انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مقتفی لامراللہ ابوعبداللہ محمد مقتفی لامراللہ ۱۲/ربیع الاوّل سنہ۴۷۹ھ کوایک حبشیہ اُمِ ولد کے پیٹ سے پیدا ہوا اور ۱۲/ذوالحجہ سنہ۵۳۰ھ کوتخت نشین ہوا، اس کے بعد سلطان مسعود نے سلطان داؤد کی سرکوبی وتعاقب کے لیے فوج روانہ کی، داؤد نے مقام مراغ میں شکست کھائی اور خوزستان پہنچ کرفوجیں جمع کیں اور تستر کا محاصرہ کرلیا، سلجوق شاہ، جوان دنوں واسط کا حکمران تھا، سلطان مسعود کے حکم سے تستر کوبچانے کے لیے روانہ ہوا؛ مگرداؤد سے شکست کھاکر واپس آیا، سلطان مسعود نے اس خیال سے بغداد کونہ چھوڑا کہ کہیں راشد بغداد پرنہ چڑھ آئے، مسعود نے عمادالدین زندگی والی موصل کولکھا کہ مقتفی کے نام کا خطبہ پڑھا جائے، عمادالدین نے جب مقتفی کے نام کا خطبہ پڑھا اور راشد کا نام خطبہ سے خارج کردیا توراشد ناراض ہوکر موصل سے رجب سنہ۵۲۱ھ میں شل دیا، جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ فارس میں بعض سرداروں نے راشد کی حمایت کا قصد کرکے راشد کے پاس جانے کا قصد کیا، سلطان مسعود نے یہ سن کربغداد سے کوچ کیا اور ان لوگوں کوشعبان سنہ۵۳۲ھ میں شکست دے کرپریشان وآوارہ کردیا اور وہاں سے آذربائیجان کا قصد کیا، ادھر داؤد خوارزم شاہ اور راشد نے مل کرعراق کا قصد کیا، سلطان مسعود نے یہ سن کربغداد سے کوچ کیا، خوارزم شاہ اور داؤد، دونوں راشد سے جدا ہوگئے، راشد نے اصفہان کا محاصرہ کیا؛ اسی اثناء میں راشد کوچند خراسانی غلاموں نے قتل کردیا، راشد اصفہان کے باہر مقام شہرستان میں مدفون ہوا، ادھرسلجوق شاہ نے واسط سے آکربغداد پرقبضہ کیا، بڑی بدامنی پیدا ہوئی، اہلِ بغداد نے سلجوق شاہ کوشکست دے کربغداد سے نکال دیا، ملک میں ہرطرف طائف الملوکی پھیلی ہوئی تھی اور بدامنی یہاں تک ترقی کرگئی تھی کہ سنہ۵۳۲ھ میں سلطان مسعود نے بغداد میں آکربہت سے ٹیکس جواہلِ شہر سے وصول کیے جاتے تھے، معاف کردیے، چند سال اسی حالت میں گزرے، خاندانِ سلجوقی سے متعدد افردا کے علاوہ دوسرے سرداروں نے بھی اپنی اپنی خود مختاری کی تدبیریں سوچنی شروع کیں، سلطان مسعود نے اپنے خاص سرداروں کو، جن کے بارے میں وہ دل میں میل رکھتا تھا اور جن پرقابوپاسکتا تھا، قتل کرنا شروع کیا، کئی سرداروں کودھوکے سے قتل کرادیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود بہت کمزور ہوگیا۔ بلاد جبل میں جاکر اس نے اقامت اختیار کی اور بغداد وعراق کوبدامنی کے عالم میں چھوڑا، خلیفہ مقتفی نے اس حالت سے فائدہ اُٹھانے میں کوتاہی نہیں کی، یعنی خلیفہ نے اپنا اثرواقتدار رفتہ رفتہ قائم کرنا اور اپنی طاقت کوبڑھانا شروع کیا، خلیفہ کی طاقت ادھرترقی کررہی تھی، ادھر سلطان مسعود اور سلطان سنجر کا اثر بہ تدریج کم ہورہا تھا، سلطان سنجر نے مسعود کوملامت آمیز خطوط لکھے اور امیروں کوقتل کرنے اور بغداد کے قیام کوترک کردینے کی خرابیاں سمجھائیں، آخرسنہ۵۴۴ھ میں سلطان سنجر خود مقام رَے میں آیا، یہیں سلطان مسعود بھی اس کی خدمت میں حاضر ہوا، رجب سنہ۵۴۴ھ میں ملک شاہ بن سلطان محمود نے بعض سرداروں کوہمارہ لے کربغداد پرچڑھائی کی، خلیفہ مقتفی نے شہر کی قلعہ بندی کرکے مدافعت کی اور سلطان مسعود کوطلب کیا؛ مگر سلطان مسعود رَے میں اپنے چچا سنجر کے پاس تھا، وہاں سے نہ آسکا، ملک شاہ بغداد میں توداخل نہ ہوا؛ مگرنہروان کوخوب لوٹا اور ویران کردیا، اس کے بعد ۱۵/شوال سنہ۵۴۴ھ کومسعود واردِ بغداد ہوا؛ پھرسنہ۵۴۵ھ میں ہمدان چلاگیا۔ یکم ماہ رجب المرجب سنہ۵۴۷ھ کوسلطان مسعود نے وفات پائی، اس کی جگہ سلطان مسعود کے وزیر خاص بیگ نے ملک شاہ بن سلطان محمود کوتخت نشین کیا؛ مگرسلطان مسعود کے مرنے کے بعد خاندان سلجوقیہ کی حکومت بغداد سے جاتی رہی اور اس خاندان میں کوئی ایسا شخص نہ رہا جوامارت وسلطنت کے مرتبے کوقائم رکھ سکتا؛ اسی لیے سلطان محمود کوخاندان سلجوقیہ کا خاتم سمجھا جاتا ہے، ملک شاہ نے تخت نشین ہوتے ہی ایک سردار کوحلہ پرقبضہ کرنے کے لیے بھیجا، اس نے حلہ پرقبضہ کرلیا، شحنہ بغداد مسعود جلال نامی نے حلہ جاکر ملک شاہ کے سردار کوقتل کرکے خود حلہ پرخود مختارانہ حکومت شروع کردی، خلیفہ مقتفی نے خود فوج لے کرحلہ پرحملہ کیا اور فتح کرکے اہلِ حلہ سے اپنی اطاعت وفرماں برداری کا اقرار لیا، اس کے بعد خلیفہ نے واسط پرحملہ کرکے اس کواپنے قبضہ میں لیا اور ۱۰/ذیقعدہ سنہ۵۴۷ھ کوبغداد میں واپس آیا، سنہ۵۴۸ھ میں خلیفہ نے اپنے وزیرزادہ اور امیرترشک دونوں کو تکریت کی فتح کے لیے روانہ کیا، ان دونوں میں ناچاقی ہوئی، امیرترشک نے وزیرزادہ کواہل تکریت کے ہاتھوں سے گرفتار کرادیا اور خود خراسان کی طرف راستے کے شہروں کولوٹتا ہوا چل دیا۔ سنہ۵۴۹ھ میں خلیفہ مقتفی نے خود تکریت پر چڑھائی کی، شہر کوفتح کرلیا؛ مگرقلعہ تکریت فتح نہ ہوا، خلیفہ نے بغداد میں واپس آکراپنے وزیر کوقلعہ شکن منجنیقیں دے کرقلعہ تکریت کے فتح کرنے کوروانہ کیا، وزیر نے جاکر محاصرہ کرڈالا، ادھر ارسلان بن طغرل بن سلطان محمد نے ایک فوج لے کروزیر پرحملہ کیا، یہ خبر سنتے ہی خلیفہ مقتفی خود بغداد سے روانہ ہوا، مقام عقربا بل پردونوں لشکروں کا مقابلہ ہوا، اٹھارہ دن کی لڑائی کے بعد خلیفہ کے لشکر کا حصہ فرار ہوا؛ مگرخلیفہ بڑی بہادری کے ساتھ بقیہ لوگوں کولیے ہوئے مقابلہ کرتا رہا؛ حتی کہ فتح حاصل ہوئی، ارسلان بن طغرل اور اس کے ہمراہی سردار سب میدان چھوڑ کربھاگ گئے، یکم شعبان سہ۵۴۹ھ کوخلیفہ بغداد واپس آیا۔ اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ سنہ۴۹۰ھ میں سلطان برکیارق نے سلطان سنجر کوخوزستان کی حکومت سپرد کی تھی، جب سلطان محمد اور سلطان برکیارق میں مخالفت اور لڑائی ہوئی توسلطان محمد نے اپنے حقیقی بھائی سنجر کوخراسان کی حکومت سپرد کی تھی؛ اسی وقت سے سلطان سنجر کے قبضے میں خراسان کا ملک برابر رہا اور اس کوسلطان محمد کے بیٹے سلطان العراق کے نام سے یاد کرتے رہے، سنہ۵۳۶ھ میں ترکوں کے ایک گروہ نے جوترکان خطا کے نام سے موسوم تھا، ماوراءالنہر کے علاقہ کوخوانین ترکستان سے چھین لیا، سلطان سنجر نے اس گروہ خطا کوماوراءالنہر سے نکالنے کی کوشش کی؛ مگرکامیاب نہ ہوا اور بہت سے کارآزمودہ سردار اس لڑائی میں مقتول ہوئے، سلطان سنجر کے کمزور ہوجانے کے سبب سے اس کے ماتحت حکمرانوں نے زورپکڑا اور اسی سلسلہ میں خوارزم شاہ بھی خود مختار ہوگیا، ماوراءالنہر میں جوترک رہتے تھے اور ترکان غزکہلاتے تھے؛ انہوں نے خراسان میں آکرلوٹ مار اور بدامنی پھیلادی۔ سنہ۵۴۸ھ میں ان ترکوں اور سلطان سنجر کے درمیان لڑائی ہوئی، جس میں سلطان سنجر کوقید کرکے اپنے ساتھ رکھا اور خراسان کے شہروں کولوٹتے ہوئے پھرنے لگے اور ماوراءالنہر میں ترکان خطا کوبھی شکستیں دینے لگے، ترکان غز نے سلطان سنجر کوقید کرکے ایک سائیس کے برابر اس کی تنخواہ مقرر کی تھی اور لطف یہ کہ تمام بلادِ خراسان میں خطبہ سلطان سنجر ہی کے نام کا جاری رکھا تھا۔ سنہ۵۵۱ھ میں سلطان سنجر قید سے نکل بھاگا اور سنہ۵۵۲ھ میں بہ حالت ناکامی فوت ہوا، اس کے بعد خوارزم شاہ اور اس کی اولاد نے تمام خراسان پرقبضہ کرلیا اور اصفہان ورَے کے صوبوں اور آل سبکتگین کے زیراثر صوبوں پربھی متصرف ہوگئے اور چنگیز خان کے خروج تک قابض رہے؛ غرض کہ خلیفہ مقتفی لامراللہ کے عہد میں دولت خوارزم شاہیہ کی بنیاد قائم ہوئی، سنہ۵۴۹ھ میں خلیفہ مقتفی نے نورالدین بن محمود بن عمادالدین زندگی والی حلب کومصر کی طرف جانے کا حکم دیا کہ وہاں عبیدی حاکم مصر کے پراختلال کاموں میں دخیل ہو؛ اسی سال نورالدین بن محمود کوملک العادل کا خطاب دیا۔ سلیمان شاہ بن سلطان محمد اپنے چچا سنجر کے پاس رہتا تھا؛ اسی کوسلطان سنجر نے اپنا ولی عہد بھی بنایا تھا، جب سلطان سنجر کوترکوں نے گرفتار کرلیا توسلیمان شاہ اس کے بقیہ لشکر کی سرداری کرنے لگا اور خراسان میں اپنے لیے کوئی مامن نہ دیکھ کربغداد چلا آیا، ماہ محرم سنہ۵۵۱ھ میں خلیفہ کے دربار میں حاضر ہوا، خلیفہ کی بیعت کی اور نائب السلطنت مقرر ہوا، اس کے نام کا خطبہ بغداد میں پڑھا گیا، ماہ ربیع الاوّل سنہ۵۵۱ھ میں سلیمان شاہ بغداد سے بلادِ جبل کی طرف روانہ ہوا، ماہ ذی الحجہ سنہ۵۵۱ھ میں سلطان محمود نے والیٔ موصل اور دوسرے سرداروں کواپنے ساتھ شامل کرکے بغداد پرچڑھائی کی اور شہر کا محاصرہ کرلیا، امیرموصل قطب الدین کواس کے بڑے بھائی نورالدین زنگی نے ملامتانہ خط لکھا کہ تم کومحاصرہ بغداد میں شریک نہیں ہونا چاہیے تھے، اس لیے قطب الدین زنگی خلیفہ کے خلاف جنگ کرنے سے جی چرارہا تھا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ربیع الاوّل سنہ۵۵۲ھ میں سلطان محمد محاصرہ اُٹھاکر ہمدان کی طرف چلا گیا اور قطب الدین نے موصل کی طرف کوچ کیا، سلطان محمد بن محمود بن ملک شاہ محاصرہ بغداد کے بعد بہ عراضہ سل بیمار ہوکر ہمدان میں مقیم رہا اور ماہ ذی الحجہ سنہ۵۵۴ھ میں بہ مقام ہمدان فوت ہوا، اس کے بعد سلجوقی شہرزادوں میں تخت نشینی کے متعلق اختلاف رہا، آخرسلطان محمدکے چچا سلیمان شاہ کوجوموصل میں قطب الدین زنگی کی حراست میں تھا، طلب کرکے تخت نشین کیا گیا، اس کے بعد سلیمان شاہ کوسلجوقی شہزادوں کا مقابلہ کرنا پڑا، آخراس کی حکومت قائم ہوگئی؛ مگرسلیمان شاہ کے ایک سردارشرف الدین نے اس کواور اس کے وزیر کوگرفتار کرکے قتل کردیا۔ اس کے بعد شرف الدین نے ارسلان شاہ بن طغرل کوتخت نشین کرنے کی تجویز کی اور اس کے اتابک ایلدکز کولکھا کہ اپنے ہمراہ ارسلان شاہ کولے آؤ؛ چنانچہ ایلدکز مع فوج ہمدان آپہنچا اور ارسلان شاہ کے نام کا خطبہ ہمدان میں پڑھوایا، ایلدکز سلطان مسعود کے غلاموں میں سے تھا اس نے سلطان طغرل کی وفات کے بعد اس کی بیوی یعنی ارسلان شاہ کی ماں سے نکاح کرلیا تھا اب ارسلان شاہ کی تخت نشینی کی رسم ادا ہونے کے بعد وہی اتابک اعظم مقرر ہوا اور بغداد میں خلیفہ کے کے پاس درخواست بھیجی کہ ارسلان شاہ کے نام کا خطبہ بغداد میں پڑھوایا جائے، خلیفہ نے ایلچی کوبے عزت کرکے نکلوادیا، محمود بن ملک شاہ بن محمود کوجونوعمر لڑکا تھا، اس کے باپ کے مصاحب اس کوفارس کی طرف لے کرگئے تھے اور وہاں فارس کے حاکم زنگی بن وکلاسلغری نے ان لوگوں سے محمود کوچھین کرقلعہ اصطحر میں بند کردیا تھا، خلیفہ کے وزیرعون الدین ابوالمظفر یحییٰ بن زہیر نے زنگی بن وکلا حاکم فارس کولکھا کہ تم محمو کوآزاد کرکے اس کے ہاتھ پربیعت کرکے اس کے نام کا خطبہ اپنے بلادمقبوضہ میں جاری کردو؛ چنانچہ زنگی نے اس کی تعمیل کی، ادھر ایلدکز نے زنگی کولکھا کہ تم ارسلان شاہ کی بیعت سلطنت کرو، زنگی نے انکاری جواب دیا اور فوجیں فراہم کریں، ایلدکز نے فارس پرفوجیں روانہ کیں، لڑائیاں ہوئیں مگر کوئی اہم نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ ۲/ماہ ربیع الاوّل سنہ۵۵۵ھ میں مقتفی لامراللہ نے ۲۴/برس ۴/مہینے خلافت کرکے وفات پائی اور اس کے بیٹے ابوالمظفر یوسف نے مستنجد باللہ کے لقب سے تخت خلافت پرجلوس کیا، مقتفی لامراللہ نے اپنے آپ کوسلجوقی سلطانوں کے اقتدار سے آزاد کرکے عراق وبغداد پرآزادانہ حکومت کی اور اسی لیے وہ خلفاءِ عباسیہ کے آخری کمزور خلیفہ میں ایک نامور اور طاقتورخلیفہ شمار ہوتا ہے۔