثین تھے،اسی بنا پر "محدث بغداد"ان کا لقب ہی پڑ گیا تھا،علامہ ذہبیؒ انہیں "الحافظ احد الاعلام" لکھتے ہیں (میزان الاعتدال:۱/۲۵۷)حافظ ابن کثیر رقمطراز ہیں کہ "کان ھشیم من سادات العلماء" ان کا حافظہ اتنا قوی تھا کہ بیس ہزار حدیثیں زبانی یاد تھیں (مرأۃ الجنان:۱/۳۹۳) حافظ ذہبی نے تذکرہ میں "الحافظ الکبیر محدث العصر" لکھ کر ان کے علم وفضل کا اعتراف کیا ہے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۲۵) حدیث انہوں نے تحصیل علم کے لیے بہت سے دوردراز ملکوں کا سفر کیا اور پھر حدیث میں انہیں اتنا عبور حاصل ہوگیا تھا کہ اساتذہ عصر میں شمار کیے جانے لگے،علامہ ابن سعدؒ نے ‘کان ثقۃ کثیر الحدیث حجۃ’(طبقات ابن سعد:۷/۶۱)کے الفاظ سے ان کے کمال فنی کو سراہا ہے جن علماء وائمہ سے وہ مستفید ہوئے ان میں کچھ ممتاز اورلائقِ ذکر نام یہ ہیں:قاسم بن مہران،یعلی بن عطاء،عبدالعزیز بن صہیب،اسماعیل بن ابی خالد،عمرو بن دینار امام زہری، یونس بن عبید،ایوب السختیانی،ابن عون، اشعث بن عبدالملک،منصور بن زاذان،مغیرہ بن مقسم،سلیمان الاعمش ،حمید الطویل،عطاء بن السائب اوریحییٰ بن سعید الانصاری۔ تلامذہ ان کے حلقہ بگوشوں کی فہرست بھی کافی طویل ہے؛کیونکہ ہشیم نے واسطہ کے علاوہ بغداد،بصرہ،کوفہ اورمکہ وغیرہ دوسرے ملکوں میں بھی بساطِ سرس آراستہ کی تھی، ان سے مستفید ہونے والے جو علماء آسمان علم کا اخترِ تاباں بنے ان میں امام مالک بن انس ،سفیان ثوری،شعبہ،عبداللہ بن مبارک، یحییٰ بن سعید القطان،عبدالرحمن بن مہدی،غندر،وکیع بن الجراح،یزید بن ہارون،قتیبہ بن سعید،احمد بن حنبل ، یحییٰ بن معین، علی بن المدینی، ابو خیثمہ،ابو عبید القاسم بن سلام، شجاع بن مخلد، حسن بن عرفہ،احمد بن منیع،علی بن حجر اورعلی بن مسلم وغیرہ کے نام تاریخ علم وفن میں زندہ جاوید ہیں۔ (تاریخ بغداد:۱۴/۸۵،وتہذیب التہذیب:۱۱/۵۹،۶۰) ذہانت وفطانت ہشیم بڑے قوی الحفظ تھے،ابن قطان کا بیان ہے کہ میں نے سفیان ثوری اورشعبہ کے بعد ہشیمؒ سے زیادہ حافظہ رکھنے والا کسی کو نہیں دیکھا(مراۃ الجنان:۱/۳۹۳) امام الجرح والتعدیل عبدالرحمن بن مہدی کا قول ہے کہ ہشیم کا مرتبہ حفظ حدیث میں امام ثوریؒ سے بھی بڑھا ہوا ہے (العبر فی خبر من غبر:۱/۲۸۶) عبداللہ بن مبارک جو ہشیم کے شاگردِ خاص تھے،بیان کرتے ہیں کہ مرورِ وقت کی بنا پر بہت سے محدثین کا حافظہ آخر عمر میں متاثر ہوجایا کرتا تھا،لیکن ہشیم کے قوت حفظ پر وقت کی پرچھائیں بھی نہ پڑسکی (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۲۶)اسحاق الزورقی کہتے ہیں۔ ما رأیت مع ھشیم !لواحا انما کان یجیئ الی المجلس ویقوم یعنی یکتفی بحفظہ (میزان الاعتدال:۳/۲۵۸) میں نے ہشیم کے ساتھ کبھی کاپیاں نہیں دیکھیں وہ مجلس درس میں شریک ہوتے اوراسی طرح اُٹھ کھڑے ہوتے یعنی اپنے حافظہ کو کافی سمجھتے۔ خود ہشیم کی زبانی منقول ہے کہ میں ایک مجلس درس میں سوحد یثیں زبانی یاد کرلیتا تھا اور پھر اگر ایک ماہ کے بعد بھی مجھ سے ان احادیث کے بارے میں سوال کیا جاتا تو میں جواب دے دیتا (تاریخ بغداد:۹۰/۱۴)ابراہیم الحربی کا قول ہے۔ کان حفاظ الحدیث اربعۃ کان ھشیم شیخھم (تاریخ بغداد:۱۴/۹۲) حفاظ حدیث چار تھے،جن میں ہشیم سب کے استاد تھے۔ ثقاہت اورتدلیس ان کی عدالت وثقاہت مسلم ہے اور اس کا اعتراف علمائے جرح وتعدیل نے بھی کیا ہے،لیکن اسی کے ساتھ بعض لوگوں نے ان پر تدلیس کا الزام عائد کیا ہے ،یعنی وہ اپنے شیوخ کا نام لیے بغیر براہ راست اوپر کے ان رواۃ سے حدیث بیان کرتے تھے،جن سے انہیں سماع حاصل نہ تھا،اصول حدیث کے بعض علماء کے نزدیک ثقات کی مدلس روایات مقبول ہیں؛ لیکن مسلک جمہور میں ثقہ راوی کی مدلس روایت اس وقت تک قابل قبول نہ ہوگی، جب تک اس روایت کے کسی طریق میں سماع وتحدیث کی تصریح نہ مل جائے۔ علامہ ذہبیؒ نے ہشیمؒ کی کثرت تدلیس کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ "ہشیم کے نزدیک ،عن سے تدلیساًروایت جائز تھی (میزان الاعتدال:۳/۲۵۸)علامہ موصوف ہی تذکرہ میں رقمطراز ہیں۔ لانزاع انہ کان من الحفاظ الثقات الا انہ کثیر التدلیس فقد روی عن جماعۃ لم یسمع منھم (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۲۶) وہ بالا تفاق ثقہ حفاظ حدیث میں تھے مگر تدلیس بکثرت کرتے تھے ؛چنانچہ انہوں نے ایسے شیوخ سے روایات کی ہیں جن سے ان کو سماع حاصل نہ تھا۔ ابن حبان نے کتاب الثقات میں ان کا ذکر کیا ہے،علامہ ابن سعد کا خیال ہے کہ جو حدیث وہ لفظ اخبرنا سے روایت کریں، صرف وہی قابلِ حجت ہوگی اس کے علاوہ نہیں "ومالم یقل فیہ اخبرنا فلیس بشیئی" (طبقات ابن سعد:۷/۱۱۱) ذکر اللہ کی کثرت ہشیم کی زبان ہر وقت خداوند قدوس کے ذکر اور تسبیح سے تر رہتی تھی،یہاں تک کہ دوران درس بھی ان کا ورد رہا کرتا تھا حسین بن حسن رومی کہتے ہیں۔ مارأیت احداً اکثر ذکر اللہ عزوجل من ھُشیم (تہذیب التہذیب:۱۱/۶۲) میں نے ہشیم سے زیادہ کسی کو خدائے عزوجل کا ذکر کرتے نہیں دیکھا۔ امام احمد ؒ فرماتے ہیں: کان ھشیم کثیر التسبیح بین الحدیث یقول لا الہ الا اللہ یمد بھا صوتہ (تاریخ بغداد:۱۴/۸۹) ہشیم درسِ حدیث کے دوران بھی کثرت سے تسبیح پڑھتے تھے لا الہ الا اللہ پڑھنے کی آواز سُنائی دیتی تھی۔ مناقب بایں ہمہ جلالتِ علم ہشیم گونا گوں مناقب وفضائل کے حامل تھے؛چنانچہ عمر بن عون کا بیان ہے کہ ہشیم نے وفات سے قبل دس سال تک مسلسل عشا کے وضو سے فجر کی نماز ادا کی (البدایہ والنہایہ:۱۰/۱۸۴) اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پوری شب عبادت وریاضت میں گزرتی تھی حماد بن زید کہتے ہیں کہ: مارأیت محدثا انبل من ھشیم میں نے ہشیم سے زیادہ شریف کوئی محدث نہیں دیکھا۔ ابو حاتم کا قول ہے: لایسال عن ھشیم فی صلاحہ وصدقہ وامنتہ (میزان الاعتدال:۳/۲۵۷) ہشیم کی نیکی اورصدق امانت کا کیا پوچھنا۔ بشارت اس کے علاوہ ان کے بارے میں سرورِ کائنات حضوراکرمﷺ کی بہت سی ایسی منامی بشارتیں بھی منقول ہیں،جو یقینا ہشیم کے علوئے مرتبت اورجلالت شان کا ایک بڑا ثبوت ہیں۔ اسحاق الزبادی سے مروی ہے کہ میں بغداد میں ہشیم کی صحبت میں برابر آیا جایا کرتا تھا،وہیں ایک ثقہ شخص نے بیان کیا کہ ایک شب اس نے خواب میں رسولِ اکرم ﷺ کی زیارت کی،آپ نے دریافت فرمایا کہ تم لوگ کس سے حدیث کا سماع حاصل کرتے ہو؟ عرض کیا کہ ہمیں ہشیم بن بشیر سے کسبِ فیض کی سعادت نصیب ہے ؟ اس پر رسول اکرم ﷺ نے سکوت فرمایا شخص موصوف نے اپنی بات دوبارہ عرض کی،سُن کر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نعم اسمعوا من ھشیم فنعم الرجل من ھشیم (تاریخ بغداد:۱۴/۹۳) ہاں ہاں ٹھیک ہے ہشیم سے سماع کرو کیوں کہ بہت ہی اچھا آدمی ہے۔ مشہور بزرگ معروف الکرخیؒ بیان کرتے ہیں کہ مجھے ایک شب حالت منام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہشیم سے فرما رہے ہیں۔ یا ھشیم جزاک اللہ تعالی من امتی خیراً (تہذیب التہذیب:۱۱/۲۲) اے ہشیم تمہیں اللہ تعالی میری امت کی طرف سے جزائے خیر دے۔ وفات ہارون الرشید کے ایامِ خلافت میں ۱۰ شعبان ۱۸۳ھ کو بروز چہارشنبہ ہشیم کی وفات ہوئی (تاریخ بغداد:۱۴/۹۳) بغداد کے مشہور قبرستان خیزان میں تدفین عمل میں آئی،انتقال کے وقت ۷۹ سال کی عمر تھی۔ (طبقات ابن سعد:۷/۶۱)