انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** تجارت کے لیے سہولتیں ہرایک شہر میں سوداگروں کی ایک انجمن ہوتی تھی، جس میں کسی سرکاری آدمی کا شامل ہونا ضروری نہ تھا، سوداگر لوگ خود اشیاء کے نرخ قائم کرتے تھے، تجارتی مال پرچنگی بہت ہی کم لی جاتی تھی اور اس معاملہ میں تاجروں کوکبھی کوئی شکایت پیدا نہ ہوتی تھی، تاجروں کی عزت شاہی اہل کاروں سے زیادہ ہوتی تھی، تاجروں کوعموماً شاہی درباروں میں باریاب ہونے کا موقع دیا جاتا تھا، جوسوداگر باہر سے مال لاکر فروخت کرتے تھے، ان کوشہر کا حاکم خوش کرکے واپس کرنے کی کوشش کرتا تھا؛ گویا ہرایک تاجر جوباہر سے مال لے کرآیا، اس نے اس شہر کے حاکم پرایک احسان کیا ہے؛ اگرتاجر کا مال فروخت نہیں ہوا توحاکم شہر یاسلطان یاخلیفہ بلاضرورت بھی اس کے مال کوخرید لیتا اور سوداگر کوافسردہ خاطر واپس کرنا نہیں چاہتا تھا، جس عامل یاجس حاکم کی حدود حکومت میں تاجروں کا کوئی قافلہ لٹ جائے تووہ انتہا درجہ کا غافل اور نالائق سمجھا جاتا تھا، تاجروں کوامرائے شہر اپنے یہاں مدعو کرتے اور عالی جاہ مہمان کی حیثیت سے ان کی مدارات بجالاتے تھے؛ اگرکوئی سودا گرکسی دوسرے ملک سے آیا ہے تواس کے حالاتِ سفر سننے کے لیے خلفاء خود اس کی ضیافت کرتے اور انعام واکرام سے مالا مال کرکے واپس کرتے تھے؛ چنانچہ اس طرزِ عمل نے تجارت کوخوب فروغ دے دیا تھا؛ یہی وجہ تھی کہ خلفاءِ عباسیہ کے زمانے میں ہرقسم کی صنعت وحرفت میں خوب ترقی ہوئی اور ہرایک شہر کسی نہ کسی صنعت کے لیے مشہور ہوگیا؛ اسی طرح ایک جگہ کی پیداوار اور دوسری جگہ جانے لگی، اہلِ عرب توزمانہ قدیم ہی سے تجارت پیش تھے؛ لیکن خلافتِ عباسیہ کے عہد حکومت میں ایرانیوں کوبھی تجارت کا شوق ہوگیا اور اس شوق نے یہاں تک ترقی کی کہ مسلمان سوداگر شمال میں بحرشمالی کے ساحل تک اور جنوب میں افریقہ کے جنوب تک پہنچنے لگے، جس کے ثبوت میں خلفاءِ عباسیہ کے عہد کی بغدادی مصنوعات سویڈن اور مڈغاسکر میں علمائے طبقات الارض نے تلاش کی ہیں، بعض خلفاء مثلاً واثق باللہ نے باہر سے آنے والے سوداگروں اور تمام اشیاء درآمد پرمحصول معاف کردیا تھا۔