انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** امام علی رضا کی ولی عہدی مامون الرشید اگرچہ فضل بن سہل کے ہاتھ میں حالات، سلطنت سے بالکل بے خبر تھا اور فضل بن سہل جس طرح چاہتا تھا، انتظامِ سلطنت کرتا تھا؛ مگرساتھ ہی اُس کویہ محسوس نہیں ہونے پایا تھا کہ میں نظربندوں کی طرح زندگی بسر کررہا ہوں، مامون کوشروع ہی سے سادات واہلِ بیت نبوی کے ساتھ بڑی محبت وعقیدت تھی، جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے۔ مامون نے سنہ۲۰۰ھ میں آلِ عباس کے اکثرافراد کواپنے پاس مرو میں طلب کیا اور مہینوں اپنے پاس مہمان رکھا؛ مگرمامون کی نظر انتخاب میں کوئی کامل المعیار نہ نکلا، آخرفضل بن سہل اور دوسرے محبانِ اہلِ بیت نے اس کی توجہ علی رضا بن موسیٰ کاظم کی طرف منعطف کی اور حقیقت یہ ہے کہ علی رضا اپنی قابلیت کے اعتبار سے بنی ہاشم میں سب پرفائق تھے؛ چنانچہ مامون الرشید نے بلاتأمل اپنی لڑکی کی شادی علی رضا سے کردی اور ماہِ رمضان المبارک سنہ۲۰۱ھ میں علی رضا بن موسیٰ کاظم بن جعفر صادق کواپنا ولی عہد مقرر کرکے مؤتمن اپنے بھائی کو جوہارون الرشید کی وصیت کے موافق مامون کا ولیعہد تھا، ولی عہدی سے معزول کردیا، مؤتمن کے معزول کردینے کا اختیار خود ہارون نے مامون کودے دیا تھا؛ لہٰذا مؤتمن کی معزولی کا کوئی الزام مامون پرنہیں لگایا جاسکتا، اس کے بعد مامون نے سیاہ لباس جوعباسیوں کا شعار تھا ترک کرکے سبز لباس جوعلویوں کا شعار تھا پہننا شروع کیا؛ اسی کی تقلید تمام اہلِ دربار نے کی۔ اس کے بعد مامون نے احکام جاری کئے کہ تمام سلطنت میں بجائے سیاہ لباس کے سبز لباس عمال وحکام لشکری استعمال کریں، عمال کے نام یہ حکم بھی بھیجا گیا کہ لوگوں سے علی رضا بن موسیٰ کاظم کی ولی عہدی کی بیعت لے لیں، یہ حکم جب فضل بن سہل کے توسط سے عمال سلطنت کے پاس پہنچا توبعض نے خوشی سے اور بعض نے کراہت سے اس کی تعمیل کی؛اسی حکم کوجب حسن بن سہل نے بغداد میں عیسیٰ بن محمد بن ابی خالد اور منصور بن مہدی کے پاس بھیجا توبغداد میں ازسرنوہلچل برپا ہوگئی اور لوگوں کویقین ہوگیا کہ فضل بن سہل نے خلافت عباسیوں سے نکال کرعلویوں کے اندر پہنچانے میں کامیابی حاصل کرلی، آلِ عباس اور ہمدردانِ آلِ عباس اس بات کوکسی طرح برداشت ہی نہیں کرسکتے تھے وہ جانتے تھے کہ عباسیوں سے خلافت کے نکالنے اور علویوں میں پہنچانے کی کوشش سب سے پہلے ابومسلم نے کی؛ پھر یہی کوشش خاندانِ برامکہ نےکی جومجوسی النسل تھے؛ مگروہ ناکام ونامراد رہے، اب ایک اور مجوسی النسل نے اس کوشش میں کامیابی حاصل کرلی؛ چونکہ اب اہلِ عرب اور اہلِ عجم کی تفریق بہت نمایاں ہوچکی تھی اور عام اہلِ عرب فضل بن سہل کواپنا مخالف اور اہلِ عجم کومربی یقین کرتے تھے؛ لہٰذا ہرایک عربی النسل شخص نے علی رضا کی ولی عہدی کواہلِ عجم کی کامیابی اور اپنی شکست تصور کیا۔ بغداد میں عربی عنصر زیادہ تھا اور آلِ عباس کا یہ خاص مقام تھا؛ یہاں اس خبر نے لوگوں کواضطراب وبے چینی میں مبتلا کرکے غور وفکر اور مشوروں کی طرف متوجہ کردیا، ایک طرف وہ ابھی تازہ تجربہ کرچکے تھے کہ بغاوت وسرکشی میں کیسے کیسے مصائب برداشت کرنے پڑے، دوسری طرف اُن کے حزم واحتیاط نے عالمِ اسلام یعنی دوسرے اسلامی صوبوں اور ملکوں کی خبریں سننی ضروری سمجھیں کہ لوگوں پرعلی رضاکی ولی عہدی کا کیا اثر ہوا ہے، بغداد میں یہ خبرماہِ رمضان سنہ۲۰۱ھ میں پہنچی تھی اور پورے تین مہینے تک اہلِ بغداد نے کوئی اقدام نہیں کیا؛ اس عرصہ میں اس خیال کے اندر کہ خاندانِ عباسیہ سے نکل کرعلویوں میں خلافت نہیں جاسکتی، ایک طاقت پیدا ہوتی گئی۔