انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت صفیہ کی بہادری جنگ خندق کے زمانہ میں حضور اکرم ﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہؓ کی بہادری اور ہمت کا واقعہ قابل ذکر ہے ،واقعہ یہ ہوا کہ جنگ کے زمانہ میں مسلمانوں کی عورتیں اور بچے حضرت حسّانؓ بن ثابت (جو حضور ﷺکے درباری شاعر تھے) کے قلعہ میں بھیج دئیے گئے جو بنو قریظہ کے قریب تھا ، ایک دن حضرت صفیہؓ نے دیکھا کہ ایک یہودی قلعہ کا چکر لگا رہا ہے ، قرینہ سے انھیں معلوم ہو گیا کہ یہ کوئی جاسوس ہے ، حضرت حسّان ؓ سے کہنے لگیں:حسّان ذرا اس یہودی کو تو جا کر قتل کر د و ، حضرت حسّانؓ زبان کے مجاہد تھے ‘ ہاتھ کے مجاہد نہ تھے، جواب دیا ! صفیہ تم تو جانتی ہو کہ میں اس میدان کا مرد نہیں ہوں، یہ جواب پا کر حضرت صفیہؓ ایک لاٹھی لے کر خود روانہ ہو گئیں اور پاس پہنچ کر اس زور سے یہودی کے سرپر رسید کی کہ اس کا بھیجہ نکل گیا ، واپس آکر حضرت حسّان سے پھر کہا ، حسّان میں عورت ذات ہوں ‘ غیر مرد کا بدن نہیں چھو سکتی ‘ ذرا اس کافر کے ہتھیار تو اتار لاؤ، حضرت حسّانؓ بولے! ائے عبدالمطلب کی بیٹی مجھے ہتھیاروں کا کیا کرنا ہے ؟ یہ جواب سن کر حضرت صفیہؓ پھر گئیں اور اس یہودی کے ہتھیار اتار لائیں اور اس کا سر کاٹ کر یہودیوں کی طرف پھینک دیا، ( محمد رسول اللہ ) محاصرہ جس قدر طول ہوتا جاتا تھا محاصرہ کرنے والے ہمت ہارتے جاتے تھے، دس ہزار آدمیوں کو رسد پہنچانا آسان کام نہ تھا پھر باوجود سردی کے موسم کے اس زور کی ہوا چلی کہ طوفان آگیا، خیموں کی طنابیں اکھڑ گئیں، کھانے کے دیگچے چولہوں سے الٹ جاتے تھے ، اس واقعہ نے فوجوں سے بڑھ کر کام دیا، اسی بناء پر قرآن مجید نے اس باد صر صر کو عسکر الٰہی سے تعبیر کیا ہے: " ائے ایمان والو ! اللہ نے جو احسان تم پر کیا اسے یاد کرو جبکہ تمہارے مقابلہ کو فوجوں پر فوجیں آئیں پھر ہم نے ان پر تیز و تند آندھی اور ایسے لشکر بھیجے جنھیں تم نے دیکھا ہی نہیں اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ سب کچھ دیکھتا ہے" ( سورہ ٔ احزاب : ۹ ) بہر حال موسم کی سختی ، محاصرہ کا امتداد،آندھی کازور، رسد کی قلت ، یہود کی علحٰدگی یہ تمام اسباب ایسے جمع ہو گئے تھے کہ قریش کے پایہ ثبات اب ٹھہر نہیں سکتے تھے، ابو سفیان نے فوج سے کہا " رسد ختم ہو چکی، موسم کا یہ حال ہے ، یہود نے ساتھ چھوڑ دیا، اب محاصرہ بیکار ہے،یہ کہہ کر واپسی کا طبل بجانے کا حکم دیا، غطفان بھی اس کے ساتھ روانہ ہو گئے، بنو قریظہ محاصرہ چھوڑ کر اپنے قلعو ں میں چلے آئے اورمدینہ کا افق ۲۰ ،۲۵، دن تک غبار آلودہ رہ کر صاف ہو گیا،اس معرکہ میں مسلمانوں کی فوج کا جانی نقصان کم ہوا لیکن انصار کا سب سے بڑا بازو ٹوٹ گیا۔